HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: ہود ۱۱: ۱۰۰- ۱۲۳ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآئِ الْقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیْکَ مِنْھَا قَآئِمٌ وَّحَصِیْدٌ{۱۰۰} وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ وَلٰکِنْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِھَتُہُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ لَّمَّا جَآئَ اَمْرُ رَبِّکَ وَمَا زَادُوْھُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ{۱۰۱} وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَھِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٓٗ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ{۱۰۲} اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْھُوْدٌ{۱۰۳} وَمَا نُؤَخِّرُہٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ{۱۰۴} یَوْمَ یَاْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ{۱۰۵} فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَہُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّ شَھِیْقٌ{۱۰۶} خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآئَ رَبُّکَ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ{۱۰۷} وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآئَ رَبُّکَ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ{۱۰۸} فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّمَّا یَعْبُدُ ھٰٓؤُلَآئِ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا کَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُھُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِنَّا لَمُوَفُّوْھُمْ نَصِیْبَہُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ{۱۰۹}
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَاِنَّھُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ{۱۱۰} وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَہُمْ اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ{۱۱۱} فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وََلَا تَطْغَوْا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ{۱۱۲} وََلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ{۱۱۳} وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ{۱۱۴} وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ{۱۱۵} 
فَلَوْلَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْہُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ{۱۱۶} وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ{۱۱۷}
وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ{۱۱۸} اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ{۱۱۹}
وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ وَجَآئَ کَ فِیْ ھٰذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَّ ذِکْرٰٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ{۱۲۰} وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنَّا عٰمِلُوْنَ{۱۲۱} وَانْتَظِرُوْا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ{۱۲۲} وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ{۱۲۳}
یہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی تو اُس کے بارے میں بھی (اِسی طرح) اختلاف کیا گیا تھا۲۴۰؎۔ تیرے پروردگار کی طرف سے اگر ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اِن کے درمیان (اِس اختلاف کا) فیصلہ چکا دیا جاتا۲۴۱؎۔ حقیقت یہ ہے کہ (جو کچھ تم پیش کر رہے ہو)، اُس کی طرف سے یہ لوگ ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جو الجھا دینے والا ہے۔ (تم مطمئن رہو)، تمھارا پروردگار اِن میں سے ہر ایک کو اُس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا۲۴۲؎۔ یہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اُس سے یقینا با خبر ہے۔ سو تم بھی ثابت قدم رہو، جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے، اور وہ بھی جنھوں نے تمھارے ساتھ (اپنے پروردگار کی طرف) رجوع کیا ہے اور کجی اختیار نہ کرو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اُسے وہ دیکھ رہا ہے۔ (اِن کی ترغیب و ترہیب کے باوجود) اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا، ورنہ تمھیں بھی آگ پکڑ لے گی اور خدا کے سواتمھارا کوئی حامی نہ ہو گا، پھر کہیں سے مدد بھی نہیں پائو گے۔۲۴۳؎ (اور دیکھو، اِس راہ میں ثابت قدمی کے لیے)دن کے دونوں حصوں میں نماز کا اہتمام کرو اور رات کے اوائل میں بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ایک یاددہانی ہے اُن کے لیے جو یاددہانی حاصل کرنے والے ہوں۔ اور صبر کرو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کا اجر ضائع نہ کرے گا جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں۲۴۴؎۔ ۱۱۰-۱۱۵
پھر (اِس پر بھی غور کرو کہ)ایسا کیوں نہ ہوا کہ تم سے پہلے کی امتوں میں۲۴۵؎ ایسے اہل خیر ہوتے جو (لوگوں کو) زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت تھوڑے جنھیں ہم نے اُن میں سے نجات دی اور ظالم جس عیش میں تھے، اُسی میںپڑے رہے، (اِس لیے کہ) وہ مجرم تھے۔ (اے پیغمبر)، تیرا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو (اُن کے) کسی ظلم کی پاداش میں ہلاک کر دے، جبکہ اُن کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۲۴۶؎۔ ۱۱۶-۱۱۷
تیرا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی گروہ بنا دیتا، (مگر اُس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اُنھیں ارادہ و اختیار عطا فرمایا ہے تو اب یہی ہو گا کہ) وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے، سواے اُن کے جن پر تیرا پروردگار رحم فرمائے۲۴۷؎۔ اُس نے اِسی لیے اُن کو پیدا کیا ہے (کہ وہ اپنے اختیار سے فیصلہ کریں۔ یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ) تیرے پروردگار کی بات پوری ہو گئی (جو اُس نے کہی تھی) کہ میںجہنم کو جنوں اور انسانوں سے اکٹھے بھر دوں گا۔۲۴۸؎ ۱۱۸-۱۱۹
اور، (اے پیغمبر)، رسولوں کی سرگذشتوں میں سے ہر ایک ہم تمھیں سنا رہے ہیں، جس سے ہم تمھارے دل کو مضبوط کریں۔ اِن کے اندر تمھارے پاس حق آیا ہے۲۴۹؎ اور ماننے والوں کے لیے اِن میں نصیحت اور یاددہانی ہے۔اُن سے کہہ دو، (اے پیغمبر)، جو نہیںمان رہے کہ تم اپنے طریقے پر کرو (جو چاہتے ہو)، ہم اپنے طریقے پر کریں گے۔ تم بھی انتظار کرو (کہ خدا کا فیصلہ کب صادر ہوتا ہے)، ہم بھی منتظر ہیں۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہے، سب خدا کے پاس ہے اور تمام معاملات اُسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔ سو، (اے پیغمبر)، اُسی کی بندگی کرو اور اُسی پر بھروسا رکھو۔ تم لوگ جو کچھ کر رہے ہو، تیرا پروردگار اُس سے بے خبر نہیں ہے۔ ۱۲۰-۱۲۳

