HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

عہد رسالت میں خواتین کا سیاسی کردار (۳)

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(گزشتہ سے پیوستہ)


صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:

’’اے قریش کے قبیلے والو، اپنے آپ کو اللہ سے خرید لو۔ میں اللہ کے مقابلے میں تمھارے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔ اے عبدالمطلب کی اولاد، میں اللہ کے سامنے تمھاری کفایت نہیں کر سکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب، میں اللہ کے سامنے تمھاری کفایت نہیں کر سکتا۔ اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ، میں اللہ کے مقابلے میں تمھارے لیے نفع مند نہیں ہو سکتا۔ اے اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ، میں اللہ کے مقابلے میں تمھارے لیے سود مند نہیں ہو سکتا۔ مجھ سے جو چاہتی ہو مانگ لو۔‘‘(رقم ۲۰۶)

اپنی بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھیوں میں سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی تخصیص اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر چھوٹوں کی یہ ذمہ داری ہے تو بڑوں کی ذمہ داری ان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں میں سے مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا۔

اعلانیہ دعوت کی یہ پہلی آواز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام کیا مرد اور کیا عورت، ساری نوع انسانیت کے لیے ہے اور اپنے عقیدے کے بارے میں ہر مرد اور ہر عورت اللہ کے سامنے ذاتی طور پر جواب دہ ہے، اور یہ مرد کی اس تبعیت اور تقلید کے خلاف ایک بغاوت ہے جس میں عورت صدیوں سے اسلام سے پہلے زندگی گزار رہی تھی اور مقام تعجب ہے کہ ابھی تک اس کو اس تابع داری کا پابند سمجھا جا رہا ہے۔ اسی اصول کی بنیاد پر اسلام کی حیات اجتماعی میں مرد اور عورت کے ایمانی تعلقات قائم ہیں۔ اصول یہ ہے کہ مومن مرد اور عورت اپنے اعمال کے ذریعے سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں، اس ربط میں جنس اور ذات کا کوئی دخل نہیں۔

عقیدے کی راہ میں ظلم و ستم کا سامنا

قریش مکہ عورتوں کو بھی مردوں کے ساتھ اس قدر ہول ناک اذیت دیتے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ عذاب بے سہارا عورتوں اور لونڈیوں کے لیے شدید تر تھا۔ عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے عذاب برداشت کیا۔ تپتی ہوئی دوپہر میں بنو مخزوم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کے والدین کو مکے کی تیز حرارت میں لٹا کر ظلم کرتے تھے۔ ان کے پاس سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوتا تو آپ فرماتے: اے یاسر کے گھر والو، صبر کرو تمھارا ٹھکانا جنت ہے۔ حضرت عمار نے ظلم سے گھبرا کر ظالموں کی بات مان لی اور پھر نبی پاک کے پاس حاضر ہو کر معذرت کی تو اس آیت کا نزول ہوا:

مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَءِنٌّ بِالْاِیْمَانِ.(النحل۱۶: ۱۰۶)
’’جو شخص ایمان کے بعد کفر کرے، مگر وہ نہیں جو کفر پر مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔‘‘

حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیہ ایک باہمت خاتون تھیں۔ انھوں نے مشرکین کی بات ماننے سے انکار کیا اور اسلام پر ڈٹی رہیں۔ امام احمد نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ اسلام کی پہلی شہید حضرت عمار کی ماں حضرت سمیہ تھیں۔ ابوجہل نے ان کی شرم گاہ میں نیزہ مار کر ان کو قتل کر دیا۔ اللہ کو یہی منظور تھا کہ سب سے پہلے ایک خاتون اپنے خون سے اسلام کے پودے کی آب یاری کرے۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا شمار ان سات السابقون الاولون میں ہوتا ہے جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ان سات لوگوں میں بھی شہادت کا منصب انھیں ملا۔

یہ اذیت صرف لونڈیوں تک محدود نہ تھی، بلکہ قریش کے ہر قبیلے کی شاخ اپنے ان لوگوں کو اذیتیں دیتے تھے جو حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے تھے۔ اسلام لانے سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہنوئی سعید بن زید اور اپنی بہن کو باندھ کر اذیت دیتے تھے۔ مشرکین صرف مکہ ہی میں خواتین کو اذیت نہ دیتے تھے، یہ وبا مکہ سے دور رہنے والے قبائل میں بھی سرایت کر گئی تھی۔ ام شریک غزیہ بنت جابر اپنے شوہر کے ساتھ مسلمان ہو چکی تھیں۔ ان کے شوہر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کے قبیلے بنو عامر نے انھیں پوچھا: کیا وہ اسلام پر قائم ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، انھوں نے قسم کھائی کہ وہ ان کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کریں گے۔ وہ انھیں کھانا تو دیتے تھے، لیکن پانی روک لیتے تھے۔ تین دن تک ان کو مسلسل دھوپ میں رکھا حتیٰ کہ ان کے ہوش و حواس اور قوت گویائی اور قوت شنید جاتی رہی۔ تیسرے روز انھوں نے مطالبہ کیا کہ دین اسلام چھوڑ دو، انھوں نے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے توحید کا اقرار کیا۔ ہجرت سے پہلے اسلام نے مدینہ میں راہ پا لی تھی۔ حوا بنت یزید بن سنان انصاری مسلمان تھیں۔ ان کا خاوند قیس بن حطیم ان کو اسلام سے روکتا تھا اور جب وہ سجدہ کرتیں تو ان کو سر کے بل الٹا دیتا۔ ان کا خاوند جب حج کے موسم میں مکہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ملے اور فرمایا: اے ابو یزید، مجھے پتا چلا ہے کہ جب سے تیری بیوی نے تیرا دین چھوڑا ہے، تو اس سے بدسلوکی کرتا ہے۔ اللہ سے ڈرو اور اس کے بارے میں مجھے ذہن میں رکھو۔ اسے تنگ نہ کرو۔

