محمد اسحاق ناگی مرحوم، جنھیں اب مرحوم لکھتے ہوئے دل اداس ہوجاتاہے ،دین کے عظیم اور سرگرم کارکن داعی تھے۔ انھوں نے جب پہلی مرتبہ جناب جاوید احمد غامدی کا درس قرآن سنا تو اس کا اپنے موروثی اور ایک معاصر صاحب علم کے طرزفکر سے تقابل کیا، غامدی صاحب کے فہم دین کو بہتر پایا اور ان کے رفیق بن گئے ۔پھر آخری سانس تک یہ رفاقت نبھاتے رہے اور اسی کیفیت میں رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔
جب سے ناگی صاحب کینسر میں مبتلا ہوئے، اس وقت سے غامدی صاحب بیرون ملک میں رہ کر بھی ان کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ انھوں نے المورد کے رفقا کو ہدایت کررکھی تھی کہ ناگی صاحب کا ہر لحاظ سے مکمل خیال رکھیں۔
جب غامدی صاحب کو ناگی صاحب کی رحلت کی اطلاع ملی تو وہ بہت غم زدہ ہوئے۔دوسرے دن انھوں نے کہا: اگرچہ ناگی صاحب کی وفات غیر متوقع نہیں ہے،تب بھی جب ان کی یاد آتی ہے تو دل غمگین ہوجاتاہے ۔اور پھر ان کے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کی یادوں میں کھو جاتے اوران کی باتیں کرنے لگتے تھے۔
اللہ جزا دے ڈاکٹر شہزاد سلیم ،ڈاکٹر عظمت اللہ عرفان ،محمدرفیع مفتی صاحب اور ڈاکٹر منیر احمدکو ،ان حضرات نے دل و جان سے ناگی صاحب کی تیمارداری کی اور رفاقت کا حق صحیح معنوں میں ادا کیا۔حتی ٰ کہ اب ان کی وفات کے بعد ان کے گھر والوں کے ساتھ شفقت کا تعلق قائم رکھا ہے ۔
ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں او ر اسی کی طرف لوٹناہے۔اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ جو دنیا سے جاتاہے کچھ عرصے کے بعد لوگ اسے بھول جاتے ہیں، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس آزمائش کی زندگی میں نیکیاں کمانے میں ایسی زبر دست کارکردگی کا مظاہر ہ کرتے ہیں کہ لوگ انھیں یاد ررکھتے اوریاد کرتے رہتے ہیں۔بلکہ ان کے بعد ان کی باتیں کرنا بھی نیکی کاکام محسوس ہوتاہے۔ناگی صاحب نے بھی اس معاملے میں حسن کارکردگی کا مظاہرہ کیاتھا۔ اشراق کے اس شمارے میں ہم خصوصی طور پر انھی نیکیوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔
_____________