HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

اسحاق ناگی صاحب

اگر خدا انسانوں کو اس وجہ سے چنے کہ ’’یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے تھا‘‘، تو شاید اس عہد کے لوگوں میں ناگی صاحب صف اول میں کھڑے ہوں گے۔اس شخص کی ساری زندگی لوگوں سے اس بات کے لیے لڑتے ہوئے بسر ہو گئی کہ یہ بات صحیح ہے وہ نہیں، وہ صحیح ہے یہ نہیں۔ اس طرزعمل کی بنا پر انھیں مارا پیٹا بھی گیا، انھیں شدیدزخمی ہو کر ہسپتال بھی جانا پڑا، لیکن انھوں نے اپنا یہ طرز عمل ترک نہیں کیاان کا اصول شاید یہ تھا کہ (اسد اللہ خان غالب سے معذرت کے ساتھ)

نہ رکو گر برا کہے کوئی

’’روک لو گر غلط چلے کوئی‘‘

آخری بیماری میں بھی یہ کام چلتا رہا ، میں تیمارداری کے لیے گیا تو کوئی صاحب ملنے آئے تھے، ان کو اسی طرح کی کوئی بات سمجھا رہے تھے۔میرے اٹھنے سے پہلے ایک اور صاحب آئے اور ان سے بھی کچھ ایسی بات شروع ہو گئی تھی ۔چند ماہ پہلے میں نے ان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ایک کتاب طلب کی تو انھوں نے کراچی سے مجھے منگوا کردی۔بیماری کی شدت کے باوجود بار بار کبھی کراچی فون کرتے اور کبھی مجھے ،یہاں تک کہ وہ کتاب پہنچ گئی۔ایسا کوئی کام آپ ان سے کہہ دیں، شاید آپ بھول جائیں، وہ نہیں بھولتے تھے۔

جن لوگوں کو پسند کرتے ، یا جن کے وہ عقیدت مند تھے، ان کو بھی اپنی تنقید سے بلند نہیں سمجھتے تھے۔آپ عارف ہوں یا عامی ، اس شخص کے نقد سے بچ نہیں سکتے تھے، لیکن یہ حیرت انگیز بات تھی کہ جب وہ نقد کرلیتے تو ان کو آپ صفائی میں کوئی بات کہیں تو وہ فوراً مان جاتے تھے۔

دین کی دعوت، اصلاح فکر اور احباب و اعزہ کی خدمت ان کے غالب اوصاف حمیدہ تھے۔انھی تین دائروں میں وہ ساری زندگی اپنی توانائی صرف کرتے رہے۔ان تینوں دائروں میں ان کی کیفیت وہی رہی جو فیض احمد فیض نے بیان کی ہے کہ

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے مالی حالات اچھے نہیں رہے، لیکن شاید ہی کسی نے اس کے بارے میں ان سے شکوہ سنا ہو۔بہت قریبی لوگوں کے سوا اس بارے میں کہیں بات نہیں کرتے تھے۔

وہ بظاہر ایک عام آدمی تھے، لیکن اسلام کی تاریخ، بالخصوص عہد نبوی، عہد صحابہ سے عہد بنو امیہ تک کے وہ ایک جید عالم تھے۔ اس کی باریک باریک تفصیلات سے بھی آگاہ تھے۔ اسی طرح فرقہ دارانہ مسائل جیسے اہل سنت اور شیعہ، اہل حدیث اور اہل فقہ کے اختلافی مسائل کے وہ علما سے بڑھ کر ماہر تھے۔ میں پچھلے چند سالوں سے ان سے کہتا رہتا تھا کہ تاریخ اسلام سے متعلق اپنی دریافتیں کہیں رقم کردیں، وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے میں لکھ نہیں سکتا۔

میراا ن کاتعلق بہت پرانا ہے،شاید ۱۹۸۵ ء کے اواخر سے ۔۱۹۸۸ ء میں انھوں نے مجھے کہا کہ مجھے عربی پڑھا دو۔ میں نے پڑھانا شروع کی، مجھے اور انھیں ، دونوں کو محسوس ہوا کہ شاید یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ عمر میں میرے بڑوں کی طرح تھے، استاد ی شاگردی کا رشتہ بن ہی نہیں پا رہا تھا ۔بہرحال وہ پروگرام ختم ہو گیا، اس کے بعد وہ ہمیشہ مجھے جب بھی ملتے تو کہتے : اے میراپگھوڑا استاداے(پنجابی)۔ (یعنی وہ استاد جو پڑھائی کے درمیان بھاگ گیا، اس میں لطف کی بات یہ تھی کہ یہ تعبیر شاگرد کے لیے استعمال ہوتی ہے استاد کے لیے نہیں)۔میں طبعاً کم آمیز ہوں، اس لیے انھیں مجھ سے شکایت رہتی تھی کہ کم ملتا ہوں، لیکن میری اس کم آمیزی کے باوجود ان کی طرف سے کبھی عزت اور پیار میں کمی نہیں آئی۔

ان کا مرض شدت اور طوالت اختیار کرگیا ، تو ان کی طرف سے اکثر دعا کے لیے SMS آنے لگے۔ ان کے ایک پچیس تیس سالہ دوست میرے ہمسائے ہیں، جو ان سے ملنے جاتے رہتے تھے۔ ناگی صاحب نے اس شدید مرض کا تذکرہ جب ان سے کیا تو انھوں نے ناگی صاحب سے کہا کہ اللہ تمھارے گناہ اچھی طرح دھونا چاہتا ہے۔ تو ناگی صاحب نے کہا اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ خدا کے بارے میں وہ ہمیشہ مطمئن رہے کہ وہ ان کا رب ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس بات پر کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ ایک دعا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات پر مغفرت کی بشارت دی ہے ۔اب یہی دعا ہے کہ اللہ کے حضورمیں وہ اس طرح سے حاضر ہوئے ہوں کہ ان کے دامن پر کسی گناہ کا ہلکا سا بھی میل نہ ہو، اور انھیں خدا کی مغفرت اور رضوان حاصل ہو۔آمین۔

____________

B