’’قرآنیات‘‘ میں حسب روایت جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا ترجمۂ قرآن ’’البیان‘‘ شائع کیا گیا ہے۔ یہ قسط سورۂ ہود (۱۱) کی آیات ۱۰۰۔۱۲۳ کے ترجمہ اور حواشی پر مشتمل ہے۔ یہ خاتمۂ سورہ کی آیات ہیں۔ اس میں ان حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے جو ماضی کی سرگذشتوں میں موجود ہیں۔ ان کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے نتائج کی روشنی میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تعلیم دی جائے۔ اس کے ساتھ قریش کو اپنے ملک کی تاریخ سے سبق لے کر زندگی گزارنے کی ہدایت کی گئی ہے، دوسری صورت میں ان کو اس کے نتائج بھگتنے کی سرزنش کی گئی ہے۔
’’معارف نبوی‘‘ میں ’’موطا امام مالک‘‘ کی جو روایت منتخب کی گئی ہے، اس میں بیان ہوا ہے کہ آج کے دور میں کثیر تعداد میں برے لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث اگر ان پر کوئی آفت آتی ہے تو ان کے ساتھ کم تعداد میں نیک لوگ بھی اس آفت کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ نہیں ہو گا کہ ان افراد کو چھانٹ کر الگ کر لیا جائے گا، البتہ نیک افراد اپنی نیکیوں کا اجر آخرت میں پائیں گے۔ ’’معارف نبوی‘‘ ہی کے تحت معز امجد صاحب کا مضمون ’’حکمران، ائمۂ مساجد اور صحابۂ کرام‘‘ شامل کیا گیا ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت کرو، ہر امام کی اقتدا میں نماز ادا کرو اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی کی بھی توہین سے باز رہو۔ نیز روایت کی استنادی حیثیت کو بیان کیا ہے۔
’’مقالات‘‘ کے تحت ’’امام فراہی کا تصور حکمت ‘‘کے عنوان سے خالد مسعود صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔ اس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ امام فراہی رحمہ اللہ کے مطابق حکمت اس قوت کا نام ہے جس کے باعث آدمی حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ اس قوت کے نتائج کلام کی پختگی، اخلاق کی شایستگی اور عمدہ و بہترین ادب کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
’’سیر وسوانح‘‘ کے تحت محمد وسیم اختر مفتی صاحب کے مضمون میں جلیل القدر صحابی حضرت عامر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے کم سنی میں ایمان لانے اور اپنے ہی گھر والوں کے ظلم و ستم سہنے کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ہجرت حبشہ کے واقعے اور حالات زندگی کو بیان کیا ہے۔
’’نقطۂ نظر‘‘ میں رضوان اللہ صاحب نے اپنے مضمون ’’بعد از موت‘‘ کے دوسرے حصے میں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عقیدۂ تناسخ کو بیان کیا ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق انسانی روح کو جسد خاکی سے جدا ہو جانے کے بعد کسی نئے مادی قالب میں پھونک دیاجاتاہے جو حیوانی یا نباتاتی ہو سکتاہے۔ پھر ایک وقت آتاہے جب یہ اس سے بھی جدا کر کے کسی تیسرے قالب میں داخل کردی جاتی ہے۔ روح کااس طرح ایک سے دوسرے جسم میں منتقل ہونا تناسخ یا آواگون کہلاتا ہے۔
’’یسئلون‘‘ میں مولانا اصلاحی سے پوچھا گیا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں قرآن مجید کی رو سے ترقی سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد کیا مادی و سیاسی ترقی ہے یا روحانی ترقی یا دونوں؟ مولانا اصلاحی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے حقیقی ترقی وہ ہے جس میں اللہ کی بندگی حقیقی فرماں برداری و اطاعت کے ساتھ ہو۔ اسی سے تمام بنی نوع انسان کے لیے رحمت و برکت کے دروازے کھلتے ہیں۔
’’وفیات‘‘ میں ’’مولانا محمد علی جوہر‘‘ کے زیر عنوان مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا مضمون اس اشاعت میں شامل ہے۔ اس میں انھوں نے مولانا کی ایمان افروز تقریروں اور زور بیان کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ امام حمید الدین فراہی رحمہ اللہ جو وعظ و تقریر اور جلسوں سے گریز کرتے تھے بطور خاص ان کے جلسے میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ اسی جلسے میں، انھوں نے اپنی پہلی تقریر کی جسے سب نے بہت پسند کیا اور امام فراہی صاحب نے ان کی اس بہترین کاوش پر اپنے تفسیری رسائل کا ایک سیٹ انھیں بطور انعام دیا۔
’’ادبیات‘‘ میں ’’شہر آشوب اسلام‘‘ کے عنوان سے مولانا شبلی نعمانی کی نظم شائع کی گئی ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ ریاست ہائے بلقان نے مل کر ایک ساتھ ترکی پر حملہ کیا تھا۔ اس سے ترکی نے جو عظیم نقصان اٹھایا، اس پر امت مسلمہ خون کے آنسو روئی تھی۔
________