HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

حکومت اسلامی کے قیام کی شرط اول

سوال: آپ نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’حکومت اسلامی کا قیام ایک آزاد اسلامی معاشرہ کی ذمہ داری ہے‘‘۔ اس نظریہ کا ماخذ کیا ہے، کتاب و سنت میں اس کی اصل کیا ہے اور فقہ کی تقسیم احکام میں یہ چیز کس طرح چسپاں ہوتی ہے؟ واضح ہو کہ یہ سوال بطور اعتراض نہیں ہے۔ مجھے آپ کی یہ بات بہت صحیح معلوم ہوتی ہے۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے نزدیک وہ کون سے دلائل ہیں جن سے آپ یہ تصور اخذ کرتے ہیں؟

جواب: حکومت اسلامی ہو یا غیر اسلامی، بہرحال وہ ایک بالغ معاشرہ ہی سے وجود میں آتی ہے۔ معاشرہ ہی ترقی کرتے کرتے جب اپنی آزادی اور استقلال کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے تو حکومت کو جنم دیتا ہے جو ٹھیک ٹھیک اس کے مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ کی اٹھان جاہلی اور غیراسلامی نظریات پر ہوئی ہوتی ہے تو اس کے بطن سے غیر اسلامی طرز کی حکومت جنم لیتی ہے اور اگر معاشرہ کی اٹھان اسلامی طریقہ پر ہوئی ہوتی ہے تو اس سے ایک اسلامی حکومت وجود پذیر ہوتی ہے۔

قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلام میں احکام و قوانین کے نزول کی ترتیب و تدریج بالکل معاشرہ کے تدریجی ارتقا کے قدم بہ قدم ہے۔ معاشرہ جس رفتار سے بچپن، مراہقہ اور بلوغ کے ادوار میں داخل ہوا، اسی مناسبت سے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق احکام و قوانین اترے۔ یہاں تک کہ ایک حکیم سے یہ حقیقت بھی مخفی نہیں ہو سکتی کہ پہلے دور کے احکام میں جو تقاضے دوسرے یا آخری دور سے متعلق مضمر تھے، وہ پہلے دور میں واضح نہیں کیے گئے، بلکہ اس وقت واضح کیے گئے جب ان کے اظہار کے لیے مناسب دور آگیا۔ اس کے لیے توحید اور رسالت پر ایمان کے مقتضیات کے تدریجی انکشاف پر غور کرنے سے میری بات کی تصدیق ہو گی۔

اسی بنیاد پر، جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا، ہمارے فقہا اجراے حدود اور نفاذ احکام سے متعلق بہت سے معاملات میں دارالاسلام یا بہ الفاظ دیگر ایک آزاد خودمختار معاشرہ کے وجود کی شرط لگاتے ہیں اور دارالکفر میں ان کے اجرا و نفاذ کی اجازت نہیں دیتے۔

ان باتوں کا حوالہ دینے سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے شرط اول اسلامی معاشرہ کی تعمیر ہے۔ اس زمانے میں صحیح لفظوں میں اسلامی معاشرہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ جن ملکوں میں مسلمان ایک مظلوم و مقہور اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا تو مسئلہ ہی خارج ازبحث ہے۔ خالص مسلمان ملکوں کا حال بھی اس زمانہ میں یہ ہے کہ جن اساسات پر اسلامی معاشرہ قائم ہوتا ہے، وہ سب ان میں منہدم اور جاہلیت کے ملبوں کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں جو لوگ اسلامی نظام کے قیام کے خواہاں ہیں، ان کا مقدم فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر معاشرہ کی تعمیر کی جدوجہد کریں اور اسی تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو آگے بڑھائیں جس تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو قرآن اور پیغمبر نے آگے بڑھایا تھا۔ اس بنیادی کام کے بغیر جو لوگ ’’انقلاب قیادت‘‘ اور ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کا نعرہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ہم ان کے کام کو اسلامی نقطۂ نظر سے نہ صرف بے نتیجہ، بلکہ بعض پہلوؤں سے نہایت مضر خیال کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ یا تو درخت لگائے بغیر پھل کھانا چاہتے ہیں یا اندرائن اور گلوئے نیم کی بیلوں سے انگور کے خوشے توڑنا چاہتے ہیں۔

ایک مزید سوال

سوال: میرا سوال غالباً پوری طرح واضح نہ ہو سکا۔ اصل میں یہ بات کہ ’’حکومت اسلامی کا قیام ایک آزاد اسلامی معاشرہ کی ذمہ داری ہے‘‘۔ اس کے کچھ متعلقات ہیں جو نظریاتی طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی قوانین اور شرعی حدود کے نفاذ کا مخاطب صرف مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو آزاد اور بااختیار حیثیت کا حامل ہو، متفرق اور غیر آزاد اہل ایمان کے اوپر اس کی تکلیف نہیں ہے۔ اور جب وہ اس کے مخاطب اور مکلف نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ان کے اوپر یہ ذمہ داری بھی نہیں ہے کہ وہ جدوجہد کر کے وہ حالات پیدا کریں جب وہ اس قسم کے احکام کو نافذ کر سکیں۔

