رضوان اللہ
مذاہب کی ایک بڑی تعداد اس بات کوبطورعقیدہ مانتی ہے کہ انسان کی روح خداکاجزیااس کا کوئی عکس نہیں اور نہ موت کے بعدیہ اُس میں ضم ہی ہوتی ہے،بلکہ اس کااپناایک مستقل بالذات وجوداورالگ سے ایک تشخص ہے کہ جس کے ساتھ وہ دوبارہ سے زندگی پالے گی۔پھر اس بات پر ان میں اختلاف ہے کہ اسے نئی زندگی کب اورکہاں پرملتی ہے؟یعنی کیایہ حادثہ موت کے متصل بعد اوراِسی دنیا میں واقع ہو جاتا ہے یااس کے لیے کسی خاص وقت اورنئی دنیا کاانتظارہوتا ہے؟ یہاں پردو طرح کی آرا ہیں: ایک راے یہ ہے کہ انسانی روح جب جسدخاکی سے جداہوجاتی ہے تواس کو اسی دنیامیں کسی نئے مادی قالب میں پھونک دیاجاتاہے جوکہ حیوانی بھی ہو سکتاہے اورنباتاتی بھی۱ ۔پھر ایک وقت آتاہے جب یہ اس سے بھی جدا ہو جاتی اور کسی تیسرے قالب میں داخل کردی جاتی ہے ؛اوریہ سلسلہ ایک خاص وقت تک یونہی چلتا رہتا ہے۔روح کااس طرح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتے چلے جانا، مذہبی اصطلاح میں تناسخ یا آواگون (Reincarnation ) کہلاتا ہے ۔
اس عقیدے کاوجود نویں صدی قبل مسیح سے پہلے تقریباً ناپیدتھا۔اس کے بعدکاکوئی دورتھا جب اس کی خام صورتیں مختلف مقامات پرابھرناشروع ہوئیں،مگرمتعین ومعروف شکل میں اس کی پیدایش ایک ہندوگھرانے ہی میں ہوئی۔ ہندوؤں کا تصوردین چونکہ بڑی حدتک دیومالائی سا ہے، اس لیے یہ گھرانااس کی پرداخت کے لیے نہایت موزوں ثابت ہوا۔کچھ زمانہ گزر گیاتوبدھ مت اورجین مت آگے بڑھے،اس کوکچھ سنوارا،کچھ رنگ روپ بدلا اور پھر گود لے لیا۔ تیسری صدی قبل مسیح میں جب بدھ مت مشرقی ایشیاگیاتواسے بھی اپنے ساتھ لیتاگیاجہاں تاؤ ازم اس کو متبنّیٰ کرلینے کے لیے بالکل تیار تھا۔بعدازاں ،فکریونان نے بھی مشرق کااثرقبول کیاتو اس پختہ عمرہوچکے تناسخ سے ناتاجوڑ لیا اور کسی حدتک اسی کا ہو رہا۔
تناسخ کی ابتداکب ہوئی اوریہ کن ادواراور کن مقامات میں اپنی تکمیل کرتارہا،یہ سب جان لینے کے بعداب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ محض ایک خیال اورواہمے کے باقاعدہ ایک عقیدے کی صورت میں ڈھل جانے کے آخروجوہ کیا ہوئے؟
ہمیشہ جیتے رہنے کی خواہش،اس کی پہلی وجہ ہوئی۔انسان جب پیداہوتاہے تودنیاکے بارے میں اس کاعلم نہ ہونے کے برابرہوتاہے،مگروقت کے ساتھ وہ بہت کچھ جان لیتااوریہاں کی چیزوں سے صحیح طورپرفائدہ اٹھانے کے قابل ہوجاتاہے۔لیکن طرفہ تماشاہے کہ عین اس وقت جب وہ عقل ودانش کی بلندیوں پرہوتااورتجربات کے گراں قدر خزانوں سے مالامال ہوتاہے،اس کے قویٰ مضمحل کردیے جاتے اورسمجھ بوجھ کی تمام صلاحیتیں کندکردی جاتی ہیں اورآخرکاروہ لمحات بھی آجاتے ہیں کہ اسے خواہی نخواہی رخت سفر باندھنا اوریہاں سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ اب ،ظاہرہے ،کون چاہے گاکہ ایسے ایسے عروج پاکرپھرسے زوال آشناہوجائے اوراس بھرے میلے کو الوداع کہہ دے؟