اسحاق ناگی مرحوم کے اکلوتے بیٹے ابراہیم نے اُن کے آخری ایام میں اُن کی یادداشت کو چیک کرنے کے لیے ان سے پوچھا:
’’میں کون ہوں۔‘‘
تو انھوں نے بولنے کی کوشش کی:
’’اب...ر...را...‘‘
وہ اُس کا نام ادا کرنا چاہتے تھے۔یہ آخری حروف تھے جوبستر مرگ پران کی نحیف زبان سے ادا ہوئے۔ ..... لیکن ان کے احباب جا نتے ہیں کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح توحید کے معاملے میں بے حد حساس تھے۔توحید کے تقاضوں کی تکمیل میں وہ رشتے داروں اور دوستوں کی ناراضی کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔کسی قسم کی آتش نمرود ان کے اندرکوئی خوف پیدا نہ کرپاتی تھی۔ قدرت نے انھیں یہ اعزاز عطا کیا کہ ان کی زبان سے آخری نام اُس ہستی کا ادا ہوا جس کے ساتھ ان کے عقیدہ وعمل کی گہری معنوی مناسبت تھی۔
وہ میرے دوست بھی تھے، سسر بھی اور محسن بھی۔دوست پہلے بنے او رسسر بعد میں۔لہٰذا اس ترتیب اور ترجیح کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ایک دن مجھے دوستانہ مشورہ دیا :
’’..... ایسے معاملات میں سسرال کی بات نہ ماننا ....میں بھی نہیں ماناکرتا تھا۔‘‘
ایک دن اپنی بیٹی کو عجیب و غریب بات کہہ دی:
’’بلال پڑھنے لکھنے والا آدمی ہے۔اسے کبھی ٹینشن نہ دینا ۔اگرکبھی تم دونوں کا جھگڑا ہواتو میں بلال کا ساتھ دوں گا۔‘‘
میرے محسن ..... غیرمعمولی ..... مجھے فکراصلاحی و غامدی ہی سے نہیں بلکہ ان نادر شخصیات سے ذاتی طور پر بھی متعارف کرایا۔انھی کے تعلق اورصحبت کے باعث اللہ کی توفیق ملی اور دین کے ساتھ شعوری تعلق قائم ہوا۔یوں مجھے ناگی صاحب ہی کے ذریعے سے راز حیات کی معرفت بھی ملی او رشریک حیات کی راحت بھی۔
ان کااللہ کے ساتھ تعلق.... قابل رشک....تہجد باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔اُس وقت اللہ سے باتیں کرتے۔ پنجابی میں..... دل کی بات مادری زبان ہی میں ہوسکتی ہے ..... وہ اللہ کے بے تکلف دوست تھے۔اکثر شکر کرتے۔ کبھی کوئی تقاضا کرتے ۔کبھی شکوہ بھی کرتے۔کبھی لڑتے ۔مگر اس بات کے پختگی کے ساتھ قائل تھے کہ اللہ سے مانگا ، ملا ، توخوشی ہوئی کہ میر ی مرضی پوری ہوئی ، نہ ملا ، تو زیادہ خوشی ہوئی کہ اُس کی مرضی پوری ہوئی ..... دنیا میں آخری سانس بھی تہجد کے وقت لیا۔دوسرے الفاظ میں عالم برزخ میں دوسری زندگی کا پہلا سانس بھی تہجد کے وقت لیا۔ ..... وہ اُس وقت اللہ کے زیادہ قریب ہوتے تھے۔دوستی عروج پر ہوتی تھی۔اللہ نے اپنے دوست کو اپنے پاس بلانے کے لیے اُسی وقت کا انتخاب کیا۔ناگی صاحب کوکم مسافت طے کرنی پڑی۔ اب دونوں دوست خوش ہیں ..... اور ہم اداس۔
