HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ (۱)

کلاب بن مرہ (پیدایش: ۳۷۳ء) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پانچویں جد تھے۔ ان کی وفات کے بعدان کی بیوہ فاطمہ بنت سعد نے(بنو قضاعہ کی شاخ) بنوعذرہ کے ربیعہ بن حرام سے شادی کی اور چھوٹے بیٹے زید کو لے کر شام چلی گئیں۔گھر سے دور پرورش پانے کی وجہ سے زید قصی کے لقب سے مشہور ہو گئے ۔ بنوعذرہ کے کسی شخص سے ان کا جھگڑا ہوا تو اس نے انھیں دخیل ہونے کا طعنہ دیا۔چنانچہ یہ اپنے ددھیال مکہ لوٹ آئے ۔اس وقت بنوخزاعہ بیت اﷲ کے متولی تھے۔قصی نے حلیل بن حبشیہ خزاعی کی بیٹی حبی سے شادی کی۔ ان کے چار بیٹے ہوئے: مغیرہ (عبدمناف)، عبداﷲ(عبدالدار)، عبدالعزیٰ اور عبد۔ وادی غیر ذی زرع میں قصی کو ایک مرتبہ مل گیا تو انھوں نے بنوخزاعہ اور بنو بکر سے جنگ کر کے کعبہ کی تولیت حاصل کر لی، کیونکہ وہ قریش کا حق ان قبیلوں سے فائق سمجھتے تھے ۔ قصی بوڑھے ہوئے تو بڑے بیٹے عبداﷲ کو کعبہ کی کنجیاں دیں اور کہا کہ تم حاجیوں کو کھلانے پلانے کے ذمہ دار ہو۔ قریش کوئی صلاح مشورہ کرنا چاہیں تو تمھارے گھر دار الندوہ میں کریں گے۔جنگ کرنا ہوئی تو قریش کا پرچم بھی تمھی اٹھاؤ گے۔ فیروز آبادی کہتے ہیں کہ الدارایک بت تھاجس کی نسبت سے عبداﷲ عبد الدارکے نام سے مشہور ہو گئے (القاموس المحیط)۔ تاہم عبداﷲ بن عباس کی وہ روایت درست معلوم ہوتی ہے جو قصی سے منسوب کی گئی ہے کہ میں نے اپنے دو بیٹوں کواپنے معبود سے وابستہ کیا(یعنی عبد مناف اور عبد العزیٰ)، ایک کو اپنے دار، کعبہ سے(یعنی عبدالدار) اور ایک کی نسبت خود سے قائم کی(یعنی عبد یا عبد قصی۔ الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۱/۴۴)۔ اس طرح کے نام رکھنے والے جن اصحاب کی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ،آپ نے ان کے ناموں میں سے شرک کے عنصر کو ختم کیا۔ جیسے عبد یغوث بن ارقم اور عبد عوف بن اصرم ،دونوں ناموں کو عبداﷲ سے تبدیل فرما دیا۔ قصی کی وفات ہوئی تو وراثت کا جھگڑا پھر اٹھ کھڑا ہوا، لیکن قصی کے پوتوں نے جنگ کرنے کے بجاے صلح صفائی سے کام لیا۔ تب حاجیوں کو کھلانے پلانے کی ذمہ داری (سقایہ و رفادہ) بنوعبد مناف کے حصے آئی اور کعبہ کی دربانی ،صلح و جنگ میں مشاورت اور پرچم برداری (حجابہ،لواء اور ندوہ) بنو عبدالدار کو مل گئی۔ عبدالدار کے تین بیٹے، عبدمناف، عثمان اور سباق ہوئے۔ عبد مناف حضرت مصعب کے پر دادا تھے۔ ہاشم بن عبد مناف کے بھی تین بیٹے تھے، عمیر،عامر اور شرحبیل۔ حضرت مصعب نے عمیر کے گھر جنم لیا، اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ ۵۹۴ء سے ۵۹۸ء تک کی درمیانی مدت میں پیدا ہوئے ۔

