HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

قوّامیت کے وجوہ

نکاح اصل میں خاندان کاادارہ وجودمیں لانے کااعلان ہے اور اس ادارے کا ایک ’قوام‘ ،یعنی سربراہ ہونا بھی بے حدضروری ہے اورقرآن کے مطابق وہ مردہی ہے، ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ کے دوفقروں میں اب یہ بتایاگیاہے کہ وہ مرد ہی کیوں ہے۔یہ فقرے مردکی قوامیت کے وجوہ بیان کرنے کے لیے آئے ہیں،اس بات کی دلیل ان دونوں کے شروع میں حرف ’ب‘ کا آنا ہے۔ یہ اصطلاح میں سبب کی ’ب‘ کہلاتی اورکسی بات کی وجہ بیان کرنے کے لیے آیاکرتی ہے۔یعنی آیت کے اس حصے کامطلب یہ ہوگاکہ مردمیں قوامیت کی استعداددوسرے فریق سے زیادہ پائی جاتی ہے اورمالی ذمہ داریوں کابوجھ بھی چونکہ اسی کے اوپر لادا گیا ہے۔ چنانچہ ان دووجوہات کی بناپراسے قوام بنایاگیاہے۔ان دونوں وجوہات کوہم ذیل میں ذراتفصیل سے بیان کرتے ہیں:

وجۂ اول

زیربحث آیت کایہ فقرہ——اس لیے کہ اللہ نے ایک کودوسرے پرفضیلت بخشی ہے——مرد کو قوام بنائے جانے کی پہلی وجہ کوبیان کرتاہے۔قرآن کے اسالیبِ برہان سے واقف ہرشخص اس کو پڑھتے ہی یہ جان لیتاہے کہ اس میں مردیاعورت کی کلی فضیلت کانہیں،بلکہ جزئی فضیلت کابیان ہواہے، اس لیے کہ اس میں یہ نہیں کہاگیاکہ ہم نے مردیاعورت کوفضیلت دی ہے، بلکہ ’بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ کے الفاظ میں ان دونوں کی ایک دوسرے پرفضیلت کاذکرکیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ اس فقرے کی بنیادپرکسی کویہ حق نہیں کہ وہ فریقین میں سے کسی ایک کو،بالخصوص مردکو، مطلق طور پر برتراورفائق تصورکرے اورپھراسی بنیادپرعورتوں کااستحصال بھی کیاکرے۔

کچھ لوگوں کی طرف سے یہاں ایک سوال اٹھایا گیا ہے، وہ یہ کہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ میں کلی کے بجاے جزئی فضیلت ہی سہی،مگراس بات کی کیادلیل ہے کہ اس میں صرف اورصرف مردکی فضیلت کابیان ہوا ہے؟ اس لیے کہ یہ ایک عمومی اسلوب ہے اوراس میں بظاہر ایساکوئی لفظ بھی موجود نہیں جومردوزن میں سے کسی ایک پر صریح طورپر دلالت کرتا ہو۔

اس سوال کے جواب میں پہلی بات تویہ سامنے رہے کہ یہ فقرہ ،جیساکہ ہم نے اوپر لکھا ہے، مردکی قوامیت کی دلیل میں آیاہے، اس لیے اس عمومی اوربظاہرمبہم فقرے کایہ سیاق ہی اس کے عموم میں تخصیص اور اس کے اِبہام میں وضوح پیداکردیتاہے۔دوسری یہ کہ اس پر ’بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ کا ایک اورفقرہ عطف ہواہے جواپنے معنی اور اپنے ضمائرکی وجہ سے بالکل واضح ہے کہ اس میں مردوں ہی کے انفاق کابیان ہے۔سواُس سیاق کے ساتھ ساتھ یہ سباق بھی اس بات کی دلیل ہوجاتاہے کہ معطوف علیہ فقرے میں بھی صرف مردوں ہی کی فضیلت کابیان ہواہے۔

