حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ علماے علم نسب کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ عنز بن وائل کی اولاد میں سے تھے،اس لیے عنزی کہلاتے تھے۔بکر بن وائل اور تغلب بن وائل کے بھائی عنز بن وائل حضرت عامر کے دسویں جد تھے۔ کچھ لوگ ان کا نسب یمن کے قبیلہ بنو مذحج سے جوڑتے ہیں۔ عنزہ بن اسد بن ربیعہ بھی ان کی نسبت بیان کی گئی ہے، تاہم طبری نے اس کا رد کیا ہے۔عامر کے دادا کا نام کعب بن مالک تھا۔سلسلۂ نسب کی دو شاذروایتوں کے مطابق ان کے دادا کا نام مالک بن عامریا عامر بن مالک تھا۔ نسابین کا اس بات پراتفاق ہے کہ وہ بنوعدی کے عبدالعزیٰ کے بیٹے اور حضرت عمر کے والد خطاب بن نفیل کے معاہد و حلیف تھے، اس لیے ان کوعدوی بھی کہا جاتا تھا۔ خطاب نے عامر کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا ۔چنانچہ انھیں عامر بن خطاب کے نام سے پکارا جاتاتھا۔ سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۵ میں اﷲ کا یہ فرمان نازل ہوا:
اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآءِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَ ہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ.
’’ لے پالکوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو، یہی اﷲ کے ہاں زیادہ قرین انصاف ہے۔اور اگر تمھیں ان کے آبا کا علم ہی نہ ہو تو تمھارے دینی بھائی اور تعلق دار ہیں۔‘‘
تو انھیں ان کے اصل نام عامر بن ربیعہ سے پکارا جانے لگا۔
ابو عبداﷲ حضرت عامر کی کنیت تھی۔
حضرت عامر بن ربیعہ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔وہ اسلام کی حقانیت پر ایمان لانے والے اٹھائیسیویں فرد تھے،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں تشریف نہ لائے تھے۔ حضرت عامر نے زمانۂ جاہلیت کے موحد زید بن عمرو بن نفیل سے نبی موعود صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات اور ان کی نشانیاں سن رکھی تھیں ،یہی وجہ ہے کہ انھیں اسلام کی طرف سبقت کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا۔زید نے کہا تھا کہ میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد، بنو عبدالمطلب میں ایک نبی کی آمد کا انتظار کر رہا ہوں۔اگر تمھیں زندگی نے مہلت دی اور انھیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میرا سلام کہہ دینا۔ چنانچہ عامر مسلمان ہوئے تو آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو زید کا سلام پہنچایا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا ،زید کے لیے دعاے رحمت کی اور فرمایا:میں انھیں جنت میں ناز و انداز کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھ رہا ہوں۔
۵ ؍ نبوی میں قریش کے مظالم سے پسے ہوئے اہل ایمان سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کاش تم سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے اوروہاں اس وقت تک قیام کرتے جب تک اﷲکشادگی کی راہ نہ نکال دیتا۔حبشہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے،وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔‘‘چنانچہ رجب ۵؍ نبوی میں اہل ایمان کا پہلا قافلہ حضرت عثمان بن مظعون کی قیادت میں سوے حبشہ عازم ہجرت ہوا۔ حضرت عثمان بن عفان،ان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول اﷲ، حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، ان کی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیل، حضرت زبیربن عوام، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوسلمہ،ان کی زوجہ حضرت ام سلمہ، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ،ان کی بیوی حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ (شاذ روایات: خیثمہ یا حذافہ)، حضرت ابوسبرہ بن ابو ہاشم، حضرت حاطب بن عمرو، حضرت سہیل بن بیضا اور حضرت عبداﷲ بن مسعود اس قافلۂ اولین میں شامل تھے۔ ابن اسحاق نے دس اور ابن خلدون نے گیارہ کا عدد بیان کیا ہے، تاہم طبری اور ابن ہشام نے چودہ صحابہ شمار کیے ہیں جو نصف دینار کرایہ ادا کر کے ایک یا دو کشتیوں پر حبشہ گئے۔ مندرجہ بالا فہرست میں ہم نے مختلف روایتوں کو جمع کر کے سولہ صحابہ کے نام تحریر کیے ہیں۔ قریش نے مہاجرین کا پیچھا کیا، لیکن وہ ان کے ہاتھ نہ آ سکے۔چند ماہ کے بعد حضرت جعفر بن ابو طالب کی قیادت میں سڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ حبشہ روانہ ہوا ،اس طرح ہجرت اولیٰ مکمل ہوئی اور کل تراسی اصحاب(بہ شمول عمار بن یاسرجن کا حبشہ جانا ثابت نہیں)حبشہ پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد تمام اہل مکہ کے ایمان لانے کی افواہ حبشہ پہنچی تو صحابہ کی ایک تعداد نے مکہ واپسی کا قصد کیا، حضرت عامر بن ربیعہ ان میں سے ایک تھے۔مکہ کے قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ جوخبر انھیں سنائی گئی تھی، جھوٹ تھی۔ تب کل تینتیس اصحاب چوری چھپے یا کسی مشرک کی پناہ لے کر مکہ میں مقیم ہو گئے۔ان کی اکثریت نے یہیں سے مدینہ کو ہجرت کی تاہم کچھ افراد کو مشرکوں نے قید کر لیا۔ حضرت عامر بن ربیعہ بھی مکہ میں داخل ہو گئے، لیکن کسی کی پناہ نہ لی۔
حضرت عامر بن ربیعہ کی اہلیہ لیلیٰ بیان کرتی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہمارے حلیف عمر بن خطاب نے ہم پر بہت سختی کی۔میں حبشہ جانے کے لیے اونٹ پر سوار تھی،عامر کسی کام سے نکلے تھے کہ عمرآگئے اور مجھ سے پوچھا: ام عبداﷲ، کہاں جا رہی ہو؟میں نے جواب دیا:تم لوگوں نے ہمیں دین میں بہت ایذائیں دی ہیں، ہم اﷲ کی اس سرزمین میں جا رہے ہیں جہاں اس کی بندگی کرنے پر ہمیں ایذا نہ پہنچائی جائے گی ۔مجھے عمر کے لہجے میں نرمی نظر آئی، انھوں نے کہا:’’اﷲ تمھارے ساتھ رہے‘‘ اور وہاں سے چل دیے۔ حضرت عامر آئے تو میں نے کہا: آپ نے عمر کی غیر معمولی نرمی تو دیکھی ہوتی۔انھوں نے پوچھا: تمھیں توقع ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں گے؟میں نے کہا: ہاں۔عمر کی درشتی سے نالاں حضرت عامر نے کہا: واﷲ، جب تک خطاب کا گدھا ایمان نہ لائے ،وہ مسلمان نہ ہوں گے۔
بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے دسویں سال ،حج کے موقع پرمدینۂ یثرب کے باسی اﷲ کی توفیق سے اسلام کی طرف راغب ہوئے۔ حضرت ابوسلمہ اسی وقت مدینہ منتقل ہو گئے اور پہلے مہاجرہونے کا شرف حاصل کیا۔ ۱۱؍ نبوی میں بیعت عقبۂ اولیٰ کے بعد آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن عام دے دیا، تب حضرت عامر بن ربیعہ، ان کی اہلیہ لیلیٰ، حضرت عبداﷲ بن جحش،ان کی اہلیہ اور بھائی ابو احمد عبدبن جحش دار ہجرت پہنچے۔ خود ان سے روایت ہے کہ مجھ سے پہلے صرف ابو سلمہ بن عبدالاسد ہی مدینہ آئے تھے، البتہ حضرت عامر کی اہلیہ لیلیٰ بنت ابوحثمہ مدینہ پہنچنے والی پہلی خاتون تھیں۔ حضرت عامر ،ابوسلمہ اور بنوجحش(جحش کا کنبہ)مدینہ کے مضافات قبا میں بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں مقیم ہوئے۔ حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ اور حضرت عمار بن یاسربھی اسی زمانے میں وہاں منتقل ہوئے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یزید بن منذر انصاری(عبادہ:ابن جوزی) سے حضرت عامر بن ربیعہ کی مواخات قائم فرمائی۔
