حَدَّثَنَاہُ أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِیْ أُسَامَۃَ، وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ الْبَصْرِیُّ، ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَدَ الدَّوْرَقِیُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثَنَا ہَمَّامٌ، ثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ حَدَّثَہُ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ — وَنَحْنُ فِی الْغَارِ — لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ یَنْظُرُ إِلٰی قَدَمَیْہِ لَأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَیْہِ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ، مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا.
...حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے مجھے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے — جبکہ ہم دونوں غار(ثور) میں تھے — عرض کیا: اگر ان (مشرکین مکہ) میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھے گا تو وہ اپنے قدموں کے نیچے ہمیں دیکھ لے گا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر، تمھارا ان دو شخصیتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔۱
’نَحْنُ فِی الْغَارِ‘ (ہم دونوں غار میں تھے)۔ اس میں غار سے مراد جبل ثور کی ایک غار ہے جو کہ مکۂ مکرمہ کی دائیں جانب ساڑھے چار کلو میٹر کی مسافت پر جنوب میں واقع ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قول ’لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ یَنْظُرُ إِلٰی قَدَمَیْہِ لَأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَیْہِ‘ سے مراد یہ ہے کہ غار کے دہانے کے اوپر ہونے کی وجہ سے اگر مشرکین مکہ نے نیچے دیکھ لیا تو وہ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے صاحب ابوبکر اسی غار میں پناہ گیر ہیں، جیساکہ ایک اور روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیدنا ابوبکر نے فرمایا کہ میں نے جب اپنا سر اٹھایا تو مشرکین مکہ کو غار کے اوپر دیکھا ، یعنی وہ ہمارے سروں کے اوپر تھے۔۲
’إِثْنَیْنِ‘ (دو)سے مراد نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
’أَللّٰہُ ثَالِثُہُمَا‘ (ان دو کے ساتھ تیسرا اللہ ہے)۔ اس کی تقدیر کلام ’أَللّٰہُ ثَالِثُ کُلِّ اثْنَیْنِ‘ ہے اور ’ثَالِثُہُمَا‘ کا مفہوم ’نَاصِرُہُمَا وَ مُعِیْنُہُمَا‘ ۳ (اللہ تعالیٰ ان دونوں کا مدد گار اور اعانت کرنے والا ہے) ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و علم، نصرت و حمایت اور اعانت کے ذریعے سے ہم دونوں کے ساتھ ہے ، اسی طرح وہ ان مشرکین اور اعداے اسلام سے ہماری عصمت و حفاظت کا اہتمام بھی فرمائے گا۔
مذکورہ ارشاد مبارک میں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معیت کو لازم کیا ہے، اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق کے لیے بھی لازم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں ’اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘ میں اس معیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اس معیت سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا استثنا کرنا یا سمجھنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے، کیونکہ ’اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘ (اللہ ہمارے ساتھ ہے) فرمایا ہے، نہ کہ ’اِنَّ اللّٰہَ مَعِیْ‘ (اللہ میرے ساتھ ہے)۔ مزید برآں اس سے عارضی معیت بھی مراد نہیں لی جا سکتی کہ صرف اسی حالت میں اور اسی غار میں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، بلکہ ’ما ظنک باثنین اللّٰہ ثالثہما‘ سے ابدی معیت مراد ہے، یعنی تمھارا ان دو شخصیتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہے۔
