HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

حضرت خالد اسلامی کیلنڈر شروع ہونے سے ۳۲ برس قبل (۵۹۲ء) میں قریش کے ذیلی قبیلے بنو مخزوم کے سردار ولید کے گھر پیدا ہوئے۔ قریش کی عسکری قیادت اسی قبیلے کے پاس تھی۔حضرت خالد کے والد الوحید (یکتا)اور العدل (انصاف پسند)کے القاب سے مشہور تھے۔ ان کے دادا کا نام مغیرہ تھا۔ ام المومنین میمونہ بنت حارث کی بہن لبابہ بنت حارث ان کی والدہ تھیں۔ساتویں پشت (مرہ بن کعب )پر ان کا سلسلۂ نسب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرسے جا ملتا ہے۔قریش کے رواج کے مطابق نو مولود خالد کو بھی ایک صحرائی قبیلے میں بھیج دیا گیا جہاں ایک بدو دایہ نے ان کی پرورش کی۔چھ سال کی عمر میں وہ مکہ واپس آئے۔بچپن میں انھیں چیچک ہوا جس کے مستقل نشانات ان کے بائیں گال پر موجود رہے۔ سیدناخالد کی کنیت ابو سلیمان تھی۔انھیں سیف اﷲ کا لقب خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عطا کیا تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں خالد کا شمار قریش کے اشراف میں ہوتا تھا۔وہ اپنے زمانے میں کشتی کے چیمپین اور بہترین گھڑ سوار تھے۔ انھوں نے تلوار زنی ،نیزہ بازی اور تیر اندازی میں مہارت حاصل کر رکھی تھی۔برچھا ان کا پسندیدہ ہتھیار تھا۔سیدناخالد قریش کی جنگوں کے لیے وسائل فراہم کرتے، ایک بڑا خیمہ(القبہ) نصب کیا جاتا جس میں تمام فوجی سازوسامان اور آلات حرب جمع کیے جاتے۔جنگ شروع ہوتی توخالد گھڑ سواروں(الاعنہ) کی قیادت کرتے۔ سیدناخالد بن ولیداورسیدنا عمر بن خطاب چچا زاد تھے ۔ان کی شکلوں اور قد کاٹھ میں مماثلت پائی جاتی تھی۔

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت کا منصب عطا ہوا تو خالد کے والد نے ان کی سخت مخالفت کی ۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں خالدکی کسی اسلام دشمن سرگرمی کا ذکر نہیں ملتا ۔ انھوں نے جنگ بدر میں بھی حصہ نہ لیا البتہ ان کے بھائی ولید بن ولید مشرکین کی طرف سے لڑے اور مسلمانوں کی قید میں آئے۔تب خالد اور ان کے تیسرے بھائی ہاشم ولید کو فدیہ دے کر چھڑانے کے لیے مدینہ گئے ۔تینوں مکہ لوٹ رہے تھے کہ ولید مدینہ واپس چلے گئے اور اسلام قبول کر لیا۔

جنگ احد میں خالدبن ولیدنے اہم رول ادا کیا۔وہ مشرکین کے دو سوگھڑسواروں پر مشتمل اس دستے کے میمنہ کے قائد تھے جس کاعلم طلحہ بن عثمان نے اٹھا رکھا تھا۔اس کے میسرہ کی کمان عکرمہ بن ابوجہل کے پاس تھی۔مسلمانوں کے پاس ایک گھوڑا بھی نہ تھا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم گھاٹی میں تھے کہ پہاڑی درے پر مامور دستے نے آپ کی واضح ہدایت کے باوجود اس اہم فوجی مقام کو چھوڑ دیا۔ خالدنے اس موقع کو غنیمت جانا اور پہاڑی پر چڑھ کر لشکر اسلام پر عقب سے حملہ کر دیاجس سے جیتی ہوئی جنگ شکست میں بدلتی دکھائی دینے لگی ۔ جنگ خندق (۵ھ، ۶۲۷ء) اہل اسلام کے خلاف خالد کی آخری جنگ تھی، اس میں بھی انھوں نے کفار کے گھڑ سواروں (cavalry)کی قیادت کی۔

