سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں، اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے، لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں، ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور اور اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے، کہ خود اس کے استاد، یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔ ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں، جو اپنے اپنے مخصوص دائرۂ مضمون کے حکمران ہیں، لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے باراحسان سے گردن اٹھا سکتا ہو۔ بعض بالکل ان کے دامن تربیت میں پلے ہیں، بعضوں نے دور سے فیض اٹھایا ہے، بعض نے مدعیانہ اپنا الگ رستہ نکالا، تاہم سرسید کی فیض پذیری سے بالکل آزاد کیونکر رہ سکتے تھے۔
سرسید کی جس زمانہ میں نشوونما ہوئی، دلی میں اہل کمال کا مجمع تھا، اور امرا اور رؤسا سے لے کر ادنیٰ طبقہ تک میں علمی مذاق پھیلا ہوا تھا۔ سرسید جس سوسائٹی کے ممبر تھے، اس کے بڑے ارکان مفتی صدر الدین خان آزودہ، مرزا غالب اور مولانا صہبانی تھے۔ ان میں سے ہر شخص تصنیف و تالیف کا مالک تھا، اور ان ہی بزرگوں کی صحبت کا اثر تھا کہ سرسید نے ابتدا ہی میں جو مشغلۂ علمی اختیار کیا، وہ تصنیف و تالیف کا مشغلہ تھا۔
نمبر I
اول وہ رواج عام کے اقتضا سے شاعری کے میدان میں آئے، آہی تخلص اختیار کیا اور اردو میں ایک چھوٹی سی مثنوی لکھی، جس کا ایک مصرعہ انھی کی زبانی سنا ہوا مجھے یاد ہے:
نام میرا تھا کام ان کا تھا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو شاعری سے مناسبت نہ تھی، اس لیے وہ بہت جلد اس کوچہ سے نکل آئے، اور نثر کی طرف توجہ کی چونکہ حقائق اور واقعات کی طرف ابتدا سے میلان تھا، اس لیے دلی کی عمارتوں اور یادگاروں کی تحقیقات شروع کی، اور نہایت محنت و کوشش سے اس کام کو انجام دے کر ۱۸۴۷ء میں ایک مبسوط کتاب لکھی جو ’’آثار الصنادید‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اس وقت اگرچہ سرسید کے سامنے اردو نثر کے بعض بعض عمدہ نمونے موجود تھے، خصوصاً میرا من صاحب کی ’’چہار درویش‘‘ جو ۱۸۰۲ء میں تالیف ہوئی تھی، اور جس کی سادگی، صفائی اور واقعہ طرازی آج بھی موجودہ تصنیفات کی ہم سری کا دعویٰ کر سکتی ہے، اس کے ساتھ مضمون جو اختیار کیا گیا تھا، یعنی عمارات اور ابنیہ کی تاریخ وہ تکلف اور آورد سے اِبا کرتا تھا، تاہم ’’آثار الصنادید‘‘ میں اکثر جگہ بیدل اور ظہوری کا رنگ نظر آتا ہے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ سرسید کی رات دن کی صحبت مولانا امام بخش صہبائی سے رہتی تھی، اور مولاناے موصوف بیدل کے ایسے دل دادہ تھے، کہ ان کا کلمہ پڑھتے تھے، اور جو کچھ لکھتے تھے، اسی طرز میں لکھتے تھے۔ سرسید نے مجھ سے خود بیان کیا کہ ’’آثار الصنادید‘‘ کے بعض بعض مقامات بالکل مولانا امام بخش صہبائی کے لکھے ہوئے ہیں، جو انھوں نے میری طرف سے اور میرے نام سے لکھ دیے تھے۔
بہرحال اس کتاب میں جہاں جہاں انشاپردازی کا زور دکھایا ہے، اس کا نمونہ یہ ہے:
’’ان حضرت کی طبع رسا شکل رابع سے پہلے اس سے نتیجہ حاصل کرتی ہے کہ بدیہی الانتاج سے ارباب فہم و ذکا، اور ناخن فکر عقدۂ لاینحل کو پہلے سے وا کرتا ہے کہ گرہ جناب کو انگشت موج دریا معنی افہمی اس درجہ کہ راست و درست سمجھ لیا، کہ زبان سوسن نے کیا کہا، اور رمز شناسی اس مرتبہ کہ واقعی معلوم ہو گیا، کہ نگاہ نرگس نے کیا اشارہ کیا، اگر ان کی رالے روشن معجز نما ہو تو نقطۂ موہوم کو انگشت سے تقسیم کرے اور جزو لایتجزیٰ کو دونیم۔‘‘
اگرچہ اس سے بہت پہلے، یعنی ۱۸۳۶ء میں مولوی محمد حسین آزاد کے والد بزرگوار مولوی محمد باقر نے اردو اخبار کے نام سے اردو کا ایک پرچہ نکالا تھا، اور خود سرسید نے ایک پرچہ جاری کیا تھا، جس کا نام ’’سید الاخبار‘‘ تھا، اور دونوں پرچوں کی زبان، ضرورت کے اقتضار سے سادہ اور صاف ہوتی تھی، تاہم اس وقت تک یہ زبان علمی زبان نہیں سمجھی جاتی تھی، اس لیے جب کوئی شخص علمی حیثیت سے کچھ لکھتا تھا، تو اسی فارسی نما طرز میں لکھتا تھا۔ سرسید نے بھی اسی وجہ سے ’’آثار الصنادید‘‘ میں جہاں انشاپردازی سے کام لیا، اسی طرز کو برتا۔