توحید کی تردید صرف مکہ تک محدود نہ تھی، بلکہ پورے جزیرۂ عرب کا یہی موقف تھا۔ دعوت کے اس مرحلہ میں ابن حجر نے (الاصابہ ۸/۲۲۱ میں) عبدالرحمان عامری سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے مقام پر ہمارے پاس آئے اور ہمیں اپنی مدد اور حمایت کی دعوت دی، ہم نے دعوت کو قبول کر لیا۔ اتنے میں بیحرو بن فراس قشیری آیا اور اس نے آپ کی اونٹنی کو چھوا۔ اس نے بدک کر آپ کو نیچے گرا دیا۔ اس وقت ضباعہ بنت عامر ہمارے یہاں تھیں۔ وہ اپنے چچیرے بھائیوں سے ملاقات کرنے آئی تھیں اور ان کا شمار ان عورتوں میں ہوتا تھا جو مکہ میں اللہ کے رسول کے ساتھ اسلام میں داخل ہو چکی تھیں۔ جب آپ نیچے گرے تو اس نے آواز دی: اے بنی عامر، تمھارے سامنے اللہ کے رسول کے ساتھ یہ کچھ ہو رہا ہے اور تم میں سے کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر رہا، یہ سن کر اس کے چچیرے بھائیوں میں سے تین آدمی اٹھے۔ ان میں ہر ایک نے بحیرکے ایک ایک آدمی کو پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا۔ اس کے سینہ پر بیٹھ کر اس کے منہ کو اوپر اٹھا کر تھپڑ مارے۔ اس پر اللہ کے رسول نے فرمایا: یا اللہ، ان پر اپنی برکت نازل کر۔ وہ تینوں کے تینوں مسلمان ہو کر شہید ہوئے۔ اس خاتون نے اپنا رول اس وقت ادا کیا، جب اسلام ابھی حالت عزلت میں تھا۔

خاتون سے اس قدر بہادری کے کارنامے کیونکر سرزد ہوئے؟ اس قدر ایثار و قربانی کا اظہار وہ کیسے کر پائی، جبکہ ابھی مادی اور اقتصادی لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی اور ماحول زمانۂ جاہلیت کا سا تھابات یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں تبدیلی آچکی تھی۔ جن ارباب کی وہ زمانۂ جاہلیت میں پرستش کرتے تھے، وہ انھیں چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے تھے۔ نئے عقیدے نے ان کے اندر بے پناہ قوت پیدا کر دی تھی، جسے دیکھ کر اذیتیں دینے والے مشرکین بھی دنگ رہ گئے تھے۔

ہجرت میں خواتین کا کردار

ہجرت کی تعریف کیا ہے؟ اس تاریخی تحریک میں عورت کا کردار کیا تھا؟ کیا عورت پر بھی مرد کی طرح ہجرت واجب تھی؟ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟

عربوں کے یہاں جب بدو صحرا سے شہر کی طرف منتقل ہو جاتے، اسے ’مُہَاجَرۃ‘ (ہجرت) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مذہبی اصطلاح میں ایک سرزمین کو چھوڑ کر دوسری سرزمین کی طرف منتقل ہونا ہجرت کہلاتا ہے۔ مہاجر کو مہاجر اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اللہ کی رضا کی خاطر اس گھر بار کو خیرباد کہا، جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔ اسلام میں دو ہجرتیں ہیں: ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ۔

ہجرت اسلام کی دعوت کے لیے ایک ضروری سیاسی معاملہتھا تاکہ یہ دعوت اپنے اصل مقصد تک پہنچ جائے۔ اسلامی ریاست کا قیام تو دور کی بات ہے، مسلمانوں کے پاس نہ تو اتنی تعداد تھی اور نہ اتنا ساز و سامان جس کے برتے پر وہ مشرکین مکہ کا مقابلہ کرتے اور اللہ کی شریعت کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے۔ مکہ میں مسلمانوں پر بڑا کڑا وقت گزرا۔ وہ مکہ میں یا تو چوری چھپے رہتے تھے یا کسی کی پناہ میں۔ بعثت سے دس برس بعد جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے سفر سے لوٹے تووہ مکہ میں مطعم بن عدی کی پناہ کے بغیر داخل نہ ہو سکے۔ حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت ایک سوچی سمجھی سیاسی تحریک تھی جو اللہ کی نگرانی میں پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ مقصد یہ تھا کہ دعوت اور اس کی سیاست محفوظ رہے۔

ہجرت حبشہ ان مسلمانوں کے لیے ایک پسندیدہ فعل تھا جو اپنا دین بچا کر مکہ سے نکل سکتے تھے، مگر ہجرت مدینہ بشمول مرد اور عورت، سب مسلمانوں پر واجب تھی۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد شروع ہوئی اور فتح مکہ تک جاری رہی جب دعوت اسلام کے پاؤں جم گئے۔ یہ ہجرت مسلم حکومت کی خاطر ایثار، جذبۂ ایمان اور نصرت حق کی مظہر تھی۔

ہجرت حبشہ

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا دیکھا تو آپ نے فرمایا: ’’کاش، تم حبشہ کی سرزمین کی طرف نکل جاؤ، کیونکہ وہاں پر ایک ایسا بادشاہ ہے جو ظلم کی اجازت نہیں دیتا اور وہ سرزمین سچائی کی سرزمین ہے، یہاں تک کہ اللہ تمھیں اس مصیبت سے نکالنے کا راستہ پیدا کر دے جو تم پر گزر رہی ہے‘‘۔ یہ ۵ بعثت کا واقعہ ہے۔ جان بچانا دین بچانے کی تمہید ہے۔ ابن اسحاق نے لیلیٰ بنت ابی حثمہ سے روایت کی ہے کہ ہم حبشہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، (میرا شوہر) عامر ضرورت کی چیزیں لینے کے لیے باہر نکلا ہوا تھا کہ عمر جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور وہ ہمیں اذیت دیتے تھے، میرے یہاں آئے اور کہنے لگے: اے ام عبداللہ، کوچ کر رہی ہو؟ میں نے کہا: ہاں، ہم اللہ کی سرزمین سے نکل رہے ہیں، کیونکہ تم لوگوں نے ہم پر بہت سے ستم ڈھائے ہیں۔ ہم اس وقت تک نکلتے رہیں گے، جب تک اللہ ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں نکالتا۔

مسلمانوں کی زندگی میں عقیدے کا جو عمل دخل ہے، ہجرت اس کی عملی تطبیق ہے۔ اسلام اس عقیدے کے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ وطن اور رشتوں کے بندھن سے آزاد ہو جائیں۔ اورانھیں وہاں چین ملے جہاں ان کے عقیدے کو قرار حاصل ہو۔ ’’تاریخ طبری‘‘ میں ابن اسحاق سے مروی ہے: مہاجرین نے کہا: ہم ایک بہترین پڑوسی کی پناہ میں آ گئے ہیں۔ ہمارا دین محفوظ ہو گیا ہے اور ہم بغیر کسی کھٹکے کے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ ایک وقتی ہجرت تھی، جس کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام نہ تھا۔