اسی مخصوص پہلو کے اعتبار سے اس معاملہ میں آپ کا استدلال میں جاننا چاہتا تھا۔ اگر ممکن ہو تو تحریر فرمائیں۔

جواب: اسلام کے احکام و قوانین پر غور کیجیے گا تو معلوم ہو گا کہ وہ بہ اعتبار ادوار تین حصوں میں تقسیم ہیں اور تینوں اپنے مزاج کے لحاظ سے الگ الگ ہیں: ایک حصہ ان احکام و تعلیمات پر مشتمل ہے جو تشکیل معاشرۂ اسلامی سے متعلق ہیں۔ دوسرا حصہ عبوری دور کے احکام پر مشتمل ہے (یہی وہ حصہ ہے جس میں بعد میں حالات کی تبدیلی سے نسخ واقع ہوا)۔ تیسرا حصہ ان احکام پر مشتمل ہے جو براہ راست اسلامی حکومت سے متعلق ہیں۔ دور اول کے احکام کا مزاج قدرتی طور پر غیر سیاسی ہے۔ عبوری دور کے احکام میں آگے اور پیچھے کے دونوں دوروں کے تقاضے ملے جلے ہیں۔ تیسرے دور کے احکام اس اعتبار سے تمام تر سیاسی نوعیت کے ہیں کہ صرف ایک حکومت ہی ان کی حامل ہو سکتی ہے اور اسی کے ہاتھوں ان کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔

اسلام کے یہ احکام چونکہ اسی ترتیب کے ساتھ نازل ہوئے، اس وجہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صدر اول کے مسلمانوں کو کوئی گھپلا پیش نہیں آیا۔ احکام ٹھیک اپنی فطری ترتیب کے مطابق نازل ہوئے اور اسی ترتیب کے مطابق ان کی تبلیغ و اشاعت یا تنفیذ عمل میں آئی۔ اب اس زمانہ کے لوگوں کو یہ گھپلا پیش آ رہا ہے کہ پورا دین نازل شدہ ان کے سامنے موجود ہے اور اس کے مختلف النوع احکام کے درمیان ایسے فاصل خطوط نہیں ہیں جن کی مدد سے ایک عام آدمی ان کے درمیان امتیاز کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ غیرحکیم داعیوں نے یا تو معاشرے کے حالات کا لحاظ کیے بغیر محض اپنے پروگرام کو حاوی اور ہمہ گیر دکھانے کے شوق میں پورے دین کی دعوت کا نعرہ بلند کر دیا یا ابتدائی مراحل کو چھوڑ کر محض سیاسی قسمت آزمائی کے خبط میں آخری مرحلہ میں داخل ہو گئے۔ یہ صورت حال نہ صرف غیر حکیمانہ ہے، بلکہ بعض حالات میں نہایت خطرناک بھی ہے۔ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں تو ممکن ہے کہ اس بے تدبیری کا ضرر صرف اسی حد تک محدود رہے کہ اس قسم کی تمام مساعی بالکل عبث اور بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں، لیکن جہاں مسلمان خطرات میں گھری ہوئی ایک مظلوم اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں، وہاں تو یہ غلط طرزعمل نہ صرف اسلام کے خلاف ذہنوں میں (مسلموں اور غیر مسلموں، دونوں کے) شدید قسم کی الجھنیں پیدا کر دے گا، بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ اس کا ردعمل ایسی صورت میں ظاہر ہو کہ وہاں اسلام اور مسلمانوں کو شدید قسم کا نقصان پہنچ جائے۔ سوچیے کہ اگر غیر مسلموں کے کسی ملک میں کچھ مسلمان اسلام کے داعی بن کر جائیں اور اپنی دعوت کا آغاز وہ اس نکتہ سے کریں کہ ہم یہاں اسلام کی حکومت قائم کرنے یا انقلاب قیادت کے لیے آئے ہیں، تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس میں تو شبہ نہیں کہ یہ کہنا حوصلہ کا کام ہے، لیکن کیا ساتھ ہی یہ ایک حماقت کی بات نہیں ہے؟ دنیا کے بے شمار ملکوں میں مسلمانوں نے اسلام کی دعوت دی جن میں سے بہتوں میں اسلام کی حکومتیں بھی بعد میں قائم ہو گئیں، لیکن بتائیے کہ کس جگہ انھوں نے حکومت الٰہیہ کی دعوت یا انقلاب قیادت کے نعرہ سے اپنے کام کا آغاز کیا؟ ان داعیوں کے متعلق اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان کی دعوت ادھوری تھی یا ان کو پورے دین کا شعور نہیں تھا تو میں ایسے شخص کو اسلامی نظام کے شعور سے بالکل محروم خیال کرتا ہوں۔