حضرت مصعب بن عمیر کا شجر ہ قصی بن کلاب پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب سے جا ملتا ہے۔ عبدالدار حضرت مصعب کے سکڑ دادا تھے، جبکہ ان کے بھائی عبدمناف آپ کے تیسرے جد تھے۔ حضرت مصعب اسی نسبت سے عبدری یا داری کہلاتے تھے۔ابو محمد (ابو عبداﷲ:ابن عبدالبر،ابن اثیر) حضرت مصعب کی کنیت تھی۔ حضرت مصعب کی والدہ خناس بنت مالک مشرکہ تھیں اور اپنے بیٹے کو نماز سے روکتی تھیں۔ حضرت مصعب کی اہلیہ حمنہ بنت جحش قبیلۂ بنو اسد سے تھیں۔

حضرت مصعب بن عمیر کے ترجمہ میں ذہبی نے ’السابق‘لکھا ہے۔ تاہم ان کی نقل کردہ ،ابن اسحاق کی مرتب کردہ السابقون الاولون کی فہرست میں حضرت مصعب کا نام شامل نہیں ۔۴ ؍ نبوی (۶۱۴ء) میں حضرت مصعب کوپتا چلا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دارارقم میں اسلام کی دعوت دے رہے ہیں تووہاں پہنچے، آپ کی رسالت کی تصدیق کی اور اسلام قبول کیا، پھر اپنی والدہ اور اپنی قوم کے خوف سے ایمان چھپائے رکھا۔آپ سے ملنے وہ دار ارقم جاتے رہتے،ایک بار ان کے چچیرے عثمان بن طلحہ نے انھیں دیکھ لیا تو ان کی والدہ کو خبر کر دی ۔ ان کے گھر والوں نے انھیں ستون سے باندھ دیا۔ حضرت مصعب برابر قید میں رہے، حتیٰ کہ موقع پا کرگھر سے بھاگ آئے اور حبشہ جانے والے مہاجرین کے پہلے گروپ میں شامل ہو گئے۔ انھیں ہجرت حبشہ و مدینہ، دونوں کی سعادت حاصل ہوئی۔ ابن سعد نے مصعب کے ترجمے کا عنوان ’’مصعب الخیر‘‘ باندھا ہے۔ ہمیں یہ تفصیل معلوم نہیں ہو سکی کہ انھیں یہ لقب کب عطا کیا گیا۔ ایسی کوئی روایت نہیں ملی کہ اسے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تجویز کیا ہو، جیسا کہ زید الخیل کے لقب کو آپ نے زید الخیر میں تبدیل فرما دیا۔ شاید یہ عبدالرحمن بن عوف کے الفاظ ’قتل مصعب بن عمیر و ہو خیر منی‘ (بخاری، رقم ۱۲۷۵) سے مستعار لیا گیا ہے۔

نبوت کے پانچویں سال جب مخلص اور کمزوراہل اسلام پرمشرکین مکہ کی ایذارسانیاں حد سے بڑھ گئیں تو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا: ’’تم حبشہ کی سرزمین کو نکل جاؤ ، وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے، (وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک اﷲ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔‘‘چنانچہ سب سے پہلے سولہ اہل ایمان ،پیادہ و سوار شعیبہ کی بندرگاہ پر پہنچے اور نصف دینار کرایہ پر کشتی لے کر حبشہ روانہ ہوئے۔قریش مہاجرین کے پیچھے پیچھے آئے، لیکن ان کی کشتی کھلے سمندر میں سفر شروع کر چکی تھی۔بارہ مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل اس قافلے کے شرکا یہ تھے: حضرت عثمان بن عفان، ان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول اﷲ، حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ، ان کی زوجہ حضرت سہلہ بنت سہیل، حضرت زبیر بن عوام، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد، ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ بنت ابو امیہ، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ، ان کی بیوی حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ (یا خیثمہ)، حضرت ابوسبرہ بن ابورہم، حضرت سہیل بن بیضا، حضرت حاطب بن عمرو اور حضرت عبداﷲ بن مسعود۔ اسے ہجرت اولیٰ کہا جاتا ہے۔ چند ماہ کے بعد دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا جس کی قیادت جعفر بن ابوطالب نے کی ۔کچھ لوگ اسے ہجرت ثانیہ کہتے ہیں، لیکن اصل میں یہ پہلی ہجرت ہی کادوسرامرحلہ تھا۔ حضرت مصعب کے سگے بھائی ابو الروم بن عمیرنے بھی اسلام لانے میں سبقت کی ،وہ جعفرطیار کی قیادت میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے گروپ میں شامل ہوئے۔

