HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہ (۴)

حضرت عمار کے قاتل ابوالغادیہ نے حجاج کا زمانہ پایا۔ایک بار وہ حجاج سے ملنے گئے تو اس نے حضرت عمار کے قاتل ہونے کی بنا پر ان کی خوب مدح سرائی کی، لیکن جب انھوں نے اپنی حاجت بیان کی تو کچھ نہ دیا۔ابوالغادیہ نے کہا: اسے دیکھو،روز قیامت کی بشارتیں سنا رہاہے اور دنیا سے کچھ نہیں دیا۔حجاج بولا: اگر روے زمین پر بسنے والے تمام لوگ مل کربھی حضرت عمار کو قتل کرتے تو سب کے سب دوزخ میں جاتے۔ ابوالغادیہ کا شمار صحابیوں میں کیا جاتا ہے،کہتے ہیں: میں نے مدینہ میں حضرت عمار کو دیکھا کہ وہ حضرت عثمان کو گالیاں نکال رہے ہیں تو انھیں قتل کی دھمکی دی اور کہا: اﷲ نے موقع دیا تو ضرور تمھاری جان لوں گا۔ چنانچہ جنگ صفین میں حضرت عمار نے حملہ کیا تو مجھے بتایاگیا کہ یہ حضرت عمار ہیں۔میں نے ان کی پنڈلیوں اور پھیپھڑوں کے مابین بد ن کا حصہ دیکھا جہاں زرہ نہ پہنچتی تھی۔اسی جگہ وار کر کے ان کو گرا دیا اور قتل کر دیا (احمد، رقم ۱۶۶۴۴)۔

حضرت عمار کی شہادت کی خبر سن کر حضرت علی کو سخت صدمہ ہوا،فرمایا: جس مسلمان پر حضرت عمار کا قتل گراں نہیں گزرا اور مصیبت کا باعث نہیں بنا ، بے راہ ہے۔اﷲ نے حضرت عمار پر رحم کیا جب وہ مسلمان ہوئے ،جب شہید ہوئے اور وہ ان پر رحم کرے گاجب وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔ حضرت علی فرماتے تھے: میں نے دیکھا ہے کہ حضرت عمارصفین کے جس کنارے یا جس وادی میں جاتے، ان کے ساتھ موجود اصحاب رسول ان کی پیروی کرتے۔ (اپنے آخری حملے میں)وہ ہاشم بن عتبہ کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے، ہاشم، آگے بڑھو،جنت تلواروں کے سایے تلے ہے، موت نیزوں کے اطراف میں ہے، جنت کے دروازے کھل گئے ہیں اورموٹی آنکھوں والی حوریں بن سنور چکی ہیں۔ حضرت عمارکی باندی روایت کرتی ہیں کہ ایک بار حضرت عمار بیمار ہوئے ،شدت تکلیف سے نیند جاتی رہی پھر ان پر غشی طاری ہو گئی۔ ہوش میں آئے تو اہل خانہ کو دیکھا کہ آس پاس رو رہے ہیں، کہا: تمھیں اندیشہ ہے کہ میں بستر ہی پر مر جاؤں گا؟میرے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ ایک باغی گروہ مجھے قتل کرے گا اور دنیا میں میرا آخری کھاناپانی ملادودھ ہو گا (دلائل النبوۃ بیہقی: ۶/ ۴۲۱)۔ حضرت عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، حضرت عمار کا قاتل اور ان کا مال غنیمت لینے والا، دونوں جہنم میں جائیں گے۔ انھیں کہا گیا: آپ تو ان سے قتال کر رہے تھے۔ حضرت عمرو نے کہا: آپ نے خاص طور پران کے قاتل اور مال لینے والے کا نام لیا (احمد، رقم ۱۷۷۰۴)۔