اللہ پر ایمان..... حیرت انگیز ..... کسی نے کہا کہ فلاں درخت پرجنات کا سایہ ہے۔سب لوگ اس درخت سے ڈرتے تھے۔اس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔انھوں نے کہا :میں رات کو اس درخت کے نیچے چارپائی بچھا کر سوؤں گا۔کہتے تھے: اپنے آپ کو اللہ کی پنا ہ میں دوں گا۔دیکھتاہوں میرا کوئی کیا بگاڑتاہے۔ایک دن جناب جاوید احمد غامدی لطیف موڈ میں بیٹھے تھے۔میں نے انھیں یہ بات سنائی ۔غامدی صاحب بولے :جنات نے ان کے پاس آکر ان سے مار کھانی ہے۔
تحقیق نئی دریافتوں کا سفر ہے۔وہ ایک مسافر تھے ۔بہت تیز اور بے چین مسافر۔علم وتحقیق کے بعض میدانوں پر انھیں خاص مہارت حاصل تھی۔کچھ ریسرچ اسکالرز بھی اس معاملے میں ان سے مدد لیتے تھے۔مولانا امین احسن اصلاحی اُن امور کا انھیں ’’امام ‘‘ قرار دیتے تھے۔تحقیق کے بعد جس بات کو حق سمجھ لیتے ،اس کے اظہار میں پھر کسی مصلحت کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔
وہ ہر وقت توانائی سے بھر پور ہوتے تھے۔ان سے کم عمر جوان انھیں نوجوان بزرگ قرار دیتے تھے۔حج کرنے گئے توان کے گروپ میں ایک رشتے دار محترمہ کے سوا سب ان سے چھوٹے تھے۔مگر حج میں ان محترمہ کی بھی دیکھ بھال کی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے سے کم عمر لوگوں کا سامان خود اٹھا اٹھا کر گاڑیوں میں رکھتے اور اتارتے تھے۔بعد میں ان جوانوں نے اعتراف کیا کہ اگرناگی صاحب ہمارے ساتھ نہ ہوتے توہم کیسے حج کرتے۔ رات کے وقت سخت سردی میں میرا بچہ باہر جاکر کچھ کھانے کی ضد کرتاتومیں سستی کا شکار ہوجاتا او ربچے کو ٹال دیتا مگر وہ اسے باہر لے جاتے اور اس کی ضد پوری کرتے۔جب آخری دنوں میں بہت کمزور ہوگئے او رلاٹھی کے سہارے سے چلنے پر مجبور ہوگئے ،تب بھی میری بیٹی بصیرت کوئی ضد کرتی تو لاٹھی کا سہارا لے کر بازار جاتے اور اسے اس کی پسند کی چیز لاکر دیتے تھے۔
اسی طرح وہ مختلف مسائل کا شکار لوگوں کی مدد کے لیے ہر دم تروتازہ ہوتے تھے۔مالی مشکلات کے باوجود لوگوں کی مالی مدد بھی کرتے رہتے تھے۔ان کے ایک دوست کی بیٹی اوربہو کاجھگڑا ہوگیا۔وہ خود اسے حل نہ کرسکے۔انھیں بیچ میں ڈالا۔انھوں نے ایک ہی ملاقات میں صلح صفائی کرادی۔لوگ انھیں کام کہہ کر خود بھول جاتے،مگر وہ یاد رکھتے اورکام ہونے تک بے چین رہتے۔بعض لوگ انھیں کام کہنے کے لیے بات شروع کرتے تو یہ آدھی بات سن کرہی مسئلہ سمجھ جاتے او ردوسرے کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی مو بائل فون پر متعلقہ آدمی سے رابطہ کرچکے ہوتے۔
آہ!دوسروں کے درد کا درماں خوددردبے دوا کا شکار ہوگیا او رہمیں ایک دائمی درد میں مبتلا کر گیا۔