شوال ۵ ؍ نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ یہ کہہ کر مکہ کی طرف وپس روانہ ہو گئے کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ یہ اطلاع غلط تھی تو وہ پھرحبشہ لوٹ گئے ،یہ ہجرت ثانیہ تھی۔ تاہم حضرت عثمان، ان کی اہلیہ حضرت رقیہ، حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، ان کی اہلیہ حضرت سہلہ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبد اﷲ بن جحش، حضرت ابوسلمہ اور ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جو حبشہ واپس نہ گئے اور مکہ ہی میں مقیم ہو گئے۔ حضرت مصعب گھر پہنچے تو ان کی والدہ نے ان کی پختگی اور استواری دیکھ کر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔

۱۱ ؍ نبوی کا آخری مہینا تھا۔ ایام حج ہونے کی وجہ سے عرب کے تمام علاقوں سے وفود مکہ پہنچ چکے تھے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسب سابق زائرین کعبہ کی قیام گاہوں پر جا کر اسلام کی دعوت پیش کی۔ ابوجہل اور ابولہب آپ کے پیچھے پیچھے پھررہے تھے تاکہ لوگوں کوآپ کی بات سننے سے روکیں۔ منیٰ سے مکہ کی طرف جاتے ہوئے عقبہ کے مقام پر جہاں جمرۂ عقبہ واقع ہے، یثرب کے قبیلۂ خزرج کے چھ (عروہ بن زبیرکی روایت کے مطابق :آٹھ)آدمیوں سے آپ کی ملاقات ہوئی۔آپ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیات سنائیں۔ان میں سے ایک نے کہا: واﷲ، یہ تو وہی نبی موعود ہیں جن کا نام توریت میں درج ہے اور یہودہمیں ان کی آمد سے ڈراتے ہیں۔ ان پر ایمان لے آؤ ،ایسا نہ ہوکہ یہودی تم پر سبقت لے جائیں۔ خزرج کے ان سابقین الی الاسلام کے نام یہ تھے:اسعد بن زرارہ،عوف بن حارث،رافع بن مالک، قطبہ بن عامر، جابر بن عبداﷲاور عقبہ بن عامر۔اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے مدینہ جا کر اسلام کاچرچا کیا۔ چنانچہ اگلے سال ۱۲ ؍ نبوی میں قبیلۂ خزرج کے دس اور بنو اوس کے دو افراد آپ سے ملے، پچھلے سال نعمت ایمان سے سرفراز ہونے والے اصحاب کے ساتھ نئے اہل ایمان بھی ان میں شامل تھے۔ حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عوف بن حارث، حضرت رافع بن مالک، حضرت قطبہ بن عامر، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت معاذ بن حارث، حضرت ذکوان بن عبد قیس، حضرت یزیدبن ثعلبہ، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت عباس بن عبادہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ حضرت ابو الہیثم (مالک) بن تیہان، اور حضرت عویم بن ساعدہ اوس سے تھے۔ انصار کے ان بارہ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ* کی بیعت ایمان بیعت عقبۂ اولیٰ کہلاتی ہے۔ اپنی قوم میں دین حق کا پرچار کرنے کے بعد انھوں نے معاذ بن عفرا(حارث) اور رافع بن مالک کو اس درخواست کے ساتھ آپ کے پاس دوبارہ بھیجا کہ ہمارے ساتھ ایسا کوئی شخص بھیجیں جو ہمیں دین سکھائے اور قرآن پڑھائے۔ تب آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کا انتخاب کیا اور انھیں حکم دیا کہ اسلام کی طرف لپکنے والے اہل یثرب کو قرآن سکھائیں، شرائع اسلام کی تعلیم دینے کے ساتھ ان میں دین کی سوجھ بوجھ (تفقہ) پیدا کر دیں۔ حضرت مصعب اسعد بن زرارہ کے مہمان ہوئے۔وہ انصار کے گھروں اور قبائل میں جاتے ،ان کی کوششوں سے خزرج کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جہاں رسول پاک کا ذکر نہ پہنچا ہو، انھیں قاری(قرآن پڑھنے والا) اورمقری (قرآن پڑھانے والا) کہا جانے لگا۔ یثرب میں ان کے ہاتھوں مسلمان ہونے والوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ حضرت مصعب نماز کی امامت بھی کرتے،اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں خفیہ رہیں ۔

حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ پر ایمان لانے والے انصاری مسلمان: پہلے حضرت محمد بن مسلمہ، حضرت عباد بن بشر حضرت مصعب بن عمیرکی دعوت پر ایمان کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ ان کے بعد حضرت اسید بن حضیر، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت سعد بن معاذ نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

ایک بار حضرت اسعد بن زرارہ مصعب کولے کراوس کی شاخ بنوظفرکے باغ میں گئے جومرق نامی کنویں پر واقع تھا ۔وہاں یثرب کے تازہ واردان اسلام بھی جمع ہو گئے۔ اسید بن حضیر اور حضرت مصعب کے خالہ زادسعد بن معاذبنو عبدالاشہل کے سردارتھے اوراس وقت تک دین شرک پر قائم تھے۔ حضرت سعد نے اسید سے کہا: یہ دونوں ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری ہی قوم کے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو بے وقوف بنانے آئے ہیں، انھیں سختی سے منع کر دو۔ اپنے خالہ زاد حضرت اسعد سے تعلقات کا خیال نہ ہوتا تو میں ان سے نمٹ چکا ہوتا۔ اس پر اسید نے اپنا نیزہ پکڑا اوران دونوں کی طرف لپکے۔ انھیں آتا دیکھ کر حضرت اسعد نے حضرت مصعب سے کہا: یہ قوم کا سردار ہے، اس کے معاملے میں ٹھیک ٹھیک اﷲ کی بات پہچانے کا حق اداکرنا۔ حضرت مصعب نے کہا: اگر یہ بیٹھ گیا تو میں اس سے بات کر لوں گا۔ اسید ان کے پاس بڑے درشت انداز میں آن کھڑے ہوئے اور حضرت مصعب سے مخاطب ہوئے: تو ہمار ے شہرمیں اس یکہ و تنہا کے پاس آن بسا ہے تاکہ ہمارے اندر پائے جانے والے تھڑ دلوں کو جھوٹ موٹ کی باتیں بتا کر نادان بنائے۔ حضرت مصعب اور حضرت اسعد اٹھ کر آ گئے، دوسری بار پھر ایسا ہوا تو حضرت مصعب نے کہا: آپ بیٹھ کر بات کیوں نہیں سن لیتے؟ اگر پسند آئے تو مان لینااور اگر برا لگے تو پرے دھکیل دینا۔ اسید نے کہا: تو نے انصاف کی بات کی ہے، پھر اپنا برچھازمین میں گاڑا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مصعب نے ان کو اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآن کی آیات پڑھ کر سنائیں تووہ جھوم اٹھے اور کہا: کیا ہی خوب اور کیا ہی بھلا ہے یہ کلام! پھر پوچھا: اس دین میں داخل ہونے کے لیے تم کیا طریقہ اختیار کرتے ہو؟ حضرت مصعب اور حضرت اسعد نے جواب دیا: یہ کہ تم غسل کر کے بدن کو پاک کر لو اور پاک کپڑے پہن لو، پھر حق کی شہادت دو اور نماز پڑھو۔ اسید اٹھے، غسل کیا، پاک کپڑے پہن کر کلمۂ شہادت پڑھا اور دو رکعت نماز اداکی ۔انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ ایک اور شخص سعدبن معاذ ہے۔اس نے تمھاری پیروی کر لی تو اس کی قوم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے گا۔میں ابھی اسے بھیجتا ہوں۔پھر اپنا نیزہ کھینچا اور سعدکی طرف چل پڑے۔