حضرت عمار بن یاسر پہلے مسلمان تھے جنھوں نے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کے لیے الگ جگہ مخصوص کی۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں ’الطیب المطیب‘ (پاکیزہ اور خوش گوار) کا لقب عطا کیا تھا۔ حضرت عمار ملنے آئے تو آپ نے ’مرحبًا بالطیب المطیب‘ کہہ کر فرمایا: ان کو آنے دو (ترمذی، رقم ۳۷۹۸۔ ابن ماجہ، رقم ۱۴۶)۔ آپ کا ارشاد ہے: جنت تین نفوس قدسیہ کو سمونے کی شدت سے منتظر ہے، حضرت علی، حضرت عمار اور حضرت سلمان (ترمذی، رقم ۳۷۹۷۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۶۶۶)۔ حضرت ابو الدرداء نے حضرت عبداﷲ بن مسعود کے شاگرد حضرت علقمہ سے پوچھا: کیا تم میں وہ صاحب (حضرت عمار بن یاسر) نہیں رہے جن کے بارے میں اﷲ نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعے سے خبر دی ہے کہ انھیں شیطان کی دست برد سے محفوظ کر دیا گیا ہے (بخاری، رقم ۳۲۸۸۔ ترمذی، رقم ۳۸۱۱)۔ حضرت قیس بن عباد نے حضرت عمار بن یاسر سے پوچھا: حضرت علی کے نزاعات میں آپ کاجو برتاؤ رہا، کیایہ راے تھی جو آپ نے خود اختیار کی یا کوئی ہدایت تھی جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کو تلقین ہوئی۔ حضرت عمار نے جواب دیا: ہمیں وہی ہدایات ملیں جو آپ نے تمام بنی نوع انسان کو دیں، ان سے الگ کوئی رہنمائی ہمیں نہیں ملی (مسلم، رقم ۷۱۳۶۔ احمد، رقم ۱۸۲۲۹)۔ یہی بات حضرت علی نے ان الفاظ میں کہی: اس خالق کی قسم جس نے بیج کو شق کر کے درخت پیدا کیا اور جان دار مخلوق تخلیق کی،مجھے اس فہم کے علاوہ کوئی رہنمائی نہیں ملی جو اﷲ ایک بندے کو قرآن میں دیتاہے یا جو اس صحیفے میں درج ہے۔سائل نے پوچھا: اس کتابچے میں کیا ہے؟ بتایا: اس میں دیت اورغلام آزاد کرنے کے احکام ہیں ، یہ حکم ہے کہ کافر کے بدلے میں مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور یہ کہ کوہ ثبیر سے کوہ ثور تک حرم مدینہ ہے۔ حضرت حذیفہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان روایت کرتے ہیں کہ میرے بعد ابوبکر و عمر کی پیروی کرنا اور عمار کے طریقے پر چلنااور جو ابن مسعود کہیں، اس کی تصدیق کرنا (ترمذی، رقم ۳۷۹۹۔ احمد، رقم ۲۳۲۷۹)۔ حضرت ابو مسعود کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے یہ بات اپنے آخری وقت کہی۔انھوں نے اس پر یہ اضافہ بھی کیا، ابن سمیہ کے طریقے کو پکڑے رکھنا، کیونکہ وہ اپنی وفات تک حق کو نہ چھوڑیں گے۔ حضرت حذیفہ ہی سے روایت ہے کہ ابو الیقظان فطرت پر رہیں گے، اسے نہ چھوڑیں گے، حتیٰ کہ ان کی وفات ہو جائے یا بڑھاپا عقل زائل کر دے۔ حضرت عمار کو دو چیزوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کو کہا گیا تو انھوں نے بہتر انجام کار کا باعث بننے والی شے ہی اختیار کی (ترمذی، رقم ۳۷۹۹۔ ابن ماجہ، رقم ۱۴۸)۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودکہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’جب لوگوں کا باہمی اختلاف ہو گا تو عمار بن یاسر حق کا ساتھ دیں گے (بیہقی ۶/ ۴۲۲، بہ سند ضعیف)۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار پاؤں سے کانوں کی لوؤں (یا مونڈھوں) تک ایمان سے بھرپور ہیں۔‘‘ (نسائی، رقم ۵۰۰۷۔ ابن ماجہ، رقم ۱۴۷)۔ حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں: میرے اور حضرت عمار کے درمیان کوئی نزاع ہوا تو میں نے سخت جملے کہہ ڈالے تو حضرت عمار سخت ناراض ہو گئے۔ پھر میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے سر بلند کر کے فرمایا: خالد، عمار کا دل نہ دکھاؤ، جو عمار سے بغض رکھتا ہے، اﷲ اسے اچھا نہیں سمجھتا اور جو عمار سے دشمنی رکھتا ہے، اﷲ اس سے دشمنی رکھتا ہے (احمد، رقم ۱۶۷۵۸۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۶۶۷)۔ حضرت خالد کہتے ہیں کہ اس فرمان نبوی کے بعدمجھے اس کے علاوہ کسی شے میں دل چسپی نہ تھی کہ میں حضرت عمارکو راضی کرلوں۔ چنانچہ میں ان سے ملا تو ان کی ناراضی ختم ہو گئی۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں: کوئی صحابی ایسانہ تھا کہ میں نے اس کے بارے میں جو جی میں آیا، کہہ دیاسوائے حضرت عمار بن یاسر کے، کیونکہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’عمار کانوں کی لوؤں سے پاؤں کے تلووں تک ایمان سے سرشار ہیں۔‘‘ حضرت عمرو بن عاص سے کہا گیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کو پسند کرتے تھے اور عامل مقرر فرماتے تھے۔ انھوں نے جواب دیا: میں نہیں جانتا ،وہ محبت تھی یامجھ سے استعانت لی گئی تھی، تاہم میں دو آدمیوں کے بارے میں گواہی دے سکتا ہوں کہ آپ ان سے محبت فرماتے تھے، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرت عمار بن یاسر (احمد، رقم ۱۷۷۳۴)۔ لوگوں نے کہا: حضرت عمار کو تو آپ نے صفین میں قتل کر دیا۔ حضرت عمرو نے جواب دیا: تم سچ کہتے ہو۔ حضرت علی سے مروی ہے: مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات معزز رفقا وزیر بنا کر دیے گئے تھے، جبکہ مجھے چودہ نقیبوں کی معیت حاصل ہے۔ان کے نام یہ ہیں: حضرت حمزہ، حضرت جعفر، حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت مقداد، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت سلمان، حضرت عمار، حضرت بلال اور حضرت ابوذر (احمد، رقم ۱۲۶۲)۔