۲۲۹؎ یہاں سے آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کو اُس سبق کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جو اُن سرگذشتوں سے اُنھیں حاصل کرنا چاہیے جو پیچھے بیان ہوئی ہیں۔

۲۳۰؎ اصل میں ’قَآئِمٌ‘اور’حَصِیْدٌ‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن سے کیا مراد ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ ’قَآئِمٌ‘ کی ایک مثال مصر ہے جس کے اندر سے فرعون او راُس کی قوم کو خدا نے نکالا اور لے جا کر سمندر میں غرق کر دیا۔ مکان قائم رہ گئے، مکین ناپید ہو گئے۔ ’حَصِیْدٌ‘ سے مراد قوم ہود اور قوم لوط وغیرہ کی بستیاں ہیں جن کے مکان و مکین سب ناپید ہو گئے۔ صرف کسی کسی کے کچھ آثار اپنے مکینوں کی بدبختی کی داستان عبرت سنانے کے لیے رہ گئے۔‘‘ (تدبرقرآن۴/ ۱۷۰)   

۲۳۱؎ یعنی سب کی حاضری کا دن تاکہ معاملے کے تمام فریق سامنے موجود ہوں اور جو کچھ فیصلہ سنایا جائے، پورے انصاف کے ساتھ سنایا جائے۔

۲۳۲؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ پر نبوت کا خاتمہ بجاے خود اِس بات کی علامت ہے کہ قیامت اب زیادہ دور نہیں ہے اور یہ فی الواقع ایک گنتی کی مدت ہی ہے جس کے لیے اُسے موخر کیا گیا ہے۔

۲۳۳؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اُن بے بنیاد توقعات کا خاتمہ ہو جائے جو لوگ اُن ہستیوں سے وابستہ کر لیتے ہیں جنھیں وہ اپنے زعم کے مطابق خدا کے حضور میں شفاعت کرنے والا سمجھتے ہیں۔

۲۳۴؎ ’زَفِیْر‘ اور ’شَھِیْق‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، دونوں گدھے کی چیخ کے لیے آتے ہیں۔ ایک اُس چیخ کے لیے جو سانس کو باہر نکالتے وقت اور دوسرا اُس کے لیے جو سانس کو اندر کی طرف لے جاتے وقت پیدا ہوتی ہے۔

۲۳۵؎ یعنی وہ عالم جو قیام قیامت کے وقت وجود میں آئے گا۔ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اُس دن ہمارے یہ زمین و آسمان ایک نئے زمین و آسمان میں تبدیل کر دیے جائیں گے۔ دوام اور ہمیشگی کے معنی میں یہ تعبیر ہماری زبان میں بھی اِسی طرح اختیار کی جاتی ہے۔

۲۳۶؎ قرآن کی یہی آیت ہے جس کی بنا پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ایک دن دوزخ کی بساط لپیٹ دی جائے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کا عذاب وعدہ نہیں، بلکہ وعید ہے اور عالم کا پروردگار یہ حق یقینا رکھتا ہے کہ اپنی رحمت سے مجرموں کی سزا میں تخفیف کرے یا خاک اور راکھ بنا کر اُنھیں ہمیشہ کے لیے اِسی دوزخ کی مٹی میں دفن کر دے۔ آیت کے آخر میں ’اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘ کے الفاظ اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۳۷؎ یہ استثنا بتا رہا ہے کہ اہل جنت کے احوال و مراتب میں بھی تبدیلیاں ہوں گی، لیکن یہ خوب سے خوب تر کی نوعیت کی ہوں گی۔ چنانچہ آگے وضاحت کر دی ہے کہ خدا کی اِس بخشش میں کبھی انقطاع نہ ہو گا۔ پچھلی آیت کا خاتمہ ’اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘ کے الفاظ پر ہوا ہے۔ یہاں اُن کی جگہ ’عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ تبدیلی جنت اور دوزخ کے دوام میں اِسی فرق کی بنا پر کی گئی ہے۔