چنانچہ ہوتایہ ہے کہ وہ اس بات کومان لینے کے باوجودکہ اسے مرجاناہے ،کبھی مرنانہیں چاہتا۔کبھی امرت ڈھونڈتاہے توکبھی آب حیات کے فریب میں مبتلاہوجاتاہے اوریوں اپنی آرزوؤں کی تسکین کاسامان کیا کرتا ہے ۲ ۔ تناسخ کاعقیدہ بھی اصل میں کچھ نہیں ،اسی طرح کا موہوم ساایک جتن ہے۔ایک حشیش ہے جومست اوربے خود ہو جانے والوں کودیس نکالا نہیں دیتی،بلکہ ان کے لیے ایک دنیاے خواب بناتی اورانھیں اس میں بسا کر عمر جاوداں بخش دیتی ہے۔
انسان کے ذہن کاافسانوی پس منظر،اس عقیدے کے بننے کی دوسری وجہ ہوا۔اس کوقدرت کی طرف سے نہایت اعلیٰ درجے کاذہن عطاہواہے جواپنی صلاحیتوں کوعمل میں لاتاہے توہزارہا داستانیں تخلیق ہوجاتی ہیں۔نئی نئی دنیائیں بنتی ہیں کہ جن میں پری زادکوہ قاف سے اترتی،نقرئی پروں سے اُڑتی پھرتی اورہرطرف پھول اورستارے بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔عجیب وغریب جہان آبادہوتے ہیں کہ جن میں جنات بسیراکرتے ،بدروحیں خون آشام ہوجاتی اورچڑیلیں بے لباس ہوہوکراچھل کودکیاکرتی ہیں۔اس خواب وخیال پرکیااعتراض تھااگریہ سب تفریح پرموقوف ہوتا۔مگرکبھی کبھی انسان کاجی چاہتاہے کہ اس کاتخیل ہرسوپروازکرے اوراس کی جولانیاں دنیوی ہی نہیں، دینی میدان میں بھی اپناآپ منوائیں۔ چنانچہ اس کی کہانیوں میں دینی خیالات اب باقاعدہ کرداروں میں ڈھل جاتے اوراس کے مذہبی نظریات چلتے پھرتے جسموں میں بدل جاتے ہیں۔ اوریہ تخلیق اپنے کلائمیکس کواُس وقت پہنچتی ہے جب حضرتِ انسان شکلیں بدل بدل کر جانوربن جاتے اورعاجز و بے بس جانورآدمیوں کے روپ میں مارے مارے پھرتے ہیں۔۳
قدیم انسان کاٹوٹم (totem) کے ساتھ تعلق،اس عقیدے کے بن جانے کی تیسری وجہ ہوا۔تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ ایک وقت اس پرایسابھی گزراہے جب اس نے مظاہرفطرت کی خوب پرستش کی ہے۔اجرام سماوی ہوں یادرخت اورجانور،ان سب کواس نے پوجا،ان کے سامنے ڈنڈوت کیے،ان کی علامتیں بنابناکران کوجھکی جبینوں کی نذریں گزرانی ہیں۔بلکہ حشیش و حشرات اورشمس وقمرکی توبات ہی کیا،یہ خدابنانے پرآگیاہے تواس کے توہمات بھی اس کی الٰہیات میں معبودٹھیرے ہیں۔مظاہرفطرت کے ساتھ اس حدتک وابستگی اوراس پرمبنی دینی رویہ، اصل میں یہ وہ چیزتھی جس نے بعدازموت زندگی میں بھی اپنی جھلک دکھائی اوراس بے چارے کو ایک ایسے سلسلے میں پرودیاکہ جس میں یہ کبھی ایک جسم میں ہوتاہے توکبھی دوسرے جسم میں؛اوروہ دوسرا جسم بالعموم، ٹوٹم یعنی نباتات یاپھرحیوانات ہی میں سے ہوتاہے۔
