HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: یونس ۱۰: ۲۰- ۲۷ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَیَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰہِ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ{۲۰} وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْ م بَعْدِ ضَرَّآئَ مَسَّتْھُمْ اِذَالَھُمْ مَّکْرٌ فِیْٓ اٰیَاتِنَا قُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًا اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَ{۲۱}
ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتّٰٓی اِذَاکُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِھَا جَآئَ تْھَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآئَ ھُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِھِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ{۲۲} فَلَمَّآ اَنْجٰھُمْ اِذَاھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ مَّتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُکُمْ فَنُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ{۲۳} اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ حَتّٰٓی اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَھْلُھَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْھَآ اَتٰھَآ اَمْرُنَا لَیْلاً اَوْ نَھَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ{۲۴}
وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ{۲۵} لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ وَلَا یَرْھَقُ وُجُوْھَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ{۲۶} وَالَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآئُ سَیِّئَۃٍم بِمِثْلِھَا وَتَرْھَقُہُمْ ذِلَّۃٌ مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ کَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْھُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ{۲۷}
اور یہ جو کہتے ہیں کہ نبی پر اُس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی۲۸؎ کیوں نہیں اتاری گئی تو (اِن سے) کہو، (یہ غیب کے معاملات ہیں ۲۹؎اور )غیب کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔ سو انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۳۰؎۔(لوگوںکا حال یہ ہے کہ عذاب کی نشانی مانگتے ہیں، مگر) جب کسی تکلیف کے بعد جو اُنھیں پہنچی ہو ہم اُن کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو ہماری نشانیوں کے معاملے میں حیلے بنانے لگتے ہیں۳۱؎۔ (اِن سے)کہو، اللہ اپنے حیلوں میں کہیں تیز ہے۔ (یاد رکھو)، جو حیلہ بازیاں تم کر رہے ہو، ہمارے فرشتے اُنھیں لکھ رہے ہیں۳۲؎۔ ۲۰-۲۱
(اِس کی مثال یہ ہے کہ ) وہ اللہ ہی ہے جو تمھیں خشکی اور تری میں سفر کراتا ہے۳۳؎،یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور کشتیاں لوگوں کو لے کر موافق ہوا سے چل رہی ہوتی ہیں۳۴؎ اور لوگ اُس سے شاداں و فرحاں ہوتے ہیں کہ یکایک اُس پر تند ہوا آجاتی ہے اور کشتی کے مسافروں پر ہر طرف سے موجیں اُٹھنے لگتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے۔ اُس وقت وہ اپنی اطاعت کو اللہ ہی کے لیے خالص کرکے اُس کو پکارنے لگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اِس سے نجات دے دی تو یقینا ہم شکر گزار ہو کر رہیں گے۔ پھر جب وہ اُنھیں نجات دے دیتا ہے تو فوراً ہی بغیر کسی حق کے۳۵؎ زمین میں سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ لوگو۳۶؎،تمھاری سرکشی کا وبال تمھی پر آنے والا ہے۳۷؎۔ دنیا کی زندگی کا نفع اٹھا لو،۳۸؎ پھر تم کو پلٹ کر ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ اُس وقت ہم بتا دیں گے جو کچھ تم کر رہے تھے۔ دنیا کی یہ زندگی (جس نے تمھیں غفلت میں ڈال دیا ہے)، اِس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ ہم نے اُسے آسمان سے برسایا تو زمین کی نباتات خوب نکلیں، وہ بھی جنھیں آدمی کھاتے ہیں اور وہ بھی جنھیں جانور کھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب زمین رونق پر آگئی اور اُس نے اپنا بنائو سنگھار کر لیا اور زمین والوں نے خیال کیا کہ اب وہ اُس پر پوری قدرت رکھتے ہیں۳۹؎ تو اچانک رات یا دن میں (کسی وقت) ہمارا فیصلہ آگیا، پھر ہم نے اُسے ایسا کاٹ کر ڈھیر کر دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ہم اُن لوگوں کے لیے جو غور کریں، اپنی نشانیاں اِسی طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔۲۲-۲۴
(لوگو، تم اِس زندگی کے فریب میں مبتلا ہو) اور اللہ تمھیں سلامتی کے گھر کی طرف ۴۰؎بلاتا ہے اور (اِس کے لیے) جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق)، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۴۱؎۔ (پھر) جن لوگوں نے بھلائی کی، اُن کے لیے بھلائی ہے اور اُس پر مزید بھی۔ اُن کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی نہ ذلت۔ وہی جنت کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (اِس کے برخلاف) جنھوں نے برائیاں کمائی ہیں تو (خدا کا قانون یہ ہے کہ) برائی کا بدلہ اُس کے برابر ہے۴۲؎۔ سو اُن پر ذلت چھائے گی ــــــ اُنھیں کوئی خدا سے بچانے والا نہ ہو گا ۴۳؎  ـــــ اُن کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانک دیے گئے ہیں۔ وہی دوزخ کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔۲۵-۲۷