ہجرت حبشہ میں خواتین کا کردار

پہلی ہجرت حبشہ میں گیارہ مرد اور چار خواتین تھیں۔ ان میں سے کچھ سوار تھے، کچھ پیدل راستے کی سختیاں سہتے ہوئے سمندر تک پہنچے۔ قریش نے ان کا پیچھا کیا، مگر وہ جا چکے تھے۔ خواتین میں رقیہ بنت رسول اللہ، جن کا اس ہجرت میں حمل بھی گر گیا تھا، سہلہ بنت سہیل بن عمرو القرشیہ، اس کا باپ قریش کا سردار تھا جس نے مشرکین کی طرف سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ تحریر کیا۔ اس کی ماں فاطمہ بنت عبدالعزی اوائل مسلمانوں میں سے تھیں، مگر انھوں نے ہجرت نہیں کی۔ یہ وہی خاتون ہیں جنھوں نے حذیفہ کے غلام سالم کو اپنا بیٹا بنایا اور پانچ روز تک اپنا دودھ پلایا۔ لیلیٰ بنت ابی حثمہ العدویہ اور ام سلمہ جو بعد میں ام المومنین ہو گئیں اور ہجرت حبشہ کے بارے میں ان کی روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ کتنی گہرائی کے ساتھ واقعات کا ادراک رکھتی تھیں اور انھوں نے ان واقعات کو تاریخ میں کیسے محفوظ کر لیا۔

دوسری ہجرت حبشہ میں مردوں کی تعداد ۸۳ تھی اور خواتین کی تعداد ۲۱ تھی۔ اس مین ان صحابی خواتین کا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو حبشہ میں پیدا ہوئیں۔ ان میں امہ بنت خالد بن سعید اور ربطہ بنت حارث کی بیٹیاں عائشہ، زینب اور فاطمہ تھیں۔

ہجرت کرنے والی عورتوں میں ام حبیبہ، اور فارعہ ابوسفیان کی بیٹیاں تھیں جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور سہیلہ اور ام کلثوم سہیل بن عمرو کی بیٹیاں تھیں جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اور تین امہات المومنین، ام حبیبہ، ام سلمہ اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہن تھیں۔ قریش نے نجاشی کے دربار میں اپنا وفد بھیجا جس نے مختلف حیلے بہانوں سے نجاشی کو مسلمانوں کے خلاف ورغلایا، مگر ناکام رہے۔ خواتین کو پردیس میں مردوں کے شانہ بشانہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔

کچھ خواتین حبشہ میں فوت ہو گئیں۔ ان میں فاطمہ بنت صفوان بن امیہ، ام خزیمہ (ام حرملہ) اور ربطہ بنت حارث تھیں۔ فاطمہ بنت حارث راستہ میں زہر آلود پانی پینے سے اپنے بیٹے موسیٰ اور دو بیٹیوں عائشہ اور زینب کے ساتھ فوت ہو گئیں۔ کچھ عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر حبشہ میں فوت ہوئے، مگر وہ اپنے عقیدے پر قائم رہیں۔ ان میں ام حبیبہ، فاطمہ بنت مجلل، رملہ بنت ابی عوف، فکیہہ بنت یسار کا شمار ہوتا ہے۔ فاطمہ بنت مجلل اپنے دو بیٹوں کے ساتھ کشتی میں واپس آئیں۔ رملہ بنت ابی عوف کا شوہر فوت ہوا تو ان کے یہاں ان کے بیٹے عبداللہ کی پیدائش ہوئی۔ ام حبیبہ کے شوہر عبداللہ بن جحش عیسائی ہو گئے، مگر وہ اپنے عقیدے پر قائم رہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کو خواب میں بری حالت میں دیکھا اور ڈر گئی۔ صبح ہوئی تو وہ عیسائی ہو گیا۔ میں نے اسے اپنا خواب بتایا، اس نے کوئی پروا نہ کی اور شراب نوشی کرتا رہا، یہاں تک کہ مر گیا۔ خواب میں مجھے ہاتف غیبی نے ام المومنین کے لقب سے پکارا۔

سورۂ حج (۲۲) کی آیت ۵۸ میں اللہ کا قول ہے:

وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ قُتِلُوْا اَوْ مَاتُوْا لَیَرْزُقَنَّہُمُ اللّٰہُ رِزْقًا حَسَنًا وَاِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ خَیْْرُ الرّٰزِقِیْنَ.’’اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل ہوئے یا مر گئے، ان کو اللہ اچھا رزق دے گا اور بے شک اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘

ہجرت مدینہ

جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت عقبہ ثانیہ لی تو آپؐ نے مسلمانوں سے کہا: بے شک، اللہ نے تمھارے بھائی بنا دیے ہیں اور تمھیں ایک گھر عطا کر دیا ہے جہاں تم چین سے رہ سکو گے تو وہ جوق در جوق مدینہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہجرت مدینہ ایک اہم موڑ ہے جس میں دین کی حفاظت کے لیے وطن کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلسل تیرہ برس تک اسلام بے وطن رہا اور مسلمان بغیر ریاست کے رہے۔ وطنیت کا نظام اور اس کے سیاسی حقوق ہجرت کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ ہجرت مدینہ ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جس کے چلانے والوں کے ہاتھ میں ایمان کے سوا کوئی ہتھیار نہ تھا۔ مسلمان مردوں اور عورتوں نے اس تحریک میں شانہ بشانہ حصہ لیا۔ وطن چھوڑنے سے بڑھ کر اور کون سی قربانی ہو سکتی ہے؟ مگر انھوں نے وطن پر عقیدے کو ترجیح دی۔ ہجرت دین کی راہ میں رنج و الم کی طویل داستان ہے۔

خواتین کی ہجرت

ہجرت مدینہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب تھی اور اس کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ خواتین نے یہ ہجرت اپنے عزیز و اقارب کی تقلید میں نہیں کی، بلکہ پورے ارادہ اور اختیار کے ساتھ اپنے عقیدے کی حفاظت اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کی۔

ابن سعد نے قبیلۂ قریش، اس کے حلیفوں اور موالیوں کی جن مسلمان خواتین کا ذکر کیا ہے، ان میں سے اکثر و بیشتر نے ہجرت کی۔ ان کے علاوہ دوسرے قبائل سے تعلق رکھنے والی تقریباً ساٹھ خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے ہجرت کی۔ ان کے علاوہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں اور دوسری رشتہ دار خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے۔