۶ ستمبر کو ہمارے ہاں یوم دفاع منایاگیا۔ٹی وی پر بہادر فوجیوں کی باتیں کی جارہی تھیں۔ان کی بیٹی مریم اسحاق نے مجھے ایس ایم ایس کیا:
’’آج شہیدوں کی خدمات کے قصے سن کر بابا کے کام یاد آئے۔جو وہ اور ان کارب ہی جانتا تھا۔وہ گم نا م سپاہی تھے۔‘‘
بے شک وہ سپاہی تھے۔شہید سپاہی ۔وہ حق کے شہید تھے۔جس بات کو حق سمجھ لیتے،پھر ہر خوف سے بے نیاز ہوکراس کی گواہی دیتے تھے۔اس کے لیے لوگوں سے لڑتے تھے۔دلائل کے ہتھیاروں سے۔قرآن حق و باطل کا معیار ہے۔اس کے خلاف کوئی بات ، کوئی حکایت ، کوئی روایت نہیں مانتے تھے۔ معاشرے کی وہ پسندیدہ رسمیں او ر روایتیں جو قرآن کے ساتھ متصادم ہیں ،ان پر بھر پور حملے کرتے تھے۔ ان کی یہ جنگ اس وقت بھی جاری رہی جب کینسر ان پرکامیاب حملہ کرچکا تھا ۔مگریہ حملہ صرف جسم پر تھا ، ان کا دعوتی جذبہ پوری طرح صحت مند او رجوان تھا۔وہ اپنی کمزور آوا ز میں بھی شہادت دیتے رہتے تھے۔ موبائل ان کے سرہانے کے پاس ہوتا تھا ۔کال کریں یا ایس ایم ایس۔ نغمۂ جبرائیل سناتے رہتے۔بانگ سرافیل دیتے رہتے۔شان براہیمی دکھاتے رہتے۔ چراغ مصطفوی جلاتے رہتے۔
۲۵ اگست کی شام کومیں نے انھیں آخری بار بالکل ساکت ہو کر نم ناک دل کے ساتھ دیکھا ۔وہ بستر پرتھے۔ چادر اوڑھی ہوئی۔ تشویش انگیز گہری نیند میں۔ وہ سانس لینے میں دقت محسوس کر رہے تھے اورمجھے اپنے دل کی دھرکن سنائی دے رہی تھی۔..... پھرمیں دفتری کام کے سلسلے میں دبئی کے لیے روانہ ہوگیا۔ ..... وہاں ان کی وفا ت کی دردناک اطلاع ملی۔دکھ جسم کے ریشے ریشے میں سرایت کر گیا ۔حواس معطل ہوگئے ..... لاہور آیا تو ان کی قبر دیکھی ..... ناگی صاحب قبر میں ..... مٹی اوڑھی ہوئی ..... زمین کے اندر ..... دل یہ صورت حال قبول نہیں کررہا ..... زندگی بھر زندہ دلی کے ساتھ زندگی گزارنے والا ..... زندگی سے معمور ..... بزرگی میں بھی جوانوں کی توانائیوں سے بھرپور ..... سراپا دعوت..... لوگوں کودنیوی اور ابدی زندگی کی خوشیاں بانٹنے والا..... خودزندگی سے محروم؟ ..... نہیں ..... یہ کوئی خواب ہے..... برا خواب ..... ابھی آنکھ کھل جائے گی ..... ان کی زندگی افروز سرگرمیوں کے مناظر میری آنکھوں کے آگے لہرا رہے ہیں ..... ان کی جان دارآوازیں مجھے صاف سنائی دے رہی ہیں ..... ان کے کھلکھلاتے ہوئے قہقہے پردۂ سماعت کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں ..... ان کے جوانوں کی چیخیں نکال دینے والے معانقے دکھائی دے رہے ہیں ..... وہ اب ہم میں نہیں رہے؟ ..... نہیں ..... دل یہ صورت حال قبول نہیں کررہا ..... یہ کوئی خواب ہے ..... برا خواب ..... ابھی آنکھ کھل جائے گی!
____________________