ترتیب و تدوین: خالد مسعود ۔ سعید احمد
وَحَدَّثَنِیْ مَالِکٌ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَنَھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ.
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت امہ سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، کیا ہم ہلاک کر دیے جائیں گے، دراں حالیکہ ہمارے درمیان نیک لوگ موجود ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جب خباثت بڑھ جائے۔‘‘
یہ روایت امام مالک کی بلاغات میں سے ہے۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے صرف ایک ذریعہ سے معلوم ہے اور وہ بھی قوی نہیں، ۱ لیکن میرے نزدیک اس کا مضمون قرآن کا مضمون ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک نے مضمون کو اہمیت دی ہے۔ خبث بڑھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ نیک ہوں تو سہی، لیکن بہت اقلیت میں ہوں، شریروں کا غلبہ ہو۔ جب شریروں کا غلبہ ہو جائے تو قوم عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے۔ انبیا اور رسولوں کے زمانے میں تو یہ ہوتا ہے کہ صالحین چھٹ کر رسولوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ بچا لیے جاتے ہیں، لیکن اب یہ بات نہیں ہے، اس لیے اگر اشرار کی کثرت ہو جائے اور کوئی آفت آ جائے تو اس میں نیک بھی اشرار کی طرح پس جائیں گے، لیکن وہ اگر انکار منکر کا فرض ادا کرتے رہے ہو ں گے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنا اجر پائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ برائی کو برائی کہتے رہیں اور اپنی قوت سے اور زبان سے اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ فرمایا کہ ’من راٰی منکم منکرًا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ و ذالک أضعف الإیمان‘۔۲ ادنیٰ درجے کا ایمان یہ ہے کہ آپ ان کی برائی سے اپنے آپ کو بچائیں۔ قلب میں برا سمجھنے کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن آپ اگر شریروں کے قرب، ان کے تقرب، ان کے عطیات کو اپنے لیے شرف سمجھ کر قبول کریں گے تو وہ ادنیٰ ترین ایمان بھی نہیں ہو گا۔ ہاں آپ اگر اس حرکت سے بچ کر رہیں گے، اگرچہ آپ نے ادنیٰ درجۂ ایمان میں انکار منکر کا حق ادا نہیں کیا تب بھی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بچا لے گا، یعنی آخرت میں گرفت نہیں ہو گی۔ البتہ آج اگر دنیا میں کوئی آفت آئے گی تو یہ نہیں ہو گا کہ کچھ لوگ چھانٹ کر الگ کر لیے جائیں گے، بلکہ سب پس جائیں گے۔
وَحَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ حَکِیْمٍ أَنَّہُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ یَقُوْلُ: کَانَ یُقَالُ: إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّۃَ بِذَنْبِ الْخَاصَّۃِ وَلٰکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِھَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوْبَۃَ کُلَّھُمْ.
’’اسمٰعیل بن ابی حکیم سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو یہ کہتے سنا کہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کچھ تھوڑے سے لوگوں کے گناہوں کے بدلے میں عام لوگوں کو عذاب نہیں دے گا۔ لیکن اگر منکر پر کھلم کھلا عمل کیا جائے تو سب کے سب عذاب کے مستحق ہوں گے۔‘‘
اس روایت میں یہ بات مضمر ہے کہ اگر منکر کا ارتکاب ہو رہا ہو اور اس کے نکیر کی کوئی آواز بلند نہ ہو تو جن لوگوں کے اندر ادنیٰ درجہ کا ایمان ہو گا، ان کے لیے آخرت میں بچنے کی تو امید ہے، لیکن اس دنیا میں عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ قوموں کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔
(تدبر حدیث ۵۱۸۔۵۱۹)
۱ التمہید، ابن عبدالبر ۲۴/ ۳۰۴، رقم ۷۱۸۔
۲ مسلم، رقم ۴۹۔ ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے اسے ختم کرے، اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنی زبان سے، اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو اپنے دل سے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