HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عقیل احمد

میرے ہمدرد میرے دوست

اسحاق ناگی صاحب سے میرا پہلا تعارف ۱۹۹۵ء میں محمد بلال صاحب کے توسط سے ہوا۔ ’’المورد‘‘ کی طرف سے بلال صاحب ’’اسلامی مرکز‘‘لاہور کے ناظم تھے ،جس میں، میں ان کے ساتھ کام کر رہا تھا ۔وہیں پر میری ناگی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں ناگی صاحب کی بے تکلفی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔میرے ساتھ ان کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ میرے کوئی بہت عزیز دوست ہوں۔مولانا امین احسن اصلاحی سے ان کے گھر پر ناگی صاحب ہی نے مجھے متعارف کرایا، جو ان کا مجھ پر ایک عظیم احسان ہے۔ اس کے بعد بھی میں وقتاً فوقتاً ان کے ساتھ اصلاحی صاحب سے ملنے جاتا رہا۔

ناگی صاحب کی بعض مقدس لوگوں پر تنقیدوں سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی، میں گلہ کرتا تو وہ مجھے گھنٹوں سمجھاتے ،کبھی میں ان کی بات مان لیتا اور کبھی رد کر دیتا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ساری باتیں میری سمجھ میں آتی گئیں اور ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا۔

ان کی طبیعت کا ایک پہلو طب کے ساتھ دل چسپی بھی تھا۔ خاص طور پر مرضِ گردہ کے لیے انھوں نے ایک خاص دوا بنائی ہوئی تھی جو وہ مریضوں میں مفت تقسیم کرتے۔ ۲۰۰۷ء میں میرے گردے میں پتھریاں بن گئیں۔ میں نے ان سے بات کی تو وہ بے چین ہو گئے اور دوسرے دن صبح صبح میرے گھر پہنچ گئے اور مجھے لے کر ایک حکیم صاحب کے پاس آگئے۔ میں نے کہا: ناگی صاحب مجھے حکیموں پر اعتبار نہیں ہے تو وہ مجھے فوراً جنرل ہسپتال اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے پاس لے گئے اور میرا مکمل چیک اپ کرایا۔ اس کے بعد بھی وہ فون پر گاہے گاہے پوچھتے رہتے۔اور جب میں نے ان کو بتایا کہ میرے گردہ سے پتھریاں نکل گئی ہیں تو انھوں نے کہا اللہ بہت کریم ہے اس کا شکر ادا کرو۔

ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کی ترسیل میرے پاس تھی اور وہ مجھ سے ہر مہینے تقریباً ۱۰۰ ’’اشراق‘‘ لے کر دعوتی مقاصد کے لیے لاہور کے مختلف علاقوں میں تقسیم کرتے تھے۔

ناگی صاحب نے ہمیشہ جدوجہد سے بھرپور زندگی بسر کی اور کبھی ہار نہیں مانی۔ مگر آخری وقت میں وہ اس بیماری کے ہاتھوں ہار گئے، لیکن انھوں نے اپنے رب سے اس کا کبھی بھی گلہ نہیں کیا۔ سخت بیماری اور تکلیف میں بھی صرف اس کا شکر اداکرتے رہے۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کا خادم بن کر گزاری اور وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے تھے ۔ زندگی کی آزمایش میں انھوں نے ہر رکاوٹ کو پار کیا اور ہر مصیبت کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں، لیکن ان کی یادیں اور ان کا اللہ کی رضا کے لیے کیا ہوا کام ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

______________

B