HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

ناگی صاحب

سجاد خالد

سرخ ٹینکی والی میلی سی سوزوکی موٹر سائیکل جس کے کیریئر کے ساتھ تالے والا ایک لوہے کا ڈبہ لگا ہوا ہے اپنے اسٹینڈ پر گم سم کھڑی ہے۔ اُس کے پاس سے مرد، عورتیں اور بچے آ جا رہے ہیں۔ ساڑھے تین فٹ چوڑی گلی میں کھڑی یہ لوگوں کے گزرنے میں ایک رکاوٹ ہی تو ہے۔ اگر اِس کا دل ہوتا تو درد سے پھٹ جاتا، آنکھیں ہوتیں تو روشنی کھو بیٹھتیں کہ یہ لوگ اُس کے ہم سفر اور سوار کی میت دیکھنے کے لئے گزر رہے ہیں۔

مجھے اس موٹر سائیکل کی آواز یاد ہے، اس کی چمک دمک اور مستعدی یاد ہے۔ اس کا سوار اپنی بیماری سے کہیں زیادہ اس کی خرابی کو ختم کرنے کی فکر میں رہتا تھا۔ وہ ایک عاشق تھا جس کا گھوڑا اُس کے محبوب سے ملاقات کے لیے بے حد اہم تھا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اُسے کسی عالم دین سے عقیدت تھی، کچھ کے خیال میں وہ کسی مکتب فکر کا ترجمان تھا اور کچھ خیال کرتے تھے کہ وہ علم و تحقیق کا دل دادہ ہے۔ آخر کوئی شے تو تھی جو اُسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی۔ کوئی دُھن توسمائی تھی جو ایک مستعد سواری کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا تھا۔

اُس کا پورا وجود تہجد کے وقت جاگ جاتا تھا، محبوب سے تنہائی میں ملاقات کا یہ پہلا مرحلہ نماز فجر پر ختم ہوتا تھا۔ مسجد میں وہ پوری عاجزی کے ساتھ حاضر ہوتا۔ توحید اُس کے رگ و پے میں خون کی طرح دوڑ رہی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا مطلوب دل ہزاروں برس کی دوری پر بھی پوری قوت کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔

اُس کی غیرت اپنے لیے نہیں خدا کے لیے ہر لحظہ میان سے نکلی ہوئی تلوار کی طرح تیار رہتی۔ یہ تلوار علم کا وار کرتی اور دلیل کی دھار سے کاٹتی ہے اخلاص اور کردار ڈھال اور زرہ کا کام کرتے تھے۔

وہ راتوں کا راہب، دِنوں کا سوار

انسان کو آئیڈیل بناتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ انسان غلطی بھی کر سکتا ہے، انسان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اُس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے، لیکن اصلاح صرف اُس کی ہو سکتی ہے جو اپنی راے اور عمل میں غلطی کے امکان کو مانتا ہو۔ میں بھی ناگی صاحب سے کبھی کبھی اختلاف کیا کرتا تھا۔ میں اُن سے کہتا کہ دیکھیں جو لوگ آپ کے نقطۂ نظر سے مختلف تصور دین رکھتے ہیں، اُنھیں آپ کی سرزنش کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔ میں اُنھیں دعوت دین کی حکمت عملی کی طرف متوجہ کرتا تو وہ میری بات پوری توجہ سے سنتے اور کہتے سجاد صاحب مجھ میں اتنی برداشت نہیں۔ وہ میری نیت پر شک نہیں کرتے تھے۔

وہ بتاتے تھے کہ انھوں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا۔ والدہ بھی بچپن ہی میں شدید بیمار رہنے لگیں اور ہوش سنبھالا ہی تھا کہ انہیں اکیلا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ناگی صاحب اپنے ننھیال میں پلے اور کھیلنے کودنے کی عمر ہی میں زندگی کی تلخیوں سے واقف ہو گئے۔ ماں باپ کے بغیر اوروں کے رحم و کرم پر پلنے والے میں زندگی کی تلخی نے کہیں گھر کر لیا تھا۔ وہ ایک دوا ساز کمپنی میں ملازم ہوئے تو دین کے بارے میں اپنی راے کی بنیاد پر بہت سوں کو اپنا دشمن بنا بیٹھے۔ اپنی راے کے اظہار کی قیمت ایسے زخموں کی صورت میں دی جن سے اچھے اچھے جانبر نہیں ہوتے، لیکن دلیل کے بغیر راے نہیں بدلی۔

وہ اپنے خدا کے عشق میں گرفتار ہو گئے تھے اور خود کو محبت کی نہ ختم ہونے والی آزمایش میں دیکھتے تھے۔ اس آزمایش میں اُنھیں ہر رکاوٹ کو پھلانگنا تھا، ہر کوہ کو سر کرنا تھا، ہر وادی کی خاک چھاننی تھی۔

آپ بیمار ہیں تو ناگی صاحب ڈاکٹر بن جاتے ہیں، آپ کہیں جانا چاہتے ہیں اور جا نہیں پاتے تو ناگی صاحب ڈرائیور ، آپ کے ہاں کوئی خوشی کا موقع ہو تو ناگی صاحب دوست، اور دکھ کے لمحے میں بہترین غم گسار۔آپ کو پڑھنا ہے تو ناگی صاحب ضروری کتابوں اور رسالوں کے ساتھ حاضر۔ دوسروں کی خدمت پر آمادگی کی یہ ایک مثال تھی جو میں نے اپنی زندگی میں دیکھی ہے۔

اُن کے چاہنے والوں کی لسٹ میں موٹر مکینک، حکیم، مولوی، ڈاکٹر، عالم، پروفیسر، صحافی، دکان دار اور ہر درجے کے لوگ شامل ہیں۔ اور کیوں نہ ہوتے ... جب کسی کو ایک ایسا شخص میسر آ جائے جو اُس کی ہمیشہ خبر رکھے اور ہر ضرورت میں کام آنے کے لیے تیار رہتا ہو تو دل اپنے محسن کو یاد رکھنے لگتا ہے۔ ایسا شخص محبتوں کو سمیٹ کر رہتا ہے۔ کینسر کے تکلیف دہ اور جان لیوا مرض کے دوران میں اُن کی عیادت کرنے والوں کو دیکھا تو معلوم ہوا وہ صرف عاشق نہیں تھا محبوب بھی تھا۔ اُس کی شان محبوبی اُس کے عشق نے چھپا رکھی تھی۔

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

انسان مر جاتے ہیں لیکن کردار زندہ رہتے ہیں۔ تہجد کا وقت ایک پورے وجود کے ساتھ جاگ جانے والے کا منتظر ہے اور مسجد کی پہلی صف کسی کے قدم چومنے کو بے قرار ہے کہ یہ صرف پیروں کی میل سمیٹنے کے لئے نہیں بنی۔ وہ اپنے مزاج میں ملامتی صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی۔ ناگی صاحب شہید بھی تھے کہ آخری دم تک شہادت حق دیتے رہے۔ سرخ رنگ کی میلی موٹر سائیکل اب کسی ایک اور ناگی صاحب کی راہ دیکھتی ہے۔

____________________

B