’حکمت‘ کا لفظ دانائی کی باتوں کے لیے ایک معروف لفظ ہے اور نہایت کثیر الاستعمال ہے، لیکن مختلف علوم کے ماہرین اور اہل لغت اس کی تعبیر اتنے مختلف طریقوں سے کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک عام لفظ کے اندر کتنا جہان معانی آباد ہے۔ اہل فلسفہ اور صوفیا اپنی کاوشوں کو حکمت کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اہل لغت اس کا مفہوم کچھ اور بیان کرتے ہیں، اہل تاویل کے مابین قرآن کے اندر لفظ ’حکمت‘ کے معانی کے تعین میں بڑا اختلاف نظر آتا ہے۔ قرآن مجید میں یوں تو لفظ ’حکمت‘ متعدد مقامات پر آیا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی کے بیان میں تعلیم حکمت کی تکرار اس قدر نمایاں ہے کہ آدمی اس کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید کے ایک طالب علم کے لیے حکمت کے مفہوم کو سمجھنا از بس ضروری ہے۔
امام حمید الدین فراہی کا موضوع فکر قرآن حکیم تھا، اس کے ہر پہلو پر ان کی نظر تھی اور کسی بھی اہم لفظ یا مضمون پر سے وہ بلا تحقیق گزر جانے کے قائل نہ تھے۔ انھوں نے لفظ ’حکمت‘ کی اہمیت کے پیش نظر اس کو بھی اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ اس کی لغوی تحقیق ان کی کتاب ’’مفردات القرآن‘‘ میں ہے، جبکہ قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمال پر انھوں نے اپنی ایک مستقل تصنیف ’’حکمت القرآن‘‘ میں سیرحاصل بحث کی ہے۔ امام فراہی رحمہ اللہ کے نتائج تحقیق نہایت وقیع، فکر آفریں اور قرآنی مباحث کو سمجھنے کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
لفظ ’حکمت‘ مادہ ’ح ک م‘ سے مشتق ہے۔ اسی مادہ سے دوسرا اسم ’حکم‘ ہے۔ ’’لسان العرب‘‘ میں حکم کے معنی ’العلم والفقہ والقضاء بالعدل‘، ۱ یعنی علم، سوجھ بوجھ اور عدل کے مطابق فیصلہ کے آئے ہیں۔ ’’تاج العروس‘‘ میں اس کے معنی ہیں: ’القضاء فی الشء‘، ۲ یعنی کسی معاملہ کا فیصلہ کرنا۔ اس میں یہ وضاحت بھی آئی ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق صرف اس فیصلہ پر ہوتا ہے جو عدل کے ساتھ طے کیا جائے۔ امام فراہی کے نزدیک الفاظ کے لغوی معانی کے تعین کے لیے مرجع کی بہترین کتاب خود قرآن مجید ہے۔ اس کے استعمالات کی روشنی میں انھوں نے لفظ ’حکم‘ کا اطلاق محض فیصلہ کرنے پر کیا ہے، خواہ یہ فیصلہ حق ہو یا باطل۔ اس معنی کے لیے ان کی رہنمائی جن آیات سے ہوئی وہ یہ ہیں:
مَا لَکُمْ کَیْْفَ تَحْکُمُوْنَ.(القلم ۶۸: ۳۶)
’’تمھیں کیا ہوا ہے، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو!‘‘
اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ.(المائدہ ۵: ۵۰)
’’کیا وہ جاہلیت کے فیصلہ کے طالب ہیں۔‘‘
اول الذکر آیت مشرکین کی اس غلط راے پر تعجب کا اظہار کرتی ہے جو وہ آخرت کے بارے میں ظاہر کرتے تھے۔ مؤخر الذکر آیت میں جاہلیت پر مبنی فیصلہ پر لفظ ’حکم‘ کا اطلاق کیا ہے۔ یہ فیصلہ، ظاہر ہے، حق کے مطابق نہ تھا۔ امام فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک لفظ کا اصل مفہوم یہی تھا، لیکن پھر اس کا اطلاق اس قوت پر بھی ہونے لگا جس کی بدولت آدمی صحیح فیصلے کرتا ہے۔