۸ ھ میں عسفان کے مقام پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اورصحابہ کی مشرکین کے ایک جتھے سے مڈ بھیڑ ہوئی جس کی قیادت خالدبن ولید کر رہے تھے۔یہ دستہ قبلہ کی طرف ہونے کی وجہ سے نماز میں حائل تھا۔آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو مشرکوں نے حالت نمازمیں آپ پر حملہ کرنے کا مشورہ کیا۔کچھ نے کہا ، اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ مسلمانوں کو نمازاپنے بچوں اور اپنے آپ سے بھی زیادہ پیاری ہے۔ اسی موقع پرصلوٰۃ خوف کا حکم ( نسا: ۱۰۲) نازل ہوا۔اگلی نماز کا وقت آیا تو آپ نے صحابہ کو اسلحہ پکڑے رکھنے کا حکم دیا، دو صفیں بنائی گئیں جنھوں نے اکٹھے رکوع کیا۔ رکوع کے بعد اگلی صف سجدے میں چلی گئی جب کہ پچھلی صف نے کھڑے رہ کرپہرہ دیا۔اس کے بعد پہلی صف پیچھے ہٹ کر پہرے پر آ گئی اور دوسری صف نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔

۶ھ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم عمرہ کے قصد سے مکہ روانہ ہوئے تو قریش نے ذو طویٰ کے مقام پر جمع ہوکرعہد کیا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے ۔خالد بن ولیداہل ایمان کو روکنے کے لیے گھوڑسوار دستہ لے کرعسفان سے بھی آگے کراع غمیم کی وادی تک پہنچ گئے تھے۔

صفر ۸ ھ (۶۲۸ء)میں عمرو بن عاص ، خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہ اکٹھے مشرف باسلام ہوئے ۔خالدنے اپنے ایمان لانے کاقصہ یوں بیان کیاہے ، میں نے حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہونے والی تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ہر بار احساس ہوتا کہ میں غلطی پر ہوں اورحضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلمہی غالب آئیں گے۔ آپ نے حدیبیہ کا سفر کیا تو میں مکہ سے مشرکین کا گھڑ سوار دستہ لے کر نکلا۔ عسفان کے مقام پر ہمارا آمنا سامنا ہوا۔ ہمارے سامنے آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی ۔اس دوران میں ہم نے حملہ کرنا چاہا لیکن ہمت نہ ہوئی۔ عصر کے وقت آپ نے نمازخوف پڑھائی، ہم اس موقع سے بھی فائدہ نہ اٹھاسکے اور واپس چلے آئے۔صلح حدیبیہ کے بعد میں سوچنے لگا،کون سا مذہب اختیارکروں ؟نجاشی کے پاس جاؤں جس نے خود محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کا اتباع کر لیا ہے؟نصرانی بنوں یایہودی؟ کیا ہرقل کے پاس چلاجاؤں؟ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عمرۂ قضا ادا کرنے مکہ تشریف لائے ۔ میرا بھائی ولید بن ولید آپ کے ساتھ تھا۔اس نے مجھے ڈھونڈا، میں نہ ملا تواس نے خط لکھاکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمہارے بارے میں دریافت فرمایا ہے۔ میں نے کہا، اﷲ اسے آپ کے پاس لے آئے گا۔آپ نے فرمایا ، اس جیسا شخص بھی اسلام سے جاہل ہے؟بھائی کا خط ملنے پر میری اسلام سے رغبت بڑھ گئی ۔ یہ جان کر کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے بارے میں پوچھاہے، بڑی مسرت ہوئی۔اب میں نے مدینہ جانے کاعزم کر لیا،مجھے کسی ساتھی کی تلاش تھی جو میرے ساتھ چلے۔ صفوان بن امیہ سے بات کی تو اس نے سختی سے انکار کر دیا۔ عکرمہ بن ابو جہل بھی آمادہ نہ ہوئے تاہم ،جب ابوسفیان نے خالد کو ڈرایا دھمکایاتو عکرمہ نے اسے روکا اور کہا، اگر تم نے زور زبردستی کی تو میں بھی محمدصلی اﷲ علیہ وسلم سے جا ملوں گا۔اب میں گھر گیااورسواری لے کر نکلا ۔ عثمان بن طلحہ سے ملاقات ہوئی، وہ میرے ہم سفر بننے پر تیار ہوگئے۔ہم نے طے کیا کہ اگلی صبح پو پھٹنے سے پہلے یاجج کے مقام پر ملیں گے۔ وہاں سے ہم نے سفر کاآغاز کیا ،ہدہ پہنچے تو عمرو بن عاص سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے پوچھا ، کہاں کا رخ ہے؟ہم نے بتایا،اسلام قبول کرنے جا رہے ہیں تو انھوں نے کہا،میرا بھی یہی ارادہ ہے۔چنانچہ ہم تینوں اکٹھے روانہ ہوئے ، شہرمدینہ میں داخل ہوئے تو عصر کی نماز کا وقت تھا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت مسرور ہوئے۔خالد کہتے ہیں ،میں نے کلمۂ شہادت پڑھااورہاتھ بڑھا کر آپ کے دست مبارک پربیعت کی۔ آپ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ، فرمایا،مجھے امید تھی کہ تمہاری دانش تمہیں خیر تک لے آئے گی۔ وہاں موجود صحابہ بھی بہت خوش تھے۔ میں نے اسلام کے خلاف اپنی معاندانہ سرگرمیوں کی معافی کے لیے دعا کی درخواست کی تونبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، اسلام گزشتہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے ۔میں نے کہا، یا رسول اﷲ!پھر بھی دعا کر دیجیے۔آپ نے دعافرمائی،’’اے اﷲ!خالدکا ہر گناہ بخش دے جو اس نے تیری راہ سے روکنے کے لیے کیا ۔‘‘عثمان اور عمرو بھی آگے بڑھے اور بیعت ایمان کی۔ ابن عاص کہتے ہیں، تب سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حربی معاملات میں کسی کو بھی میرے اور خالد کے برابر نہیں سمجھا۔ابوبکر و عمر کے عہد ہائے خلافت میں بھی ہمارا یہی مرتبہ رہا۔دوسری روایت کے مطابق خالد ۵ ھ میں غزوۂ بنوقریظہ کے بعد مسلمان ہوئے۔اس حساب سے ان کا صلح حدیبیہ(۶ھ)اور جنگ خیبر (۷ھ ) میں جیش نبوی کے سواروں کی قیادت کرنا درست معلوم ہوتا ہے۔