معیت الٰہی کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ معیت عامہ: اس سے مراد معیت علم، احاطہ اور احصا ہے۔ اس میں مومن اور کافر، دونوں شامل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ‘۴ (اور تم جہاں کہیں بھی ہو ، وہ تمھارے ساتھ ہے)۔
۲۔ معیت خاصہ: اس سے مراد معیت نصرت و تائید ہے۔ یہ معیت اللہ تعالیٰ اپنے انبیا و رسل اور ان کے مومن ساتھیوں کو عطا کرتا ہے، اور یہ معیت وہ صرف خشیت الٰہی، ایمان اور اسلام کے ذریعے سے ہی حاصل کر سکتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘۵ (اہل ایمان کی نصرت ہم پر لازم تھی) اور ’لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘۶ (غم نہ کریں، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔ اوپر حدیث میں بھی اسی معیت کی طرف اشارہ ہے۷۔
اللہ تعالیٰ کا آیت غار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ’لاَتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘ نقل کرنا ہی سیدنا صدیق اکبر کے لیے اثبات معیت کے لیے واضح دلیل ہے، اور اس بات کو مؤکد فرما دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کے سبب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی معیت الٰہیہ حاصل ہوئی۔
یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ کی طرف سفر ہجرت سے متعلق ہے، جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہم رکاب تھے۔ کتب احادیث اور سیر و تاریخ میں آتا ہے کہ دعوت اسلام کو ختم کرنے کے لیے جب صنادید قریش نے دارالندوہ میں اپنے شیخ نجدی — ابلیس — کی اقتدا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مجلس شوریٰ منعقد کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں آگاہ فرما دیا، اور آپ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔
چنانچہ قریش مکہ نے اپنے اتحادی قبائل کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے وہ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔۲۷؍ صفر ۱۴ نبوی بہ مطابق ۱۲۔۱۳؍ ستمبر ۶۲۲ء کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں منکرین مکہ کے پاس سے بہ حفاظت گزر گئے اور ان منکرین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کا شعور تک نہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے سیدنا ابوبکر کے گھر تشریف لے گئے۔ مفسرین اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ ابوبکر کو بھی اس سفر ہجرت میں شامل کر لیں۔ ’’تفسیر امام حسن عسکری‘‘ میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
وآمرک أن تستصحب أبا بکر، فإنہ إن آنسک و ساعدک و وازرک و ثبت علی ما یعاہدک و یعاقدک، کان فی الجنۃ من رفقائک و فی غرفاتہا من خلصائک.(۴۱۴)
’’ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا ہے کہ ابوبکر کو اپنے ساتھ لیں، کیونکہ اگر انھوں نے آپ سے محبت کی، آپ کی مدد کی، آپ سے ہمدردی کی اور آپ سے کیے ہوئے عہد اور اقرار پر ثابت قدم رہے تووہ جنت میں آپ کے رفقا میں سے اور اس کے حجروں میں آپ کے خاص مصاحبوں میں سے ہوں گے۔‘‘
علامہ باقر مجلسی نے ’’حیاۃ القلوب‘‘ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مصاحبت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
و ترا امر کردہ است کہ ابوبکر را ہمراہ خود ببری. (۲/ ۳۱۰)
’’اور(اللہ تعالیٰ نے) آپ کو حکم دیا ہے کہ ابوبکر کو اپنے ہمراہ لے جائیے۔‘‘
علامہ قاضی نور اللہ شوستری نے ’’مجالس المومنین‘‘ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مصاحبت کے حوالے سے حکم خداوندی کو ایک فیصلہ کن بات میں بیان کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
و بہمہ حال رفتنِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبردنِ ابوبکر بے فرمانِ خدا نہ بود. (۲۰۳)