حضرت عمار کم گو تھے۔اکثردعا کرتے کہ میں فتنوں میں پڑنے سے اﷲکی پناہ مانگتا ہوں ۔جنگ صفین کے لیے جاتے ہوئے کنار فرات کھڑے ہو کر یہ دعا مانگی: اے اﷲ، اگر مجھے علم ہوتا کہ اس پہاڑ سے گر کر اگر میں ہلاک ہو جاؤں توتو راضی ہو جائے گا تو میں چھلانگ لگا دیتا۔اگر پتا ہوتا کہ شدید آگ بھڑکا کر اس میں بھسم ہوجانے سے تو خوش ہو جائے گا تو کر گزرتا۔اگر معلوم ہوجاتا کہ دریا میں ڈوب مرنے سے تیری رضا حاصل ہو جائے گی تو میں ڈوب جاتا۔ میں تیری خوشنودی ہی کے لیے جنگ کرنے جا رہاہوں۔ مجھے امید ہے کہ تو مجھے رسوا نہ کرے گا۔ ایک شخص نے حضرت عمر کے آگے حضرت عمار کی چغلی لگائی تو اس طرح بددعا دی: اﷲ، اگر اس نے مجھ پر بہتان باندھا ہے تواس کو دنیا میں وسعت دے اورپوتوں پڑپوتوں والا بنادے ۔ ایک شخص نے حضرت عمار کا کپڑوں کا تھیلا چوری کر لیا۔انھوں نے چور کو جا پکڑا ،اپنی زنبیل لی اور اسے چھوڑ دیا۔ حضرت عمار جب کوفہ کے گورنر تھے، جانوروں کا چارہ خود خریدتے اور کمر پر لاد کر گھر لے جاتے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود گھر تعمیرکر رہے تھے۔ حضرت عمارپاس سے گزرے تو پوچھا: ابوالیقظان، آپ کو گھر کیسا لگا؟ کہا: تونے مضبوط گھر بنایا ہے اور لمبی امیدیں رکھی ہیں، حالاں کہ جلد ہی مر جائے گا ۔