انسان کی ظلم پرروک لگانے کی اپنی سی ایک کوشش،اس عقیدے کے بننے کی چوتھی وجہ ہوئی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدانے کائنات اوراس میں رہنے والوں کواِصلاح کے اصول پربنایا ہے،مگریہاں کے باسی چونکہ صاحب اختیار ہیں، اس لیے بعض اوقات اپنی فطرت کومسخ کربیٹھتے اوردنیاکواصلاح کے بجاے فساداورامن کے بجاے بدامنی سے بھردیتے ہیں۔دنیاکواس کی اصل پرقائم رکھنے کے لیے اب ضروری ہوجاتاہے کہ فساداوربدامنی کے ان کاموں پراخلاقی قدغنیں لگائی جائیں اوران کے برے نتیجوں سے لوگوں کومتنبہ کیاجائے۔اس غرض کے لیے، تاریخ شاہد ہے، ہمیشہ سے چلاآتاآخرت کاعقیدہ نہایت مفیدبھی تھااورآزمودہ بھی۔لیکن انسان ٹھیراسداکا جلد باز اور تھڑدلا! وہ نقدچھوڑکرادھارکے چکرمیں کیوں پڑتا؟اس لیے اس کویہ عقیدہ اس اعتبار سے بے حدناقص نظرآیاکہ اس میں گناہوں کی سزااس دنیامیں نہیں دی جاتی،بلکہ اگلی دنیاتک مؤخرکردی جاتی ہے۔چنانچہ جلدبازی کی اسی نفسیات نے اس کومجبورکیاکہ وہ اصل عقیدے کی نوک پلک درست کرے اورمسئلے کافوری حل دینے کے لیے تناسخ کاعقیدہ گھڑے۔سو وہ لوگوں کو ڈرانے لگاکہ اسی کائنات میں کہ جس میں تم ایک دولھے کے مانندزندگی بسرکرتے ہو، اگر جوروجفا سے کام لیاتو نباتات اور حیوانات کی طرح کم ذات اور ذلیل ہوکر رہ جاؤ گے۔تمھارے دوست احباب اور عزیز و اقربا، تمھارے سامنے اٹھکھیلیاں کرتے پھریں گے ،مگرتم ہوگے کہ ان کے سان گمان سے بھی دور رہو گے۔ تمھاری حیثیت نظراندازکیے ہوئے کسی درخت یا کتے کی سی ہوجائے گی۔انھیں پھل پھول اورگھناسایہ دینے اوران کے پیچھے دم ہلانے، حتیٰ کہ ان کے تلوے تک چاٹنے کے باوجود،تم ان کی نگاہِ التفات سے یک سرمحروم رہو گے۔ اور اس طرح اذیت بھرااوربے بسی میں گھِراہواتمھاراایک ایک پل نہ گزرنے والی طویل ترین صدیوں میں بدل جائے گا۔ واضح سی بات ہے کہ انسانی حکمت ظلم وعدوان پرروک لگانے کے لیے اس سے زیادہ مؤثر اورنتیجہ خیزکوئی اور ڈراوا نہیں بنا لا سکتی تھی۔ لہٰذا مذہبی پیشواؤں نے اسے خوب استعمال کیااورعقیدۂ تناسخ کی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کرداراداکیا۔
دنیامیں پائے جانے والے دکھ دردکی غلط توجیہ،اس عقیدے کے بن جانے کی پانچویں وجہ ہوئی۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں ہرپھول کے دامن میں کانٹے اورخوشی کے پردے میں غم کچھ اس طرح چھپاہواہے کہ ان کوالگ کردیناکسی کے بس میں نہیں،حالاں کہ اس کے برعکس یہ بھی تو ہو سکتاتھاکہ یہاں کی مسرتیں غموں سے بالکل اجنبی اورپھول کانٹوں سے کوسوں دور ہوتے۔کہیں ظلم ہوتے نہ ان پرماتم ہوتے ،دکھ ہوتے نہ پھردردروتے۔ بالخصوص ،کم سن بچے توہمیشہ سکھی رہتے۔ انھیں دردناک بیماریاں آن گھیرتی نہ بھوک کی سختیاں ستاتی اورنہ ان کے استحصال ہی کی کوئی صورت ہوتی کہ اس معصوم اوربے ضررمخلوق نے آخرکسی کاکیابگاڑاہے؟پھروہ خداجوانسان کی پیدایش سے لے کر اس کی موت تک ہرہرمرحلے میں نہایت مشفق اور مہربان رہا،اتناظالم کیسے ہوگیاکہ بے گناہوں کوبھی ہروقت کسی نہ کسی عذاب میں گرفتارکیے ہوئے ہے؟یہ سوالات تھے جن کاجواب بعض کم سوادوں نے کچھ اس طرح ڈھونڈاکہ کسی کا دکھوں میں مبتلاہونا یا مصائب میں گرفتار ہو جانا، حکمت کے خلاف ہے اورنہ اس پرہونے والاقدرت کاکوئی ظلم ہے، بلکہ یہ سب اس کے پرانے کرْموں کے نتائج ہیں،یعنی اگلے جنموں میں جوگناہ اس نے کیے ، یہ انھی کا کیا دھرا ہے کہ اِس جنم میں اس کو یہ مصیبتیں اٹھاناپڑرہی ہیں۔