مہاجر خواتین کی مشکلات

ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی تیاری مکمل ہو چکی تو ان کے شوہر کے بھائی نے ایک اونٹ پیش کیا جس پر وہ سوار ہو گئیں۔ خود اس نے اپنا تیرکمان اٹھایا اور اونٹ کی مہار پکڑ کر چل پڑا۔ قریش کے لوگوں نے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ انھوں نے انھیں جا لیا۔ ہبار بن اسود آگے بڑھا، اس نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مارا وہ پیٹ سے تھیں، ان کا حمل گر گیا۔ قبیلۂ دوس کی عورت ام شریک کے شوہر حضرت ابوہریرہ کے ساتھ ہجرت کر چکے تھے۔ وہ اس تلاش میں تھیں کہ کوئی شخص ان کو مدینہ پہنچا دے۔ انھیں ایک یہودی ملا جس نے دم بھر لیا کہ وہ انھیں مدینہ پہنچا دے گا۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق اس یہودی کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی۔ ام شریک نے کسی الزام اور بہتان کی پروا کیے بغیر یہودی کے ساتھ مدینہ کا راستہ لیا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ ام ایمن کے پاس زاد راہ بھی نہ تھا، مگر انھوں نے پیدل مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ جب ابو سلمہ نے مدینہ کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا تو مجھے اور میرے بیٹے سلمہ کو اونٹ پر بٹھایا اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل پڑا۔ جب بنو مغیرہ کے آدمیوں نے اسے دیکھا تو انھوں نے اسے کہا: تم خود تو جا سکتے ہو، لیکن ہم یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ اپنی بیوی کو جگہ جگہ لیے پھرو۔ انھوں نے مجھے اس سے چھین لیا۔ ابوسلمہ کے خاندان والوں نے کہا کہ بخدا، اگر تم نے اس کی بیوی کو چھین لیا ہے تو ہم اس بچے (سلمہ) کو تمھارے حوالے نہیں کریں گے۔ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ کھینچا تانی میں سلمہ کا ہاتھ ٹل گیا اور ابو سلمہ کے خاندان والے اسے لے گئے۔ مجھے بنو مغیرہ نے روک لیا اور ابو سلمہ اکیلے مدینہ روانہ ہو گئے۔ میں ہر روز صبح مکہ کی وادی میں نکلتی اور شام تک روتی رہتی۔ تقریباً ایک سال گزر گیا، میرے چچیرے بھائیوں میں سے ایک کو میری حالت پر ترس آگیا۔ اس نے بنومغیرہ سے کہا: اس بے چاری کو جانے دو، تم نے اسے اس کے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے۔ پھر اس نے مجھے کہا: جاؤ اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ۔ بنو اسد نے میرا بیٹا بھی مجھے لوٹا دیا۔ میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر تن تنہا مدینہ کی طرف چل پڑی۔ جو کوئی مجھے ملتا اس سے کھانے کے لیے لے لیتی۔ جب میں مقام تنعیم پر پہنچی تو مجھے عثمان بن طلحہ ملے، انھوں نے پوچھا: ابو امیہ کی بیٹی، کہاں جا رہی ہو؟ میں نے کہا: مدینہ اپنے شوہر کے پاس، انھوں نے کہا: تمھارے ساتھ کوئی ہے؟ میں نے کہا: بیٹے کے سوا کوئی نہیں۔ انھوں نے میرے اونٹ کی لگام پکڑی اور چل پڑا۔ بخدا، عربوں میں سے اس سے بڑھ کر شریف النفس میں نے نہیں دیکھا۔

اکیلی یہ روایت یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ خواتین کو ہجرت کی راہ میں کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ام سلمہ کا قول ہے کہ بخدا، مجھے کسی مسلمان گھرانے کا پتا نہیں جس کو ابو سلمہ کے گھرانے سے بڑھ کر تکلیف پہنچی ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت میں خواتین کا کردار

وہ خاتون رقیقہ بنت ابی صفی بنت ہاشم تھیں جس نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ آج رات مشرکین آپ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ نبی پاک کے بستر پر اس رات حضرت علی رضی اللہ عنہ سوئے تھے۔ یہ خبر انتہائی صیغۂ راز میں رکھی گئی تھی۔ اس عمر رسیدہ خاتون نے جو اس وقت سو برس کے لگ بھگ تھی کس قدر کاوش اور حسن تدبیر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک خبر پہنچائی ہو گی۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے بیٹے مخرمہ پر بھی اعتماد نہ کیا، بلکہ بہ نفس نفیس خبر دینے کے لیے گئیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ ماریہ نیچے جھکی اور اس پر پاؤں رکھ کر آپ نے دیوار کو پھلانگا۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول خلاف معمول دوپہر کو آئے اور حضرت ابوبکر کو بتایا: مجھے ہجرت کا حکم ملا ہے۔ میں نے اور اسماء نے مل کر زادراہ تیار کی، اسے ایک تھیلے میں ڈالا۔ اسماء نے اپنے کمربند (نطاق) کے دو حصے کر کے تھیلے کا منہ باندھا، اسی وجہ سے حضرت اسماء کا لقب ذات النطاقین (دو کمر بندوں والی) پڑ گیا۔ یہ اسماء تھی جو سرشام کٹھن راستے سے ہوتے ہوئے غار حراء میں کھانا پہنچانے جاتی تھیں۔ کس قدر نڈر اور باہمت خاتون تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غار حراء میں پہنچنے کے بعد ابوجہل قریش کی جماعت کو لے کر حضرت ابوبکر کے گھر آتا ہے اور اسماء سے پوچھتا ہے: تمھارا باپ کہاں ہے؟ اسماء کہتی ہیں کہ مجھے علم نہیں، وہ ان کے منہ پر زوردار تھپڑ مارتا ہے جس سے ان کے کان کا بندہ نیچے گر جاتا ہے۔ وہ بڑی دانش مندی سے اپنے نابینا دادا کو مطمئن کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر ہمارے لیے کافی نقدی چھوڑ گئے ہیں، حالاں کہ حضرت ابوبکر ان کے لیے کچھ چھوڑ کر نہ گئے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماء کو اپنے گرد و پیش ہونے والے واقعات کا پورا ادراک تھا اور ہجرت کی اہمیت کا احساس تھا۔ انھوں نے جب ہجرت کی تو ان کے حمل کے آخری ایام تھے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مدینہ میں پیدا ہونے والے پہلے مولود ہیں۔

اس طرح خواتین نے نبی پاک کے لیے ہجرت کی راہ ہموار کی اور ہجرت کے راز کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ یہ راز صرف حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت رقیقہ، حضرت ماریہ، حضرت عائشہ اور حضرت اسماء تک محدود تھا۔ وہ خاتون ہی تھی جو جان کا خطرہ مول لے کر کھانا غار حراء میں پہنچاتی تھی۔ پھر جس نے مشرکین کی گالیاں بھی سنیں اور حالت حمل میں سفر کی تکلیف برداشت کی۔