۲۸؎ اصل میں لفظ ’اٰیَۃٌ‘آیا ہے۔ آگے کی آیات سے واضح ہے کہ اِس سے یہاں عذاب کی نشانی مراد ہے جسے دیکھ کر واضح ہو جائے کہ پیغمبر جس فیصلہ کن عذاب کی وعید سنا رہا ہے، وہ بھی آ کر رہے گا۔

۲۹؎ یعنی یہ معاملات کہ اللہ عذاب کی کوئی نشانی دکھائے یا کسی قوم پر وہ عذاب نازل کرے جس کی وعید سنائی جا رہی ہے۔

۳۰؎ یہ قوم کو مبتلاے عذاب دیکھنے کی تمنا نہیں، بلکہ حسرت و اندوہ کے ساتھ ایک ایسی چیز کا انتظار ہے جو قوم کی ضد کے باعث خدا کا فیصلہ بن چکی ہے۔

۳۱؎ چنانچہ کبھی وعدے کرتے ہیں کہ اِس مرتبہ ہلاکت سے بچ گئے تو خدا کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے اور کبھی اِس طرح کے فلسفے بیان کرتے ہیں کہ یہ گردش زمانہ ہے۔ اِس قسم کے نرم گرم حالات ہر قوم کو پیش آتے ہیں۔ اِنھیں خدا کی تنبیہ یا عقیدہ و عمل کے کسی فساد کا نتیجہ کیوں سمجھا جائے؟

۳۲؎ یہ نہایت سخت تنبیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لکھ رہے ہیں تو عنقریب اِن حیلہ بازیوں کا نوٹس بھی لیں گے۔

۳۳؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ زمین میں سفر کے تمام ذرائع و وسائل خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور وہ تدبیر و حکمت بھی اُسی نے عطا فرمائی ہے جس سے کام لے کر انسان نئی نئی ایجادات کرتا اور اِس طرح اپنے لیے سفر کی مزید سہولتیں پیدا کر لیتا ہے۔

۳۴؎ اصل میں فعل ’جَرَیْنَ‘ آیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ ’فُلْک‘ مذکر مونث، واحد جمع ، سب کے لیے آجاتا ہے۔ یہاں سے اسلوب میں بھی تبدیلی ہوئی ہے اور وہ تمثیل کے تقاضے سے حاضر کے بجاے غائب کا ہو گیا ہے تاکہ عموم پر دلالت کرے۔ تمثیلات میں یہی اسلوب زیادہ موزوں اور موثر ہوتا ہے۔

۳۵؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ مخلوق اپنے خالق کے سامنے سرکشی کرے تو وہ ہر حال میں بغیر کسی حق کے ہو گی۔

۳۶؎ یہاں سے خطاب پھر براہ راست قریش سے ہو گیا ہے۔

۳۷؎ یہ نہایت سخت وعید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمھاری یہ سرکشی تم پر خدا کی حجت پوری کر دے گی اور بالآخر اُس کے فیصلہ کن عذاب کی زد میں آجائو گے جو کسی کو باقی نہ چھوڑے گا۔

۳۸؎ اصل الفاظ ہیں:’مَتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘۔اِن میں لفظ ’مَتَاع‘ ایک فعل محذوف سے منصوب ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

۳۹؎ یہ اُس حوصلے اور امنگ کی تعبیر ہے جس سے فصل کو اُس کے جوبن پر دیکھ کر اُس کے مالکوں کے دل لبریز ہو جاتے ہیں۔

۴۰؎ یعنی جنت کی طرف، جس کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہاں نہ ماضی کے پچھتاوے ہوں گے نہ مستقبل کے اندیشے، وہ سراسر سلامتی ہو گی۔

۴۱؎ یعنی اِس قانون کے مطابق کہ جو سیدھی راہ کے سچے طالب ہوں، وہ اِس کے مستحق ہیں کہ اللہ اُنھیں سیدھی راہ دکھائے۔

۴۲؎ یعنی بھلائی کے لیے تو مزید بھی ہے، لیکن برائی کا بدلہ پورے انصاف کے ساتھ بالکل برابر ہے، اُس میں کمی بیشی نہ ہو گی۔

۴۳؎ سلسلۂ کلام کے بیچ میں یہ ایک جملہ معترضہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں سے مدد اور سفارش کی امیدیں باندھتے ہو، اُن میں سے کوئی بھی وہاں کام نہ آئے گا۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B