حقائق سے فرار،چھٹی وجہ ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کے ہاں یہ عقیدہ قائم ہوا۔خداکادیاہوا کھانے اوراچھی طرح برت لینے کے بعداُس خداکاشکر،اسی کے سامنے حاضری اوراپنے عملوں کی جواب دہی کاتصورفطری بھی تھا اورعقلی بھی،مگراس حقیقت کااِدراک کرنااورپھراسی شعور کے ساتھ زندگی گزارنااُس شخص کے لیے نہایت مشکل تھاجواپنے منعم اورپروردگارسے بے پروا ہو چکا ہو۔ لہٰذا اس طرح کے حقیقت گریزشخص کے لیے تناسخ کاعقیدہ ہی محفوظ پناہ گاہ تھاجو جواب دہی کے تصور کوتوتسلیم کرتاتھا، مگرخدائی عدالت سے جاں خلاصی کا مژدہ سنا کر اسے عافیت کاایک گوشہ بھی فراہم کر دیتاتھا۔
اس عقیدے کی پیدایش کے اسباب کوئی سے بھی رہے ہوں،لوگوں کی ایک بڑی تعداداس کو مانتی اوراس کی بنیادپراپنے دین کی وضاحت کرتی ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ اسباب سے صرف نظرکرتے ہوئے یہ دیکھ لیاجائے کہ خوداس عقیدے میں کیاکسی قدر معقولیت بھی پائی جاتی ہے؟نیزبعدازموت زندگی کے بارے میں پیداہوجانے والے تشکک میں کیاتشفی کاکچھ سامان بھی اس کے ذریعے سے ہوسکتاہے؟لیکن اس نظرسے جب اس کامطالعہ کیاجائے توانتہائی درجے کی مایوسی ہوتی ہے ،اس لیے کہ عقل وفطرت کے معیارات پرپورااترناتوبہت دورکی بات،اس پہلوسے متعدداعتراضات اس پرواردضرورہوجاتے ہیں۔انھی اعتراضات میں سے ہم کچھ کاذکر ذیل میں کرتے ہیں:
اولاً،یہ عقیدہ ایک بڑے اہم سوال کاجواب نہیں دیتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیامیں وقوع پذیر ہونے والاکوئی بھی فعل جس طرح کچھ فوری اثرات رکھتاہے ،اسی طرح اس کے بہت سے اثرات دیرپاہوتے اورکچھ مدت کے بعدظاہرہوتے ہیں، حتیٰ کہ ایک نیکی اور بدی بسااوقات صدیوں تک کو متاثر کر دے سکتی ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عقیدۂ تناسخ کی روسے جوکوئی مرتاہے ،اس کے عملوں کی جزایاسزا اِسی دنیامیں شروع ہوجاتی ہے۔اب سوال پیداہوتاہے کہ وہ عمل جومرنے کے بعدجاری رہتے ہیں، ان کے اچھے نتائج آخرکس کی جھولی میں پڑیں گے اوران کے برے نتائج کا ذمہ دارکون شخص ہوگا، بالخصوص اس صورت حال میں کہ جب گناہ کاارتکاب کرنے والا درخت اور جانور بننے کے چکرسے نکل کر مکتی اورنروان بھی حاصل کرچکاہو؟
ثانیاً،عمل کاتنوع اوراس میں پائی جانے والی شدت اورنرمی،اس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ اس کے نتائج میں بھی تنوع اوردرجے کافرق پایاجائے۔یہی وجہ ہے کہ دنیامیں ہرجگہ مختلف انواع کی نیکیوں اوربدیوں میں فرق کیا جاتا اور ان کی جزا اور سزا میں واضح تفاوت رکھا جاتا ہے ۔یہ کیا ہوا کہ عمل کوئی سابھی اورکسی بھی درجے کاہو،بدلہ سب کو یہی ملے کہ وہ گھاس اور جانور یا پھر انسان میں بدل دیاجائے۔عقل عام اورعدل وانصاف کے تقاضے اس طرح کی یکسانیت کوماننے سے یک سرانکارکرتے ہیں۔سوتناسخ کے عقیدے میں پائی جانے والی یہ ایسی کمی ہے جوواضح طور پر اس کو نامعقولیت اورصریح ظلم کی طرف لے جاتی ہے۔