’’آثار الصنادید‘‘ جس زمانہ میں نکلی، اس کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد تقریباً ۱۸۵۰ء میں دلی کے مشہور شاعر مرزا غالب نے اردو کی طرف توجہ کی، یعنی مکاتبات وغیرہ اردو میں لکھنے شروع کیے، اور چونکہ وہ جس طرف متوجہ ہوتے تھے، اپنا کوچہ الگ نکال کر رہتے تھے، اس لیے انھوں نے تمام ہم عصروں کے برخلاف مکاتبہ کو مکالمہ کر دیا، مکاتبات میں وہ بالکل اس طرح اداے مطلب کرتے تھے، جیسے دو آدمی آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں، اس کے ساتھ بہت سے خطوط میں انسانی جذبات، مثلاً رنج و غم، مسرت و خوشی، حسرت و بے کسی کو نہایت خوبی سے ادا کیا ہے، اکثر جگہ واقعات کو اس بے ساختگی سے ظاہر کیا ہے، کہ واقعہ کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہیں، کہ اردو انشاپردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے، اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔
سرسید کو مرزا سے جو تعلق تھا، وہ ظاہر ہے، اس لیے کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ سرسید ضرور مرزا کی طرز سے مستفید ہوئے۔
اسی زمانہ میں ہندوستان کے ہر حصہ میں کثرت سے اردو اخبارات جاری ہو گئے، اور انشاپردازی کو روز بروز ترقی ہوتی گئی۔ اخبارات کو ہر قسم کے اخلاقی، تمدنی، ملکی، مذہبی اور تاریخی مسائل سے کام پڑتا تھا، اس لیے ہر قسم کے مضامین لکھے گئے، تاہم انشاپردازی کا کوئی خاص اسٹائل متعین نہیں ہوا تھا، اس کے علاوہ جو کچھ تھا، ابتدائی حالت میں تھا۔
۱۲۸۷ھ میں جس کو آج کم و بیش ۲۷ برس ہوئے، سرسید نے قوم کی حالت کی اصلاح کے لیے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا پرچہ نکالا، اور اردو انشاپردازی کو اس رتبہ پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔ سرسید نے اردو میں جو باتیں پیدا کیں، اس کو مختصراً ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں خود ایک مقام پر لکھتے ہیں، ان کی خاص عبارت ہے:
’’جہاں تک ہم سے ہو سکتا ہم نے اردو زبان کی علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی، مضمون ۱ کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا، رنگین۲ عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیالی سے بھری ہوئی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے، اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا، اس ۳ میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو، مضمون کے ادا میں ہو، جو ۴ اپنے دل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے، اور دل میں بیٹھے۔‘‘
اس ۱ آرٹیکل میں سرسید نے انشاپردازی کے اور بہت سے اصول بتائے ہیں جن کو اس موقع پر ہم اختصار کی وجہ سے قلم انداز کرتے ہیں۔
سرسید کی انشاپردازی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے مختلف مضامین پر کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے، اور جس مضمون کو لکھا ہے، اس درجہ پر پہنچا دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ناممکن ہے۔ فارسی اور اردو میں بڑے بڑے شعرا اور نثار گزرے ہیں، لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا، جو تمام قسم کے مضامین کا حق ادا کر سکتا۔
فردوسی بزم میں رہ جاتا ہے، سعدی رزم کے مرد میدان نہیں، نظامی رزم و بزم دونوں کے استاد ہیں، لیکن اخلاق کے کوچہ سے آشنا نہیں، ظہوری صرف مدحیہ نثر لکھ سکتا ہے، برخلاف اس کے سرسید نے اخلاق، معاشرت، پالیٹیکس۲ ، مناظر قدرت وغیرہ وغیرہ سب پر لکھا ہے، اور جو کچھ لکھا ہے، لاجواب لکھا ہے، مثال کے طور پر بعض بعض مضامین کے جستہ جستہ فقرے نقل کرتے ہیں۔ امید کی خوشی پر ایک مضمون لکھا ہے، جس میں امید کو مخاطب کیا ہے، اس کے چند فقرے یہ ہیں:
’’دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے، اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے، اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے، ہات کام میں اور دل بچہ میں ہے، اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے، سورہ میرے بچے سورہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سورہ، اے میرے دل کی کونپل سورہ، بڑھ، اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آئے، تیری ٹہنی میں کبھی کوئی خار نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آئے، سورہ میرے بچے سورہ، میری آنکھوں کے نور اور میرے دل کے سرور میرے بچے سورہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہو گی، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو تم سے کرے گا، ہمارے دل کو تسلی دیں گی، سورہ میرے بچے سورہ، سورہ میرے بالے سورہ۔
یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا، مگر جب وہ ذرا اور بڑا ہوا، اور معصوم ہنسی سے ماں کے دل کو شاد کرنے لگا، اور اماں اماں کہنا سیکھا، اس کی پیاری آواز ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہنچنے لگی، آنسوؤں سے اپنی ماں کی آتش محبت کے بھڑکانے کے قابل ہوا، پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا، رات کو ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا۔ سبق عمزدہ دل سے سنانے لگا، اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کر منہ ہاتھ دھو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا، اور اپنے بے گناہ دل بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا، تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہو گئیں، اور ہماری پیاری امید! تو ہی ہے جو مہد سے لحد تک ہمارے ساتھ ہو۔
وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پر کوچ کرتے تھک گیا ہے، لڑائی کے میدان میں جب کہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں، اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کا عالم ہوتا ہے، دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرأت ہوتی ہے، اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہو کر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے اور جب کہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگینیں اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں، اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے اور جب کہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھتا ہے، تو اے بہادروں کی قوت بازو! اور اے بہادروں کی ماں! تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال اس کا کان فقارہ میں سے تیرے ہی نغمہ کی آواز سنتا ہے۔‘‘
تم دیکھ سکتے ہو کہ ان چند سطروں میں کس طرح نیچر کی تصویر کھینچی ہے، اور اس میں کس قدر درد اور اثر پیدا کیا ہے۔
نمبر I
پالیٹیکس کا راستہ اس سے بالکل الگ ہے۔
پنجاب میں جب یونیورسٹی قائم ہو رہی تھی جس میں اورینٹل تعلیم پر بہت زور دیا گیا تھا، سرسید کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سے پالیٹیکس کی بنا پر ہم کو اعلیٰ تعلیم سے روکنا مقصود ہے۔ اس وقت سرسید نے پے در پے تین آرٹیکل لکھے، ان آرٹیکلوں کے بانیوں کو اس قدر گھبرا دیا کہ خاص ان آرٹیکلوں کے جواب میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے، اور ان کا مجموعہ یکجا کر کے ایک مستقل کتاب تیار کی، افسوس ہے کہ اختصار کی وجہ سے ہم ان آرٹیکلوں کا کوئی حصہ نقل نہیں کر سکتے۔
سرسید نے انشاء پردازی کی ترقی کے جو طریقے ایجاد کیے، ان میں ایک یہ تھا کہ بہت سے اعلیٰ درجہ کے انگریزی مضامین کو اردو زبان کا قالب پہنایا، لیکن ترجمہ کے ذریعہ سے نہیں، کیونکہ یہ طریقہ اب تک بے سود ثابت ہوا ہے، بلکہ اس طرح کے انگریزی کے خیالات اردو میں اردو کی خصوصیات کے ساتھ ادا کیے۔ امید کی خوشی کا مضمون جس کے ہم نے بعض فقرات اوپر نقل کیے، دراصل ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے، انگریزی میں اڈیسن، اور اسنیل بڑے مضمون نگار گزرے ہیں، سرسید نے ان کے متعدد مضامین کو اپنی زبان میں ادا کیا۔