یہ نہ خیال فرمائیے کہ جس وقت ایک داعی ایک غیر اسلامی معاشرہ میں ایمان و اسلام کی بنیادی اور تعمیری دعوت شروع کرتا ہے تو وہ دین کے دوسرے اجتماعی و سیاسی مطالبات کو نظرانداز کرتا ہے یا اپنے آپ کو وہ ان کا مخاطب یا مکلف نہیں سمجھتا یا وہ ان کے نفاذ کے لیے حالات پیدا کرنے کی جدوجہد نہیں کرتا۔ وہ اپنے اسی تعمیری اور تمہیدی کام کے ساتھ یہ سارے کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ میں دین کے ان مطالبات کا مخاطب و مکلف اپنی انفرادی حیثیت میں یا اس حالت میں نہیں ہوں، جبکہ میں اپنے گردو پیش صرف کچھ منتشر افراد رکھتا ہوں، بلکہ صرف اسی صورت میں ہوں جب اس دعوت سے ایک ایسا منظم اور بااختیار معاشرہ وجود میں آ جائے جو ان مطالبات کے اجرا و تنفیذ کے لیے مؤثر اقدام کر سکے۔ اس سے پہلے کی ساری جدوجہد اس کے اسی آخری منصوبہ کی تمہید ہوتی ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ اس آخری سرحد تک پہنچنا خدا کے فضل و رحمت پر منحصر ہے۔ اس وجہ سے وہ دین کے جس مرحلہ کا کام کر رہا ہوتا ہے، اسی کے لیے پکارتا ہے اور چونکہ ہر مرحلہ کی دعوت اپنے اندر دلوں اور روحوں کے لیے ایک فطری اپیل رکھتی ہے، اس وجہ سے اگر وہ اخلاص و استقلال کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہتا ہے تو اس کی جدوجہد کو آخری منزل تک بھی پہنچاتا ہے۔ اگر اس سے پہلے ہی اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اس کی موت ایک مجاہد فی سبیل اللہ کی موت ہوتی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے وہ ایک کامیاب آدمی ہوتا ہے، اس کو ناکام نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اور اگر وہ اپنی بے تدبیری سے یا محض سیاسی اقتدار کے حصول کے شوق میں وہ بوجھ اپنے سر پر اٹھانے یا دوسرے اپنے گرد و پیش کے پراگندہ افراد کے سروں پر لادنے کی کوشش کرے جو بوجھ ایک منظم اور بااختیار اسلامی معاشرہ ہی کے اٹھانے کا ہے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں نکل سکتا کہ خود اس کی کمر بھی ٹوٹ کر رہ جائے اور دوسروں کی بھی، نیز سارے ماحول میں اسلام کی دعوت ایک خبط و جنون کا نعرہ یا ایک مذاق سمجھی جانے لگے۔

معاف کیجیے گا! آپ حضرات اگر ایک بات ٹھیک کہتے ہیں تو اس کے ساتھ اسی سانس میں دوسری بات بالکل غلط بھی کہتے ہیں۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اسلام صرف مسجد کا دین نہیں ہے، بلکہ حکومت کا بھی دین ہے، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام کی دعوت ہر معاشرہ اور ہر ماحول میں حکومت الٰہیہ یا انقلاب قیادت کی دعوت سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بڑی ہی شدید غلط فہمی، بلکہ شدید قسم کی جہالت ہے جس کی جس قدر جلدی اصلاح ہو جائے اچھا ہے۔ اسی غلط نظریہ کا نتیجہ ہے کہ آج اقامت دین کے علم برداروں کا واحد نصب العین صرف حکومتی اقتدار رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اقتدار ہمارے حوالہ کرو، ہم چشم زدن میں خلافت راشدہ قائم کیے دیتے ہیں۔ اب یہ بات ان کی سمجھ میں کسی طرح نہیں آتی کہ اسلامی حکومت مطالبہ کرنے کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قدرتی نتیجہ ہے ایک صحیح قسم کے اسلامی معاشرہ کے صحت مندانہ بلوغ کا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ راستہ بڑے صبر و ریاض کا ہے، لیکن اس کو کیا کیجیے کہ راستہ ہے یہی۔ اس کے لیے جو لوگ انتخابات کے راستہ پر اعتقاد رکھتے ہیں، مجھے ان کی سادہ لوحی پر تعجب ہوتا ہے۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں حکومت بھی نہ دی تو پھر کیا دیا۔ اس جذبہ کے تحت وہ اسلام کی بات ہی حکومتی اقتدار سے شروع کرتے ہیں۔ میں اس بات کو ایک بالکل جذباتی چیز سمجھتا ہوں۔ اسلام نے حکومت کی نہیں، بلکہ ہدایت اور نجات کی ذمہ داری لی ہے، ہاں اگر صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں آ جائے تو اس کے اوپر وہ احکام آپ سے آپ فرض ہو جاتے ہیں جو حکومت سے متعلق ہیں اور اس وقت یہ بات بالکل صحیح ہو گی کہ آپ اس کو اس کی ذمہ داریاں بتائیں۔ ننھے بچوں کے سامنے جوانی کی ذمہ داریوں پر تقریر کرنا ایک بالکل بے ہنگام بات ہے۔

(تفہیم دین ۱۳۷۔۱۴۲)

____________

B