HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الکہف ۱۸: ۹۹ - ۱۱۰ (۷)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَتَرَکْنَا بَعْضَہُمْ یَوْمَءِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰھُمْ جَمْعًا(۹۹) وَّعَرَضْنَا جَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لِّلْکٰفِرِیْنَ عَرْضَانِ(۱۰۰) الَّذِیْنَ کَانَتْ اَعْیُنُھُمْ فِیْ غِطَآءٍ عَنْ ذِکْرِیْ وَکَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًا(۱۰۱)
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْٓ اَوْلِیَآءَ اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ نُزُلًا(۱۰۲)
قُلْ ھَلْ نُنَبِّءُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا(۱۰۳) اَلَّذِےْنَ ضَلَّ سَعْےُھُمْ فِی الْحَےٰوۃِ الدُّنْےَا وَھُمْ ےَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ ےُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴) اُولٰٓءِکَ الَّذِےْنَ کَفَرُوْا بِاٰےٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِےْمُ لَہُمْ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ وَزْنًا(۱۰۵) ذٰلِکَ جَزَآؤُھُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰےٰتِیْ وَرُسُلِیْ ھُزُوًا(۱۰۶)
اِنَّ الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا(۱۰۷) خٰلِدِےْنَ فِےْھَا لَا ےَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا(۱۰۸) 
قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِءْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا(۱۰۹)
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ےُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ ےَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْےَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا ےُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا(۱۱۰)
اُس دن۱۰۴؎ ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ ایک دوسرے سے موجوں کی طرح ٹکرا رہے ہوں گے ۱۰۵؎اور صور پھونکا جائے گا۔ اِس طرح ہم اُن سب کو اکٹھا کر لیں گے ۱۰۶؎اور اُس دن ہم دوزخ کو اُن منکروں کے سامنے پیش کریں گے جن کی آنکھوں پر میری یاددہانی سے پردہ پڑا رہا ۱۰۷؎اور وہ سننے کی تاب نہیں لاتے تھے۔ ۹۹-۱۰۱
پھر کیا یہ منکرین اِس خیال میں ہیں کہ میرے بندوں کو یہ میرے سوا اپنا کارساز بنا لیں ۱۰۸؎؟(یہ محض خوش فہمی ہے)۔ ایسے منکروں کی مہمانی کے لیے ہم نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ ۱۰۲
اِن سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ لوگ جن کی تمام سعی و جہد دنیا کی زندگی میں اکارت ہو گئی اور وہ اِسی خیال میں رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کی آیات اور اُس سے ملاقات کا انکار کیا۔ سو اُن کے اعمال ضائع ہوئے۔ اب قیامت کے دن ہم اُن کو کوئی وزن نہ دیں گے۔ اُن کا بدلہ یہی جہنم ہے، اِس لیے کہ اُنھوں نے انکار کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا ہے۔ ۱۰۳-۱۰۶
البتہ جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی مہمانی ہے۔ وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے، وہاں سے کبھی اٹھنا نہ چاہیں گے۔۱۰۹؎۱۰۷-۱۰۸
(یہ نشانیاں مانگتے ہیں)۔ اِنھیں بتاؤ، (اے پیغمبر) کہ میرے پروردگار کی نشانیوں ۱۱۰؎ کو لکھنے کے لیے اگر سمندر روشنائی بن جائے تو سمندر ختم ہو جائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے پروردگار کی نشانیاں ختم ہوں، اگرچہ ہم اُس کے ساتھ اُسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔۱۰۹
اِن سے کہو، (تم کس سے نشانیاں مانگتے ہو)؟ میں بھی تمھاری ہی طرح ایک آدمی ہوں۔ مجھ پر وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ سو جسے اپنے پروردگار سے ملنے کی امید ہو، اُسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھیرائے۔۱۱۰

۱۰۴؎ یعنی جس دن خدا کے وعدے کا ظہور ہو گا۔ اوپر ذوالقرنین کا قول نقل ہوا ہے کہ اُس نے اپنی بنائی ہوئی عظیم دیوار کو دیکھ کر کہا تھا کہ جب میرے پروردگار کے وعدے کے ظہور کا دن ہو گا تو وہ اِس کو ڈھا کر برابر کر دے گا۔ یہ قرآن نے اُسی پر عطف کرکے بات کو آگے بڑھادیا ہے اور دیکھیے کہ کس بلاغت کے ساتھ بڑھایا ہے۔

۱۰۵؎ یہ اُس وقت کی تصویر ہے، جب یاجوج وماجوج اپنے علاقوں سے نکل کر ہر بلندی سے لوگوں پر پل پڑیں گے۔ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ وہ نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد ہیں اور اُن کا اصل وطن وسط ایشیا کا علاقہ ہے۔ سورۂ انبیاء (۲۱) کی آیت ۹۶ میں اُن کے اِس خروج کا ذکر ہوا ہے۔ وہاں صاف اشارہ ہے کہ قیامت اُن کی اِسی عالم گیر یورش کے اندر سے نمودار ہو جائے گی۔ اِس لحاظ سے یاجوج وماجوج کا خروج اور قیامت گویا ایک ہی دن کے واقعات ہیں۔ 

۱۰۶؎ آیت میں لفظ ’جَمْعًا‘ اِس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اِس حشر سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ چھوٹے بڑے، عامی و عارف اور عابد و معبود، سب پکڑ بلائے جائیں گے۔

۱۰۷؎ یعنی جس دوزخ کی یاددہانی کی گئی اور اُسے عقل کی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے، اُسے سر کی آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔

۱۰۸؎ اِس لیے کارساز بنا لیں کہ فیصلے کے دن وہ اِن کی سفارش سے اپنے آپ کو میری گرفت سے چھڑا سکیں۔

۱۰۹؎ یہ اِس لیے فرمایا کہ وہ مطمئن رہیں، خدا کی جنت کوئی اکتا جانے کی چیز نہیں ہے۔ اُن کی دل چسپی کے لیے ہر روز وہاں ایک نئی دنیا ہو گی جس میں اُن کے مدارج بھی ہمیشہ بلند ہوتے رہیں گے اور اُس کی نعمتیں بھی جدت طرازیوں کے ساتھ برابر بدلتی رہیں گی۔

۱۱۰؎ اصل میں لفظ ’کَلِمٰت‘آیا ہے۔ یہ ’کَلِمَۃ‘ کی جمع ہے جس کے معنی ’بات‘کے ہیں، لیکن یہاں اِس سے مراد وہ عجائب قدرت و حکمت ہیں جن کا مشاہدہ ہم آفاق و انفس میں کرتے ہیں۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

______________

B