ثالثاً،اگریہ بات صحیح ہے کہ انسان کی روح اس کے برے عمل کی پاداش میں کسی دھتکارے ہوئے بندر ، اچھل کود کرتے مینڈک یا رینگتے اورگھسٹتے ہوئے حشرات الارض میں ڈال دی جاتی ہے تویہ بات مانناپڑے گی کہ اس نئے روپ اور اس کی یادداشت میں شخصیت ،بہرحال انسان ہی کی ہوتی ہو گی، اس لیے کہ یہ نیاروپ اسی طرح تواس کے جرموں کابدلہ بن سکے گا؛اوریہ ایسی معقول بات ہے کہ اہل تناسخ بھی اس کوبعینہٖ تسلیم کرتے ہیں۔مگراس عقیدے میں اس وقت خلا پیداہوجاتا ہے جب پلٹ کر یہ سوال کیاجائے کہ کوئی انسان پچھلے جنم میں جانورتھااوراچھے عملوں کے نتیجے میں انسان بنا دیاگیاتواس کی یادداشت میں بھی اُسی جانورکی شخصیت اوراس کاشعور،اس وقت موجودکیوں نہیں ہے؟
اس سلسلے میں ایک تاریخی واقعہ بھی سامنے رہے تومذکورہ بات مزیدواضح ہوجاتی ہے:
ایک مرتبہ ابن فلاس نامی ایک شخص تناسخ کے ماننے والے کسی صاحب کے پاس گئے۔ان کے سامنے سیاہ رنگ کی ایک بلی تھی اورعام عادت کے مطابق اس کی آنکھوں سے پانی سابہ رہا تھا۔وہ صاحب کبھی اس کے جسم پرہاتھ پھیرتے ،کبھی اس کی آنکھوں کو پونچھتے اورپھر ایک دم سے رونے لگتے ۔
ابن فلاس نے پوچھا:حضرت، کیا وجہ ہوئی کہ آپ اس طرح روتے ہیں؟
انھوں نے کہا: کم بخت ، دیکھتے نہیں ہوکہ جب میں اس کوسہلاتا ہوں تب تب یہ روتی ہے ،اس لیے ہو نہ ہویہ میری والدہ ماجدہ ہیں جوحسرت بھری نگاہوں سے اپنے اس لعل کو دیکھتی اورپھر رونے لگتی ہیں۔
اس کے بعد وہ بلی سے اس طرح ہم کلام ہوئے، جیسے کہ وہ ان کی باتیں خوب سمجھ رہی ہو۔
ابن فلاس نے سوال کیا: آپ ان سے مخاطب ہیں ،کیایہ آپ کی باتیں کچھ سمجھتی بھی ہے؟
جواب دیا:کیوں نہیں؟
انھوں نے مزیدپوچھا :کیااس کی حسرت بھری آوازیں آپ بھی سمجھ رہے ہیں؟
انھوں نے کہا: بالکل بھی نہیں۔
ابن فلاس فوراً بولے:اگر یہ بلی سب سمجھتی ہے اور آپ کچھ بھی نہیں سمجھتے تومانناپڑے گا کہ یہ بلی واقعی کسی وقت میں انسان تھی،مگرآپ بھی ضرور کسی جانورسے بدلے ہوئے ہیں۔
رابعاً،تناسخ دنیامیں موجوددکھوں کی توجیہ یوں کرتا ہے کہ پچھلے جنموں کے یہ ہمارے کرم ہیں جن کانتیجہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں ،حالاں کہ ان کی توجیہ اس سے کہیں بہتراندازمیں کی جاسکتی ہے، یعنی یہ ماننے کے بجاے کہ ہم سابقہ زندگی کے برے عملوں کانتیجہ پارہے ہیں، یہ کیوں نہ مان لیں کہ ہم اس زندگی میں اسی زندگی کی غلطیوں کاخمیازہ بھگت رہے ہیں۔یاپھریہ کیوں نہ مان لیں کہ یہاں کے المیے اصل میں المیے ہیں ہی نہیں،بلکہ ہمارے لیے برپاکیے گئے امتحان کا محض ایک جزہیں۔واضح سی بات ہے کہ یہ دونوں توجیہات تناسخ کی بیان کردہ توجیہ سے بدرجہا بہتر اورعقل وفطرت کے عین موافق ہیں۔
