فاضل محترم مولانا رئیس احمد جعفری نے مجھ سے فرمایش کی ہے کہ مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق میں چند تاثرات قلم بند کروں۔ میں اس فرمایش کی تعمیل کے لیے آمادہ تو ہو گیا ہوں، لیکن یہ بات مضمون کے پہلے مرحلہ ہی میں واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے مولانا سے صرف نسبت غائبانہ عقیدت ہی کی حاصل ہے، ان سے ملنے جلنے کے مواقع تو درکنار ان کو دور دور سے دیکھ لینے کی سعادت بھی شاید دو تین بار سے زیادہ مجھے حاصل نہیں ہوئی ہے۔ تحریک خلافت کے شباب کے زمانے میں، سن ٹھیک طرح یاد نہیں (غالباً ۱۹۲۱ء یا ۱۹۲۲ ء میں) مولانا مدرسۃ الاصلاح ۔۔۔۔۔ سرائے میر، ضلع اعظم گڑھ یو پی، بھارت ۔۔۔۔۔ کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے۔ میں اس وقت مدرسۃ الاصلاح میں آخری درجوں کا طالب علم تھا۔ اس جلسہ میں مجھے یاد ہے کہ مولانا کا نام سن کر مدرسہ کے وسیع میدان میں بے پناہ خلقت جمع ہوئی۔ مولانا کے ساتھ وقت کے بعض دوسرے اکابر و مشاہیر بھی تشریف لائے میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کسی جلسہ میں کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے، لیکن اس جلسہ میں وہ بھی شریک ہوئے۔ بڑا عظیم اجتماع تھا۔ میں نے اس سے پہلے اس سے بڑا اجتماع کوئی نہیں دیکھا تھا۔ جلسہ کھلے میدان میں تھا۔ ہوا نہایت تند چل رہی تھی۔ اس زمانہ تک لاؤڈ سپیکر کا رواج نہیں ہوا تھا، اس وجہ سے اندیشہ تھا کہ مولانا کی تقریر سنی نہ جا سکے گی جس سے جلسہ میں انتشار پیدا ہو جائے گا، لیکن جب مولانا تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے رعب و دبدبہ نے ہر شخص کو اس طرح مرعوب و مسحور کر لیا کہ جو شخص جس جگہ کھڑا یا بیٹھا تھا، وہیں پیکر تصویر بن کر رہ گیا! مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی بلند اور پرشکوہ آواز ہوا کی تندی اور مجمع کی غیر معمولی وسعت کے باوجود ہر گوشہ میں پہنچنے لگی۔ اور تقریر کے اثر کا عالم یہ ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک آنکھ بھی ایسی نہ تھی جو رو نہ رہی ہو۔ یہ مجمع بالکل دیہاتیوں کا تھا، اس میں پڑھے لکھے لوگ بہت تھوڑے سے تھے۔ ان دیہاتیوں کے لیے مولانا محمد علی جیسے شخص کی کسی تقریر کو سمجھنا کچھ آسان کام نہیں تھا، لیکن ان کی تقریر میں ایمان و یقین کی ایسی گرمی اور سوز و درد کی ایسی گھلاوٹ تھی کہ اس سے متاثر ہونے کے لیے شاید اس کو زیادہ سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
اس موقع کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے جو قابل ذکر ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر جب ختم ہو گئی تو ہم نے دیکھا کہ مجمع کے ایک کنارے سے ایک بوڑھا دیہاتی اٹھا اور وہ مجمع کو چیرتا پھاڑتا سیدھا سٹیج کی طرف چلا۔ اگرچہ سٹیج تک پہنچنے میں اس کو سخت مزاحمتوں سے سابقہ پیش آیا، لیکن وہ اپنی دھن کا ایسا پکا نکلا کہ اس نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ کر ہی دم لیا۔ اور پہنچتے ہی ان کی ڈاڑھی پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص لہجہ میں بولا:
’’محمد علی! جو تو نے کیا، وہ کسی سے نہ ہو سکا! یہ کہہ کر جب وہ واپس مڑا تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’اس طرح کی داد بھی آپ کے سوا مجھے کسی اور سے نہیں ملی‘!‘‘
اس موقع پر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت کا ایک اور پہلو میرے سامنے اپنے استاذ مولانا فراہی کے تاثرات سے واضح ہوا۔ اس جلسہ میں تقریر کر کے مولانا محمد علی اعظم گڑھ شہر کے لیے روانہ ہو گئے جہاں شب میں ان کو ایک جلسۂ عام میں تقریر کرنی تھی۔ وہ گئے تو ان کے ساتھ مدرسۃ الاصلاح کا سارا جلسہ بھی چلا گیا، یہاں تک کہ خود مولانا فراہی بھی جو مدرسہ کے ناظم تھے، ان کی تقریر میں شرکت کے لیے ان کے ساتھ چلے گئے۔ انھوں نے چلتے وقت ہمیں یہ ہدایت کی کہ کچھ کٹے ہوئے کاغذ اور چند اچھی پنسلیں ان کے سامان میں رکھ دی جائیں تاکہ وہ اعظم گڑھ میں ہونے والی مولانا محمد علی کی تقریر نوٹ کر سکیں۔ یہ معاملہ میرے لیے نہایت حیرت انگیز تھا۔ میں اس بات سے تو واقف تھا کہ مولانا فراہی مولانا محمد علی اور مولانا آزاد سے محبت کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کی تقریر سے مولانا کا اس درجہ متاثر ہونا کہ وہ خود اس کے نوٹ کرنے کا اہتمام کریں، میرے تصور سے مافوق تھا۔ مولانا نہ تو جذباتی آدمی تھے، نہ کوئی سیاسی آدمی۔ وہ ایک محقق، ایک فلسفی اور ایک حکیم تھے۔ وہ، جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، وعظ و تقریر کے جلسوں میں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے، لیکن مولانا محمد علی کی تقریر میں شریک ہونے کے لیے نہ صرف یہ کہ سفر کے لیے آمادہ ہو گئے، بلکہ ان کی تقریر کے نوٹ لینے کے لیے یہ اہتمام فرمایا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے اس اہتمام نے میرے دل میں مولانا محمد علی کی عظمت بہت بڑھا دی۔ میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد علی ایک عظیم سیاسی لیڈر ہی نہیں، بلکہ وہ علمی و عقلی اعتبار سے بھی ایسے بلند پایہ آدمی ہیں کہ مولانا فراہی جیسے لوگ بھی ان کی تقریروں کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ ان کے نوٹ لیتے ہیں۔
اس واقعہ کے دوسرے ہی دن مجھ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ مولانا محمد علی کی تقریر میں وہ کیا چیز تھی جس سے استاذ مرحوم اس درجہ متاثر ہوئے ۔۔۔۔۔ دوسری صبح کو جب مولانا فراہی مدرسہ پر واپس آئے تو منتظمین میں سے بعض نے ان سے دبی زبان سے یہ شکایت کی کہ مولانا محمد علی کے ساتھ ان کے چلے جانے کے سبب سے خود مدرسہ کا جلسہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ مولانا نے اس کا جواب یہ دیا کہ:
’’جو کام کی باتیں تھیں، وہ محمد علی نے اپنی تقریر میں کہہ دی تھیں، اس کے بعد کسی اور تقریر کی اب کیا ضرورت باقی رہی تھی!‘‘
مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات اس اعتماد اور یقین کے ساتھ فرمائی کہ ہر شخص پر یہ بات واضح ہو گئی کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو مدرسہ کے جلسہ کے درہم برہم ہو جانے کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے۔ ان کے نزدیک سننے کی باتیں وہی تھیں جو مولانا محمد علی نے کہہ دی تھیں اور لوگوں نے وہ سن لی تھیں، اس کے بعد جلسہ کا جاری رہنا، ان کے نزدیک، گویا اضاعت وقت کے حکم میں تھا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد متعدد بار مولانا محمد علی کی تقریر پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے یہ بھی کہا کہ:
’’محمد علی کی تقریر میں ایمان ہوتا ہے۔‘‘
ایک مرتبہ بطور لطیفہ کے یہ بھی فرمایا کہ:
’’چونکہ محمد علی بہت ذہین آدمی ہیں، اس وجہ سے لوگوں کو قرآن کے نظم کی طرح ان کی تقریروں اور تحریروں کے نظم کو سمجھنے میں بھی بسا اوقات زحمت پیش آتی ہے!‘‘
پھر فرمایا کہ:
’’کچھ اسی قسم کا حال مولانا محمد قاسم کی تقریروں اور تحریروں کا بھی ہے۔‘‘
اگرچہ بڑوں کے اس ذکر کے درمیان اپنا بیان کچھ مناسب نہیں، لیکن جن کا کل سرمایۂ زندگی صرف وہ چند چھوٹی بڑی نسبتیں ہی ہوں جو بڑوں سے ان کو حاصل ہوئیں، وہ اگر ان کو بیان نہ کریں تو آخر اپنے طرۂ افتخار کی آرایش کے لیے سامان کہاں سے لائیں گے! اس وجہ سے مجھے یہ واقعہ ذکر کرنے کی اجازت دیجیے کہ یہی جلسہ، جس کا اوپر ذکر ہوا، اول اول مجھے پبلک میں روشناس کرانے کا ذریعہ بنا۔ وہ اس طرح کہ مجھے مدرسہ کی تعلیم و تربیت کا نمونہ دکھانے کے لیے مدرسہ کے ذمہ داروں کی طرف سے اس جلسہ میں ایک تقریر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ چنانچہ میں نے اس میں ایک تقریر کی۔ یہ تقریر میری اپنی ہی تیار کردہ تھی اور اگرچہ کسی پبلک جلسہ میں یہ میری بالکل پہلی تقریر تھی، لیکن میری عمر اور علم کے اعتبار سے نہایت کامیاب رہی ۔۔۔۔۔ مولانا محمد علی اور سٹیج پر بیٹھے ہوئے دوسرے اکابر نے اس کی بڑی تحسین فرمائی، یہاں تک کہ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے بصلۂ حسن تقریر اپنے تفسیری رسائل کا ایک سیٹ اپنے دستخط سے مزین فرما کر مجھے بطور انعام عنایت فرمایا۔ اس کے بعد مجھے دور دور سے جلسوں کی شرکت کے لیے دعوت نامے ملنے لگے اور میں کبھی کبھی جلسوں میں شریک بھی ہونے لگا، لیکن میں نے یہ لے زیادہ بڑھنے نہیں دی۔ ایک مرتبہ تو انھوں نے مجھ سے یہاں تک فرمایا کہ زیادہ تقریریں کرنے سے آدمی کا دل سیاہ ہو جایا کرتا ہے! ظاہر ہے کہ جس چیز کو وہ اس درجہ ناپسند فرماتے ہوں، اس کی طرف زیادہ راغب ہونا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔
(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۰۱، بہ حوالہ ماہنامہ میثاق لاہور ۔جولائی ۱۹۶۴ء)
____________