سعد اپنی چوپال میں بیٹھے تھے،اسید کو آتا دیکھ کر بولے: میں اﷲ کی قسم کھا کر کہتا ہوں،یہ وہ چہرہ نہیں ہے جسے لیے ہوئے اسید گئے تھے۔وہ پاس پہنچے تو سعد نے پوچھا: کیا کر کے آئے ہو؟جواب دیا: میں نے ان دونوں سے گفتگو کی ہے،مجھے تو ان میں کوئی خرابی نظر نہ آئی۔ پھر کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ بنوحارثہ حضرت اسعد بن زرارہ کو قتل کرنے نکلے ہیں، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ حضرت اسعد تمھارے خالہ زاد ہیں اور وہ تمھاری تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ سعدبن معاذغضب ناک ہو کر اٹھے، بھالا پکڑا اور حضرت اسعد اور حضرت مصعب کی طرف چل پڑے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ دونوں اطمینان سے بیٹھے ہیں تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ اسید نے انھیں بہانے سے اس لیے یہاں بھیجا ہے کہ ان دونوں کی بات سن لیں۔وہ غضب ناک ہوکر اسعدبن زرارہ کے پاس آئے اور کہا: ابوامامہ، تو ہمارے گھروں میں آ کروہ کام کرنا چاہتا ہے جو ہمیں پسند نہیں۔ تب حضرت اسعد نے حضرت مصعب سے کہا: آپ کے پاس ایک سردار کھڑا ہے جس کے پیچھے ایک بڑی قوم ہے۔اگر اس نے آپ کی بات مان لی تو قوم کے دو آدمی بھی پیچھے نہ رہیں گے۔ حضرت مصعب نے کہا:آپ بیٹھ نہیں جاتے تاکہ دھیان سے سن لیں۔ اگربات پسند آئی تو مان لینااور اگرناپسندہوئی تو ہم آپ کی نا پسند کو ہٹالیں گے۔ حضرت سعد نے کہا: تو نے انصاف کی بات کی ہے، پھر نیزہ زمین میں گاڑا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مصعب نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور سورۂ زخرف کی ابتدائی آیات تلاوت کیں۔ نور اسلام اسی وقت ان کے چہرے پر چمکنے لگا۔انھوں نے پوچھا: تم مسلمان ہو کر اس دین میں داخل ہوتے ہوتو کیا کرتے ہو؟ حضرت اسعد اور حضرت مصعب بولے: آپ غسل کر کے بدن پاک کر لیں اور پاک کپڑے پہن لیں، پھر حق کی شہادت دیں اوردو رکعت نماز پڑھیں۔سعد بن معاذ اٹھے، غسل کیا ،پاک کپڑے پہن کر کلمۂ شہادت پڑھااور دو رکعت نماز ادا کی ۔پھر اپنا نیزہ پکڑا اور اسید کے ساتھ قوم کی چوپا ل میں واپس چلے گئے ۔ لوگوں نے کہا: اﷲ کی قسم، سعد بھی وہ مقصد پورا کیے بغیر لوٹے ہیں جس کے لیے یہاں سے گئے تھے۔ انھوں نے پوچھا: تم مجھے اپنے اندر کیسا پاتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: آپ ہمارے سردار ہیں، سب سے عمدہ راے رکھنے والے اور بابرکت مشورہ دینے والے ہیں۔ سعد نے کہا: تمھارے کسی مردو عورت سے گفتگو کرنامیرے لیے حرام ہے جب تک تم اﷲ و رسول پر ایمان نہ لے آؤ۔چنانچہ اس شب قبیلۂ بنوعبدالاشہل میں کوئی عورت ، کوئی مردایسا نہ رہا جس نے اسلام قبول نہ کیا ہو۔