حضرت عمار طویل القامت ،چوڑے شانوں والے تھے ، رنگ گندمی تھا، سیاہ آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ حضرت عمارکی پیشانی پر تھوڑے بال تھے ، خضاب کا استعمال نہ کرتے تھے۔ حضرت عمار کے بیٹے محمد عالم حدیث تھے۔ام الحکم ان کی بیٹی تھیں۔

حضرت عمار بن یاسر نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت حذیفہ بن یمان سے بیس سے زیادہ احادیث روایت کیں۔ان میں سے پانچ بخاری و مسلم میں ہیں۔ حضرت عمار سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں: حضرت علی بن ابو طالب، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت عبداﷲ بن عباس، حضرت جابر بن عبداﷲ، حضرت عبداﷲ بن جعفر، حضرت ابو امامہ باہلی، حضرت ابو طفیل، حضرت محمد بن عمار (بیٹے)، حضرت سعید بن مسیب، حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن، حضرت حجر بن عدی، حضرت ابو لاس خزاعی، حضرت محمد بن حنفیہ، حضرت ابووائل شقیق، حضرت علقمہ، حضرت زر بن حبیش، حضرت ثروان، حضرت حبیب بن صہبان، حضرت حسان بن بلال، حضرت حسن بصری، حضرت خلاس بن عمرو، حضرت ریاح بن حارث، حضرت سائب، حضرت سلمہ بن محمد (پوتے)، حضرت عبداﷲ بن سلمہ، حضرت عبداﷲ بن ابوہذیل، حضرت عبدالرحمن بن ابزی، حضرت علقمہ بن قیس، حضرت محمد بن علی، حضرت میمون بن ابوشیب، حضرت نعیم بن حنظلہ، حضرت ہمام بن حارث اور حضرت ابومریم اسدی۔

