بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَۃٌ م بِقَدَرِھَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآءً وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ(۱۷) لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمُ الْحُسْنٰی وَالَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہٗ لَوْاَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ اُولٰٓءِکَ لَہُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِءْسَ الْمِھَادُ(۱۸)
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَ اَعْمٰی اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۱۹) الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَلَا ےَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ(۲۰) وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَاللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ(۲۱) وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وَّ یَدْرَءُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ(۲۲) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآءِِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰٓءِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ(۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ(۲۴)
وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَاللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓءِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(۲۵) اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ(۲۹)
اُس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیاں اپنے اپنے ظرف کے مطابق بہ نکلیں۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اُٹھا لیا اور اِسی طرح کا جھاگ اُن چیزوں کے اندر سے بھی ابھرتا ہے جنھیں زیور یا (اِسی قسم کا) دوسرا سازوسامان بنانے کے لیے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اللہ اِسی طرح حق اور باطل کو ٹکراتا ہے۔ سو جھاگ تو رائگاں جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کو نفع پہنچانے والی ہے، وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۱۴۹؎۔ اللہ اِسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے، (جن سے تم اِس حقیقت کو سمجھ سکتے ہو کہ) جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت کو لبیک کہا، اُن کے لیے اچھا انجام ہے اور جنھوں نے اُس کی دعوت قبول نہیں کی، (اُن کا حال یہ ہو گا کہ) اُنھیں اگر وہ سب کچھ حاصل ہوجائے جو زمین میں ہے اور اُسی کے برابر اور بھی تو سب اپنی رہائی کے لیے دے ڈالیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا حساب برا۱۵۰؎ اور جن کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔۱۷-۱۸
سو کیا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھاری طرف اتارا گیا ہے، وہ حق ہے، اُس شخص کے مانند ہو جائے گا جو اندھا ہے۱۵۱؎۔ (یہ ایک یاددہانی ہے اور)یاددہانی تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں، جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اِس پیمان کو توڑتے نہیں ۱۵۲؎ اور اُس چیز کو جوڑتے ہیں جسے اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے۱۵۳؎ اور اپنے رب سے ڈرتے اوربرے حساب کا اندیشہ رکھتے ہیں۔ اور جو اپنے رب کی رضا طلبی میں ثابت قدم رہے اور نماز کا اہتمام کیا اور جو کچھ ہم نے اُنھیں عطا فرمایا، اُس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کیا اور جو برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں ۱۵۴؎۔ انجام کار کی کامیابی اُنھی کے لیے ہے، ابد کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو اُن کے آباو اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے اِس کے اہل بنیں گے۔۱۵۵؎ فرشتے ہر دروازے سے اُن کے پاس آئیں گے (اورکہیں گے):تم لوگوں پرسلامتی ہو، اِس لیے کہ تم ثابت قدم رہے۔ سو کیا ہی خوب ہے انجام کار کی یہ کامیابی۱۵۶؎!۱۹-۲۴