۲ھ ،جمادی الثانی یا رجب کے مہینے میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عبداﷲ بن جحش کی سربراہی میں نو(واقدی کے مطابق بارہ) مہاجرین کا ایک سریہ روانہ کیا۔ حضرت عبداﷲ کے علاوہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عکاشہ بن محصن، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عامر بن ربیعہ ، حضرت واقد بن عبداﷲ، حضرت خالد بن بکیر اور حضرت سہیل بن بیضا اس میں شامل تھے ۔یہ چھ اونٹوں پر سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ کو ایک خط دے کر فرمایا: مدینہ سے مکہ کی جانب دو دن کا سفر (اٹھائیس میل کی مسافت )طے کر لینے کے بعد وادئ ملل پہنچ کر اسے پڑھنا ۔ آپ کی ہدایت کے مطابق انھوں نے خط کھولا تو لکھاپایا: ’’مکہ اور طائف کے بیچ واقع مقام نخلہ کی طرف سفر جاری رکھو،وہاں پہنچ کرقریش کی نگرانی کرو اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔‘‘ حضرت عبداﷲ نے فرمان نبوی پرسمع و طاعت کہا اور ساتھیوں کو بتایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی کوزبردستی آگے لے جاؤں۔ جو شہادت چاہتا ہے ، چلے ۔سب چل پڑے ، کوئی پیچھے نہ رہا۔ دستہ بحران کے مقام پرپہنچا تو عتبہ بن غزوان اور سعدکا مشترکہ اونٹ کھو گیا۔دو نوں اسے تلاش کرنے لگ گئے،ابن جحش باقی ساتھیوں کو لے کر چلتے رہے اور نخلہ پہنچ گئے۔ کشمش، کھالیں اور دوسرا سامان تجارت لے کر چار افراد پر مشتمل قریش کا قافلہ گزرا۔ عکاشہ نے سر منڈا یا نہ ہوتاتو اہل قافلہ انھیں دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتے ،وہ مغالطہ میں رہے کہ مسلمان عمرہ کے لیے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر قافلے والوں کوآج کی رات چھوڑ دیا تو یہ حدودحرم میں داخل ہو کر مامون ہو جائیں گے اور اگر قتال کیا تو یہ حرام مہینے میں ہوگا۔کچھ پس وپیش کے بعد انھوں نے حملے کا فیصلہ کیا۔مشرک کھانا پکانے میں مصروف تھے،واقد بن عبداﷲ نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیااور عثمان بن عبداﷲ اور حکم بن کیسان کو قید کر لیا۔ نوفل بن عبداﷲ فرار ہو گیا ۔ہجرت مدینہ کے بعد یہ ساتویں مہم اور پہلا سریہ تھا جس میں کامیابی ملی،عمرو عہد اسلامی کا پہلا قتیل اورعثمان اور حکم پہلے اسیر تھے۔ حضرت عبداﷲ بن جحش نے تاریخ اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے طور پر تقسیم کر کے ۵/۱ حصہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے رکھ لیا، حالاں کہ خمس کا حکم نازل نہ ہوا تھا ۔سرےۂ عبداﷲ بن جحش جنگ بدر کے وقوع کا سبب بنا، کیونکہ اس سے قریش کی معیشت کو سخت دھچکا لگا۔ ان کی تمام تر خوش حالی شام سے تجارت پر موقوف تھی، حبشہ اور یمن سے تجارت کا اتنا حجم نہ تھا کہ وہ اس پر انحصار کر لیتے۔ اس مہم کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قریش پر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کا رعب بیٹھ گیا۔
