مرنا ہر شخص کو ہے۔یہ اہم بات نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ مرنے کے بعد زندگی دینے والے کی بارگاہ میں کسی شخص کا استقبال کس حیثیت میں کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ غیب کی باتیں ہیں جو قیامت سے قبل کوئی نہیں جان سکتا۔ مگر انسان جس طرح جیتا ہے، اس سے بڑی حد تک یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کا استقبال کس طرح کیا جائے گا۔
اسحاق ناگی صاحب کے لیے بھی آخر کار موت کا وہ دروازہ کھل گیا جو ہر انسان کا مقدر ہے۔مگر ناگی صاحب کے متعلق ان کے جاننے والے یہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے دین کی نصرت کے لیے جیے ۔میں ذاتی علم کی بنیاد پر یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ زندگی کی آخری سانسوں تک دین پھیلانے کی جدو جہد میں مصروف رہے۔
ناگی صاحب سے میرا تعارف تو پرانا تھا، مگر ان سے ربط ضبط اس وقت بڑھا جب ۲۰۰۶ء میں میرے رسالے کی باقاعدہ اشاعت شروع ہوئی۔ وہ میرے مضامین کو پسند کرتے اور فون کرکے مختلف تحریروں کی تحسین کیا کرتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو لکھنے کی تھوڑی بہت صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ ا س پس منظر میں وہ اپنے بعض مشاہدات اور خیالات مجھ تک پہنچاتے تھے کہ میں انھیں تحریر کے قالب میں ڈھال کر لوگوں تک پہنچا سکوں۔ ایسی ہی ایک تحریر میں اس ماہ کے شمارے میں شائع بھی کررہا ہوں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ ایک مخلص داعی کو اللہ تعالیٰ کس طرح موثر بنادیتے ہیں۔ان کا درد دوسروں کو بھی آمادہ کردیتا ہے کہ وہ ان کی آواز میں اپنی آواز ملاکر ان کا پیغام دور دور تک پہنچائیں۔
ناگی صاحب ایک پرجوش داعی تھے۔وہ عالم داعی نہیں، بلکہ کارکن داعی تھے۔ایسے کارکن جن کے جوش عمل اور جذبۂ جنوں کے بغیر کسی عالم کا پیغام اس کی ذات سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ ناگی صاحب کا جوش و جنوں ہی تھا جو عمر بھر بڑے اہل علم کا پیغام دوسروں تک پہنچاتارہا، تاہم ناگی صاحب کی یہ وابستگی اہل علم سے کسی تعصب کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ان کی اصل وابستگی اللہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ تھی۔چنانچہ ہمارے اساتذہ جیسے محقق اہل علم ہوںیا اس (مجھ) عاجز جیسا کوئی معمولی طالب علم، انھیں جہاں محسوس ہوتا کہ دین حق کا پیغام موثر طریقے پردوسروں تک پہنچ سکتا ہے ، وہ اس ذریعے کو استعمال کرتے اور حق کی امانت پورے ولولے کے ساتھ آگے منتقل کردیتے۔
اس معاملے میں ان کی وابستگی جس سطح پر پہنچی ہوئی تھی اس کا اندازہ مجھے ان کی زندگی کے آخری ایام میں ہوا۔ وہ دوتین برس سے کینسر جیسے موذی مرض سے جنگ کررہے تھے۔یہ ایک سخت اور تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ ان اذیت ناک دنوں میں، جب لوگوں کو اپنے سوا کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا، ناگی صاحب مجھے بار بار فون کرتے اور میری ایک تصنیف منگواکر نہ جانے کہاں کہاں پہنچاتے۔ آخری وقت میں حال یہ ہوچکا تھا کہ جب ان کا فون آتا تو وہ اس اذیت میں ہوتے کہ اُن کی زبان اُن کا ساتھ نہیں دے پاتی تھی۔ میں بمشکل تمام ان کا مدعا سمجھ کر کتاب بھجواتا۔ میں نے جب ان سے کتاب کی قیمت لینا بند کردی تو انھوں نے مجھے فون کرنے کے بجاے میرے اسسٹنٹ کو فون کرنا شروع کر دیا۔ یہ حساسیت کی انتہا ہے۔
خالق کی حمیت کے ساتھ خلق کی ہمدردی کاجذبہ بھی ان میں بڑا گہرا تھا۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ ان کی بیمار ی کے آغاز سے ذرا قبل اس وقت ہوا جب میں خود ایک مہلک مرض کا شکار ہوگیا۔ مشکل اور لاعلاج امراض میں حکیمی نسخے ہر دوسرا شخص بتارہا ہوتا ہے۔ میں ان دنوں اس طرح کی چیزیں سن سن کر بہت بے زار تھا اور ایسے ٹوٹکوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا تھا۔ناگی صاحب کو میری بیماری کا علم ہوا تو بار بار فون کرکے خیریت معلوم کرتے۔ پھر انھوں نے مجھے ایک ایسا ہی مجرب ، موثر اور آزمودہ نسخہ بتایا۔ میں نے شکریہ کے ساتھ بس سن لیا۔دوبارہ فون کرنے پر جب انھیں یہ علم ہوا کہ ابھی تک میں نے ان کے نسخے پر عمل نہیں کیا تو انھوں نے مجھے قائل کرنا شروع کیا۔ نہ جانے کتنے دنوں تک کتنی ہی دفعہ انھوں نے مجھے اس مقصد کے لیے فون کیا اور کس کس طریقے سے اس کے موثر ہونے کی یقین دہانی کرائی۔ آخر کار ان کی محبت، اخلاص اور اصرار دیکھ کر مجھے ان کی بات پر عمل کرنا پڑا۔ اس کے بعد وہ خود کینسر کی زد میں آگئے اور آنے والے دنوں میں اس موذی مرض کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔
میرے پاس ان کا فون بہت مستقل مزاجی سے آیا کرتا تھا۔ آخری کچھ عرصے میں ان کا فون آنا بند ہوگیا۔میں لاہور میں مقیم مختلف احباب سے ان کی خیریت معلوم کرتا رہتا تھا۔ آخرکار ۲۶ اگست کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ خدا کے دین کا یہ جانباز ،نقدیِ عمر راہ خدا میں لٹاکر اس ہستی کے حضور میں پیش ہوچکاہے جو آسمان و زمین کے سارے خزانوں کا مالک ہے۔ اوراس کی عطا سب سے بڑھ کران خدام کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو اپنی زندگی اس کے نام وقف کردیتے ہیں۔جن کی ہر نفرت اور محبت زندگی بھر صرف خداوند ذوالجلال کے حوالے سے رہتی ہے۔ اسحاق ناگی صاحب ایسے ہی صلحا میں سے تھے۔میری امید اور دعا ہے کہ پروردگار عالم ان کے ایام زندگی کی آخری سختیوں کو ان کی کوتاہیوں کی تلافی کا ذریعہ بنادے ۔ درگزر کا یہ پروانہ ذات اقدس سے مل جائے تو پھر صلے میں ملنے کو عطا و رضا کی وہ بادشاہی رہ جاتی ہے جو لازوال ہے۔
میں شعر کہنے کا ذوق نہیں رکھتا، مگر نہ جانے کیوں ناگی صاحب کے لیے ایک شعر بے اختیار موزوں ہوگیا ہے۔اسی شعر پر یہ مضمون ختم کررہا ہوں۔
جس کے لیے جیے تھے اُسی سے ہیں جاملے
لاریب ہر وفا کاصلہ پاچکے ہیں ہم
_______________________