قبول اسلام کے بعدخالد مدینہ منتقل ہو گئے۔ان کی آمد کے تین ماہ بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شام کے غسانی حکمران کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ایک وفد روانہ فرمایا۔یہ موتہ سے گزر رہا تھا کہ وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمرو نے روک کر اس کے تمام ارکان کو شہید کر دیا۔آپ نے شہدا کابدلہ لینے کے لیے فوراًزید بن حارثہ کی سربراہی میں ایک دستہ روانہ کیاجس میں خالد بھی شامل تھے۔ قبول اسلام کے بعد یہ ان کا پہلا معرکہ تھا۔اس جنگ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقررکرہ تینوں کمانڈر،آپ کے آزاد کردہ زید بن حارثہ،آپ کے چچا زاد جعفر بن ابوطالب ذو الجناحین اور عبداﷲ بن رواحہ باری باری شہید ہوگئے توجیش اسلامی پر امیر نہ رہا۔ تب خالد بن ولید نے فوراً ازخودکمان سنبھال لی ۔انھوں نے علم تھام کر دشمن پر حملہ کر دیا اور فتح حاصل کی۔ خالد کہتے ہیں ،موتہ کے دن میرے ہاتھ میں ۹ تلواریں ٹوٹیں، آخر میں ایک چوڑی یمنی تلوار ہی رہ گئی ۔ اس موقع پررسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں موجود تھے، آپ منبر پر تشریف لائے۔شہدا کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا،علم زید نے تھامااور شہید ہو گئے پھر جعفر نے پکڑا اور شہادت پائی۔ اس کے بعدیہ ابن رواحہ کے ہاتھ آیا،انھوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ۔آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ فرمایا،آخرکار علم اﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد)نے پکڑا اور اﷲ نے انھیں فتح دی۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں’’خالد ایک تلوار ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے مشرکوں پر مسلط کر دیا ہے۔‘‘خالد کے ہاتھ کمان آئی تو انھوں نے لشکر کی ہےئت بدل دی،مقدمہ کوساقہ کی جگہ ،ساقہ کو مقدمہ کی جگہ اور میمنہ کو میسرہ کی جگہ کر دیا۔اگلے دن تین ہزار کفارروم پر مشتمل لشکر کومسلمانوں کے ہاتھ وہ پہلے پرچم دکھائی نہ دیے اورفوج کی ترتیب بھی بدلی بدلی نظر آئی تو سمجھے کہ اسلامی فوج میں نئی کمک آ گئی ہے۔ اصل میں یہ وہ چھوٹے چھوٹے دستے تھے جو خالد نے رات کے اندھیرے میں پیچھے بھیج دیے تھے اور انھیں صبح کے وقت ایک ایک کر کے جنگ میں شامل ہونے کی ہدایت کی تھی۔دشمن کا مورال گر گیا تو خالد نے اگلا پورا دن دفاع کمزور نہ ہونے دیا،رات ہوئی تو وہ اپنی فوج کو بحفاظت نکال لائے۔رومی فوج نے خالد کی واپسی کو بھی ایک چال سمجھا اور پیچھا نہ کیا۔