تاہم یہاں ایک اور سوال پیداکیاجاسکتاہے، وہ یہ کہ مردکی قوامیت کی دلیل میں سیدھی طرح یہ کہہ دینے کے بجاے کہ مردکواللہ نے عورت پرفضیلت دی ہے ، عموم کا اسلوب اور ابہام کا یہ انداز آخرکیو ں اختیارکیاگیاہے؟اس سوال کاجواب یوں ہے کہ اس مقام پرفضیلت کے بیان کی تین ممکنہ صورتیں ہوسکتی تھیں:

ا۔ مردعورتوں کے سربراہ ہیں،اس لیے کہ اللہ نے عورت کو مردپرفضیلت دی ہے۔

ب۔ مرد عورتوں کے سربراہ ہیں ، اس لیے کہ اللہ نے مردکوعورت پرفضیلت دی ہے ۔

ج۔ مرد عورتوں کے سربراہ ہیں،اس لیے کہ اللہ نے دونوں کوایک دوسر ے پرفضیلت دی ہے ۔

ظاہرہے ،ان میں سے پہلی صورت کااستعمال کیاجاناتوکسی طرح بھی روانہیں ہے، اس لیے کہ جب مردکوسربراہ کہہ دیاگیاتواس کی دلیل میں عورت کی برتری کوبیان کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔رہی دوسری صورت،تووہ قیاس اور عقل کے عین مطابق ہے،اس لیے کہ جب مردکی سربراہی کا اعلان ہو تواس کی دلیل میں مردہی کی فضیلت کوبیان کرنا،انتہائی معقول اور قابل فہم نظرآتا ہے۔ سوقرآن میں پائی جانے والی حکمت بھی اگرآسمان پربننے کے بجاے زمین پر اور پھر منطق کے اصولوں پربنی ہوتی، تواس میں بھی ضروراِسی دوسری صورت کو اختیارکیاجاتا، لیکن اس نے قیاس پر مبنی اورمنطق بھرے اس اسلوب کو بھی چھوڑا اور ’بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ کی تیسری صورت کو اختیار کیا۔اِس نے اُسے کیوں چھوڑااوراِسے کیوں اختیارکیا؟ ہمارے نزدیک اس احتراز و انتخاب کی وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ ’قوّام علی‘ کامطلب چونکہ منتظم اورسربراہ ہوجاناہے ، اس لیے ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کاجملہ شوہرکوحاصل ایک طرح کی بالادستی کا اظہار ہے۔ اس سے کسی کااس گمان میں مبتلاہوجاناعین ممکن تھاکہ شوہر کی یہ قوامیت ،اصل میں اس کی مطلق برتری کی دلیل ہے۔اس کے بعد اگریہ بھی کہہ دیاجاتاکہ ہم نے اس کوعورت پر فضیلت دے رکھی ہے تو یہ جملہ اس مزعومہ برتری پر مہر تصدیق ثبت کردیتا،حالاں کہ اس طرح کی کوئی برتری مردکوبالکل بھی حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں کوئی ایسا فقرہ لاناہی موزوں ہوسکتا تھا جواس غلط فہمی کاازالہ کرتا ۱؂ اوراس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بتادیتا کہ خاندان کے مخصوص دائرے میں مردکوعورت پرجو بالادستی دی گئی ہے، اس کا جوازاسی لیے تو ہے کہ یہ دونوں اصول میں بہرحال ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اب ظاہرہے کہ یہ ساری بات ’بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ کے عمومی اسلوب کوچھوڑ کرکسی اورطرح سے کہہ دینا، ممکن ہی نہیں ہے۔