خامساً، اگر حقیقت یہی ہے کہ انسانی روحیں درختوں اورجانوروں میں داخل ہوتی اوراچھے عملوں کی وجہ سے انسانی جسموں میں لوٹ آتی ہیں تو سوال اٹھتاہے کہ دنیامیں انسانی آبادی کے مسلسل بڑھتے چلے جانے کی پھروجہ کیا ہے؟ ہونا تویہ چاہیے تھاکہ ہردوراورہرزمانے میں اس کی آبادی ایک جیسی رہتی یا جوکبھی کم ہوتی بھی توکبھی زیادہ بھی ہو جاتی،لیکن مسلسل بڑھتی ہرگزنہ چلی جاتی۔چنانچہ اس صورت حال میں معقول بات یہ نہیں کہ گنی چنی کچھ روحیں ہیں جولوٹ لوٹ کر آیاکرتی ہیں، بلکہ معقول بات یہ ہے کہ ہرآن نئی ارواح جوتناسخ کے چکرسے قطعی طورپربے نیاز ہیں اس جہاں میں پیدا ہوتی، نئے انسانی قالب ڈھونڈتی،انھیں اپنامستقربنالیتی ،کچھ مدت کے لیے ان میں بسیرا کرتی اورپھر انھیں چھوڑکر کہیں دورچلی جاتی ہیں۔
سادساً، موت کے بعدنئی زندگی کوئی ایسی شے نہیں کہ جس کا انسانی آنکھ نے مشاہدہ کیاہویا اس کی عقل و دانش ہی کبھی اس کااحاطہ کرسکی ہو ، اس لیے یہ بات طے ہے کہ اس کے بارے میں اگر کوئی علم حاصل ہوسکتاہے تو وہ صرف اورصرف مابعد الطبیعیات کسی ذریعے سے حاصل ہو سکتا ہے۔عام طورپراہل مذہب کے ہاں یہ ذریعہ آسمان سے اترنے والی الہامی ہدایت ہے جس میں خدا ہمیشہ سے مافوق الادراک دنیاؤں کی خبر دیتا اور اس نوعیت کے بہت سے حقائق کو واضح کرتارہا ہے۔مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ ان باتوں کی وحی وہ سب کی طرف براہ راست نہیں کرتا، بلکہ اس کام کے لیے وہ کسی نہ کسی نمائندے کا انتخاب کرتاہے۔لہٰذا عقیدۂ تناسخ پراس پہلو سے بھی سوال پیداہوتا ہے کہ تاریخ عالم میں کسی خدائی نمائندے نے بھی کیااس کے بارے میں کبھی کوئی بات کی؟ آدم علیہ السلام سے لے کرآخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک ،کسی ایک ہی نے اس کی طرف دعوت دی ہو یا اِن پراترنے والی الہامی کتابوں، حتیٰ کہ کسی صحیفے میں اس کاذکرتک ہواہو؟ اور اگرایساکچھ بھی نہیں ہواتوبذات خودیہ بات اس عقیدے کی نامعقولیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اوریہ مانے بغیرچارانہیں کہ یہ ماوراے طبیعیات وہ دعویٰ ہے جس کے پیچھے محض انسانی کاوش کار فرماہے ۔
[باقی]
________
۱ حیوانی یا نباتاتی، ان دونوں میں سے کس کے اندراس روح کوپھونکاجائے گا،اس بات کافیصلہ اس کے کرْم (اعمال) کرتے ہیں۔
۲ یہ خواہش ویسے تو بڑی ہی معصوم اور نہایت بے ضررہے اور یقیناپوری بھی کر دی جاتی ،مگراسے پورا کردینایہاں کی مجموعی حکمت کے بالکل خلاف ہوتا۔لہٰذا ہوتایہی ہے کہ اس طرح کی تمام آرزوئیں لاحاصل رہ جاتی اوراس طرح کے سب خواب چکناچورہوجاتے ہیں۔
۳ ستم یہ ہوتاہے کہ یہ سب کچھ انسان آپ سوچتااورآپ ہی کہتاہے، مگربے دھڑک دوسروں کو خدا کے نام سے سنا دیتا ہے۔
____________