عوف بن مالک اشجعی نے زیدبن حارثہ اور یمن کے ایک مددگار کے ساتھ غزوۂ موتہ میں شرکت کی۔مددگارنے ایک رومی جرنیل کو قتل کر کے اس کا گھوڑا اور سونا جڑے ہوئے ہتھیاروں اور زین پر قبضہ کر لیا۔جنگ ختم ہوئی تو خالد بن و لید نے یہ مال غنیمت اس سے واپس لے لیا۔عوف نے ان سے کہا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ میں قتل ہونے والے کافر کے مال و متاع (سلب)کا فیصلہ اس کے قاتل کے حق میں کر رکھا ہے؟ خالد نے کہا ، درست ہے لیکن یہ مال بیش قیمت ہے۔عوف نے کہا، اس کا مال واپس کر دیں ورنہ میں یہ معاملہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے علم میں لاؤں گا۔خالد پھر بھی نہ مانے تو قضیہ آپ کے حضور پیش ہوا۔آپ نے حکم دیا،خالد!اس سے لیا ہوامال واپس کر دو۔عوف سے تفصیل سن کر آپ کوسخت غصہ آیا، ارشاد فرمایا،تم چاہتے ہو،کمانڈروں کو عمدہ مال غنیمت دے دیا حائے اورسپاہیوں کو ردی مال پر ٹرخا دیا جائے۔

فتح مکہ کے روز خالدایک چوتھائی اسلامی فوج،میمنہ کے قائد تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیاکہ وہ اپنا دستہ لے کر کدا کی طرف سے بالائی مکہ میں داخل ہوں۔وہ زیریں مکہ(کدی،لیط) سے آئے۔اس موقع پر صفوان، عکرمہ اور سہیل مکہ کے خندمہ نامی پہاڑ پر جمع تھے ۔ان کا ارادہ تھا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں۔ خالد کے دستے سے ان کی مڈھ بھیڑ ہوئی۔ خالد نے بنوبکر کے ۲۰ اور ہذیل کے ۴ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارکر قریش کی گھڑ سوار فوج تباہ کردی۔ ان کے دستے میں شامل حبیش بن اشعر ،کرز بن جابر اور سلمہ بن میلا شہید ہوئے۔آخر کار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خالد کو قتل و غارت سے منع فرما دیا،اسی دوران میں وہ مزید ستر مشرکوں کو جہنم واصل کر چکے تھے ۔دوسرا دستہ جو زبیر کی سربراہی میں مکہ میں داخل ہوا تھا ،کسی تصادم سے محفوظ رہا۔

فتح مکہ کے پانچویں روز (۲۵ رمضان کو) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو مشرکوں کا بڑا بت عزیٰ منہدم کرنے کے لیے بھیجا۔اسے مکہ اور طائف کے درمیان واقع کھجور کے ایک بڑے درخت پرجسے قریش ،کنانہ اور مضر بڑا مقدس سمجھتے تھے مسند نشین کیا کیا تھا۔دوسری روایت کے مطابق یہ ببول کے تین درختوں پر معلق گھر میں پڑا تھا۔ بنو سلیم سے تعلق رکھنے والے عزیٰ کے متولی نے خالد کی آمد کی خبر سنی تو تلوار عزیٰ کے گلے میں لٹکا دی اور دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ گیا۔خالد آئے ، کلہاڑے سے عزیٰ کا ناک توڑ ا ،اسے گرادیا،بت خانہ توڑا اور اس میں موجود مال و دولت اٹھا لیا۔انھوں نے یہ شعربھی پڑھا،

یا عز کفرانک لا سبحانک    انی رأ یت اﷲ قد اہانک
(اے عزی !تمہاراانکار ہے،تو لائق تسبیح نہیں،میں نے دیکھا ہے کہ اﷲ نے تمہیں رسوا کر دیا ہے)

خالد نے لوٹ کر نبئ اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا، یہ عزیٰ تھا ،اب کبھی اس کی پوجا نہ ہو گی۔۹ھ میں بنوثقیف کا وفد مدینہ آیااور آپ سے اسلام کی تعلیمات حاصل کیں۔انھوں نے اپنے بت لات کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا،اسے توڑ ڈالو ۔کہنے لگے، یہ کام ہم سے نہ ہو گا ،آپ ہی اس کی ذمہ داری لیں چنانچہ آپ نے خالد بن ولید کی سربراہی میں ایک جماعت ان کی طرف بھیجی۔ مغیرہ بن شعبہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے لات کو ریزہ ریزہ کیا ۔

فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو قبیلۂ بنو جذیمہ کی طرف بھیجا ۔آپ کا مقصد جنگ کے بجائے اسلام کا پیغام پہنچانا تھا ۔سلیم بن منصور اور مدلج بن مرہ کے قبائل ان کے ساتھ تھے۔بنو جزیمہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو آتا دیکھ کر ہتھیار اٹھا لیے۔خالدنے کہا، لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ، اب اسلحہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔لیکن ایک شخص جحدم نے کہا، یہ خالد ہے ،ہتھیار پھینکنے کے بعد قید کرلیتا ہے اور پھر گردن اڑا دیتا ہے۔قبیلے کے باقی لوگوں نے اس سے اتفاق نہ کیا اور ہتھیار ڈال دیے۔اس کے بعد خالدنے واقعی قتل و غارت شروع کر دی اورمارنے کے علاوہ کئی لوگوں کی مشکیں کس کرقید کر لیا۔ اگلی صبح انھوں نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کردے۔عبد اﷲ بن عمر نے کہا،میں اور میرے ساتھی اپنے قیدیوں کو قتل نہ کریں گے۔پھر یہ سب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اورسارا معاملہ بتایا۔ آپ نے دریافت فرمایا، کیا کسی نے ان کو منع بھی کیا؟لوگوں نے بتایا، ہاں !ایک شخص نے روکا تو خالد نے اسے ڈانٹ پلا کر بٹھا دیا اور دوسرے کے ساتھ سخت بحث کی۔یہ عبداﷲبن عمر اور ابو حذیفہ کے آزاد کردہ سالم تھے۔ آپ نے ہاتھ بلند کر کے دو باراظہار برآت کیا۔ ’’اے اﷲ!میں خالد کی کارروائی سے بری الذمہ ہوں۔ یہ بھی روایت میں ہے کہ خالد نے بنو جزیمہ کواسلام کی دعوت دی تو ان کے منہ سے اسلمنا(ہم مسلمان ہوئے) کے بجائے صبأنا(ہم ستارہ پرست ہوئے) نکل گیا۔عبدالرحمان بن عوف نے خالد کو ملامت کی کہ تم نے مسلمان ہو کر جاہلیت کا کام کیاہے ۔خالد نے کہا،میں نے تمہارے باپ عوف کے قتل کا بدلہ لیا ہے۔ عبدالرحمان نے کہا ، تو غلط کہتا ہے، تم نے تو اپنے چچا فاکہ بن مغیرہ کا بدلہ لیا ہے ۔ یہ دونوں دور جاہلیت میں ایک تجارتی قافلے کے ساتھ یمن سے واپس آ رہے تھے کہ بنو جزیمہ کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ عمر نے خالدکو برا بھلا کہاتو انھوں نے پوچھا ، تمہیں کس نے بتایاکہ وہ مسلمان ہوئے تھے؟جواب دیا، تمام اہل لشکر نے۔آخرکار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بلاکر فرمایا،جا کر ان کا معاملہ دیکھو اور جاہلی رسوم پامال کر دو۔آپ نے ان کو مال بھی دیا جس سے انھوں نے مقتولین کی دیتیں ادا کیں۔ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق خالد نے بتایاکہ عبداﷲ بن حذافہ نے انھیں قتال کا مشورہ دیا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس واقعے کے بعد بھی خالد کو معزول نہ فرمایا۔ خالد نے طائف کے محاصرے میں بھی حصہ لیا۔

جنگ حنین میں خالدسو شہ سواروں پر مشتمل جیش اسلامی کے مقدمۃ الجیش کے قائد تھے ۔وہ شدید زخمی ہو گئے تونبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے ان کی خبر لینے گئے۔

۹ھ میں خالدنے غزوۂ تبوک میں شرکت کی ، واپسی کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خالد کو ۴۰۰ سے زائدگھڑ سواروں کے ساتھ دومۃ الجندل کے نصرانی سردار اکیدر کی طرف بھیجا۔خالدنے عیسائی شہزادے کو یرغمال بنا لیا تو قلعے کا دروازہ کھلااور اکیدر اور اس کا بھائی گھوڑوں پرسوار ہو کر باہر نکلے۔ اس کا بھائی جیش نبوی کے ہاتھوں مارا گیاتو خالد نے اس کی سونے کے پتروں سے مزین ریشمی قبا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کوبھیج دی۔پھروہ اکیدر کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے،دومہ کے۸۰۰ قیدی ، ۱۰۰۰ (یا دو ہزار)اونٹ ،آٹھ سو بھیڑیں،۴۰۰ زرہیں اور ۴۰۰ نیزے ان کے ساتھ تھے ۔ آپ نے جزیہ لینے کی شرط پر اس سے صلح کر لی۔ ایک ماہ بعد آپ نے خالد کو ود بت تباہ کرنے کے لیے دوبارہ دومۃ الجندل بھیجا۔