حضرت عامر نے جنگ بدر، جنگ احداور تمام غزوا ت میں حصہ لیا۔
حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں عمرو بن سراقہ کو ہمارے ساتھ بھیجا۔وہ دبلے اور طویل القامت تھے۔بھوک سے ان کی کمر دہری ہونے لگی تو ہم نے ایک پتھر ان کے پیٹ پر باندھ دیا ۔مزید ایک دن کے سفر کے بعد کھانا ملاتو عمرو بولے: میں سمجھتا تھا کہ دو پاؤں پیٹ کو سہار سکتے ہیں، کیونکہ پیٹ بھی تو دوٹانگوں کا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔
حضرت عامر بن ربیعہ بتاتے ہیں کہ ایک سیاہ اندھیری رات میں ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ قبلہ کس طرف ہے۔ ہر شخص نے اپنے اندازے سے قبلے کا رخ متعین کیااور نمازپڑھ لی۔ صبح ہوئی تو ہم نے یہ معاملہ آپ کے گوش گزار کیا۔ تب اﷲ کا فرمان نازل ہوا: ’وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ‘، ’’ اﷲ ہی کے ہیں مشرق و مغرب،تم جس طرف بھی منہ کرو اﷲ کا رخ ہو گا‘‘۔ (البقرہ۲: ۱۱۵) (ترمذی، رقم ۳۴۵)۔ ترمذی نے یہ روایت بیان کر کے خود ہی اس کے راوی اشعث بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ کی روایت مختلف ہے، حضرت عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آسمان ابر آلود ہو گیا اور ہمارے لیے قبلے کا تعین کرنا مشکل ہو گیا۔ہم نے نمازپڑھ لی اور اپنے رخ کو نشان زد کر لیا۔بادل چھٹ کر سورج نکلا تو ہمیں معلو م ہواکہ ہمارا رخ قبلے کی طرف نہ تھا۔ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا تو اﷲ کا فرمان نازل ہوا: ’وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ‘ (ابن ماجہ، رقم ۱۰۲۰)۔ سنن ابن ماجہ کے محشّی محمود نصار نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
غزوۂ ذات سلاسل فتح مکہ سے پہلے ہوا۔۸ھ میں آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاص کی قیادت میں ایک فوج شام کی سرحد پر آباد قبیلے بنو بلی کی طرف بھیجی۔ دشمن کی تعداد زیادہ تھی، اس لیے حضرت عمرو نے کمک مانگی۔ آپ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی سربراہی میں ایک دستہ روانہ کیا، سیدنا ابوبکر و عمر بھی اس میں شامل تھے۔پانسو سپاہیوں پر مشتمل اس مشترکہ فوج نے حضرت عمرو بن عاص کی کمان میں پورے علاقے میں گشت کیا تو دشمن کی فوج بکھر گئی۔آخرکارسرحد کے قریب بنو بلی،بنوعذرہ اور بلقین (بنو قین)کی سپاہ سے ان کا سامنا ہوا۔ گھنٹا بھر کی جنگ میں خوب تیراندازی ہوئی،اس کے بعددشمن کو شکست ہوئی ۔ایک تیر جیش اسلامی میں شامل حضرت عامر بن ربیعہ کے بازو پر لگااو روہ زخمی ہو گئے۔
ایک دفعہ حضرت عامربن ربیعہ کا گزر دوسرے صحابی سہل بن حنیف پر ہوا۔انھیں نہاتا دیکھ کر حضرت عامر پکارے: میں نے کسی کنواری لڑکی کی بھی جلدایسی نہیں دیکھی جیسی آج تمھاری دیکھ لی ہے۔کچھ دیر گزری تھی کہ سہل کو دورہ پڑا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔انھیں فوراًنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا کہ سہل کو دیکھیں،وہ گرے پڑے ہیں۔کیا تم سہل کو نظر لگانے کا الزام کسی کو دیتے ہو؟ آپ نے دریافت فرمایا۔لوگوں نے حضرت عامر بن ربیعہ کا نام لیا۔ آپ نے(غصے سے) فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو نظر لگا کر کیوں مارتا ہے، اگر اس کی کوئی شے بھلی لگتی ہے تواس میں برکت کی دعا کرے۔پھر آپ نے پانی منگوا کر حضرت عامر کو اس سے وضو کرنے کو کہا۔ انھوں نے شرم گاہ دھوئی،منہ ،کلائیوں تک ہاتھ اور گھٹنوں تک پاؤں دھوئے۔ آپ نے بقیہ پانی سہل پر ڈالنے کا حکم دیا (ابن ماجہ، رقم ۳۵۰۹)۔ یہی واقعہ امام مالک نے اپنی موطا میں دو روایات میں بیان کیا ہے ۔روایت ۱۶۹۰ چند الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ سنن ابن ماجہ کی روایت سے ملتی جلتی ہے۔البتہ ’کتاب الجامع ‘(کتاب العین)میں درج یہ روایت مختلف متن رکھتی ہے۔سہل بن حنیف کے بیٹے ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد سہل مدینہ کے چشمہ خرارپر نہائے۔ انھوں نے اپنا جبہ اتارا ہی تھا کہ( وہاں پر موجود) حضرت عامر بن ربیعہ ان کے گورے چٹے خوب صورت جسم کو دیکھ کر بولے: میں نے آج جیسا منظر نہیں دیکھا۔کنواری دوشیزہ کی جلد بھی اتنی نازک نہ ہو گی۔سہل اسی وقت تکلیف(یا بخار) سے گرپڑے، ان کا الم (یا بخار)شدت پکڑ گیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایا گیا۔ آپ وہاں پہنچے تو سہل نے حضرت عامر کی کہی بات سنائی۔فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں ہلاک کرتا ہے؟اس کے لیے خیرو برکت کی دعا کیوں نہیں کرتا؟نظر لگنا حق ہے،سہل کے لیے وضو کرو۔عامر بن ربیعہ نے وضو کیا تو سہل بن حنیف بھلے چنگے ہو کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے گئے ، انھیں کوئی تکلیف نہ رہی تھی (موطا امام مالک، رقم ۱۶۸۹، احمد، رقم ۱۵۹۲۲)۔ مسند احمد کی روایت۱۵۶۴۰اس طرح ہے کہ حضرت عامر اور سہل دونوں نہانے کے لیے نکلے۔ حضرت عامر خود کہتے ہیں کہ میں نے سہل کو نظر لگا دی تو وہ دھڑام سے پانی میں گرے۔انھوں نے میری پکار کا کوئی جواب نہ دیاتو میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بلا لایا۔ آپ نے سہل کا سینہ ٹھونکا اور دعا فرمائی: اے اﷲ، سہل سے نظر کی گرمی،سردی اور بیماری دور کر دے۔
آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’نظر لگنا حق ہے‘‘ (بخاری، رقم ۵۷۴۰)۔ یعنی یہ ایک ثابت شدہ امر ہے۔ مسند احمد کی روایت میں تصریح ہے کہ شیطان نظر کے ذریعے آتا ہے اور اسی سے ابن آدم کاحسد ظاہر ہوتا ہے (احمد، رقم ۹۶۳۱)۔ صحیح مسلم کی روایت میں اضافہ ہے: ’’اگر کوئی شے تقدیر کو پیچھے چھوڑ نے والی ہوتی تو نظر ہوتی‘‘ (رقم ۵۷۵۳)۔ ام المومنین ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے گھر میں ایک باندی دیکھی جس کے منہ پر چھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے دم کراؤ ، اسے نظرلگ گئی ہے(بخاری، رقم ۵۷۳۹)۔ اس کے برعکس مضمون پر مشتمل صحیح بخاری ہی کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں ایک بڑا گروہ دیکھا جو افق پر چھا گیا ۔مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے ،ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ پھر وضاحت فرمائی: یہ وہ لوگ ہیں جو بری فال لیتے نہ دغواتے نہ منتر کراتے تھے۔یہ تو اپنے رب پر بھروسا کرتے تھے(رقم۵۷۵۲)۔ طبری کا کہنا ہے کہ ایسا توکل وہی کر سکتا ہے جس کا دل خوف سے خالی ہو اوروہ موذی درندوں اور جانی دشمنوں سے بھی نہ ڈرتا ہو۔ایک مومن کا یہی مقصود ہونا چاہیے، تاہم اسباب کا سہارا لیناضروری امراور سنت نبوی ہے(فتح الباری)۔