اس کے بعد بھی بنو نجار نے حضرت اسعد بن زرارہ پر سختی کی اور حضرت مصعب کو اپنے قبیلے سے نکال دیا تو وہ حضرت سعد بن معاذ کے ہاں منتقل ہو گئے ۔یہاں بیٹھ کر انھوں نے اسلام کی اشاعت کی ،پھر وہ وقت آیا کہ مدینہ کا کوئی گھر ایسا نہ رہاجہاں مسلمان مردو عورت نہ ہوں۔ایک اندازے کے مطابق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت انصار کی تعداد دس ہزار ہو چکی تھی۔البتہ اوس کے گھرانے بنو امیہ بن زید،خطمہ،وائل اور بنو واقف تھے جو جنگ خندق اور فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔یہ اپنے قبیلے کے شاعر ابو قیس( صیفی) بن اسلت کی پیروی کرتے تھے جو قریش کی خاتون ارنب بنت اسد سے بیاہا ہوا تھا اورفہم و دانش رکھنے کے باوجود رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی کے بہکاوے میں آ گیا۔ حضرت انس بن مالک کی ایک منفرد روایت کے مطابق آخری وقت پراس نے کلمہ پڑھ لیا تھا۔

حضرت مصعب بن عمیر مدینہ پہنچے تو لکڑی سے بنا ہوامشرکوں کا بت منات (یامناف) بنوسلمہ کے سردارعمروبن جموح کے گھر میں نصب تھا۔ انھی دنوں عمرو کے بیٹے حضرت معاذ اور ان کے ہم نام حضرت معاذ بن جبل نے، جو بیعت عقبۂ ثانیہ کے موقع پر ایمان لائے تھے ، مل کر منات کو اتارا اوربنوسلمہ کے فضلے کے گڑھے میں پھینک دیا۔ عمرونے اسے نکال کر دھویا اور صاف کر کے اس کے استھان پر واپس رکھ دیا۔ایسا کئی روزہوتا رہا،لڑکے صنم کو گندگی کے ڈھیر میں ڈال آتے اور عمرو اٹھا لاتے ۔بالآخر عمروکا عقیدہ متزلزل ہوا، انھوں نے حضرت مصعب بن عمیر کو گھر بلایا اور کہا: ہمیں اپنے دین کے بارے میں بتائیے۔ حضرت مصعب نے انھیں سورۂ یوسف کی ابتدائی آیات سنائیں۔ عمرونے کہا: ہمیں اپنی قوم سے مشورہ کرنا ہوگا۔ حضرت مصعب کے جانے کے بعد انھوں نے بت کے گلے میں تلوار لٹکا دی اور کہا: اگر تم میں کوئی خیر ہے تو اس تلوار سے اپنا دفاع کر لے۔رات ہوئی،عمرو سوگئے تو نوجوانوں نے ان کی حمائل کی ہوئی تلوار اتاری اور اس کے بجاے منات کے گلے میں ایک مردہ کتا باندھ کر واپس غلاظت کے انبار میں ڈال دیا۔تب عمرونے اپنے قبیلے کے اہل ایمان سے مشورہ کر کے اسلام قبول کر لیا اوراپنے قبیلے کو بھی دین حق قبول کرنے کی دعوت دی۔ان کے کہنے پر سب مسلمان ہو گئے۔

مدینہ میں پنج وقتہ نماز پڑھانے کی ذمہ داری حضرت مصعب کے بعد حضرت اسعد بن زرارہ کو مل گئی۔ایک روایت کے مطابق مدینہ میں سب سے پہلا جمعہ بھی حضرت مصعب نے پڑھایا۔مکۂ معظمہ میں نماز جمعہ کا حکم آیا تورسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو مدینہ میں تحریری حکم بھیجا کہ زوال کے بعد لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھاؤ، کیونکہ اس وقت مکہ میں جمعہ قائم کرنا ممکن نہ تھا۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ حضرت مصعب نے خود خط لکھ کر اجازت مانگی تو آپ نے لکھا: وہ دن دیکھو جب یہود اپنے سبت کا اعلان کرتے ہیں۔جب سورج ڈھل جائے تو دو رکعت ادا کر کے اﷲ کی قربت چاہو،اس کے ساتھ خطبہ بھی دو۔ حضرت مصعب نے حضرت سعد بن خیثمہ کے گھر میں جمعہ پڑھانے کا اعلان کیا۔ بارہ افراد نے تاریخ اسلامی کی پہلی نماز جمعہ ادا کی۔اس روز ایک بکری بھی ذبح کی گئی۔ عبدالرحمن بن کعب کی روایت مختلف ہے ،کہتے ہیں: میرے والد کعب بن مالک کی بینائی زائل ہو چکی تھی اور میں انھیں پکڑ کر لے جاتا تھا۔وہ جمعہ کی اذان سنتے تو ابوامامہ اسعدبن زرارہ کے لیے دعاے مغفرت ضرور کرتے۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایاکہ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مدینہ سے ایک میل باہر بنوبیاضہ کی سنگلاخ زمین میں ہزم نبیت کے مقام پر نقیع الخضمات کے نشیبی میدان میں ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی ۔کعب کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: تب کتنے آدمی شامل ہوئے؟انھوں نے بتایا: چالیس (ابوداؤد، رقم ۱۰۶۹۔ دار قطنی، رقم ۱۵۶۹)۔

[باقی]

________

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

____________

B