۱۰ھ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے خالد کواہل نجران کی طرف بھیجا اور ہدایت فرمائی، تین بار اسلام کی دعوت دینا۔ وہ پھر بھی نہ مانے توان سے قتال کرنا۔ خالدنے اپنے ساتھیوں کو نجران کے تمام اطراف میں پھیلا دیاجو لوگوں سے کہتے ، مسلمان ہو جاؤ، سلامتی پاؤ گے۔الحمد ﷲان کی دعوت کو قبول عام ملا ۔ خالد نے نومسلموں کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ کیا اور ایک خط لکھ کرآپ کو حالات کی خبر دی۔آپ نے جواب میں انھیں واپس آنے کو کہا۔خالد کے ساتھ نجران میں مقیم بنو حارث کا ایک وفد بھی مدینے آیا۔ آنحضور صلی علیہ وسلم نے قیس بن حصین کو ان کا امیر مقرر کیا۔

۱۰ھ ہی میں حجۃ الوداع سے قبل نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل یمن کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خالد کو بھیجا۔وہ ۶ ماہ وہاں مقیم رہے لیکن کسی نے اسلام قبول نہ کیا۔پھر آپ نے حضرت علی کو بھیجا اور خالد کو لوٹ آنے کو کہا۔خالدکے ساتھیوں کو آپ نے یمن میں رہنے یا واپس آنے کااختیار دے دیا۔سیدناعلی کے آنے پر قبیلۂ ہمدان اجتماعی طور پر ایمان لے آیا۔سیدناعلی نے یمن سے سونے کی ایک ڈلی مدینہ بھیجی تو اسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور عامر بن طفیل(یا علقمہ بن علاثہ) میں بانٹ دیا۔ایک صحابی نے کہا، میں ان سے زیادہ حق دار تھا۔آپ نے فرمایا،مجھ پربھروسا رکھو، میں امانت دار ہوں۔ایک منافق بول اٹھا،یا رسول اﷲ! اﷲ سے ڈریے۔فرمایا،مجھ سے زیادہ کون اﷲ سے ڈرے گا۔خالد بن ولید پاس بیٹھے تھے۔انھوں نے کہا،یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں۔آپ نے جواب دیا، شاید یہ نماز پڑھتا ہو۔خالد نے کہا، بہت سے نمازی زبان سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا،مجھے یہ حکم نہیں ملا کہ لوگوں کے دل کریدوں اور ان کے پیٹ شق کروں۔

حجۃ الوداع میں خالدآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔آپ نے حلق کرایا تو خالد نے آپ کے سر مبارک کے چندبال حاصل کیے ۔ عمر بھرانھوں نے ان کو اپنے ساتھ رکھا۔

