HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاعراف ۷: ۹۴- ۱۰۲ (۷)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ{۹۴} ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآئَ نَا الضَّرَّآئُ وَالسَّرَّآئُ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ{۹۵} وَلَوْاَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ{۹۶} 

اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّھُمْ نَآئِمُوْنَ{۹۷} اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَ{۹۸} اَفَاَمِنُوْا مَکْرَاللّٰہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَاللّٰہِ اِلَّاالْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ{۹۹} اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ اَھْلِھَآ اَنْ لَّوْ نَشَآئُ اَصَبْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَنَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ{۱۰۰} تِلْکَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْــبَآئِھَا وَلَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الْکٰفِرِیْنَ{۱۰۱} وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِھِمْ مِّنْ عَھْدٍ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَ{۱۰۲}

ہم نے جس بستی میں بھی کسی نبی کو رسول بنا کر بھیجا ہے، اُس کے لوگوں کو مالی اور جسمانی مصیبتوں۴۴۳؎ سے آزمایا ہے تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں۴۴۴؎۔پھر اُن کے دکھ کو ہم نے سکھ میں بدل دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھولے پھلے اور کہنے لگے کہ اچھے اور برے دن تو ہمارے باپ دادوں پر بھی آتے رہے ہیں۔ بالآخر ہم نے اُنھیں اچانک پکڑ لیا اور اُنھیں خبر تک نہ ہوئی۔۴۴۵؎ (حقیقت یہ ہے کہ) اگراِن بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اُن پر ہم زمین و آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۴۴۶؎، مگر اُنھوں نے جھٹلا دیا تو اُن کے کرتوتوںکی پاداش میں ہم نے اُن کو پکڑ لیا۔۹۴-۹۶

پھر (بتاؤ کہ) اِن بستیوں کے لوگ کیا اِس سے بے خوف رہ سکے کہ اُن پر ہمارا عذاب رات میں آجائے، جب وہ سوتے پڑے ہوں؟ یا اِس سے بے خوف رہ سکے کہ ہمارا عذاب اُن پر دن دہاڑے آجائے، جب وہ کھیل میں لگے ہوں۴۴۷؎؟پھر کیا وہ خدا کی تدبیر ۴۴۸؎سے بے خوف رہ سکے؟ سو (یاد رکھو کہ) خدا کی تدبیر سے وہی بے خوف رہتے ہیں جو نامراد ہونے والے ہوں۔ کیا اِس چیز نے اُن لوگوں کو کوئی سبق نہیں دیا جو زمین کے اگلے رہنے والوں کے بعد اُس کے وارث بنتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو اُن کے گناہوں کی پاداش میں اُن کو بھی آ پکڑتے۴۴۹؎؟(نہیں، وہ کبھی سبق نہیں لیتے) اور (اِس کے نتیجے میں) ہم اُن کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے۴۵۰؎۔ یہ بستیاں ہیں جن کی سرگذشتوں کا کچھ حصہ ہم تمھیں سنا رہے ہیں۔ اِن کے رسول اِن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا کہ یہ ایمان لاتے، اِس لیے کہ پہلے جھٹلاتے رہے تھے۔ اللہ منکروں کے دلوں پر اِسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔۴۵۱؎ (حقیقت یہ ہے کہ) اِن میں سے اکثر میں ہم نے کسی عہد۴۵۲؎ کا پاس نہیں دیکھا، بلکہ اکثر کو عہد توڑنے والا۴۵۳؎ ہی پایا ہے۔۹۷-۱۰۲

۴۴۳؎ اصل میں ’بَاْسَآئ‘ اور ’ضَرَّآئ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جب ایک دوسرے کے ساتھ آتے ہیں تو پہلے سے مالی اور دوسرے سے جسمانی آفتیں مراد ہوتی ہیں۔