۲۳۸؎ یعنی تمھیں یہ تردد نہ ہو کہ اچھے بھلے لوگ ہیں، آخر کسی دلیل کی بنیاد پر ہی اِن چیزوں کو پوجتے ہوں گے۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ عتاب کا رخ اُنھی لوگوں کی طرف ہے جو یہ حماقت کر رہے تھے۔

۲۳۹؎ یعنی جس انجام کے مستحق ہیں، ٹھیک اُسی کو پہنچ جائیں گے۔ اِن میں سے کسی کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ہر ایک کے لیے اُس کے اعمال کی پاداش میں جو صلہ مقرر کیا گیا ہے، وہ اُسے پورا مل جائے گا۔

۲۴۰؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ تمھاری قوم کے لوگ جو معاملہ قرآن کے ساتھ کر رہے ہیں، اِس سے پہلے یہی معاملہ تورات کے ساتھ ہو چکا ہے۔ چنانچہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ پریشانی کا باعث بن جائے۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت کے ساتھ اُن کی قوموں کا رویہ بالعموم یہی رہا ہے۔

۲۴۱؎ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اُس کی بنا پر کسی رعایت کے مستحق تو نہیں رہے، مگر اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اُس نے ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر رکھی ہے۔ لہٰذا انتظار کرو، اِن کا فیصلہ بھی اُسی وقت ہو گا، جب وہ مدت پوری ہو جائے گی۔

۲۴۲؎ اصل الفاظ ہیں:’اِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُمْ‘۔ اِن میں ’ل‘تاکید اور قسم کا ہے اور ’مَا‘ محض صوت و آہنگ کی ضرورت سے آگیا ہے۔اِس کی مثالیں قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی ہیں۔

۲۴۳؎ اِس لیے کہ معاملہ اُس پروردگار سے ہو گا جس کے مقابل میں کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔

۲۴۴؎ راہ حق کی مشکلات میں قرآن نے ہر جگہ دو ہی چیزوں کی تلقین کی ہے: ایک نماز اور دوسرے صبر و استقامت۔ یہاں یہ مضمون جس طریقے سے آیا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کے بعض پہلوئوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ نماز سے پہلے استقامت اور نماز کے بعد صبر کے ذکرمیں ایک اشارہ اِس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ پامردی اور استقلال محمود اُسی صورت میں ہے، جب آدمی کا رخ صحیح سمت میں ہو۔ علاوہ ازیں ایک اور نکتہ بھی اِس آیت میں ہے۔ وہ یہ کہ یوں نہیں فرمایا کہ ’صبر کرو، اِس لیے کہ اللہ صبر کرنے والوںکے اجر کو ضائع نہیں کرے گا‘، بلکہ یوں فرمایا کہ ’صبر کرو، اِس لیے کہ اللہ خوب کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا‘۔ اِس سے اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ صبر بھی خدا کے ہاں عزیز و محبوب اور سزاوار اجر اُنھی لوگوں کا ہے جو اُس طرح صبر کریں، جس طرح صبر کرنے کا حق ہے۔ رو دھو کر اور گلے شکوے کر کے تو سب ہی صبر کر لیتے ہیں۔ خوب کاروں کا صبر یہ ہے کہ سروں پر آرے چل جائیں، لیکن نہ دل گلہ مند ہو نہ پیشانی پر بل آنے پائے۔ جو لوگ اِس شان و وقار سے صبر کرتے ہیں، اُن کا اجر کبھی ضائع نہیں جاتا۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۱۷۶)

۲۴۵؎ یعنی اُن امتوں میں جن کی سرگذشتیں پیچھے بیان ہوئی ہیں۔

۲۴۶؎ یہ نہایت سبق آموز طریقے سے اُن کی تباہی کے اصل سبب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد وہ اِس لیے ہلاک کر دیے گئے کہ اُن کی اکثریت آمادۂ فساد تھی اور اصلاح کرنے والے بہت تھوڑے رہ گئے تھے۔ فرمایا کہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ قوم میں اکثریت اصلاح کرنے والوں کی ہو اور وہ چند لوگوں کے کسی ظلم کی پاداش میں پوری قوم کو تباہ کر دے۔ اِس طرح کی تباہی اُسی وقت آتی ہے، جب قوم بحیثیت مجموعی فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

۲۴۷؎ یعنی اپنے اُس قانون کے مطابق رحم فرمائے جو اُس نے لوگوں کی ہدایت و ضلالت کے لیے مقرر کر رکھا ہے اور وہ بدی کو چھوڑ کر نیکی اختیار کر لیں۔

۲۴۸؎ یہ اُس بات کا حوالہ ہے جو ابلیس کے ـجواب میں ارشاد ہوئی تھی، جب اُس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ذریت آدم کو اِس طرح گھیروں گا کہ اُن کی اکثریت تیری شکر گزار نہیں رہے گی۔

۲۴۹؎ یعنی یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کہ اہل حق کو غلبہ حاصل ہوا اور منکرین تباہ کر دیے گئے۔

کوالالمپور

۳؍ مارچ۲۰۱۲ء

ـــــــــــــــــــــــــ

B