بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ھُوَ بِبَالِغِہٖ وَمَا دُعَآءُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ(۱۴)
وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّظِلٰلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ(۱۵) قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ قُلِ اللّٰہُ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَ لَا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ اَمْ ھَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ(۱۶)
اُسی کو پکارنا برحق ہے۔ اُس کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں، وہ اِس سے زیادہ اِن کی داد رسی نہیں کر سکتے کہ کوئی اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف بڑھائے کہ وہ اُس کے منہ تک پہنچ جائے، دراں حالیکہ وہ کسی طرح اُس کے منہ تک پہنچنے والا نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن منکروں کی فریاد محض صدا بہ صحرا ہے۔۱۴
زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں، سب طوعاً و کرہاً خدا ہی کو سجدہ کر رہے ہیں اور صبح و شام اُن کے سایے بھی۔۱۴۶؎اِن سے پوچھو، زمین اور آسمانوں کا مالک کون ہے؟ کہہ دو، اللہ۔ اِن سے پوچھو، کیا پھر بھی تم نے اُس کے سوا ایسے کارساز بنا رکھے ہیں جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ اِن سے پوچھو، کیا اندھے اور آنکھوں والے، دونوں یکساں ہو جائیں گے؟ یا اندھیرے اور روشنی، دونوں برابر ہوں گے؟۱۴۷؎ (اگر ایسا نہیں تو) کیا اُنھوں نے خدا کے ایسے شریک ٹھیرائے ہیں جنھوں نے اُسی طرح پیدا کیا ہے، جس طرح خدا نے پیدا کیا ہے، سو اُن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے۱۴۸؎؟ اِنھیں بتا دو کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب ہے۔۱۵-۱۶
۱۴۶؎ یہ استدلال کی ایک خاص قسم ہے جسے اشارات سے تعبیر کرنا چاہیے۔ اِس میں ذہن کو علامت سے حقیقت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی مخاطب کو ہر چیز کے مطیع و منقاد اور قانون سے مسخر ہونے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار فرمائی ہے کہ دیکھ لو، چیزوں کے سایے بھی رات بھر سجدے میں پڑے رہتے ہیں، صبح کو آہستہ آہستہ سر اٹھاتے اور زوال آفتاب کے بعد ایک مرتبہ پھر اُسی پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔
۱۴۷؎ یعنی خدا کی نگاہ میں برابر ہوں گے اور تمھارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کی بات مان کر وہ عقلی اور اخلاقی لحاظ سے اندھوں اور بیناؤں کو ایک ہی انجام سے دوچار کر دے گا؟ آیت میں یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ اندھیرے کے لیے ’ظُلُمٰت‘کا لفظ جمع لائے ہیں، جبکہ اُس کے مقابل لفظ ’نُوْر‘ واحد استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ لطیف اشارہ مقصود ہے کہ تاریکیاں ہزار راستوں سے ظہور میں آتی ہیں، مگر روشنی اور اجالے کا منبع ایک ہی ہے اور وہ اِس کائنات کا پروردگار ہے۔
۱۴۸؎ چنانچہ مجبور ہیں کہ کسی نہ کسی درجے میں دوسروں کو بھی خالق مان کر خدائی میں شریک ٹھیرائیں۔
[باقی]
_______________________