(اِس کے برخلاف) جو اللہ کے عہد کو اُس کے باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُسے کاٹتے ہیں اور (اِس طرح) زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہی ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور آخرت میں اُن کے لیے نہایت بُرا ٹھکانا ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے، رزق کی فراخی عطا فرماتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے۱۵۷؎)،اُسے تنگ کر دیتا ہے۔(یہ اِس حقیقت کو نہیں سمجھے) اور اِسی دنیا کی زندگی پر ریجھے ہوئے ہیں، دراں حالیکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابل میں محض ایک متاع حقیر۱۵۸؎ ہے۔۲۵-۲۶
۱۴۹؎ مطلب یہ ہے کہ وحی الہٰی کی صورت میں جو بارش اِس وقت ہو رہی ہے، اُس نے بھی منکرین کے ہنگامہ و شورش کی صورت میں کچھ جھاگ اٹھا دیا ہے جو اِس طرح چرخ کھا رہا ہے کہ شاید کچھ دیر تک سطح پر وہی نظر آئے گا، لیکن تم دیکھو گے کہ بہت جلد یہ سارا جھاگ فنا ہو جائے گا اور جو کچھ باقی رہے گا، وہ قرآن اور اُس کے حاملین ہوں گے۔ خدا کی سنت یہی ہے جس کا ظہور اِس کائنات میں ہر جگہ ہوتا ہے، جس طرح کہ مثال سے واضح ہے اور رسولوں کی بعثت کے بعد جب حق و باطل میں کشمکش برپا ہوتی ہے تو انسانوں کے لیے بھی لازماً ہو جاتا ہے۔
۱۵۰؎ یعنی ایسا سخت ہو گا کہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بری طرح گرفت میں آئے گی، کسی لغزش سے چشم پوشی نہیں ہو گی اور اُن کے اعمال نامے میں رائی کے برابر برائی بھی اُن کے لیے پہاڑ بن کر سامنے آجائے گی۔
۱۵۱؎ یعنی عقل کا اندھا ہے اور حقیقت کو سامنے پا کر بھی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔
۱۵۲؎ اِس سے مراد وہ ازلی عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابتدا ے آفرینش میں تمام انسانوں سے لیا تھا۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۷۲ میں اِس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہو چکا ہے۔
۱۵۳؎ یہ رشتۂ رحم کی تعبیر ہے۔ قرآن نے یہ اسلوب جہاں بھی اختیار کیا ہے، موقع کلام کی دلالت سے واضح ہے کہ رشتۂ رحم و قرابت کے لیے اختیار کیا ہے۔ اِس میں جو ابہام ہے، اُس سے رشتۂ رحم کی عظمت واضح ہوتی ہے۔گویا یہ ایسی معروف اور بدیہی حقیقت ہے کہ اِس کا نام لیے بغیر ہی ہر شخص سمجھ لیتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جسے خدا نے کاٹنے کا نہیں، بلکہ جوڑنے کا حکم دیا ہے۔
۱۵۴؎ یعنی بدی کے مقابلے میں بدی نہیں، بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ چنانچہ اُن پر بھی خرچ کیے جاتے ہیں جن کا سلوک اُن کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا۔ وہ اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ اُن کا پروردگار اِسی رویے کو پسند کرتا ہے کہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں، بلکہ خیر سے کیا جائے اور ظلم کے جواب میں ظلم نہیں، بلکہ انصاف کا علم اٹھائے رکھا جائے، خواہ اِس کے لیے کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔
یہ تمام تفصیل اِس لیے کی گئی ہے کہ منکرین کو متنبہ کر دیا جائے کہ تم جس اندھے پن کا مظاہرہ کر رہے ہو، اُس کے ساتھ تم اُن لوگوں کے مانند نہیں ہو سکتے جنھیں اللہ تعالیٰ نے دل و دماغ کی روشنی عطا فرمائی ہے۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جائے کہ آپ پریشان نہ ہوں، آپ جو چیز پیش کر رہے ہیں، اُس کے بارے میں ہر شخص کا رویہ یکساں نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مطمئن رہیے، اُس سے وہی لوگ یاددہانی حاصل کریں گے جو ہوش گوش رکھتے اور عقل سے کام لیتے ہیں اور جن کی سیرت و کردار کا رنگ وہ ہے جو بیان کیا جا رہا ہے۔
۱۵۵؎ یہ اچھے انجام کی مزید تفصیل ہے کہ اُن کے اعزہ و اقربا بھی اہل ہوئے تو جنت میں اُن کے ساتھ ہوں گے تاکہ اُن کی مسرت میں کوئی کمی نہ رہے۔
۱۵۶؎ یہ فقرہ فرشتوں کے قول تہنیت کا جزو نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس مرتبۂ بلند کی تحسین ہے جو انجام کار اُنھیں حاصل ہو جائے گا۔
۱۵۷؎ یہ الفاظ وضاحت قرینہ کی بنا پر اصل میں محذوف ہیں۔
۱۵۸؎ اصل میں لفظ ’مَتَاع‘آیا ہے۔ یہ نکرہ ہے۔ اِسی تنکیر کو ہم نے متاع حقیر کے الفاظ میں ادا کیا ہے، اِس لیے کہ آیت میں یہ تقلیل کے مفہوم میں ہے۔
[باقی]
________________