ممتحنات

صلح حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان جو معاہدہ ہوا، اس کے مطابق نبی پاک اس بات کے پابند تھے کہ جو مکہ سے مدینہ سرپرست کی اجازت کے بغیر آئے گا، اسے واپس کر دیا جائے گا۔ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط اپنے والدین کو چھوڑ کر بنو خزاعہ کے ایک آدمی کے ساتھ مدینہ پہنچیں وہ نوجوان تھیں۔ اس کے گھر والے پیچھے پیچھے آئے اور نبی کریم سے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ جب آپ واپس کرنے لگے تو ام کلثوم بول اٹھیں: اے اللہ کے رسول، آپ مجھے مشرکین کے حوالے کر رہے ہیں جو میری ان چیزوں کو روا سمجھیں گے جنھیں اللہ نے حرام کر دیا ہے اور جو مجھے دین کے بارے میں آزمایش میں ڈالیں گے۔ چنانچہ اللہ کی یہ آیت نازل ہوئی:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا جَآءَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہَٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ.(المتحنہ۶۰: ۱۰)’’مومنو، جب تمھارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کا امتحان لے لو۔ اللہ تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ اگر تم کو معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو، (کیونکہ) یہ نہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے۔‘‘

یہ ام کلثوم مکہ سے مدینہ پیدل گئیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ عقیدے کو وطن پر کس قدر ترجیح دیتی تھیں۔ یہ پہلی خاتون تھیں جو صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائیں۔

چنانچہ ہجرت کرنے کے بعد مومن خواتین کو امتحان سے گزرنا پڑتا تھا کہ کہیں وہ دنیوی مقصد کے لیے تو وطن نہیں چھوڑ رہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ہجرت پر بیعت لیتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب آپ اعراب (بدوؤں) سے اس لیے بیعت نہیں لیتے تھے کہ آپ کو پتا تھا کہ یہ بدو بیعت کے حقوق ادا نہیں کر سکیں گے۔ اس بات کا ڈر تھا کہ وہ بیعت توڑ نہ دیں، کیونکہ ہجرت ایک شدید اور سنجیدہ فعل تھا۔ وہ خواتین سے اس لیے ہجرت پر بیعت لیتے تھے کہ ان کو یقین تھا کہ وہ بیعت کے تقاضے پورے کریں گی۔

ابن حجر نے ایسی سات خواتین کے نام گنوائے ہیں جن کو امتحان سے گزرنا پڑا۔ امام زہری کا قول ہے کہ مہاجر خواتین میں سے ایک خاتون بھی مرتد نہیں ہوئی۔

خواتیں کا امتحان یہ تھا کہ وہ توحید اور رسالت کی شہادت دیتیں اور کہتیں: بخدا، میں خاوند سے ناراض ہو کر یا ایک زمین کو چھوڑ کر دوسری زمین کی رغبت کی خاطر یا کسی دنیوی مصلحت کی خاطر نہیں آئی ہوں، بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی خاطر آئی ہوں۔ ان الفاظ کو قرآن نے امتحان سے تعبیر کیا ہے۔ عقیدہ اور دین کسی مسئلہ پر ایمان لانے کے دو اجزاے ترکیبی ہیں، اور اس کے سیاسی پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں۔ قرآن کی نص اس پر دلالت کرتی ہے کہ اسلام خاتون کے احساس ذمہ داری پر پورا اعتماد کرتا ہے اور اسے بھی زمین کی خلافت کا اسی طرح حق دار تصور کرتا ہے جس طرح مرد کو۔

ہجرت کی اہمیت

سورۂ نساء میں اللہ فرماتا ہے:

’’جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو (ان سے) پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں عاجز و ناتواں تھے۔ (فرشتے) کہتے ہیں کہ اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔ سوائے ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے جو نہ کوئی حیلہ کر سکتے ہیں اور نہ راستہ جانتے ہیں۔‘‘ (۴: ۹۷۔۹۸)

ان مستثنیٰ لوگوں کے لیے بھی اللہ نے حرف رجا ’عَسٰی‘ استعمال کیا ہے، یعنی ہو سکتا ہے کہ اللہ انھیں معاف کر دے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہجرت کے بغیر کوئی چارہ نہیں، خواہ اس کے لیے حیلے اختیار کرنے پڑیں یا تنگ راستے ڈھونڈنے پڑیں۔ قرآن ان لوگوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرتا ہے جو ضعف کو بہانہ بنا کر ذلت کی زندگی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ گویا وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ اس لحاظ سے ہجرت ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔ اور سورۂ انفال (۸) کی آیت ۷۲ کے مطابق جو ہجرت نہیں کرتا، وہ مسلمانوں کی ولایت کا حق دار نہیں، مسلمانوں کی ولایت کا حق دار صرف وہی ہے جو ہجرت کرتا ہے۔ عقیدے کی صورت میں دین کا وجود اللہ کا حکم ہے، لیکن اس کی عملی شکل یہ ہے کہ یہ ایک ایسے معاشرے میں ڈھل جائے جس کے افراد ایک قائد کے تحت وفاداری اور جان نثاری کے رشتہ سے منسلک ہو کر آگے بڑھتے رہیں۔ جاہلی معاشرے میں لوگ فرداً فرداً آگے بڑھتے ہیں، جبکہ اسلامی معاشرے میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ معاشرہ زیادہ مستحکم اور زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ہجرت کو مرد اور عورت پر اس لیے واجب کیا گیا ہے تاکہ وہ مل جل کر اس قسم کے معاشرے کی تعمیر کریں۔ مومن مردوں اور عورتوں کی دوستی ایمان کی دوستی ہے اور یہی وہ بندھن ہے جو زندگی کے ہر مرحلے میں ان کو ایک دوسرے سے باندھ کر رکھتا ہے۔ شریعت کے مقاصد کے حصول کے لیے یہ دوستی ازبس ضروری ہے۔ چنانچہ ہجرت ایک سیاسی عمل ہے جس کا مقصد دین کی حفاظت کے لیے ایک ریاست کا قیام ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ مسلمان مشرکوں سے الگ ہو جائیں، خواہ ان کے ساتھ ان کے نسبی رشتے ہوں۔ مسلم امت کا قیام ایک شرعی ضرورت ہے جس کو کوئی مسلمان مرد یا عورت نظر انداز نہیں کر سکتا۔

مہاجر خواتین کو اللہ نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ اپنے رسول کے لیے یہ شرط عائد کی کہ اگر وہ اپنی رشتہ دار عورتوں سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کا مہاجر ہونا لازمی ہے (الاحزاب ۳۳:۵۰)۔