علما کی اکثریت نے نظر بد کا بیان کرنے والی روایتوں کو من و عن قبول کیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے موطا امام مالک پڑھاتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ نظر بد بھی اعمال سفلیہ کی طرح کی ایک چیز ہے۔اس میں اتنی ہی تاثیر ہوتی ہے جتنی سحر میں ہوتی ہے ۔ موطا امام مالک کی دونوں روایتوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ پہلی روایت کے راوی محمد بن ابی اسامہ، جبکہ دوسری محمد بن شہاب زہری سے مروی ہے۔پہلی روایت کے مطابق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن ربیعہ کو وضو کرنے اور سہل بن حنیف کے لیے برکت کی دعا کرنے کو کہاجس سے سہل اچھے ہو گئے۔یہ بات قرین قیاس اور شریعت کے مزاج کے مطابق ہے ۔دوسری روایت میں ابن شہاب نے اس کو ایک ٹوٹکا بنا کر پیش کیا ہے ۔ان کے کہنے کے مطابق جس آدمی سے نظر بد لگی ہو، اس کو نہلایا جائے۔تمام اعضا حتیٰ کہ زیرجامہ کے اعضا کو بھی دھو کر پانی ایک برتن میں جمع کیا جائے اور وہ تمام کا تمام مریض کے اوپر ڈالا جائے تو نظر بد کا اثر ختم ہو جائے گا اور مریض تندرست ہو جائے گا۔یہ سب اوہام ہیں،ان کو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔زہری کے مقاصد میں یہ بات بھی رہی ہے کہ یہود کے اعمال سفلیہ کو اسلام میں گھسایا جائے۔ ایمان بالجبت (اعمال سفلیہ پر ایمان)یہود کی خصوصیت رہی ہے ۔ٹونے ٹوٹکے وغیرہ سب جبت کے قبیل میں سے ہیں۔ روایت میں بیان کردہ غسل کے طریقہ کے لیے شاہ ولی اﷲ نے بھی لکھا ہے کہ یہ ابن شہاب کی اپنی گرہ ہے۔ (تدبر حدیث) صحیح مسلم کی مندرجہ بالا روایت: ۵۷۵۳ میں یہ بھی ہے کہ ( نظر اتارنے کے لیے )’’اگر تمھیں غسل کرنے کو کہا جائے تو غسل کرو۔‘‘گویا نظر بد کاسبب بننے والے کو اس حکم کو لازمی ماننا ہو گا۔ابن حجر کا خیال ہے کہ نظر بد دور کرنے کے لیے غسل کرنا عربوں کے ہاں پہلے سے مروج تھا۔ محمود نصار کہتے ہیں کہ ہم سنن ابن ماجہ کی حدیث میں بیان کیے گئے نظر بد کو دور کرنے کے طریقہ کی وضاحت نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ ان امور میں سے ہے جو عقل سے ما ورا ہیں۔
بری نظرکا تصور ہر معاشرے میں رہا ہے۔ایرانی اسے زخم چشم(یا چشم بد) کا نام دیتے ہیں،عرب ’العین الحسود‘ کہتے ہیں، انگریز evil eye اور اطالوی malocchio کے نام سے پکارتے ہیں۔ افلاطون کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے یونانی ادیب پلوٹارک (Plutarch)نے یہ نظریہ پیش کیا کہ حاسد کے اندرون سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جوزہرآلود برچھیوں کی طرح دوسرے پر اثر کرتی ہیں۔اسکندر نے اپنی مہم جوئی کے دوران میں یہ اعتقاد مشرقی دنیا میں پہنچایا اور یورپی استعماری اسے امریکا لے گئے۔ حیرت ہے کہ یہی بات ابن قیم نے فرّاء کے حوالے سے لکھی اور کہا کہ نظر کے یہ تیر صرف ان لوگوں پر اثر نہیں کرتے جو متنبہ ہوتے ہیں اور انھوں نے روک کا کوئی بند وبست کر رکھا ہوتا ہے ۔انھوں نے نظرکی تاثیر ثابت کرنے کے لیے پرزور دلائل دیے اور ان لوگوں پر خوب برسے جو اس تاثیر کو نہیں مانتے۔ ابن قیم کے دلائل یہ ہیں:
ارواح کی تاثیر اتصال جسمانی کے علاوہ محض آمنے سامنے ہونے سے ،نظر کے ذریعے،دعاؤں اور تعویذوں سے یا وہم و خیال سے ہو سکتی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جنوں اور نظر لگنے سے پناہ مانگا کرتے تھے، یہاں تک کہ معوّذتین نازل ہوئیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سورتوں کا ورد کرتے اور باقی اذکار کو ترک فرما دیا (ترمذی، رقم ۲۰۵۸)۔