بعثت نبوی سے پہلے یمن حبشہ (Ethiopia) کے تسلط میں تھا۔اس کا حاکم ابرہہ خانہ کعبہ پر چڑھائی کی پاداش میں عذاب الٰہی کا شکار ہواتو سیف بن یزن حمیری نے ایرانیوں کی مدد سے اپنا ملک آزاد کر الیاتب سے وہاں ایک ایرانی گورنر مقرر رہتا۔۷ ھ میں نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایران کے کسریٰ پرویز کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خط لکھا تو اس نے پڑھنے سے پہلے ہی پھاڑ دیااور یمن میں اپنے گورنر باذام(بادام) کومدینہ کے حالات کی خبر دینے کا حکم دیا لیکن جب آپ کی پیش گوئی کے مطابق خسروپرویزاپنے ہی بیٹوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ یمن اسلامی حکومت کی عمل داری میں آ گیا تو آپ نے باذام کو وہاں کا گورنر رہنے دیا۔اس کی وفات کے بعد آپ نے یمن کی حکومت شہربن باذام اور اپنے متعدد صحابہ میں بانٹ دی ۔آپ کے حکم سے خالد بن ولید بھی وہاں گئے لیکن جلد واپس آ گئے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعدخلیفۂ اول سیدنا ابوبکر نے فرمان نبوی کی تعمیل کرتے ہوئے سب سے پہلے جیش اسامہ کو روانہ کیاپھر گیارہ کمانڈروں کی سربراہی میں تمام اطراف میں اپنی فوجیں بھیجیں۔ خالدبن ولید کو پرچم دے کر بنو اسد کے طلیحہ بن خویلد کی طرف بھیجاجس نے دعوئ نبوت کر کے غطفان،فزارہ ،عبس اور ذبیان قبائل کو ساتھ ملا لیا تھا۔بنو طے کے کچھ افراد نے اس کی حمایت کی جب کہ باقی اسلام پر قائم رہے۔ عدی بن حاتم طائی زکوٰۃ ادا کر مدینہ سے لوٹے تو اپنے قبیلے کو اسلام کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔لوگ مان گئے تو انھوں نے خالد بن ولید سے تین دن کی مہلت لے کر طلیحہ کے لشکر میں موجود اپنے پا نچ سو آدمیوں کو واپس بلا لیا۔خدا کی قدرت کہ طلیحہ کو شبہ تک نہ ہوااور یہ آدمی جیش اسلامی کے سپاہی بن گئے۔ خالد کا ارادہ انسر جا کر قبیلہ جدیلہ سے جنگ کرنے کا تھا۔عدی نے کہا، اگر طے قبیلہ پرندہ ہوتا توجدیلہ ا س کا پر بنتا۔ مجھے جدیلہ جانے دیں ، اﷲ اس قبیلے کو بھی ارتداد سے بچا لے گا۔ ایسا ہی ہو، جدیلہ کے ایک ہزار سوار مرتدین کے جتھے سے ٹوٹ کرمسلم فوج میں شامل ہو گئے۔خالدنے اجا اور سلمیٰ پہاڑیوں کے دامن میں رک کر اپنی فوج کی ترتیب کو درست کیا۔بزاخہ کے مقام پر ان کا طلیحہ سے مقابلہ ہوا۔بنو فزارہ کے عیینہ بن حصن نے سپہ سالاری سنبھالی،سات سو فزاری اس کے ساتھ تھے۔ اس دوران میں طلیحہ کمبل اوڑھے وحی کا انتظار کرتا رہا۔عیینہ جنگ سے تنگ آ گیا تو طلیحہ سے پوچھا ، کیا جبرئیل آ گئے؟ اس نے کہا، نہیں۔ وہ پھر جنگ میں مصروف ہوا ۔تیسری بار طلیحہ نے ایک مہمل وحی سنا دی ، ادھراسلامی فوج کا دباؤ بڑھ چکا تھا۔عیینہ نے اپنی قوم کو پکارا، بنو فزارہ! طلیحہ کذاب ہے ، بھاگ کر اپنی جانیں بچاؤ۔ طلیحہ نے ایک گھوڑے اور اپنی بیوی نوار کے لیے اونٹ کا انتظام کیا ہوا تھا ، فوج سے یہ کہہ کر بھاگ کھڑا ہوا ، تم بھی اپنی اور اہل و عیال کی جانیں بچاؤ۔اس نے شام جا کر بنو کلب میں سکونت اختیار کر لی ، اس کے اکثر حلقہ بگوش مسلمان ہو گئے تو وہ بھی اسلام لے آیا ،عہد فاروقی میں اسے دوبارہ بیعت کا موقع ملا۔خالدنے عیینہ اور طلیحہ کے دوسرے حلیف قرہ بن ہبیرہ کو گرفتار کر کے مدینہ بھیج دیا۔ انھوں نے حضرت ابوبکر کے سامنے توبہ کی اور بعد میں اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔

خالدنے بزاخہ میں ایک ماہ قیام کیا۔اس دوران میں بنوغطفان کے شکست خوردہ ایک عورت ام زمل (سلمیٰ بنت حذیفہ) کی قیادت میں جمع ہو گئے۔ اس نے خالد سے جنگ کی تیاری شروع کر دی،بنوسلیم،بنوطے،بنوہوازن اوربنواسد کے قبائل بھی اس کے ساتھ مل گئے۔خالد کو علم ہوا تو انھوں نے آگے بڑھ کر حملہ کیااور اسے ہزیمت سے دو چار کیا۔ انھوں نے بنو سلیم کے مردوں کو اونٹوں کے باڑوں میں اکٹھا کر کے آگ لگا دی توسیدنا عمر نے اعتراض کیا اورسیدناابوبکر سے کہا، کیا آپ ایسے شخص کوکھلا چھوڑ دیں گے جو اﷲوالی سزائیں خود ہی دینے لگا ہے۔انھوں نے جواب دیا، اﷲکی قسم! میں اس تلوار کو نیام میں نہیں ڈالوں گا جو اﷲ نے اپنے دشمن پر سونتی ہے۔

