ڈاکٹر حبیب الرحمٰن بھی شہادت کے اس مقام پر فائز ہو گئے جو اس دنیا میں ایک مرد مجاہد کی سب سے بڑی تمنا ہو سکتی ہے۔ لیکن اس بات کو دل ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ جو شخص پہلی ملاقات میں دل میں گھر کر جائے اور جو اپنے شیریں لب و لہجے سے محبتیں بانٹتا ہو، وہ نفرت کا نشانہ کیسے بن گیا؟ کیا ہم اپنی سنگ دلی میں اتنے دور نکل آئے ہیں کہ انسان دوستی، دردمندی، خیر خواہی، وسعت نظری اور نرم کلامی کے علم برداروں کو واجب القتل قرار دینے لگے ہیں۔ ہم کیسے خوف کا شکار ہیں کہ اپنے سوا کسی دوسرے کی بات سننے سے ڈرتے ہیں۔ ہم اپنی آواز کو اس قدر پوجتے ہیں کہ دوسروں کی آواز کو خاموش کرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اپنے سوا ہم کسی کے نقطۂ نظر کو تسلیم نہیں کرتے۔ جو ہماری بھلائی کی بات کرتا ہے، اس کی آواز کو خاموش کرنا ہم اپنا فرض جانتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں یہ سختی کہاں سے آگئی کہ ہم کسی کے نقطۂ نظر کا جواب گولی سے دینے لگے ہیں؟ یہ تکبر اور غرور ہم میں کہاں سے آگیا ہے کہ ہم قتل و غارت گری پر اتر آئے ہیں؟ جب سے ڈاکٹر حبیب الرحمن کی شہادت کی خبر سنی ہے، اس دن سے میرے دل و دماغ پر اس طرح کے سوالات حاوی ہیں جن کے جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہیں۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن ان لوگوں میں شامل تھے جن کی دین سے تعلق کی دو جہتیں ہوتی ہیں۔ ایک اس پر عمل اور ایک اس کی نصرت۔ یہ دونوں جہتیں جس کی زندگی میں جمع ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے نہ صرف زندگی کے روز و شب دین کی تعلیمات کے مطابق کر لیے ہیں، بلکہ اپنی مساعی کا ہدف بھی دین کی حفاظت اور فروغ کو بنا لیا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ کم ہوتے ہیں اور ایسے لوگ اور بھی کم ہوتے ہیں جن کی زندگی کا عنوان ہی دین سے تعلق بن جاتا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر حبیب الرحمن ایسے ہی تھے۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن سے میری پہلی ملاقات المورد میں ہی ہوئی جب وہ یہاں پڑھنے کے لیے آئے تھے ایسے ملنسار اور مخلص کہ دل ان کی شہادت پر خون کے آنسو روتا ہے اور یقین ہی نہیں آتا کہ ظالموں نے انھیں شہید کر دیا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ دین کے داعی تھے۔
ان کو شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ موت سے تو ہر شخص نے ہمکنار ہونا ہے، مگر شہادت کی موت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہ موت اصل میں زندگی ہے، وہ زندگی جس پر ہم جیسوں کی زندگی رشک کرتی ہے۔ وہ اللہ کے محبوب بندے تھے جن کو اللہ نے اپنے پاس جلد بلالیا۔
______________