جس طرح سانپ کی نظر سے انسان دہشت زدہ ہوجاتا ہے ،اسی طرح ایک انسان کی دوسرے انسان پر نظر بھی اثر رکھتی ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: (عام) سانپوں، دو دھاریاں رکھنے والے اور چھوٹی یا کٹی دم والے(خاص سانپوں) کو ماردو،کیونکہ یہ نگاہ زائل کردیتے ہیں اورحمل گرا دیتے ہیں(بخاری، رقم ۳۲۹۷)
’وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ‘، ’’اور یہ کافرجب قرآن کی یاد دہانیاں سنتے ہیں تو اس طرح آپ کو دیکھتے ہیں، گویا اپنی نگاہوں کے زور سے آپ کو ڈگمگا دیں گے‘‘ (القلم۶۸: ۵۱) (زاد المعاد)۔
دنیا بھر میں یہ نظریہ عام ہو گیاتو بری نظر سے محفوظ رہنے کے لیے تمام مذاہب کے حاملین نے طرح طرح کے تعویذ گنڈے اورنظر پٹو تخلیق کیے۔ طب کی تیس سالہ پریکٹس کے دوران میں ہم نے یہی تجربہ کیا کہ نظر بد انھی لوگوں پر اثر کرتی ہے جو نفسیاتی طور پر مغلوب ہوتے ہیں۔کچھ لوگ خود پر ،اپنے بچوں یا دھن دولت پر اتراتے ہیں۔ خود ستائی کے بعد وہ اس وسوسے میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کہیں یہ مال و اولاد ان سے چھن نہ جائے، پھر ہرآفت کو نظربد سے منسوب کر دیتے ہیں۔ گویا labile psyche (کمزور شخصیت) نظر لگنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جو لوگ عزم واعتماد اور مضبوط شخصیت رکھتے ہیں ،انھیں کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
۱۶ ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ طول کھینچ گیا تو شہر والے اس شرط پرہتھیا ر ڈالنے پر آمادہ ہوئے کہ خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر بذات خود شہر کی کنجیاں وصول کریں اور معاہدۂ صلح پر خود دستخط کریں۔ حضرت عمر فاروق نے اہل راے سے مشورہ کیا تو اکثریت نے ان کو خود جانے کا مشورہ دیا۔وہ مدینہ سے ایک لشکر لے کر روانہ ہوئے،مقدمۂ جیش پر حضرت عباس بن عبدالمطلب کو مامور کیا، حضرت عثمان بن عفان، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت طلحہ بن عبیداﷲ، حضرت اسید بن حضیر، حضرت علقمہ بن مجزر لشکر میں شامل تھے۔ حضرت عامر نے امیر المومنین کا پرچم اٹھا رکھا تھا۔ شام کے شہر حوران کے قصبہ جابیہ پہنچے توحضرت عمر نے اپنے کمانڈروں یزید بن ابوسفیان، خالد بن ولید اور ابوعبیدہ بن جراح سے صلاح مشورہ کیا ۔ جابیہ میں بیت المقدس کے لاٹ پادری صفرنیوس کے ایلچی ان سے معاہدۂ صلح کرنے آئے۔ جابیہ ہی میں حضرت عمر نے اپنا مشہور خطبہ دیاجس میں اسلام کی بنیادی تعلیمات بتانے کے ساتھ تقدیر پر بحث کرنے سے سختی سے منع کر دیا (ترمذی، رقم ۲۱۶۵ ،ابن ماجہ، رقم ۲۳۶۳، احمد، رقم ۱۱۴)۔
خلیفۂ سوم سیدنا عثمان حج پر روانہ ہوئے تو حضرت عامر بن ربیعہ کو مدینہ کا قائم مقام حاکم مقرر کیا۔عہد عثمانی کے اواخر میں فسادیوں نے حضرت عثمان پر طعن زنی شروع کی۔ حضرت عامر کے بیٹے عبداﷲ روایت کرتے ہیں کہ اسی زمانہ میں ایک رات حضرت عامر تہجد پڑھتے پڑھتے سو گئے۔خواب میں ایک شخص نے کہا کہ اٹھ کر اﷲ سے دعا مانگو کہ وہ تمھیں اس فتنہ میں پڑنے سے بچائے جس سے اس نے اپنے صالح بندوں کو محفوظ رکھا ہے۔بیدار ہوکر انھوں نے نوافل مکمل کیے،انھی الفاظ میں دعا مانگی اور بیمار پڑ کر گھر میں مقید ہو گئے ۔اسی بیماری میں انھوں نے وفات پائی اور ان کا جنازہ ہی گھر سے نکلا۔
۳۳ھ یا ۳۷ھ میں حضرت عامر بن ربیعہ کا انتقال ہوا۔۳۱ھ اور ۳۲ھ کا سن بھی بیان کیا گیا ہے۔واقدی کا کہنا ہے کہ وہ حضرت عثمان کی شہادت(۳۵ھ) کے کچھ دن بعد فوت ہوئے۔اس زمانہ میں وہ گھرسے باہر نہ نکلتے تھے۔ جنازہ اٹھایا گیا تو ہی لوگوں کوان کی بیماری کاعلم ہوا۔ابن حجر نے ۳۷ھ او ر ذہبی نے ۳۵ھ کو درست سن وفات سمجھا ہے۔