لفظ ’حکمت‘ بھی مادہ ’ح ک م‘ سے اسم ہے جس کے معانی ’’لسان العرب‘‘ میں ’معرفۃ أفضل الأشیاء بأفضل العلوم‘ ۳ کے آئے ہیں، یعنی اعلیٰ چیزوں کی پہچان بہترین علوم کے ذریعہ سے حاصل کرنا۔ دوسرے معنی عدل کے بتائے گئے ہیں۔ ’’تاج العروس‘‘ میں اس سے مراد ’العلم بحقائق الأشیاء علی ما ھی علیہ والعمل بمقتضاھا‘ ۴ ، یعنی اشیا کی حقیقت کو ان کی اصلیت کے مطابق جاننا اور اس علم کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے۔ حق کو علم و عمل، دونوں کے لحاظ سے درست قرار دینا اور عدل سے فیصلہ کرنا بھی حکمت قرار دیا گیا ہے۔ جرجانی کے نزدیک ہر وہ بات جو حق کے موافق ہو حکمت کہلاتی ہے ۵ اور اس لفظ کا اطلاق اس علم پر بھی ہوتا ہے جس کے ساتھ عمل پایا جائے۔ راغب اصفہانی رحمہ اللہ علم اور عقل سے حق کی مطابقت کو حکمت قرار دیتے ہیں۔ ۶ امام رازی رحمہ اللہ نے اس کی تعبیر قول و عمل کی درستی اور ہر شے کو اس کا مقام دینے سے کی ہے۔ ۷ امام فراہی رحمہ اللہ نے لفظ کے معانی کا تعین اولاً اہل عرب کے استعمالات کی روشنی میں کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق اہل عرب حکمت کا اطلاق اس قوت پر کرتے تھے جو عقل و راے کی درستی اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی شرافت کی جامع ہو۔ اسی لیے وہ ایک دانش مند اور مہذب آدمی کو حکیم کہتے تھے۔ لہٰذا امام فراہی رحمہ اللہ نے حکمت کی تعبیر اس قوت سے کی ہے جس کے باعث آدمی حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ اس قوت کے اثرات کلام کی حقانیت، اخلاق کی پاکیزگی اور حسن ادب کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ثانیاً، امام فراہی رحمہ اللہ کے پیش نظر قرآن مجید کی وہ آیات بھی ہیں جن میں حکمت کے معانی کا تعین کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا:
وَاٰتَیْْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ.(صٓ ۳۸: ۲۰)
’’اور ہم نے اس کو حکمت اور معاملات کے فیصلہ کی صلاحیت عطا کی۔‘‘
امام فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک الفاظ ’فَصْلَ الْخِطَابِ‘ میں حکمت کا ایک اثر یہ بیان ہوا ہے کہ جہاں حکمت موجود ہوتی ہے وہاں حق پر مبنی دوٹوک بات کہی جاتی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں بعض اخلاقی ہدایات دینے کے بعد فرمایا گیا ہے:
ذٰلِکَ مِمَّآ اَوْحٰٓی اِلَیْْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ.(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۹)
’’یہ ان باتوں میں سے ہیں جو تمھارے رب نے حکمت میں سے تمھاری طرف وحی کی ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ اخلاق اور شریفانہ کردار بھی حکمت ہی کا ایک پرتو ہے۔ ان آیات کی روشنی میں امام فراہی رحمہ اللہ کی بتائی ہوئی حکمت کی تعریف کی تائید ہوتی ہے۔
مولانا نے حکمت کی بعض خصوصیات بیان کر کے اس کے تصور کو قریب الفہم بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمت کی بات عقل و دل کے نزدیک نہایت بدیہی اور واضح ہوتی ہے۔ یہ اس قدر دل میں اتر جانے والی ہوتی ہے کہ اس کو ثابت کرنے کے لیے مزید دلائل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ حکمت ایک نور ہے۔ جس طرح روشنی سے اردگرد کی تمام چیزیں جگمگا اٹھتی ہیں، اسی طرح حکمت کے نور سے آدمی کا علم منور ہو جاتا ہے۔ پھر جس طرح آگ کا اثر حرارت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ہر شخص اس کو محسوس کر لیتا ہے، اسی طرح حکمت بھی اپنے اثرات سے پہچانی جاتی ہے۔ جب یہ کسی شخص کے اندر پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے اندر حق شناسی کا ایک ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی زبان سے جو بات نکلتی ہے حق نکلتی ہے اور اس سے جو فعل صادر ہوتا ہے، ٹھیک صادر ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک حکیم آدمی کا دل اپنے اندر رفعت محسوس کرتا ہے، اس کا کلام نہایت دل نشین ہوتا ہے، اس کا عمل نیکی پر مبنی ہوتا ہے اور وہ اعلیٰ اخلاق کا مجسمہ ہوتا ہے۔
لوگوں میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اہل فلسفہ حکمت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کو حکیم کہا بھی جاتا ہے، لیکن امام فراہی رحمہ اللہ اس نقطۂ نظر کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک فلسفیوں نے علم اور عالم کو موضوع فکر تو ضرور بنایا، لیکن بالعموم ان کے فکر کی کوئی مضبوط اساس نہ تھی۔ وہ اوہام کا شکار رہے اور علم کے اصل سرچشموں تک ان کی رسائی نہیں ہوئی۔ ارسطو تمام علوم کا احاطہ کر لینے کو حکمت کا نام دیتا تھا، حالاں کہ علوم کا احاطہ کسی بھی انسان کے بس میں نہیں۔ اس مخمصہ سے نکلنے کے لیے اس نے علم کو کلیات کے علم تک محدود کرنے کی کوشش کی اور مابعد الطبیعیات کے علم کو اعلیٰ حکمت قرار دیا، لیکن اس کے باوجود وہ ابتدائی وہم سے نہ نکل سکا۔ امام فراہی رحمہ اللہ عام علوم کو حکمت کا موضوع سمجھتے ہی نہیں، اس لیے مسلمان فلسفیوں ۔۔۔۔۔ اخوان الصفا، ابن سینا، الفارابی، الخوارزمی، الغزالی اور ابن خلدون ۔۔۔۔۔ کی علوم کی وہ تقسیم جس میں پایدار علوم کو حکمت کا نام دیتے ہیں، صحیح نہیں ہے۔
امام فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک حکیم کے اندر حق کی جستجو کا مادہ اور جانچ پرکھ کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ باطل میں سے حق کو چھانٹ لیتا ہے۔ حق میں جو نورانیت ہوتی ہے، اس کو حکیم کی فطرت کی بصیرت فوراً محسوس کر لیتی ہے۔ چونکہ اس کائنات کا سب سے بڑا حق اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر بندے کا ایمان لانا ہے، اس لیے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک حکیم کی پہلی شناخت اس کا ایمان ہے۔ وہ اس حق کو پہچانے، اس پر اس کا دل مطمئن ہو جائے، وہ ہر باطل سے دست کش ہو جائے اور عمل صالح کو اختیار کر لے تو وہ، بلاشبہ ایک حکیم ہے۔ اگر وہ ایمان تک نہ پہنچ سکا تو دوسرے علوم و فنون میں اس کی مہارت کی بدولت اس کو حکیم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سلف صالحین کے دور میں حکمت کے قرآنی مفہوم کے تعین میں اختلاف واقع ہوا ہے جس کی تفصیل تفسیر کی کتابوں میں ملتی ہے۔ امام فراہی رحمہ اللہ کے پیش نظر یہ اختلاف تھا اور انھوں نے اس کو رفع کرنے کی نہایت عمدہ کوشش کی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ امام مالک اور ابو رزین کی راے میں حکمت سے مراد دین کی سوجھ بوجھ اور ایسا فہم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ہوتا ہے۔ مجاہد نے اس کو قرآن کے فہم کے لیے مخصوص کیا ہے۔ یحییٰ بن معاذ کی راے میں حکمت اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جس کو وہ عارفین کے دلوں کی طرف بھیجتا ہے تاکہ ان پر دنیا کے مضر اثرات کا ازالہ کرے۔ ابن زید کے نزدیک ہر وہ بات حکمت کی بات ہے جو آدمی کو تنبیہ کرے، اس کو کسی نیکی کی طرف بلائے یا کسی برے کام سے روکے۔ ابوجعفر محمد بن یعقوب ہر اس بات کو حکمت قرار دیتے ہیں جس سے صحیح فعل پیدا ہو۔ مقاتل کی راے میں علم اور اس کے مطابق عمل کا نام حکمت ہے۔ امام فراہی رحمہ اللہ نے ان تمام اقوال کا حوالہ دے کر ان کو ایک ہی حقیقت کی مختلف انداز سے ترجمانی قرار دیا ہے۔ ۸ ان کے نزدیک حکمت سب سے پہلے انسان کے دل میں بطور بصیرت و توفیق ظاہر ہوتی ہے۔ دل منور ہوتا ہے تو اس کا اثر کلام پر پڑتا ہے، چنانچہ حکمت کا اظہار انسان کے کلام سے ہونے لگتا ہے۔ وہ حق بات کہتا، نیکی کی تعلیم دیتا اور بدی سے روکتا ہے۔ اس کے بعد حکمت انسان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہے تو وہ اخلاق فاضلہ کو اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح اس کے علم اور عمل میں کامل مطابقت ہو جاتی ہے۔ امام فراہی رحمہ اللہ کی اس تقریر کی روشنی میں مالک، ابورزین، مجاہد اور یحییٰ بن معاذنے کلام میں اس کے اثر کو نمایاں کیا ہے اور مقاتل نے علم و عمل، دونوں میں حکمت کے اثرات کا حوالہ دیا ہے۔
قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی کے ضمن میں تعلیم کتاب و حکمت کا ذکر بہت نمایاں ہے۔ اس کی تفسیر میں تعلیم کتاب کے لیے بالعموم مفسرین کا ذہن قرآن مجید کی طرف گیا ہے، لیکن تعلیم حکمت کے لیے وہ کسی بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ، جن میں امام شافعی رحمہ اللہ سرفہرست ہیں، یہ راے رکھتے ہیں کہ یہاں حکمت سے مراد سنت رسول اللہ ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب ’کتاب‘ اور ’حکمت‘ کے الفاظ ساتھ ساتھ آ رہے ہیں تو لازم ہے کہ ان سے دو مختلف چیزیں مراد لی جائیں۔ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت اور آپ کے احکام کا اتباع فرض ہے، اس لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ایسی چیز ہو سکتی ہے جس کا ذکر کتاب اللہ کے ساتھ کیا جائے، لہٰذا ’حکمت‘ سے مراد سنت رسول ہے۔ امام فراہی رحمہ اللہ نے اس نقطۂ نظر سے اختلاف کیا ہے اور اس کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے قرآن مجید کی دو آیات ایسی پیش کی ہیں جن میں ’کتاب‘ اور ’حکمت‘ کے الفاظ ایک ساتھ آئے ہیں، لیکن وہاں ’حکمت‘ سے مراد سنت کو ہرگز نہیں لیا جا سکتا۔ وہ آیات یوں ہیں:
وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ.(النساء ۴: ۱۱۳)
’’اور اللہ نے تم پر کتاب و حکمت نازل فرمائی اور تمھیں وہ چیز سکھائی جو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘
وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ.(الاحزاب ۳۳: ۳۴)
’’اور تمھارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تعلیم ہوتی ہے، اس کا چرچا کرو۔‘‘
ان آیات میں حکمت کے لیے فعل ’اَنْزَلَ‘ اور ’یُتْلٰی‘ استعمال ہوئے ہیں جو قرآن میں صرف وحی آسمانی کے لیے آئے ہیں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی اور اسی کی تلاوت آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھروں میں ہوا کرتی تھی۔ یہ دونوں فعل کہیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و افعال کے لیے استعمال نہیں ہوئے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا مزید استدلال یہ ہے کہ حدیث رسول، دانش و موعظت کے مضامین کے لیے خاص نہیں، بلکہ احکام شریعت کی حامل بھی ہو سکتی ہے۔ اگر اس کا تعلق قانون سے ہو تو اس صورت میں اس پر ’حکمت‘ کے لفظ کا اطلاق بالکل نامناسب ہو گا۔ مزید برآں قرآن مجید نے اپنی تعلیم کے اندر پائے جانے والے اصول دین کو سورۂ بنی اسرائیل آیت ۳۹ میں خود حکمت سے موسوم کیا ہے۔ لہٰذا یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ’حکمت‘ سے مراد قرآن سے باہر کی کوئی چیز سمجھی جائے۔ مولانا کے نزدیک ’کتاب‘ سے قرآن مجید کے ایک ضابطۂ شریعت ہونے کا مفہوم نکلتا ہے اور حکمت یہ اس اعتبار سے ہے کہ اس میں شریعت کی حکمت، صحیح عقائد اور عمدہ اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس مضمون کی دلیل سورۂ آل عمران میں ہے۔ فرمایا:
وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ.(۳: ۴۸)
’’اور اللہ اس کو کتاب اور حکمت، تورات اور انجیل سکھائے گا۔‘‘
اس آیت میں ’کتاب‘ اور ’حکمت‘ کی تفسیر تورات اور انجیل سے کی گئی ہے۔ تورات ایک ضابطۂ شریعت تھی جس کی تعلیم ایک ایسی قوم کے لیے مناسب تھی جو ابھی عالم طفولیت میں تھی، اس کی ذہنی و قلبی استعداد اس سے زیادہ کی متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو ان کو انجیل عطا کی گئی جس کے متعلق خود انھوں نے یہ وضاحت کر دی کہ یہ صحیفۂ حکمت ہے:
وَلَمَّا جَآءَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِءْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ.(الزخرف ۴۳: ۶۳)
’’اور جب عیسیٰ کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا تو اس نے دعوت دی کہ میں تمھارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تعلیم حکمت کے لیے تمثیلات کے اسلوب کا سہارا لیا۔ تاہم انجیل کی تعلیم بھی ادھوری تھی، کیونکہ بنی اسرائیل کی ذہنی استعداد ابھی تک کامل حکمت کے تحمل کے لائق نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ واضح پیغام دیا کہ مجھے تم سے بہت سی باتیں کہنی ہیں، لیکن تم ان سب کا تحمل نہ کر سکو گے۔ لہٰذا اب میں جاتا ہوں اور میرے بعد جو آئے گا، وہ تمھیں ان باتوں کی تعلیم بھی دے گا جن کی تعلیم میں تمھیں نہ دے سکا۔ یہ بعد میں آنے والے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے اور آپ کے پاس وہ صحیفۂ ہدایت تھا جو ضابطۂ شریعت اور حکمت دین، دونوں کا جامع ہے۔ اس میں ایک طرف حرام و حلال کی تمام حدود نہایت واضح اور متعین ہیں، تو دوسری طرف یہ ایک عمیق فلسفہ اور گہری حکمت بھی رکھتا ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک کتاب و حکمت کے الفاظ استعمال کرنے سے قرآن مجید کی اسی حیثیت کو واضح کرنا مقصود ہے۔
اس استدلال کی روشنی میں امام فراہی رحمہ اللہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی راے خطا پر مبنی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حدیث رسول نہ صرف حکمت کی حامل ہوتی ہے، بلکہ قرآن کی حکمت کی وضاحت بھی کرتی ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ جہاں اسلاف میں سے کسی کو تنقید کا نشانہ بنائیں تو ان کا رجحان طبع یہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے حسن ظن کو مجروح نہ ہونے دیں۔ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کی راے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام صاحب کے زمانہ میں لوگ قرآن کی تاویل غلط عقلیات کی روشنی میں کرنے لگ گئے تھے جس سے آیات کا مفہوم کہاں سے کہاں جا نکلتا تھا۔ امام صاحب نے ایسے لوگوں پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ فہم کتاب، سنت رسول کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے، کیونکہ سنت ہی کتاب اللہ کی تبیین کرتی ہے، ورنہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں جہاں یہ بحث لکھی ہے، مقدمۂ کتاب میں علم کو قرآن مجید کے علم پر منحصر مانا اور بتایا ہے کہ دل اگر منور ہوتا ہے تو حکمت کے نور سے منور ہوتا ہے اور یہ حکمت کتاب اللہ کے علم اور اس کے مطابق عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک انسان کی دو بنیادی صفات اس کی قوت فکر اور قوت ارادہ ہیں۔ قوت فکر کے ذریعے وہ ان نشانیوں سے استدلال کر سکتا ہے جن سے آفاق و انفس بھرے پڑے ہیں اور قوت ارادہ کی بدولت وہ خیر و سعادت کے کاموں کو اختیار کرتا ہے۔ حکمت اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جو غور و فکر کے ذریعے سے حاصل ہونے والے علم اور ارادہ کی قوتوں میں موافقت پیدا کر لے۔ حکمت کا منبع انسان کے خارج میں نہیں ہوتا، بلکہ اس کی ذات کے اندر اور اس کی فطرت میں ہوتا ہے، اس لیے حکمت کے طالب کو اپنے نفس کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حکمت کا تحمل یک بارگی نہیں ہوتا، بلکہ بتدریج ہوتا ہے۔ یہ عمل بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے، جس طرح ایک نقشہ کے مطابق کسی عمارت کی تعمیر درجہ بدرجہ مکمل ہوتی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ دل کے خشوع کو وہ دروازہ قرار دیتے ہیں جس کے راستے حکمت دل میں داخل ہو کر اس کو زندگی بخشتی ہے۔ خشوع رکھنے والے شخص کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا ایک مقصد کے تحت وجود میں آئی ہے، اس کو پیدا کرنے والا عادل اور پاکیزہ رب ہے، جبکہ انسان غلطی کا ارتکاب کرنے والا، بھٹک جانے والا اور سرکشی اختیار کرنے والا ہے۔ اس احساس سے آدمی میں خشیت پیدا ہوتی ہے، وہ خلوت و جلوت میں حدود الٰہی کی پابندی اختیار کرتا اور خواہشات نفس کی پیروی سے باز رہتا ہے۔ ان صفات سے اس کا قلب صاف اور حکمت کے نور سے مستنیر ہونے کے لیے تیار رہتا ہے۔
حصول حکمت کے لیے جو چیزیں نہایت اہم ہیں، وہ ذکر الٰہی، تلاوت قرآن، اللہ کے بندوں پر شفقت اور ان کے لیے جذبۂ ترحم ہیں۔ قرآن حکیم حکمت کا سب سے بڑا خزانہ ہے، لیکن اس کے اندر حکمت کے موتی تلاش کرنے کے لیے غور و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ حصول حکمت کی تگ و دو کے لیے انسان جو ذرائع بھی اختیار کرے، لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے حصول میں کامیابی اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔ حکمت اللہ تعالیٰ کی وہ عطاے خاص ہے جس کے سیکھنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔
(حکمت قرآن ۱۳۔۲۵)
________
۱ ۱۲/ ۱۴۱۔
۲ ۳۱/ ۵۱۰۔
۳ ۱۲/ ۱۴۰۔
۴ ۳۱/ ۵۱۲۔
۵ کتاب التعریفات ۱/ ۱۲۴۔
۶ المفردات فی غریب القرآن ۱/ ۱۲۷۔
۷ التفسیر الکبیر ۲/ ۱۸۹۔
۸ حکمت قرآن (اردو)، فراہی ۲۹، بہ حوالہ البحر المحیط، ابو حیان الاندلسی ۱/ ۳۹۳۔
____________