۴۴۴؎ یہ اُس سنت الہٰی کا بیان ہے جو رسولوں کی بعثت کے ساتھ لازماً ظاہر ہوتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔وہ سنت یہ ہے کہ جب نبی توبہ و استغفار اور جزا و سزا کی منادی شروع کرتا ہے تو اُس کے محرکات و مویدات اِس کائنات میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ ایک طرف پیغمبر لوگوں کو غفلت و خدا فراموشی کے انجام ، فساد فی الارض کے نتائج اور دنیا اور آخرت میں خدا کی پکڑ سے ڈراتا ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ لوگوں کو سیلاب، قحط، وبا، طوفان کی آزمایشوں میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ لوگ آنکھوں سے بھی، اگر اُن کے پاس دیدۂ عبرت نگاہ ہو، دیکھیں کہ اِس طرح اللہ جب چاہے اور جہاں سے چاہے، اُن کو پکڑ سکتا ہے اور پھر خدا کے سوا کوئی اُن کو بچانے والا نہیں بن سکتا۔ اِس طرح گویا دعوت کے ساتھ واقعات کی تائید اور عقل و فطرت کی شہادت کے ساتھ مشاہدے کی اثر انگیزی بھی جمع ہو جاتی ہے۔ نبی جو کچھ کہتا ہے، آسمان و زمین، دونوں مل کر اپنے اسٹیج پر گویا اُس کے مناظر دکھا بھی دیتے ہیں تاکہ جن کے اندر اثر پذیری کی کچھ بھی رمق ہو، وہ خدا کے آگے جھکیں اور توبہ و اصلاح کریں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۱۷)    

۴۴۵؎ یہ اُسی سنت کا ایک دوسرا پہلو ہے۔ اوپر جن آزمایشوں کا ذکر ہوا ہے، جب لوگ اُن سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور خدا کی طرف متوجہ ہونے کے بجاے دل و دماغ کو بند کر لیتے ہیں تو اللہ اُنھیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ جو لوگ تنبیہات سے نہیں جاگے، وہ رفاہیت کی لوری سے اور گہری نیند سو جائیں اور خدا کا عذاب اُن کو ایسی حالت میں پکڑے کہ اُنھیں خبر تک نہ ہو کہ یہ آفت کب اور کہاں سے نازل ہوئی ہے۔ اِس کی صورت کیا ہوتی ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔بدحالی کی جگہ خوش حالی آ جاتی ہے، دنیوی اسباب و وسائل کے ہر گوشے میں ترقی و فراخی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، آزمایشوں اور تکلیفوں کے دن ذہنوں سے نکل جاتے ہیں، پھر سرکش لوگ چہکنا اور نبی اور اُس کے ساتھیوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ عقل کے کوتاہ لوگ، پچھلے قحط یا گذشتہ سیلاب یا فلاں آفت کو ہمارے اعمال و عقائد کی خرابی پر خدا کی تنبیہ سمجھتے تھے اور اپنے وعظوں میں طرح طرح سے ہم کو ڈراتے اور پست ہمت کرتے رہے، حالاں کہ اِن باتوں کو ایمان و اخلاق سے کیا تعلق؟ اِس قسم کی گردشیں قوموں کی زندگی میں آیا ہی کرتی ہیں۔ ایسے دن، کچھ ہمارے ہی اوپر تو نہیں گزرے ہیں، ہمارے باپ دادوں پر بھی گزرے ہیں جو بڑے اچھے اور نیک نہاد لوگ تھے۔ یہ تو زمانے کے اتفاقات ہیں۔ کبھی تنگی ہے، کبھی فراخی؛ کبھی فصل اچھی ہوئی، کبھی ماری گئی؛ کبھی سیلاب آگیا، کبھی قحط پڑ گیا۔ اِن چیزوں کو اعمال و اخلاق سے باندھ دینا محض خرد باختگی اور وہمی پن ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۱۸)

۴۴۶؎ مطلب یہ ہے کہ رسولوں کو جھٹلا دیا جائے تو اِس کا لازمی نتیجہ جس طرح عذاب کی صورت میں نکلتا ہے، اُسی طرح اُن کی دعوت قبول کرلی جائے تو اِس کے نتیجے میں زمین و آسمان کی برکتیں اور فیروزمندیاں بھی لازماً حاصل ہوتی ہیں۔ یہ خدا کی سنت ہے اور خدا کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اِسی طریقے سے جاری رہی ہے۔ یہ اِس کا آخری ظہور تھا جس سے یہ حقیقت پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہو گئی ہے کہ آخرت کا عذاب و ثواب بھی ایک دن اِسی طرح واقع ہو جائے گا۔

۴۴۷؎ یعنی رات اور دن میں جس وقت بھی آیا، وہ اپنے آپ کو بچا نہیں سکے تو یہی آفت تم پر ٹوٹ پڑی تو تم کیا کرو گے؟

