HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

قرآن کی رو سے ترقی کا مفہوم

سوال: قوموں کے عروج و زوال کی بحث میں قرآن مجید کی رو سے ترقی کا کیا مفہوم ہے؟ اس سے مراد کیا صرف مادی و سیاسی ترقی ہے یا صرف روحانی ترقی یا دونوں؟ جو قوم زیادہ سے زیادہ علاقہ مغلوب کر لے یا مادی وسائل اس کے پاس زیادہ ہوں تو یہ چیز اس کی عظمت کی دلیل بتائی جاتی ہے، بلکہ ایک نظریہ کے مطابق یہ چیزیں ایک قوم کے قابل تقلید ہونے کی دلیل بھی ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: قرآن مجید کی رو سے حقیقی ترقی وہ ہے جو خدا کی بندگی اور اس کے احکام و قوانین کی کامل فرماں برداری و اطاعت کے ساتھ ہو۔ اسی ترقی سے روح اور جسم، دونوں کے حقیقی مقتضیات بروے کار آتے ہیں اور یہی ترقی مشترک طور پر تمام بنی نوع انسان کے لیے رحمت و برکت کے دروازے کھولتی ہے۔ قرآن مجید میں متعدد ایسی قوموں کا ذکر ہوا ہے جنھوں نے مادی اعتبار سے بڑی ترقی کی، لیکن اپنے دور ترقی میں وہ عذاب الٰہی کی مستحق ٹھہریں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مادی ترقی کے پہلو بہ پہلو انھوں نے روحانی ترقی نہیں کی۔ اس روحانی ترقی سے محروم ہونے کے سبب سے ان کے اجتماعی و سیاسی کردار میں وہ اعتدال و توازن نہ پیدا ہو سکا جو ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے ناگزیر چیز تھا۔ اس بنیادی کمزوری کی وجہ سے بہت جلد ان کے اجتماعی و سیاسی کردار میں ایسی خرابیاں نمودار ہو گئیں جن کو قدرت کا نظام زیادہ مدت تک نہیں برداشت کرتا، بلکہ ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد ایسے کردار کی حامل قوموں کو فنا کر دیتا ہے۔

قرآن مجید نے امت مسلمہ کی تشکیل کا جو نظام پیش کیا ہے، اس میں مادی و سیاسی ترقی کو اس نے روحانی ترقی کے ساتھ بالکل ہم آہنگ رکھا ہے۔ اس نے عقائد، عبادات، قانون اور اخلاق کا ایک نہایت متوازن و معتدل نظام بنی نوع انسان کو عطا فرمایا ہے جس کو اختیار کرنے سے وہ حقیقی سعادت یا ترقی حاصل ہو سکتی ہے جو دنیا و آخرت، دونوں کی صلاح و فلاح کی ضامن ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس نظام کے چار جزو ہیں: عقائد، عبادات، قانون اور اخلاق۔ یہ چاروں جزو اس نظام کے اجزاے لاینفک ہیں۔ ان میں سے اگر کسی ایک کو بھی نظرانداز کر دیا جائے تو سارا نظام بالکل درہم برہم اور بے برکت ہو کر رہ جائے گا۔ علاوہ بریں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس کے اجزاے ترکیبی میں اخلاق کا جو عنصر شامل ہے، وہ صرف انفرادی یا محدود معاشرتی اخلاق ہی کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر وہ اجتماعی و سیاسی اخلاق بھی داخل ہے جو کسی قوم کے عروج و زوال میں اصلی عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس نظام میں عقائد کا جو حصہ ہے، وہ ہم کو زندگی کے بارے میں صحیح نظریات و تصورات دیتا ہے۔ ان نظریات و تصورات سے وہ انفرادی و اجتماعی اخلاق وجود میں آتا ہے جو اصل مقصود ہے اور جس پر ہماری دنیوی و اخروی سعادت کا انحصار ہے۔ عبادات کا نظام ان نظریات و تصورات کو اور اسی کے ساتھ ساتھ اس اخلاق کو جو ان نظریات سے وجود میں آتا ہے، استحکام اور پختگی بخشتا ہے۔