خلاصۂ بحث

ہجرت اسلامی معاشرے کے لیے ایک اتحاد کی مضبوط اور پر مغز نمائندہ ہے۔ اس کے لیے مہاجر خواتین نے سخت مشکل حالات میں ہجرت کی۔ اپنی نسوانیت، عدم قدرت کو بہانہ بنا کر اس سے اعراض نہیں کیا۔ شادی شدہ، غیرشادی شدہ، چھوٹی بڑی سب خواتین نے ہجرت کی۔ خاوند کے ساتھ بھی اور خاوند کے بغیر بھی، محرم کے ساتھ بھی اور نامحرم کے ساتھ بھی، بلکہ ایک یہودی کے ساتھ بھی۔ حمل کے ابتدائی ایام میں بھی اور حمل کے آخری ایام میں بھی۔ حمل گرنے کی کوئی پروا نہ کی اور نہ اپنی عفت و کرامت کے سلسلہ میں کسی بہتان کو خاطر میں لائیں۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کی ان کی نظر میں کیا اہمیت تھی۔

خواتین اور بیعت

عہد نبوت میں خواتین کا سیاسی کردار بیعت کے عمل میں نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بیعت اسلام کے سیاسی نظام میں مردوں اور عورتوں کی طرف سے منہج اور شریعت کی پابندی کا عہد ہے کہ بیعت کرنے والا مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہے گا اور ان کے امام کی اطاعت کرے گا۔

اس کے تین ارکان ہیں: امام، امت اور شریعت۔ صرف بیعت کرنے سے ذمہ داری ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ ذمہ داری دین کی حفاظت، باہمی مشورے سے اسلامی قانون کے نفاذ اور حاکم کی نگہداشت تک یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ حاکم اگر سیدھے راستے سے ہٹ جائے تو اس کے ساتھ خیر خواہی کرنا اور ضرورت پڑنے پر اسے معزول کرنا بیعت کرنے والے کا فرض ہے۔

خواتین کی بیعت کے سلسلہ میں لکھنے والوں نے عموماً اپنی توجہ ان پہلوؤں پر مرکوز کی ہے جن کا عملی سیاست سے کوئی تعلق نہیں مثلاً ہند بنت عتبہ کی بیعت کے واقعہ میں صرف اس بات کو نمایاں کیا گیا ہے کہ آیا اسے شوہر کے مال سے خرچ کرنے کا حق ہے؟ یا مکہ میں عورتوں کی بیعت کے موقع پر ساری توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ عورت مصافحہ کرے یا نہ کرے اور بیعت میں استعمال ہونے والے لفظ ’المعروف‘ کے معنوں کو تنگ کر دیا گیا ہے، محض یہ دکھانے کے لیے کہ خواتین کی بیعت چند مخصوص احکام تک محدود تھی، یعنی بن سنور کر نہ نکلیں اور نوحہ گیری نہ کریں۔

بعثت کے پہلے سال ہی سے خواتین کی بیعت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (۵/ ۱۵۵) میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما جب مکہ آتے تو بنت ثابت کے ہاں قیام کرتے، اور بنت ثابت کا شمار ان سات خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے مکہ میں اللہ کے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان میں وہ تمام خواتین شامل ہیں جنھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہ بھی جنھوں نے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان پر بیعت کی۔ سیرت نگاروں نے ایسی چودہ خواتین کے نام گنوائے ہیں۔ ان تمام خواتین نے ایمان اور عقیدے پر بیعت کی۔

بیعت عقبہ ثانیہ

انصار نے تین مرتبہ منیٰ میں عقبہ کے مقام پر نصرت رسول اور جہاد کے لیے بیعت کی۔ پہلی مرتبہ وہ بہت کم تعداد میں تھے اور حلقۂ اسلام میں چھپتے چھپاتے داخل ہوئے۔ پھر اگلے سال بیعت عقبہ اولیٰ کی۔

اس سے اگلے برس انصار کے ۷۳ مرد اور دو خواتین مکہ آئے۔ وہ دو عورتیں نسیبہ بنت کعب ام عمارہ اور اسماء بنت عمرو تھیں۔ یہ بیعت اسلام کی حمایت میں ہر گورے اور کالے کے خلاف تھی۔ اس بیعت کے بدلے اللہ نے بیعت کرنے والوں سے جنت کا وعدہ کیا۔ یہ بیعت واضح طور پر اسلام میں امن اور جنگ، دونوں پہلوؤں پر حاوی تھی۔ یہ دونوں خواتین روایت کرتی ہیں کہ سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے بات شروع کی (وہ ان دنوں مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور کہا: اے خروج کے لوگو، ہمارے یہاں محمد کا جو مقام ہے تم لوگ جانتے ہو ہم پوری قوم کے مقابلے میں ان کی حفاظت کر رہے ہیں، وہ لازمی طور پر تمھارے یہاں جانا چاہتے ہیں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ ان کی دعوت پر لبیک کہنے، مخالفین کے مقابلے میں ان کی حمایت کرو گے تو ٹھیک ہے تم جانو اور تمھارا کام اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ان کا ساتھ نباہ نہیں سکو گے تو ابھی سے ان کو چھوڑ دو۔ انصار نے کہا: آپ نے جو کہا، ہم نے سن لیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپ بات کریں، آپ نے فرمایا: تم اس بات پر میری بیعت کرو گے کہ تم سستی اور چستی، دونوں حالتوں میں میری بات سنو گے، تنگی اور ترشی میں خرچ کرو گے، نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے، اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی کوئی پروا نہ کرو گے اور تم میری حفاظت اس طرح کرو گے، جس طرح تم اپنی اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس کے بدلے میں تمھیں جنت ملے گی۔ ان الفاظ پر مردوں اور خواتین، سب نے بیعت کی۔

اس بیعت میں خواتین کی موجودگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خواتین کو اپنے گرد و پیش کا ادراک تھا۔ صحابی خواتین کی اس بیعت میں شرکت جو نصرت اور جہاد کے لیے تھی اور جس کے نتائج بہت گھناؤنے تھے، ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ بیعت جہاد کے لیے تھی جبھی تو بخاری (رقم ۲۶۷۹) میں غزوۂ خندق کے موقع پر یہ الفاظ انصار کی طرف منسوب ہیں:

نحن الذین بایعوا محمدًا
علی الجہاد ما بقینا أبدا
’’ ہم وہ ہیں جنھوں نے جیتے دم محمد کے ہاتھ پر جہاد کے لیے بیعت کی ہے۔‘‘