حضرت عمار بن یاسر سے تفسیری روایات بھی نقل کی گئی ہیں۔ جیسے سورۂ مائدہ کی وہ تفسیری روایت جس کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں پر آسمان سے گوشت، پھلوں اور روٹیوں سے بھرا ہوا دستر خوان (مائدہ) نازل ہوا۔ مجاہد اور حسن بصری کہتے ہیں کہ ایسا کوئی مائدہ نازل نہ ہوا۔ حضرت عمار نے آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے تیمم کرنے کا صحیح طریقہ سیکھا، جبکہ کئی اصحاب کواس کا علم بعد میں ہوا (بخاری، رقم ۳۳۸)۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضرت ابن مسعود سے مسئلہ پوچھا کہ اگر غسل جنابت کی حاجت رکھنے والے شخص کو پانی نہ ملے تو کیا کرے؟تو انھوں نے جواب دیا: وہ پانی نہ ملنے تک نماز ہی نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا: پھر حضرت عمار بن یاسر کے بیان کا کیا جائے کہ ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنبی کے لیے تیمم کافی قرار دیا تھااور قرآن مجید کی اس آیت ’فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا‘، ’’تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو‘‘ (المائدہ ۵: ۶) پر کیسے عمل کیا جائے؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف اتنا کہا: اگر ہم نے یہ رخصت دے دی توہو سکتا ہے، کوئی محض پانی ٹھنڈا لگنے پر تیمم کی سہولت استعمال کرنے لگے (بخاری، رقم ۳۴۶۔ ابوداؤد، رقم ۳۲۱)۔ حضرت عمر نے تیمم کا مسئلہ بیان کرنے پر حضرت عمار کو ڈانٹا کہ اﷲ سے ڈروتو انھوں نے کہا: اگر آپ چاہیں تو میں یہ روایت بیان نہ کروں (مسلم، رقم ۷۴۸)۔ تب انھوں نے حضرت عمار کو نہ روکا۔ حضرت عمر کے قائل نہ ہونے کا حضرت ابن مسعود نے بھی حوالہ دیا (بخاری، رقم ۳۴۵)۔ حضرت ابوبکر نماز کے اندر پست آواز میں، جبکہ حضرت عمر بلند آواز سے قراء ت کرتے اور حضرت عمار مختلف سورتوں کو ملا کر تلاوت کرتے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی گئی تو آپ نے تینوں سے سبب پوچھا۔ حضرت ابوبکر نے کہا: میں اس رب کو سناتا ہوں جو سرگوشیاں سن لیتا ہے، حضرت عمر نے کہا: میں شیطان کو ڈراتا اور اونگھنے والے کو بیدار کرتا ہوں۔ حضرت عمار نے پوچھا: کیامیں وہ آیتیں ملاتا ہوں جو قرآن کی نہیں ہوتیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، پھر ارشاد کیا: ’’یہ تینوں صحیح کررہے ہیں‘‘ (احمد، رقم ۸۶۵)۔ حضرت عمار بن یاسر مدائن میں چبوترے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے لگے تو وہاں موجود حضرت حذیفہ نے ان کے ہاتھ پکڑ لیے اورنیچے اتار دیا پھر کہا: آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا: ’’جب امام نماز پڑھانے لگے تومقتدیوں سے اونچی جگہ پرکھڑا نہ ہو۔‘‘ حضرت عمار نے جواب دیا: میں اسی لیے تو نیچے آ گیا تھا (ابوداؤد، رقم ۵۹۸)۔ عہد فاروقی میں جب حضرت عمار کوفہ کے گورنر اور حضرت ابن مسعود والئبیت المال تھے۔ جمعہ کا دن تھا، لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود نے یہ دیکھ کر کہ سورج کا سایہ ایک مثل کے برابر ڈھل گیا ہے، کہا: تمھارا حاکم اگرتمھارے نبی کی سنت پر عمل کرتا ہے تو ابھی نکل آئے گا۔ ابھی وہ اپنی بات مکمل نہ کر پائے تھے کہ حضرت عمار نماز نماز پکارتے ہوئے آگئے (احمد، رقم ۴۳۸۵)۔ جمعہ کی نماز میں حضرت عمارعموماً سورۂ ےٰسٓ کی تلاوت کرتے۔ایک بار حضرت عمار نے ہلکی نماز پڑھائی تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے نماز کو مختصر کر دیا۔ حضرت عمار نے کہا: کیا میں نے رکوع و سجود پورے نہیں کیے؟ اختصار کے باوجود میں نے وہ دعائیں کر لیں جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مانگا کرتے تھے (نسائی ، رقم ۱۳۰۷۔ احمد، رقم ۱۸۲۲۱)۔ حضرت ابووائل کہتے ہیں: حضرت عمار نے ہمیں مختصر اور بلیغ خطبہ دیا۔ ہم نے کہا: ابوالیقظان، آپ چاہتے تو خطاب طویل کر لیتے۔ فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے،کسی مسلمان کی نماز کا لمبا ہونا اور خطبے کا چھوٹا ہونا، اس کی فقاہت کی علامت ہے (مسلم، رقم ۱۹۶۴۔ احمد، رقم ۱۸۲۳۳)۔ حضرت عمارنے فتویٰ دیا کہ جس نے شک کے دن (یعنی جب رمضان کا چاند نکلنا یقینی نہ ہو) روزہ رکھا،اس نے ابوالقاسم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی کی (ابوداؤد، رقم ۲۳۳۴)۔ حضرت عمار فرضی مسئلوں کا جواب نہ دیتے، کہتے: جب یہ صوت حال واقع ہو گی تو ہم جواب سوچیں گے۔ حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت آتا تو اسی روز بانٹ دیتے۔بال بچوں والے شخص کودو حصے اور کنوارے کو ایک حصہ عنایت کرتے۔ آپ نے مجھے حضرت عمار سے پہلے بلایا اور دو حصے دیے، کیونکہ میرے بچے تھے، پھر حضرت عمار کو بلایا گیا اور ایک حصہ دیا گیا (ابو داؤد، رقم ۲۹۵۳۔ احمد، رقم ۲۳۸۶۸)۔ ہمیں علم نہیں ہو سکا کہ یہ کب کا واقعہ ہے، شاید اس تقسیم کے وقت حضرت عمار اکیلے ہوں۔ ایک بار حضرت عمار بن یاسر کے ہاتھ پھٹ گئے اور ان کے گھر والوں نے ان پر زعفران لگا دیا۔وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سلام عرض کیا۔ آپ نے جواب نہ دیا اور فرمایا: جاؤ، اسے دھو کر آؤ (ابو داؤد، رقم ۴۶۰۱)۔ حضرت علی کہتے ہیں: مجھے مذی (pre-seminal fluid) کثرت سے آتی تھی۔ میں نے حضرت عمار بن یاسر سے کہاکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کا حل پوچھو، کیونکہ آپ کا داماد ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ آپ سے براہ راست نہ پوچھ سکتا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اس کے لیے وضو ہی کافی ہے، ذکر اور خصیوں کو دھو لو اور وضو کر لو‘‘ (نسائی، رقم ۱۵۴۔۱۵۵)۔ بخاری، ابوداؤد اور خود نسائی کی دوسری روایات میں ہے کہ سیدنا علی نے اس ضمن میں حضرت مقداد بن اسود سے مددلی۔