’’بہرحال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا (ہجرت کے لیے) روانہ ہونااور ابوبکر کو اپنے ساتھ لے جانا، یہ خدا کے فرمان کے بغیر نہ تھا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق کو ان کے گھر سے اپنے ساتھ لیا اور مدینہ کی طرف رخت سفر باندھا۔ مستند روایات میں آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیابان کا کچھ فاصلہ طے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زخمی ہو گئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ منکرین مکہ کے تعاقب کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل ثور کی ایک غار میں پناہ لے لی اور دو کبوتروں نے اس غار کے دہانے پر انڈے دے دیے۔جب کفار مکہ غار کے قریب پہنچ گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی گفتگو سن کر خوف زدہ ہو گئے،۸ جس پر ان کی تسلی کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کلام مجید کے بے مثل الفاظ ’لاَتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘ صادر ہوئے۔
دریں اثنا، حضرت ابوبکر کے حکم کے مطابق آپ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ مشرکین مکہ کی دن بھر کی خبر مہیا کرتے اور آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت عامربن فہیرہ آپ کے لیے رات کے وقت اپنی بکریاں لے جا کر دودھ کا انتظام کرتے۔ آپ کی بیٹی حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لیے کھانا لے کر آتیں۔اصح قول کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے غار میں تین دن اور تین راتیں گزاریں۔ قرآن مجید نے اس سفر ہجرت کو بالاجمال ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
اِلاَّ تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْاَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ. (التوبہ۹: ۴۰)
’’اگرتم پیغمبر کی مدد نہیں کرو گے (تو کچھ پروا نہیں)، اِس لیے کہ اُس کی مدد تو اللہ نے اُس وقت فرمائی، جب اِنھی منکروں نے اُس کو اِس طرح نکالا تھا کہ وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا،جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ نے اُس وقت اُس پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور ایسے لشکروں سے اُس کی مدد کی جو تم کو نظر نہیں آئے اور منکروں کی بات اُس نے نیچی کر دی اور خدا کی بات ہی اونچی رہی۔ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
عبد اللہ بن اریقط، جو کہ صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا اور اپنے ہی دین پر ہونے کے باوجود قابل اعتماد تھا، سے سفر مدینہ کے لیے اجرت طے ہو چکی تھی، وہ وقت مقرر پر تین راتیں گزر جانے کے بعد غار ثور پر سواریاں لے کر آگیا۔اس طویل اور تکلیف دہ سفر کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو اہل مدینہ نے نہایت ہی والہانہ انداز میں آپ کا استقبال کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفیق مخلص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سوموار ۸؍ ربیع الاول ۱۴ نبوی، یعنی یکم ہجری بہ مطابق ۲۳؍ ستمبر ۶۲۲ء کو قباء میں وارد ہوئے۔
اتصال کے اعتبار سے یہ حدیث مرفوع ہے اور رد و قبول کے اعتبار سے حسن ہے۔
اپنی اصل کے اعتبار سے یہ حدیث حافظ ابونعیم اصبہانی نے ’’فضائل الخلفاء الاربعۃ‘‘ ،رقم۱میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے روایت کی ہے، جبکہ رقم ۲ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے روایت کی ہے۔ دیگر مصادر و مراجع میں یہ حدیث ان درج ذیل مقامات میں روایت کی گئی ہے:
بخاری، رقم۳۶۵۳، ۳۹۲۲، ۴۶۶۳؛ مسلم، رقم۲۳۸۱، ۶۳۱۹؛ ترمذی، رقم ۳۰۹۶ ؛ ابن حبان، رقم ۶۲۷۸، ۶۸۶۹؛ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۱۹۲۹، ۳۶۶۱۳؛ مسند ابویعلٰی، رقم ۶۶۔۶۷؛ احمد، رقم۱۱۔۱۲؛ مسند بزار، رقم۳۶، مسند الصحابہ، رقم ۷؛ مسند عبد بن حمید، رقم ۲؛ مسند ابوبکر صدیق،مروزی، رقم۷۱۔