ہجرت کے بعد ایمان پر بیعت

ام عامر اشہلیہ سے روایت ہے کہ میں، لیلیٰ بنت خطیم اور حوا بنت یزید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں اوڑھے ہوئے آئیں۔ وقت مغرب اور عشاء کے درمیان تھا۔ میں نے سلام کیا، آپ نے میرا حسب نسب پوچھا، میں نے اور میری دونوں سہیلیوں نے اپنا اپنا حسب نسب بتایا۔ آپ نے ہمیں خوش آمدید کہا اور فرمایا: تمھاری کیا حاجت ہے؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول، ہم اسلام کے لیے آپ کے ہاتھ پر بیعت کے لیے آئی ہیں۔ ہم آپ کی تصدیق کرتی ہیں۔ ام عامر کہتی ہیں کہ میں آپ سے قریب ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ میرا قول ایک عورت کے لیے بھی وہی ہے جو ایک ہزار عورتوں کے لیے ہے۔ ام عامر کہا کرتی تھیں: میں نے سب سے پہلے اللہ کے رسول کی بیعت کی (ابن سعد ۸/۲۴۷)۔ ابن سعد نے دس ایسی خواتین کے نام گنوائے ہیں جنھوں نے پہلے نبی پاک کے مدینہ پہنچنے کے بعد آپ کی بیعت کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاہتے کہ خواتین نیکی کے کاموں میں شرکت کریں توآپ اس قسم کی بیعت ان سے کیا کرتے تھے۔ امام بخاری نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ میں عید الفطر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ لگتا ہے کہ میں اب بھی انھیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں کو بٹھا رہے ہیں اور ان میں سے راستہ بناتے ہوئے بلال کے ساتھ خواتین کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:

یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْْءًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْْنَ اَیْْدِیْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(المتحنہ۶۰: ۱۲)’’اے پیغمبر جب تمھارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے آئیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہ شریک کریں گی، نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، نہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے متعلق کوئی بہتان تراشیں گی، نہ معروف میں تمھاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگو۔ بے شک، اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔‘‘

آیات کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر بیعت کرتی ہو؟ ایک عورت نے سب عورتوں کی طرف سے جواب دیا: ہاں، اے اللہ کے رسول۔ پھر حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا اور انھوں نے اس کپڑے میں اپنی چھوٹی بڑی انگوٹھیاں ڈالنی شروع کیں۔* اللہ چاہتا تھا کہ خواتین کے نفوس کو تمام آلایشوں سے پاک کر دے اور ان کے دین، عقیدے اور طرز زندگی سے ان آلایشوں کو علیحدہ کر دے تاکہ وہ ثابت قدمی کے ساتھ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے اصولوں کو قائم کر سکیں۔ یہ الفاظ عقیدے کے بنیادی عناصر کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہی نئی اجتماعی زندگی کے عناصر ہیں۔ اور آخری شرط ’لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ‘ پہلے مذکورہ تمام باتوں کا نچوڑ ہے۔ یہ اللہ کی اطاعت اور قرب، لوگوں سے حسن سلوک اور شریعت کے تمام اوامر و نواہی کے احکام کا ایک جامع نام، یعنی معروف ہے۔ لوگوں کو معروف کا حکم دینا اسلام کی تمام ہدایات کا جوہر ہے۔ اس شرط کے بارے میں سید قطب ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ اسلامی دستور کی بنیاد ہے۔ یہ قرار دیتی ہے کہ حاکم کی اطاعت صرف ان کاموں کے ساتھ مشروط ہے جن کا دین حکم دیتا ہے۔ یہ اطاعت مطلق اطاعت نہیں۔ قانون اللہ کا چلے گا، نہ کہ حاکم کا۔ امام اور امت، دونوں پر اللہ کا حکم چلے گا۔ ان کا اختیار اللہ کے اختیار کے تابع ہو گا۔ اگر خواتین اس بنیادی اصول کے مطابق بیعت کریں تو ان کی بیعت کو آپ بھی قبول کر لیں اور پچھلی باتوں سے ان کے لیے بخشش طلب کریں۔‘‘(۶/ ۳۵۴۸)

بعض مفسرین نے لفظ ’مَعْرُوْف‘ کو محدود معنی پہنا کر اس سے مراد نوحہ گری، غیر محرم کے ساتھ بات کرنا اور سفر کرنا لیے ہیں۔ آیت کے نزول کے وقت زمانۂ جاہلیت میں عورتیں ایسے کام کرتی تھیں جس کی بنا پر ابن عباس اور ان کے ساتھیوں نے سمجھا کہ معروف سے مراد کپڑے پھاڑنے، منہ نوچنے اور بال کھینچنے سے ممانعت ہے، حالاں کہ قرآنی نصوص کا مفہوم اس بات سے وسیع تر ہے کہ اسے کسی واقعہ کے ساتھ محدود کر دیا جائے۔

بیعت رضوان

سورۂ فتح میں اللہ کا قول ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْْدِیْہِمْ فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیْْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمْا.(الفتح ۴۸: ۱۰)’’وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں، وہ اللہ سے بھی بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ پس جو کوئی یہ بیعت توڑتا ہے، وہ اپنی جان کے نقصان کے لیے توڑتا ہے اور جو اس بات کو جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے، پورا کرے تو اللہ اسے عنقریب پورا اجر دے گا۔‘‘

یہ بیعت حدیبیہ کے مقام پر سمرہ، یعنی کیکر کے درخت کے نیچے ہوئی۔ اسے بیعت رضوان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا قول ہے:

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ.(الفتح ۴۸: ۱۸)’’(اے پیغمبر) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے راضی ہوا۔‘‘

مسلم میں روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ان شاء اللہ درخت والے جنھوں نے اس کے نیچے بیعت کی جہنم میں داخل نہیں ہوں گے۔* یہ بیعت موت پر تھی، عدم فرار پر تھی، ثابت قدم رہنے پر تھی۔ امام ذہبی نے ’’سیراعلام النبلاء‘‘ (۲/ ۲۹۷) میں ان سات خواتین کے نام گنوائے ہیں جو اس بیعت میں شامل تھیں۔