رؤیت باری تعالیٰ والی حدیث صحابہ کی ایک کثیر تعداد نے روایت کی ہے، حضرت عمار بھی ان میں شامل ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جنت ہر جمعہ کو رب کا دیدار کیا کریں گے۔جب وہ اپنا حجاب اٹھائے گا تو گویا اس جیسی نعمت انھوں نے اس سے پہلے کبھی دیکھی نہ ہو گی۔ اس روایت کی سند بہت ضعیف ہے۔ حضرت عمار کے پوتے محمدبتاتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا کو دیکھا کہ مغرب کی نماز کے بعد انھوں نے چھ رکعتیں پڑھیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون سی نماز ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ نوافل پڑھتے دیکھا ہے۔

حضرت عمار بن یاسرکی سوانح تحریر کرنے کے بعد ہم اس حسرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کاش وہ سیدنا عثمان سے عناد نہ رکھتے اور بنوہاشم سے نہ ہوتے ہوئے بھی اہل بیت کی محبت میں غلونہ کرتے۔ شاید اس طرح تاریخ اسلامی مختلف ہوتی۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں: ’’عمار کچھ معاملات میں عثمان کو برا بھلا کہتے تھے،کاش ایسا نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔ اﷲ ان دونوں بزرگوں سے راضی ہو۔‘‘ ابن خلدون شیعہ سلطنت کی نشاۃ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’شروع شروع میں حضرت زبیر،حضرت عمار بن یاسر اور حضرت مقداد بن اسود دبی دبی زبان میں اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ خلافت اہل بیت کو نہ دے کرا چھا نہیں کیا گیا۔ اس وقت راسخ فی الدین صحابہ اور تابعین کی اکثریت تھی، اس لیے بات تافف و تاسف سے آگے نہ بڑھ سکی ۔‘ ‘یہ حضرات خلافت کو سیدنا علی کا استحقاق سمجھتے تھے، حالاں کہ خود سیدنا علی نے سیدنا ابوبکر و عمر کی اطاعت کی، بلوائیوں کے سامنے سیدنا عثمان کی صفائیاں پیش کیں، ان کے خلاف جاری شورش کا حصہ نہ بنے، بلکہ آخری دم تک ان کا ساتھ دیا۔ ہو سکتا ہے ،ان کے اس طرز عمل کو تقیہ کا لبادہ پہنا دیا جائے۔تقیہ کی تعریف متعین کرنے والے شیعہ مفسر طبرسی کہتے ہیں کہ تقیہ اس وقت جائز ہوتا ہے جب جان جانے کا اندیشہ ہو جیسا کہ خود حضرت عمار بن یاسر کے ساتھ ہوا۔ آیا پہلے تین خلفا کے عہدمیں سیدنا علی کی جان کو حضرت عمار جیساکوئی خطرہ تھا کہ وہ تقیہ سے کام لیتے؟

مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، دلائل النبوۃ (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،تاریخ دمشق الکبیر(ابن عساکر)،المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم (ابن جوزی)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ا بن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیراعلام النبلاء(ذہبی)،البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، کتاب العبر و دیوان المبتدأ والخبر (ابن خلدون) ، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،سیرۃ النبی (شبلی نعمانی)، تاریخ اسلام (اکبرشاہ خاں نجیب آبادی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: H.Reckendorf)۔

____________

 

B