یہ واضح ہوجانے کے بعد کہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ کا جملہ کلی نہیں ،بلکہ جزئی فضیلت کابیان ہے۔ نیز مرد اور عورت دونوں کی نہیں،بلکہ صرف اورصرف مردکی فضیلت کابیان ہے۔ اب سوال پیداہوتاہے کہ مرد کو قوام بنادینے والی اس فضیلت کی نوعیت کیاہے؟اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے دوباتوں کی طرف توجہ رہنی چاہیے:ایک یہ کہ اس فقرے میں فعل کی نسبت اللہ کی طرف ہے جوہمیں بتاتی ہے کہ یہ ایسی فضیلت ہے جوخالص وہبی ہے اورمردکومردہونے کی بنیاد پرہی دی گئی ہے۔۲؂ دوسرے یہ کہ یہاں اسی فضیلت کی بنیادپرگھر کی سربراہی دی گئی ہے ، اس لیے لازم ہے کہ یہ ایسی صلاحیت ہوجوایک خاندان کوچلانے کے لیے بنیادی اہلیت کی حیثیت رکھتی ہو۔۳؂ یہ دونوں باتیں ملحوظ رہیں تواب آسانی سے متعین ہوجاتاہے کہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ میں دراصل، اس فضیلت کا بیان ہواہے جسے پروردگارعالم نے پیدایشی طور پرمردوں کوودیعت کیاہے اورظاہرہے ،وہ وہی ہے جسے ہم مدافعت اورکسب معاش کی صلاحیت کا نام دیتے ہیں۔

اس مقام پردومخالف نکتہ ہاے نظرکے ہاں دومتضادقسم کے سوال پیداہوتے ہیں:ایک یہ کہ اس فضیلت کو مدافعت اور کسب معاش کی صلاحیت ہی میں محدودکیوں کردیاجائے ،یہ ذہنی ونفسیاتی صلاحیت کوبھی محیط کیوں نہیں ہے؟ دوسرا یہ کہ یہ دونوں صلاحیتیں اگرمردمیں پائی جاتی ہیں توعورت بھی ان سے محروم نہیں ،وہ بھی محافظت اور معاشی سرگرمیاں انجام دے لینے پرقادرہے۔ چنانچہ ان اوصاف کی بنیادپرجودونوں میں مشترک ہیں ،صرف مردہی کو قوام کیوں بنایا جائے؟

پہلی بات کے جواب میں یادرہے کہ یہاں بحث یہ نہیں ہورہی کہ مردوزن میں کیاکیا صلاحیتیں پائی جاتی ہیں یا کن کن باتوں میں یہ ایک دوسرے پرترجیح رکھتے ہیں ،بلکہ بحث اس میں ہے کہ وہ کون سی صلاحیت ہے جوخاندان کے سربراہ کے اندر ہونی چاہیے۔لہٰذا،عقلی اورمزاجی یا پھر نفسیاتی خصائل کاذکرچھیڑدینے کایہاں کوئی محل نہیں ہے۔ یہاں توانھی اوصاف کاذکرہوگا جو روزِ اول سے آج تک گھربارکوچلانے کے لیے ضروری رہے ہیں۔اوراس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ صرف دو ہی ہیں:ایک مدافعت کی قوت اوردوسری کسب معاش کی استعداد۔

جہاں تک دوسری بات ہے کہ مردوزن ان صلاحیتوں میں برابر ہیں تو یہ ایک بہت بڑا فکری مغالطہ ہے۔یہ صلاحیتیں اصل میں مردہی کاخاصہ ہیں اورعورت کاان میں سے اگرکچھ حصہ ہے بھی تووہ اس کے مقابلے میں کم تر اور انتہائی ناقص ہے۔یہ صلاحیتیں اُس وقت بھی اصلاًمرد ہی میں پائی جاتی تھیں، جب عورت گھربار کودیکھاکرتی اور یہ روزی روٹی کے لیے جنگلوں کی خاک چھانتا پھرتا تھا یاکسی موذی جانور کے خوف سے جب یہ اس کی اوٹ میں چھپ جاتی تووہ اس خطرے سے اس کی حفاظت کیا کرتا تھا۔۴؂ آج بھی جبکہ ویرانے رہے نہ اس سے متعلق خطرات، معاش کی کم یابی اور اس کی سختیاں بھی نہ رہیں ،یہ دونوں صلاحیتیں اپنی کامل صورت میں اسی میں پائی جاتی ہیں۔اس کے برعکس،عورت کی حیثیت جس طرح معاشی سرگرمیوں میں ایک مستقل عامل کی نہیں،بلکہ مردکے ایک معاون ہی کی رہی ہے،اسی طرح مدافعت کی استعدادبھی اس میں بس اسی حدتک ہے کہ اپنی حفاظت کاکچھ نہ کچھ انتظام کر لے، وگرنہ جہاں تک کسی مرد یا پھر پورے خاندان کوتحفظ دینے کی بات ہے تواس سے یہ بالکل ہی قاصر ہے۔ رہی جدید دنیا کہ جس میں اپنی حفاظت کے لیے اب یہ کسی کی محتاج نہیں رہی اورمعاش کاساراانتظام خودسے کرسکنے پرقادرہوگئی ہے تواس کی وجہ بھی اس کے ذاتی خصائل نہیں ،بلکہ مردکے بجاے ریاست کی فراہم کردہ حفاظت اوراسی کے پیداکردہ معاشی مواقع ہیں۔۵؂ غرض یہ کہ مذکورہ صلاحیتوں میں عورت مردکے برابر ہرگزنہیں ہے کہ اس برابری کی بنیادپر اس کی قوامیت کابھی کسی حدتک امکان پیدا کیا جاسکے۔