۴۴۸؎ اصل میں لفظ ’مَکْر‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی خفیہ تدبیر کے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔خفیہ تدبیر کا مطلب یہ ہے کہ خدا وہاں سے پکڑتا ہے ، جہاں سے کسی کو پکڑے جانے کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ اوپر تنبیہ کے بعد ڈھیل کی جو سنت بیان ہوئی ، وہ اِس خفیہ تدبیر الٰہی کی ایک مثال ہے۔ قوم تو سمجھتی ہے کہ اب اُس نے پالا مار لیا ، لیکن درحقیقت وہیں اُس کی ہلاکت کا کھڈ ہوتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۲۰)

۴۴۹؎ اشارہ اگرچہ قریش کی طرف ہے، لیکن عام اسلوب میں فرمایا ہے کہ بعد میں آنے والوں نے اگلوں کے انجام سے سبق کیوں نہیں لیا اور کیوں نہیں سوچا کہ خدا نے جس طرح اُن کو پکڑا تھا، وہ اُن کے وارثوں کو بھی جب چاہے، اُسی طرح پکڑ سکتا ہے۔

۴۵۰؎ اِس لیے کہ اُن کے اِس جرم کی پاداش میں اُن کے دل پر مہر لگ چکی ہوتی ہے کہ اگلوں کی تاریخ سے اُنھوں نے کوئی سبق نہیں لیا اور اُسی راہ پر گام زن رہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں نے ہمیشہ اختیار کی ہے۔ یہ مہر عذاب الہٰی کا مقدمہ ہوتی ہے۔ اِس کے بعد انسان اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے الجھائو میں الجھتا ہی چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ آیات الٰہی کو بچشم سر دیکھ لینے کے بعد بھی اُس کے دل کا دروازہ قبول حق کے لیے نہیں کھلتا اور وہ پیغمبر کی بات کو بھی سننے سے انکار کر دیتا ہے۔

۴۵۱؎ یہ مزید وضاحت فرمائی ہے کہ دلوں پر مہر کب لگتی ہے اور کس طرح کے لوگوں کے دلوں پر لگتی ہے؟ فرمایا کہ اُن کے دلوں پر لگتی ہے جو پہلے سے خدا کی آیتوں اور نشانیوں کو جھٹلاتے رہے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی عام آیات سے روگردانی کا عادی ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ اُس کا دل ایسا پتھر ہو جاتا ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے خاص نشانیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں تو وہ بھی اُس پر کارگر نہیں ہوتیں۔ فرمایا کہ یہ طریقہ ہے ہمارے ہاں دلوں پر مہر لگانے کا۔ دل کا کام عبرت پذیری ، تفکر اور تعقل ہے۔ اگر کوئی گروہ اِس طرح اپنی خواہشوں کا اندھا بہرا مرید بن جاتا ہے کہ تذکیر و تنبیہ کے بعد بھی وہ دل کی آنکھیں نہیں کھولتا تو ایسے لوگوں کے دل بالآخر بالکل جپاٹ ہو کے رہ جاتے ہیں۔ یہ ملحوظ رہے کہ ’بِمَا کَذَّبُوْا‘ یہاں ’یُؤْمِنُوْا‘ کا مفعول نہیں ہے، بلکہ ’ب‘ بیان سبب کے لیے ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۲۱)

۴۵۲؎ اِس سے وہ عہد مراد ہیں جو اُن بستیوں کے لوگوں نے، جن کا ذکر ہوا ہے، اپنے پیغمبروں سے باندھے کہ فلاں شرط پوری کر دی جائے تو مان لیں گے اور فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو ایمان لے آئیں گے۔ آگے آیات ۱۳۴-۱۳۵میں یہی مضمون حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگذشت میں بھی بیان ہوا ہے۔ سورۂ انعام (۶) کی آیات ۱۰۹-۱۱۰ میں قرآن نے اِس کی مزید وضاحت کر دی ہے کہ اِس طرح کے عہد باندھ لینے کے بعد وہ بار بار توڑتے رہے اور کسی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔

۴۵۳؎ اصل میں لفظ ’فَاسِق‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی نافرمان کے ہیں، لیکن موقع کلام سے واضح ہے کہ یہاں نافرمانی سے عہد شکنی مراد ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B