ابو نعیم اصفہانی نے ان الفاظ میں حضرت عامر بن ربیعہ کوخراج تحسین پیش کیا ہے کہ عامر عطیات میں کوئی رغبت نہ رکھتے تھے ،وہ زمین ا ور جائیداد سے بے نیاز تھے۔انھوں نے ذکر الٰہی سے مساجد اور تمام مقامات کو آباد رکھا۔ فتنوں میں مبتلا نہ ہوئے اور پاک دامنی کی زندگی بسر کی۔عامر کی بے نیازی اور ان کے غنا کی وضاحت کرنے کے لیے اصفہانی نے یہ روایات بیان کیں: ایک رئیس نے انھیں قطعۂ زمین دینا چاہا تو جواب دیا کہ مجھے تمھاری اراضی کی کوئی حاجت نہیں۔ آج ہی ایک سورت نازل ہوئی ہے جس نے ہمیں دنیا سے بے پروا کر دیا ہے۔ ’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ‘، ’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے اور وہ غفلت میں منہ موڑے جا رہے ہیں‘‘ (الانبیاء ۲۱:۱)۔ حضرت عامر کے بیٹے عبداﷲ نے حضرت عامر کی زبانی بتایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں کسی سریہ میں بھیجتے تو کھجوروں کے ایک تھیلے کے علاوہ کچھ نہ دیتے۔ امیر سریہ ہمیں ایک ایک مٹھی دے دیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کھجوروں کی تعداد کم ہوتی جاتی حتیٰ کہ ایک وقت میں ایک کھجور پر گزار ا کرنا پڑتا۔ عبداﷲنے پوچھا: ایک کھجور سے کیا بنتا ہے؟یہ کم نہیں ہوتی بچے، حضرت عامر نے جواب دیا: ایسا بھی ہوتا کہ ہمارے پاس یہ ایک کھجور بھی نہ ہوتی ،اس لیے ہم اسی پر قناعت کرنے لگے( احمد، رقم ۱۵۶۳۲)۔
حضرت عامر بن ربیعہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمرسے حدیث روایت کی ہے۔ان سے روایت کرنے والے ہیں، ان کے بیٹے حضرت عبداﷲ، حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت عبداﷲ بن زبیر اور حضرت ابو امامہ بن سہل۔ حضرت عامر بن ربیعہ کی بیان کردہ چند روایات: حضرت عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے سر کے اشارے سے نوافل پڑھ رہے تھے۔ جدھر کو سواری جاتی، آپ کا رخ ادھر ہی ہوتا۔ فرض نمازیں آپ اس طرح ادا نہ فرماتے تھے(بخاری، رقم ۱۰۹۷، احمد، رقم ۱۵۶۳۵)۔ دوسری روایت میں حضرت عامر کہتے ہیں کہ اونٹنی کایہ سفر جس میں آپ نے کجاوے پر بیٹھ کر نوافل اد اکیے ، رات کے وقت ہوا (بخاری، رقم ۱۱۰۴، مسلم، رقم ۱۵۶۵)۔ حضرت عامر نے یہ فرمان نبوی بھی روایت کیا ہے: ’’تم میں سے کوئی جنازہ جاتا دیکھے اور اس کے ساتھ چل نہ سکتا ہو تو اپنی جگہ پر کھڑا ہو جائے اور اس وقت تک کھڑا رہے جب تک جنازہ آگے نہ گزر جائے‘‘ (بخاری، رقم ۱۳۰۸، مسلم، رقم ۲۱۷۶)۔ فرمان نبوی کا باقی حصہ حضرت عامر ہی کی روایت کردہ اگلی روایت میں مذکور ہے: ’’جو جنازے کے ساتھ جائے،اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا جائے۔‘‘ (بخاری، رقم ۱۳۱۰)۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، الجامع المسند الصحیح(بخاری،شرکۃ دارالارقم)، حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء(ابونُعیم اصفہانی)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، زاد المعاد(ابن قیم)،کتاب العبرو دیوان المبتداء والخبر(ابن خلدون)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،حیاۃ الصحابۃ(محمد یوسف کاندھلوی)، تدبر حدیث، موطا امام مالک(امین احسن اصلاحی)، Evil eye(Wikipedia)۔
____________