۷۲، ۷۴؛ کنز العمال، رقم۳۱۵۶۸، ۳۲۶۱۴؛ الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۳:۱۷۴؛ معجم ابن الاعرابی، رقم۲۰۶۷؛ معجم ابن المقری، رقم۳۳،۵۹۵؛ معجم ابن عساکر، رقم۱۷۱؛ شرح مشکل الآثار ، طحاوی، رقم ۴۰۸۱؛ الاربعون الابدال العوالی، ابن عساکر، رقم۳۰؛ الاربعین فی صفات رب العٰلمین، ذہبی، رقم۴۳؛ الاربعین، ابوسعد نیشاپوری، رقم۱؛ امالی الزجاج۱:۱۸۳؛ الجامع المسند، بجیری۵۹؛ جامع الاصول، ابن اثیر، رقم۹۲۰۵؛ دلائل النبوۃ، ابو نعیم اصبہانی، رقم۲۳۱؛ دلائل النبوۃ، بیہقی، ۲: ۴۸۱؛الدرر فی اختصار المغازی والسیر، ابن عبدالبر۱: ۸۱؛ عوالی الحارث، رقم۵۰؛ فوائد تمام، رازی، رقم۸۰۵؛ تلخیص المتشابہ فی الرسم، خطیب بغدادی ۱/۴۶۶؛ السنۃ، ابن ابی عاصم رقم۱۲۲۵؛ الشریعۃ، آجری، رقم۱۲۷۹۔ ۱۲۸۱؛ شرح مذاہب اہل السنۃ، ابن شاہین، رقم۶۷؛ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ ، لالکائی ۱۸/ ۱۴؛ شرح السنۃ، بغوی، رقم۳۷۶۴؛ الانوار فی شمائل النبی المختار، بغوی، رقم ۵۶؛ اخبار مکۃ، فاکہی، رقم۲۳۴۸، ۲۴۱۳؛ اخبار اصبہان، رقم۵۰۹؛ انساب الاشراف، بلاذری ۱۰/ ۶۱۔
معروف مؤرخ علامہ میر خواند نے اپنی کتاب ’’روضۃ الصفا‘‘ میں اس روایت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
آوردہ اند کہ مشرکان در جستجوی محمد بجائی رسیدند کہ از ایشان تا حضرت چہل کز مسافت پیش نبود و قایف کفت: واللّٰہ کہ مطلوب شما از اینجا نکذشتہ، ابوبکر این سخن شنیدہ بترسید و غمناک شد، حضرت فرمود کہ’لاتحزن إن اللّٰہ معنا‘، ابوبکر ’’روایتوں میں آتا ہے کہ مشرکین محمد (صلی اللہ علیہ کفت: یارسول اللّٰہ، مشرکان اکر در پیش پای خویش نظر کنند ما را بہ بینند، رسولؐ فرمود: کہ ظن تو بدو شخص کہ خدا تعالٰی سیم ایشان است چیست؟ (۲/ ۶۷)
وسلم) کی تلاش میں اس(غارکی) جگہ اتنے قریب پہنچ گئے کہ ان کے اور حضرت (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے درمیان چالیس گز سے زیادہ کا فاصلہ نہیں ہو گااور قیافہ شناس نے کہا: اللہ کی قسم، تمھارا مطلوب اس جگہ سے آگے نہیں گیا، حضرت ابوبکریہ گفتگو سن کر خوف زدہ اور غم ناک ہو گئے، حضرت (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: غم نہ کریں، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، حضرت ابوبکر نے عرض کیا: یارسول اللہ، مشرکین اگر اپنے پاؤں کے سامنے دیکھیں گے تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارا ان دو شخصیتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے؟‘‘
امیر جلال الدین محدث شیرازی نے بھی اس حدیث کو اپنی تاریخ کی کتاب ’’روضۃ الاحباب‘‘ میں بعینہٖ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
چون نزدیک رسیدند بغار قایف کفت: مطلوب شما ازین غار تجاوز نکردہ و دران حالت ابوبکرؓ بعرض حضرت رسانید کہ یارسول اللّٰہ، اکر چنانچہ یکی ازیشان در شیب ہر دو قدم خود نکاہ کند ہر آینہ ما را بہ بیند، خواجۂ کائنات فرمود: ما ظنک باثنین اللّٰہ ثالثہما. (۱۰۰)
’’جب وہ (مشرکین ) غار کے نزدیک پہنچ گئے تو قیافہ شناس نے کہا: تمھارا مطلوب اس غار سے آگے نہیں گیا۔ اس حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا: یارسول اللہ، اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف نیچے دیکھا تو وہ ہمیں یقیناًدیکھ لے گا، سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تمھارا ان دو شخصیتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘
________
۱ فضائل الخلفاء الاربعۃ، ابونعیم اصفہانی، رقم۱۔
۲ بخاری، رقم۳۹۲۲۔
۳ فتح الباری۷/۱۱۔
۴ الحدید۵۷: ۴۔
۵ الروم۳۰: ۴۷۔
۶ التوبہ ۹: ۴۰۔
۷ ملخصاً، شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ ، لالکائی۱۸/ ۱۴۔
۸ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ اضطراب اپنی ذات کے لیے نہیں تھا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھاکہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا تو یہ دین معدوم ہو جائے گا اور یہ امت ہدایت سے محروم ہو جائے گی، جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر میں قتل کر دیا گیا تو کوئی پروا نہیں، کیونکہ میں محض ایک آدمی ہوں، لیکن اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا تو امت غارت ہو جائے گی (فتح البیان فی مقاصد القرآن، قنوجی ۵/ ۳۰۵)۔
____________