سرسید کی انشا پردازی کا بڑا کمال اس موقع پر معلوم ہوتا ہے، جب وہ کسی علمی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں، اردو زبان چونکہ کبھی علمی زبان کی حیثیت سے کام میں نہیں لائی گئی، اس میں علمی اصطلاحات، علمی الفاظ اور علمی تلمیحات بہت کم ہیں، اس لیے اگر کسی علمی مسئلہ کو اردو میں لکھنا چاہو تو الفاظ مساعدت نہیں کرتے، لیکن سرسید نے مشکل سے مشکل مسائل کو اس وضاحت، صفائی اور دل آویزی سے ادا کیا ہے کہ پڑھنے والا جانتا ہے کہ وہ کوئی دل چسپ قصہ پڑھ رہا ہے۔
پروفیسر رینان نے جو فرانس کا ایک بڑا مشہور مصنف گزرا ہے، اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’عربی زبان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ فلسفی مسائل کو ادا کر سکے‘‘۔ رینان جن مسائل کے ادا کرنے کے لیے عربی زبان کو ناقابل سمجھتا ہے (گو اس کا یہ خیال محض غلط ہے) سرسید نے اردو جیسی کم مایہ زبان میں وہ مسائل ادا کر دیے ہیں، سرسید نے فلسفۂ الٰہیا ت پر جو کچھ اپنی مختلف تحریروں میں لکھا ہے، وہ فلسفہ کے اعلیٰ درجہ کے مسائل ہیں۔
زمانہ جانتا ہے کہ مجھ کو سرسید کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف تھا، اور میں ان کے بہت سے عقائد و خیالات کو بالکل غلط سمجھتا تھا، تاہم اس سے مجھ کو کبھی انکار نہ ہو سکا کہ ان مسائل کو سرسید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا ہے کوئی اور شخص کبھی ادا نہیں کر سکتا۔
سرسید کی تحریروں میں جابجا ظرافت اور شوخی بھی ہوتی ہے، لیکن نہایت تہذیب اور لطافت کے ساتھ مولوی علی بخش خان صاحب مرحوم جو سرسید کے رد میں رسالے لکھا کرتے تھے، حرمین شریفین گئے، اور وہاں سے سرسید کی تکفیر کا فتویٰ لائے۔ اس پر سرسید ایک موقع پر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جو صاحب ہماری تکفیر کے فتوے لینے کو مکہ معظمہ تشریف لے گئے تھے، اور ہماری کفر کی بدولت ان کو حج اکبر نصیب ہوا، ان کے لائے ہوئے فتووں کے دیکھنے کے ہم بھی مشتاق ہیں۔
بہ بین کرامت بتخانۂ مرا اے شیخ
کہ چون خراب شود خانۂ خدا گردو
سبحان اللہ ہمارا کفر بھی کیا کفر ہے، کہ کسی کو حاجی اور کسی کو ہاجی، اور کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بناتا ہے،
باران کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست
درباغ لالۂ روید و درشورہ لوم خس
‘‘
’’تہذیب الاخلاق‘‘ جب بند ہوا ہے، تو سرسید نے خاتمہ پر جو مضمون لکھا ہے، اس کے ابتدائی فقرے یہ ہیں:
’’سوتوں کو جھنجوڑتے ہیں، کہ جاگ اٹھیں، اگر اٹھ کھڑے ہوئے تو مطلب پورا ہو گیا، اور اگر نیند میں اٹھانے سے کچھ بڑبڑائے، کچھ جھنجھلائے، ادھر ہات جھٹک دیا، ادھر پیر جھٹک دیا، اور اینڈے پڑے سوتے رہے، تو بھی توقع ہوئی، کہ تھوڑی دیر بعد جاگ اٹھیں گے، شاید ہمارے بھائیوں کی اس اخیر درجہ تک نوبت آ گئی ہے۔ اگر یہ خیال ٹھیک ہو تو ہم کو بھی زیادہ نہ چھیڑنا چاہیے، بچے اٹھاتے وقت کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم کو اٹھائے جاؤ گے، تو ہم اور پڑے رہیں گے، تم ٹھہر جاؤ ہم آپ ہی اٹھ کھڑے ہوں گے، بچہ کڑوی دوا پیتے وقت بسور کر ماں سے کہتا ہے کہ بی! یہ مت کہے جاؤ کہ شاباش بیٹا پی لے پی لے، تم چپ رہو، میں آپ ہی پی لوں گا، لو بھائیو! اب ہم بھی نہیں کہتے کہ اٹھو پی لو پی لو۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ سرسید نے اردو انشا پردازی پر جو اثر ڈالا ہے، اس کی تفصیل کے لیے دو چار صفحے کافی نہیں ہو سکتے، یہ کام درحقیقت مولانا حالی کا ہے، وہ لکھیں گے اور خوب لکھیں گے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ لکھ چکے ہیں، اور خوب لکھا ہو گا۔ میں کالج کی طرف سے مجبور کیا گیا تھا کہ اس وقت جب کہ تمام ملک میں سرسید کا آوازۂ ماتم گونج رہا ہے، اور ہر شخص ان کے کارناموں کے سننے کا شائق ہے، کچھ نہ کچھ مختصر طور پر فوراً لکھنا چاہیے، میں نے اسی کی تعمیل کی، ورنہ میں مولانا حالی کی مقبوضہ سرزمین میں مداخلت کا کوئی حق نہیں رکھتا، اور اس شعر کا مصداق بننا نہیں چاہتا:
بھلا ترددِ بیجا سے اس میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو
(مقالات شبلی ۲/ ۵۷۔۶۵، بہ حوالہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میگزین علی گڑھ مئی ۱۸۹۸ء)
____________