فتح مکہ کے بعد خواتین کی بیعت

بیہقی کے مطابق فتح مکہ کے بعد چھوٹے بڑے، مرد اور عورتیں آپ کے پاس آئے اور بیعت کی۔ ان میں ہند بنت عتبہ بھی تھیں۔ انھوں نے بیعت کے صیغوں پر جو سوال جواب کیے، وہ ان کی مضبوط شخصیت، کمال عقل، حق گوئی اور عربی خاتون کی شرافت و کرامت کو نمایاں کرتے ہیں۔ مثلاً جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر بیعت کرو کہ ہم اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی تو انھوں نے کہا: ہم نے تو ان کو پال پوس کر جوان کیا، لیکن آپ نے ان کو قتل کر دیا۔ اسے سن کر حضرت عمر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ اسی طرح جب نبی پاک نے فرمایا: اس بات پر بیعت کرو کہ تم چوری نہیں کرو گے تو انھوں نے کہا کہ میں ابوسفیان کے مال سے تھوڑا بہت اس کی اجازت کے بغیر لے لیتی تھی مجھے پتا نہیں کہ وہ حلال ہے یا حرام۔ ابوسفیان پاس ہی کھڑا تھا، کہنے لگا: جاؤ، میں نے تمھیں معاف کیا۔ جب آپ نے فرمایا: بیعت کرو کہ تم زنا نہیں کرو گی تو ہند نے فوراً کہا: اے اللہ کے رسول، کیا شریف زادی زنا کر سکتی ہے؟ یہ سب باتیں اس لیے کی گئیں کہ بیعت کرنے والا پاک صاف ہو کر پورے خلوص سے بیعت کرے اور اطاعت کے ساتھ معروف کی شرط واضح کرتی ہے کہ بیعت کرنے والا غیرمعروف کی اطاعت کا پابند نہیں۔ ابن عساکر نے ’’تراجم النساء‘‘ (۴۴۹) میں ایسی گیارہ خواتین کے نام گنوائے ہیں جنھوں نے فتح مکہ کے بعد ایمان اور اسلام پر بیعت کی۔

انصار کے ساتھ مخصوص بیعت

امام نسائی نے درج ذیل ترتیب میں انصار کے ساتھ مختلف بیعتوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے:

۱۔ ’البیعۃ علی السمع والطاعۃ‘ (سمع و اطاعت پر بیعت)۔

۲۔ ’البیعۃ علی أن لا تنازع الأمر أھلہ‘ (اس بات پر بیعت کہ ہم حکومت کے اہل لوگوں کے ساتھ تنازع کھڑا نہ کریں)۔

۳۔ ’البیعۃ علی قول الحق‘ (قول حق پر بیعت)۔

۴۔ ’البیعۃ علی القول بالعدل‘ (انصاف کی بات پر بیعت)۔

۵۔ ’البیعۃ علی الأثرۃ‘ (ترجیح و خود غرضی کے خلاف بیعت)۔

یہ سب اقسام حضرت عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں موجود ہیں جسے امام نسائی نے مختلف طریقوں سے روایت کیا ہے۔ بیعت کی ان سب دفعات میں مرد اور عورت، دونوں شامل ہیں۔ یہ سب الفاظ معروف کی تعریف سے خارج نہیں جس کا تذکرہ سورۂ ممتحنہ کی آیت میں کیا جا چکا ہے۔

بیعت کی بعض دفعات ایسی ہیں جن کا انحصار تاریخی حالات پر ہے۔ مثلاً موت پر بیعت، جہاد پر بیعت، ہجرت کے لیے بیعت اور عدم فرار پر بیعت۔ ان سب دفعات میں بھی مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔

دفعات میں اختلاف کے باوصف شرعی بیعت کا صیغہ مرد اور عورت کے لیے ایک ہے، اس لیے بیعت عقبہ اولیٰ کو اور آیت ممتحنہ والی بیعت کو عورتوں کی بیعت کا نام دینا قطعی درست نہیں۔ عقبہ اولیٰ کی بیعت میں کوئی خاتون شریک ہی نہ تھی۔ بیعت کی اصل نص وہی ہے جو سورۂ ممتحنہ میں بیان ہوئی ہے۔ خواہ بیعت مہاجر خواتین کے امتحان کی بیعت ہو یا فتح مکہ کی بیعت ہو۔ جتنی بھی بیعتیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر لیں، ان سب کی عبارت ایک ہی ہے۔ یہ سب بیعتیں مسلمان مردوں اور عورتوں نے رسول کی حیثیت سے بھی اور حاکم کی حیثیت سے بھی بیعت کی۔ نسائی (۷/ ۱۴۲) میں اللہ کے رسول کا قول نقل ہوا ہے: ’الا تبایعونی علی ما بایع علیہ النساء‘ (کیا تم مرد اس بات پر بیعت نہ کرو گے جس پر عورتوں نے بیعت کی ہے)؟

بیعت ایک واضح سیاسی فریضہ ہے۔ اللہ کے رسول نے صرف ایمان اور اخلاقیات پر عورتوں سے بیعت نہیں لی۔ آپ نے سمع و طاعت، نصرت رسول کے لیے بھی عورتوں سے بیعت لی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیعت ہر مسلمان عورت پر فرض عین تھی۔ بیعت ہر مسلمان مرد اور عورت کا حق ہے کہ حکومت کے سربراہ کے تعین کا یہ شرعی طریقہ ہے۔ امام کے تعین اور معزولی کا اختیار امت کے پاس ہے، اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست کی بنیاد سے پہلے مردوں اور عورتوں، سب سے بیعت لی۔

جہاد میں خواتین کا کردار

جہاد کا اصل مقصد اقامت دین اور اس کی حفاظت ہے، اور ہر اس سرکشی کا سامنا جس کا نشانہ شریعت اور اسلامی ریاست ہو۔

جہاد جمہور فقہا کے نزدیک فرض کفایہ ہے، یعنی ہر فرد اپنی وسعت کو دیکھ کر فیصلہ کرے گا کہ یہ اس کے لیے فرض کفایہ ہے کہ نہیں۔ خواتین کی شرکت جہاد میں واجب نہیں، مگر ان کو ممانعت بھی نہیں۔ جنگ میں خواتین کی شرکت عربوں کی قدیم روایت تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد جاہلیت کے جنگی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ فقہا کا بھی مسلک ہے کہ اگر دشمن چڑھ دوڑے تو پھر جہاد کیا مرد اور کیا عورت، سب پر واجب ہو جاتا ہے۔ مسلمان مرد اور خواتین دین کی حفاظت کے لیے ایک لشکر کی مانند ہیں۔ عہد نبوت میں جتنے بھی غزوات ہوئے، ان سب میں خواتین شریک تھیں۔ وہ زخمیوں کو اٹھاتیں، ان کی مرہم پٹی کرتیں، ان کو پانی پلاتیں، شہدا کو مدینہ پہنچاتیں اور ضرورت پڑنے پر شمشیر بہ کف دشمن کا مقابلہ کرتیں۔

_______________

B