پاکستان اور ہندوستان کے متعدد مخلصین نے ہمیں کراچی کے ایک معاصر کے ایک مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے جو معاصر مذکور کی مارچ کی اشاعت میں ’’پردہ اٹھنے کے بعد‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ پورا مضمون نہایت ہی توہین آمیز اور حد درجہ دل آزار ہے۔ یہ معاصر مولانا مرحوم کے متعلق اسی قسم کا ایک دل آزار مضمون اس سے پہلے بھی شائع کر چکا ہے۔ مولانا آزاد معاصر مذکور کی نظر میں جیسے کچھ بھی ہوں، لیکن اب وہ اپنے رب کے پاس جا پہنچے! وفات پا جانے والوں سے متعلق ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہے کہ اگر ان کی کچھ بھلائیاں ہمارے علم میں ہوں تو ان کا ذکر کریں، ورنہ کم از کم ان کی لغزشوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ جو لوگ مولانا کے وفات پا چکنے کے بعد ان کا پردہ اٹھانے کی سعی میں سرگرم ہیں، ان کے سینے ہمارے نزدیک خوف خدا سے بالکل خالی ہیں۔ وہ اپنے اس رویہ سے اللہ تعالیٰ کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ اسی دنیا میں ان کے پردے چاک کرے۔
مولانا آزاد مکہ میں نہیں پیدا ہوئے کھیم کرن میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ کوئی بڑے عالم نہیں تھے، بلکہ مسجد کو رہن رکھنے والے اور بدعتی آدمی تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان تحقیقات سے اقامت دین کے اس نصب العین کو کیا تقویت پہنچ رہی ہے جس کے یہ حضرات کل تک علم اٹھائے پھر رہے تھے! مولانا آزاد میں جو بڑائیاں اور خوبیاں تھیں، وہ یہ نہیں تھیں کہ وہ بہت بڑے باپ کے بیٹے یا کسی بہت بڑی درس گاہ سے نسبت رکھنے والے تھے، بلکہ یہ ساری خوبیاں ان کی ذاتی خوبیاں تھیں اور وہ اتنی شان دار تھیں کہ ان کے بدتر سے بدتر حاسد بھی ان کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ مولانا آزاد نے دوسروں کی نسبت سے خود شرف حاصل نہیں کیا، بلکہ اپنی نسبت سے دوسروں کو شرف بخشا۔
مولانا کی عربی دانی کی بحث بھی ایک غیر ضروری اور غیر مفید بحث ہے۔ اور اگر یہ بحث کچھ مفید بھی ہے تو بہرحال ان لوگوں کے اٹھانے کی نہیں ہے جو خود عربی، فارسی، انگریزی، ہر چیز سے بے بہرہ ہیں۔
مولانا پر یہ طنز بھی ہمارے نزدیک ابھی قبل ازوقت ہے کہ ’بھارت میں گائے کے ذبیحہ کی ممانعت سے لے کر توہین رسول تک کے اندوہناک واقعات رونما ہو گئے، مگر حزب اللہ کے موسس امام الاحرار مولانا محی الدین المکنی بابی الکلام الدہلوی دم سادھے بیٹھے رہے!‘
مولانا پر یہ طنز اس وقت موزوں رہے گا جب یہ حضرات بھارت کے کفرستان میں نہیں، بلکہ پاکستان کے اسلامستان میں، جو سو فی صد مسلمانوں کا ملک ہے اور اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، کچھ کر کے دکھا سکیں۔ ابھی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن حضرات کو اپنے ناخن تدبیر کی جولانیوں پر بڑا ناز تھا، رشتہ میں ایک ہی گرہ پڑ جانے سے، وہ اس طرح چکرا گئے ہیں کہ گرہ کھولنے کے بجاے سر کھجانے میں مصروف ہیں:
اس بے بسی میں یارو، کچھ بن پڑے تو جانیں
جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا
بہرحال، مولانا مرحوم کے متعلق اس طرح کی بحثیں جو لوگ چھیڑ رہے ہیں، ان کے ظرف کے متعلق کوئی اچھی راے نہیں قائم کی جا سکتی۔ مولانا آزاد ان حضرات کے نزدیک واقدی کی طرح کذاب ہیں۔ لیکن ان کی یہی ایک خوبی ان حضرات کی تمام خوبیوں پر بھاری ہے کہ ان کی ذات پر جب بھی اس قسم کے شریفانہ حملے کیے گئے تو انھوں نے ان کا نوٹس نہیں لیا، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ اپنے اس قسم کے کرم فرماؤں کے ساتھ ان کی مشکلات میں انھوں نے نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کی طبیعت میں بڑی بلندی تھی اور اس بلندی کی وجہ سے وہ لوگوں کی حاسدانہ باتوں کی کبھی پروا نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عظمت و شہرت عطا فرما دی تھی کہ ان کو اپنی شہرت و عظمت کی تعمیر کے لیے دوسروں کی شہرت پر حملہ کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی۔
مولانا آزاد جیسے لوگوں پر اگر کسی کو بحث کرنی ہو تو ان کے افکار و نظریات پر کرے۔ اس لیے کہ اس طرح کے لوگوں کے افکار و نظریات سے ہزاروں انسانوں کی زندگیاں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ مولانا آزاد کے بعض افکار و نظریات سے ہمیں بھی اختلاف ہوا ہے اور ہم نے اپنے اس اختلاف کا اپنی تحریروں میں اظہار بھی کیا ہے، لیکن اس اختلاف کے باوجود ہماری نظروں میں ا ن کی عزت و عظمت کبھی کم نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے اور ان کی ذات پر اس قسم کے ’شریفانہ‘ حملے کرنے والوں کو توفیق دے کہ یہ اپنے زبان و قلم کی صلاحیتیں کسی مفید مقصد کے لیے استعمال کریں اور دوسروں کا پردہ اٹھانے کے بجاے اپنا پردہ قائم رکھنے کی کوشش کریں!
معاصر موصوف نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ مولانا مرحوم کے سارے تربیت یافتہ ملحد اور بے دین ہیں اور اس سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ مولانا بھی ایک ملحد و بے دین تھے۔ یہ نکتہ اگر صحیح ہے تو کیا یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اسی نکتہ کی روشنی میں ان بزرگوں کے متعلق کیا راے قائم کی جائے جن کے فیض تربیت کا یہ مظاہرہ معاصر موصوف نے کیا ہے اور جن کو اپنے صفحات میں وہ ہم رتبۂ ابن تیمیہ و شاہ ولی اللہ قرار دیتا رہا ہے۔
(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۰۸، بہ حوالہ ماہنامہ میثاق لاہور۔ اپریل ۱۹۶۰ء)
____________