مالک بن نویرہ بنوتمیم کی شاخ بنو یر بوع کاسردار تھا۔نبئ اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعداس نے ابو بکر کی خلافت کو ماننے او رانہیں زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔وہ اپنے قبیلے کی مدعےۂ نبوت سجاح بنت حارث کے ساتھ مل گیا جو ایک ذہین کاہنہ تھی۔ اسے لوگوں کو اپنے پیچھے لگانا آتا تھااسی لیے اس یقین کے ساتھ دعوئ نبوت کیا کہ تمام تمیمی اس پر ایمان لے آئیں گے ۔ ایرانی عمال اس کی پشت پر تھے، ان کی منصوبہ بندی کے مطابق یہ عرب میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑک اٹھنے تک مقیم رہی اور مقصد پورا ہونے کے بعدعراق چلی گئی ۔ وکیع نے بھی سجاح کا ساتھ دیا، ان تینوں نے اپنے ہی قبیلے بنو تمیم کے دوسرے سرداروں پر حملہ کر دیا۔جلد ہی مالک اور وکیع کومحسوس ہو کہ انہوں نے اس عورت کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔سجاح تمیم سے نا مراد پلٹی،مدینہ کو جاتے ہوئے نباج میں اوس بن خزیمہ سے شکست کھائی تو یمامہ آن پہنچی۔ یہاں کے نبی مسیلمہ کو اپنی نبوت کی فکر پڑ گئی تواس نے دونوں نبوتوں کو جمع کرنے کے لیے سجاح کو دام میں پھنسایا او راس سے شادی کر لی۔ادھر مالک بن نویرہ اکیلا رہ گیا کیونکہ اس کادست راست وکیع مسلمان ہوکر زکوٰۃ ادا کر چکا تھا۔خالد بن ولید بنو اسد و غطفان کی سرکوبی سے فارغ ہو ئے تو بنو تمیم کا رخ کیا ، بنواسد او ر بنوتمیم کے درمیان واقع مقام بطاح پر انہوں نے پڑاؤ ڈالا۔انصار پہلے تو بزاخہ میں رہ گئے ، ان کا خیال تھا کہ خلیفۂ اول کے احکام پر عمل ہو چکا ہے۔خالد نے اصرار کیا کہ وہ کمانڈر ہیں اورنئی صورت حال میں ازخود فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں تو وہ ان کے ساتھ آن ملے۔بنوتمیم نے اطاعت قبول کی تاہم مالک روپوش ہو گیا۔ خالد کا بھیجا ہوا ایک دستہ اسے گرفتار کر لایا۔اس نے اسلام کی طرف رجوع کیا اور مسلمانوں کے ساتھ نمازادا کی لیکن زکوٰ ۃ دینے سے پس و پیش کیا چنانچہ خالد نے ا س کو قتل کرا دیا۔ خالدکا مالک کو قتل کرانا بہت نزاع کا باعث بنا ۔ابو قتادہ انصاری مالک کو گرفتار کرنے والے دستے میں شامل تھے۔وہ کہتے ہیں، اس نے زکوٰۃ کا اقرار بھی کیا تھاتاہم دوسرے راوی اس اقرار کا انکار کرتے ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ قتل غلط فہمی میں ہوا۔اس رات سخت سردی تھی ،خالد کے منادی نے اعلان کیا، اپنے اسیروں کو گرم کرنے کا بندوبست کرو۔لوگوں نے سمجھا ، انہیں ٹھکانے لگانے کا حکم آیا ہے۔ مالک کو ضرار بن ازور نے قتل کیا۔ جب خالدؓ نے اسلامی احکام اور مروج جاہلی رسوم دونوں کے علی الرغم مالک کی بیوہ ام تمیم بنت منہال(یا لیلیٰ) سے اس کی عدت گزرنے سے پہلے ہی شادی کر لی تو ان پر الزام لگا کہ انہوں نے اس خوبرو عورت سے شادی کی خاطر اس کے شوہر کو مروایا۔ابو قتادہ تو ا س قدر ناراض ہوئے کہ قسم کھا کر مدینہ لوٹ گئے کہ آئندہ کبھی خالد کے جھنڈے تلے نہ لڑیں گے۔انہوں نے ابوبکرکو یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے توجہ نہ دی پھر وہ عمر کے پاس گئے،عمر نے ابوبکر کو مشورہ دیا ، اس الزام کی بنا پر خالد کو معزول کر دیا جائے۔ان کو گوارا نہ ہوا کہ ایک لغزش کی وجہ سے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ قائد کو معزول کر دیں۔ انہوں نے پہلے والا جواب ہی دیا،’’ میں اس تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔‘‘خالد مدینہ پہنچ کر ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس و اقعے کی تفاصیل ان کے گوش گزار کیں۔ابوبکر نے مالک کے قتل کے متعلق ان کی معذرت قبول کی لیکن اس کی بیوی سے شادی پر ناراضی کا اظہار کیا اور اسے طلاق دینے کا حکم دیا۔

(باقی)

_______________

B