اسحاق ناگی صاحب ایک متحرک جنگجو اور مجاہد ٹائپ آدمی تھے۔ وہ میرے ایک ممدوح کی حیثیت اس لیے رکھتے تھے کہ ان کی شخصیت کا یہ سارا زور بالعموم اللہ کی بات کے حق میں صرف ہوتا تھا۔
توحید کا ایک غیرت مند علم بردار، بدعت کا ایک بے لچک دشمن، خواہ خاندان ہو یا دوست داری ہر جگہ دینی تعلق کو فوقیت دینے والا، مالی حالات کی خرابی کے باوجود دین کی نصرت میں اپنا مال اور اپنے اوقات صرف کرنے والا۔
ان کی زندگی دین کے لیے جدوجہد سے عبارت ہے یہ تو ان سے معمولی تعارف رکھنے والا بھی جان لیتا، لیکن وہ انسانوں کی خدمت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے اور اس کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے تھے۔ میں ان کی شخصیت کے اس پہلو کے کئی مظاہر کا عینی شاہد ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ جس کے ساتھ بھی وابستہ ہوئے انھوں نے وابستگی کے تقاضے پورے کیے۔
خدا کی بندگی، دین کی خیرخواہی، اہل دین سے محبت اور ان سے وابستگی اور ان کاموں میں آنے والی رکاوٹوں کے مقابلے میں مردانہ وار جدوجہد کی اسحاق ناگی صاحب ایک علامت تھے۔
میں چند سال پہلے حج کے سفر پر گیا تو محترم اسحاق ناگی میرے شریک سفر تھے۔ کوئی ڈیڑھ مہینا، ہم اکٹھے سوئے، اکٹھے چلے، اکٹھے کھایا اور اکٹھے سفر کیا۔
سفر سے پہلے ناگی صاحب کے غصے، زبردستی، خواہ مخواہ دخل اندازی سے مجھے یہ اندیشہ تھا کہ کچھ مشکلات پیدا ہوں گی، لیکن ان کی للہیت، شوق وذوق، ہم سفروں کی خدمت، ان کے لیے ایثار، اپنی بات اور اپنی خواہش کو دبا کر دوسرے کو ترجیح دینا اور اس طرح کے کتنے ہی محاسن تھے جن کے باعث مجھے اپنے اندیشے پر آج بھی افسوس ہے۔
میں نے تاریخ میں کتنے ہی لوگوں کے لیے مرد حر کی تعبیر پڑھی ہے۔ میرے خیال میں سچا مرد حر وہ ہے جو صرف حق کو مانتا اور حق کے لیے لڑتا ہو اور حق کی خاطر نہ کسی کی پروا کرتا ہو اور نہ کسی کو خاطر میں لاتا ہو۔ اسحاق ناگی صاحب ایسے ہی مرد حر تھے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
____________