HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

محمد اسحاق ناگی مرحوم

اسحاق ناگی مرحوم سے میری ملاقات ۱۹۷۶ء میں ہوئی تھی۔ اُس وقت اُنھوں نے گلیکسو لیباریٹریز لاہور میں بطور سٹینو گرافر اپنی ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ جبکہ میں وہاں تین سال پہلے سے ملازمت کر رہا تھا۔

ایک دن میں اُن کے کمرے میں اپنی کسی دفتری ضرورت کے لیے گیا۔ یہ غالباً میری اُن کی پہلی ملاقات تھی۔ اُنھوں نے مجھ سے باتوں ہی باتوں میں کہا کہ میں خود کو بدلنا چاہتا ہوں، میں صحیح مذہب سیکھنا اور اُس پر عمل کرنا چاہتا ہوں، مجھے بتائیے کہ میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ آپ قرآن مجید پڑھیں۔ اُنھوں نے اِس پر مجھ سے کوئی اور بات نہیں کی سوائے اِس کے کہ اِس کا کیا طریقہ ہے؟ میں خود اُن دنوں مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس قرآن سنا کرتا تھا، تو میں نے اُنھیں بھی کہا کہ مسجد شہدا میں ہر اتوار کو ڈاکٹر اسرار صاحب کا درس ہوتا ہے آپ اُس میں آیا کریں۔ ناگی مرحوم ایسے شخص نہیں تھے کہ اُنھیں کوئی فیصلہ کر لینے کے بعد اُس پر عمل کے لیے کسی یاددہانی کی ضرورت ہوتی۔ وہ خود یاد دہانی کرانے والوں میں سے تھے۔ پھر میں نے یہی دیکھا کہ وہ بڑی باقاعدگی سے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے دروس میں شامل ہونے لگے۔ مجھے نہیں یاد کہ اُن دنوں میں اُنھوں نے ڈاکٹر اسرار صاحب کا کوئی درس چھوڑا ہو۔

پھر اُنھیں جماعت اسلامی کے ایک کارکن نے بتایا کہ لاہور میں دو ہی درس قرآن ہو رہے ہیں، ایک تو وہی جو آپ سن رہے ہیں اور دوسرا جاوید احمد نامی ایک نوجوان کا درس۔ پتا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ دوسرا درس اچھرہ میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی گلی میں ہوتا ہے۔ برگد کے سائے تلے برگد ہی پروان چڑھتا اور اسد کے سائے میں شِبل ہی جیتا ہے۔

اُس وقت تک اسحاق ناگی مرحوم نے کئی دروس سن رکھے تھے، مگر معلوم نہیں کہ اُس نوجوان کے اِس درس میں کیا جادو تھا کہ تلاش مرشد کا سفر ہی ختم ہو گیا۔بس پھر کیا تھا ،ناگی صاحب اپنے استاذ سے جو کچھ سیکھتے دوسروں تک اُس کو پہنچانے اور انھیں اُس کی طرف مائل کرنے میں مصروف نظر آتے تھے۔

وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک داعی تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں تو ہم نے اُنھیں دیکھا ہے کہ وہ مومن کی کچھ فولادی صفات سے بھی متصف تھے، لیکن دوسروں تک خدا کی بات پہنچانے، اُنھیں دین سمجھانے اور اُس کی طرف راغب کرنے کے معاملے میں بے شک وہ مثل حریر و پرنیاں تھے۔

اُن کی دلچسپی کی سر گرمیاں توحید کا جوشیلا ابلاغ، شرک کا بُری طرح سے ابطال اور بدعات کا بہت حقارت کے ساتھ قلع قمع رہی ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ پنجاب کے روایتی کلچر کے مطابق بعض اوقات اُن کی زبان پر دشمنانِ خدا کے لیے سب و شتم بھی جاری ہو جاتا، میں اُس وقت سوچا کرتا تھا کہ اِن کے اِس سب و شتم کو تو بدی کا فرشتہ بھی نیکی کر کے ہی لکھتا ہو گا۔

فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّءَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُورًا رَّحِیمًا.(الفرقان ۲۵: ۷۰)

’’پس یہی ہیں وہ لوگ جن کی غلطیوں کو اللہ نیکیوں میں تبدیل کر دے گا۔‘‘

یوں تو ہر آدمی کی ایک پوری کہانی ہوتی ہے اورجیسا وہ شخص ہو ویسی ہی اُس کی کہانی ہوتی ہے۔ ناگی صاحب کی زندگی کے بعض واقعات بہت ایمان افروز ہیں۔ یہ چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ اُن کی ٹانگ میں شدید درد پیدا ہو گیا، یہ درد کئی ماہ چلتا رہا، مختلف علاج کراے لیکن آرام نہیں آیا۔ ایک دن فیکٹری سے چھٹی کے وقت وہ فیکٹری کی مسجد میں عصر کی نماز پڑھنے کے بعد بڑی تکلیف کی حالت میں گھر کی طرف نکل رہے تھے کہ اُن کے ایک ساتھی، جسے وہ اکثر شرکیہ تصورات سے بچنے اور توحید کے بارے میں حساس رہنے کی دعوت دیا کرتے تھے، اُس نے ٹانگ کی درد کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے اُسے بتایا کہ ٹانگ کی درد برقرار ہے اور بڑی شدید ہے۔ تو اُس نے کہا کہ آپ اپنے عقیدے پر غور کریں، اُس کی مراد یہ تھی کہ آپ اِس کے لیے تعویذ اور گنڈے وغیرہ کا راستہ اختیار کریں اور توحید و شرک کے حوالے سے جو تعلیم دیتے پھرتے ہیں اُس سے باز آ جائیں۔ ناگی مرحوم اُس کی یہ بات سن کر الٹے پاؤں مسجد میں واپس آ گئے اور وہاں درد کی اُسی حالت میں خدا سے اپنا دکھ درد اور توحید اختیار کرنے پر لوگوں کے ملنے والے طعنوں کو بیان کرنے لگ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے عصر سے مغرب تک اللہ سے دعا کی اور پھر جب مغرب کی نماز ادا کرکے میں مسجد سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ ٹانگ کا ناقابل برداشت درد یکسر دور ہو چکا ہے اور پھر زندگی بھر کبھی ٹانگ کی وہ تکلیف دوبارہ میں نے محسوس نہیں کی۔

مرحوم تقریباً ڈھائی سال سے کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا تھے، اِس لمبے عرصے میں ہم نے اُن کی زبان سے خدا کی رضا پر راضی اور اُس کی طرف سے مقدر فیصلوں پر اطمینان کے علاوہ کوئی اور بات نہیں سنی۔ اُن کی اِس بیماری کے دوران کئی دفعہ یہ خیال آیاکہ جیسے وہ خود کسی کے ساتھ نیکی، خیر اور بھلائی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اُس کی حالت اور اُس کے حوصلے کو دیکھا نہیں کرتے تھے، شاید اِسی طرح خدا اُنھیں اپنی جنتوں کی طرف کھینچیچلا جا رہا ہے، بہرحال، وہ خدا کے تھے، خدا اُن کا تھا، ہمیں کیا معلوم کہ معاملہ کیا تھا۔

ہماری دعا ہے:

خدا مغفرت کرے کہ اب جنت میں وہ بسیں

____________

B