اگر کسی معاشرہ کی تربیت ٹھیک ٹھیک اسلام کے پیش کردہ اس نقشہ کے مطابق ہو جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے تو وہ دنیا اور آخرت، دونوں میں اس سعادت کا ضامن ہے جو انسان کی تخلیق کی غرض و غایت ہے۔

لیکن اس زمانہ میں مصیبت یہ ہے کہ اسلام کے اس پورے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اگر اس وقت خود مسلمانوں کاجائزہ لیجیے جو اسلام کے حامل ہونے کے مدعی ہیں تو معلوم ہو گا کہ کسی خطہ میں بھی آج ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ وہ اجتماعی حیثیت سے پورے اسلام کو اپنائے ہوئے ہوں۔ کچھ لوگوں کے اندر (سب کے اندر نہیں) اگر عبادات کا اہتمام ہے تو وہ اسلام کے قانون اور اس کے نظام اخلاق سے ناآشنا اور محروم ہیں۔ عقائد کا حال اکثریت کے اندر یہ ہے کہ عوام کے عقائد پرانی بدعات سے زنگ خوردہ ہو چکے ہیں اور نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے عقائد کی جڑیں نئی تعلیم نے اکھاڑ کے رکھ دی ہیں۔ اسلامی قانون اور اخلاق کے لحاظ سے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اس کے خال خال اجزا تو ہمارے اندر ضرور پائے جاتے ہیں (وہ بھی زندگی کے بعض خاص دائروں کے اندر)، باقی سارا قانون اور پورا نظام اخلاق ہم نے کتابوں میں لکھ کر کیڑوں کے حوالہ کر رکھا ہے۔

ان حالات کے اندر وہ حقیقی ترقی جو دین و دنیا، دونوں کی فلاح و سعادت کی ضامن ہے، بالکل خارج ازبحث ہے۔ اس کا مظاہرہ کبھی پہلے مسلمانوں نے کیا تھا اور اب بھی وہی اس کا مظاہرہ کر سکتے تھے، لیکن یہ جب ہو سکتا ہے جب وہ اپنے پورے دین کو اپنائیں۔ اس کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ مسلمان نماز اور حج کا اہتمام کر لیں۔

یورپ، امریکہ اور روس وغیرہ ممالک میں آج جو ترقی پائی جاتی ہے، وہ ہے تو اسی اجتماعی و سیاسی اخلاق و کردار کا ثمرہ جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے، لیکن جس طرح ہم مسلمانوں نے اسلام کے بعض اجزا کو لے لیا ہے، بقیہ کو چھوڑ رکھا ہے، اسی طرح ان قوموں نے اجتماعی و سیاسی کردار سے متعلق اسلام کے بعض اجزا کو اپنا لیا ہے اور بقیہ کو چھوڑ رکھا ہے۔ ان کے اندر محنت، وقت کی قدر و قیمت، تلاش علم، شوق جستجو، بلند ہمتی، ایثار، خدمت خلق اور جمہوریت وغیرہ کی بعض وہ خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اسلام کا ورثہ ہیں اور انھی خوبیوں کے نتیجہ میں ان کو موجودہ ترقیاں حاصل ہوئی ہیں، لیکن چونکہ یہ قومیں اسلامی نظام زندگی کی دوسری چیزوں سے محروم ہیں، اس وجہ سے ان کی یہ ساری ترقیاں بنی نوع انسان کے لیے رحمت کے بجاے عذاب بنتی جا رہی ہیں اور ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اب اس عذاب کے پھٹ پڑنے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔

مسلمانوں میں سے جو لوگ ان قوموں کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں، وہ اگر ان کی ان خوبیوں کی تقلید کی دعوت دیں جو فی الواقع ان کی ترقیوں کا باعث ہوئی ہیں تو میں اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتا، یہ خوبیاں تو اسلام کا ورثہ ہیں اور ہمیں سے ان کو ملی تھیں۔ لیکن اگر ان کی تقلید کے معنی ان کی برائیوں اور گمراہیوں میں بھی ان کی تقلید ہے (جیسا کہ فی الواقع ہے) تو اس چیز سے ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، اس لیے کہ ان قوموں کی یہی برائیاں اور گمراہیاں تو ان کی اور ان کے تمام مقلدین کی بربادی کا سبب بننے والی ہیں۔

(تفہیم دین ۱۰۶)

____________

 

B