اس بحث کے آخرمیں ہم یہ بھی عرض کریں کہ مردکی ان صلاحیتوں پرکوئی چیں بجبیں ہویا اس بنیادپروہ خدا پرظلم اورعدم مساوات کاالزام دھرے ، جذباتی ماحول میں اس سے کچھ فائدہ ہو تو ہو،علمی دنیامیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہے۔علم کی دنیاکوجذبات سے کام نہیں ،اس کو توحقائق سے واسطہ ہے۔اوریہاں بھی چندحقائق ہی ہیں جوان معترضین کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں:

پہلا یہ کہ خدانے اگرمردکوکچھ صلاحیتیں دی ہیں تواس کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ اس نے عورت کو یک سر محروم رکھاہے،بلکہ کسی وصف میں اس نے مردکو فضیلت دی ہے تو کئی اوصاف ایسے بھی ہیں جن میں عورت کوواضح طور پر برتری کی جگہ دی ہے۔مثال کے طورپر،مرد کو اگرزورِ بازو دیا، محافظت کی صلاحیت اورکسب کی طاقت دی ہے تو عورت کو مودّت دی ،پیاراور محبت دی،ممتااور شفقت دی ،انسان کو وجودمیں لانے اورپھراس کوواقعی انسان بنادینے تک کا حوصلہ اور طاقت دی ہے۔اول الذکر صلاحیتیں ،اگرمردکوملتی اوراسے قوّام بنادیتی ہیں توثانی الذکر جب عورت کو مل جاتی تواسے ماں بنادیتی اوراس طرح مرد پر اسے حاکم ،حتیٰ کہ اس کی جنت کا سامان بنادیتی ہیں۔ سواس حقیقت پرہماری نگاہ رہے کہ پروردگارعالم کسی ایک کا نہیں ،عورت ومرد دونوں کا خالق ہے، اس لیے کسی پر اس نے زیادتی کی نہ کوئی ظلم کیا،بلکہ ہرایک کواپنی جناب سے دیااور بے حد وحساب دیاہے۔

دوسرے یہ کہ مردوزن میں سے کس کوکیادیاہے،یہ کوئی الل ٹپ فیصلہ نہیں ہوا۔اس تقسیم کی بنیاداصل میں ان دونوں میں پائی جانے والی حیاتیاتی تفریق ہوئی۔۶؂ یہ دونوں اپنی جنس میں انسان ہیں ،مگراپنی نوع میں بہرحال مختلف ہیں۔اب مختلف انواع کوایک جیسی صلاحیتیں دے دینا ،اس کائنات کے مزاج کے لحاظ سے ایک کارِبے حکمت ہوتا، چنانچہ خداے حکیم نے ان دونوں کو باہم ممتازخصائل عطاکیے۔ مردکوفاعلی قوتیں دیں توعورت کوانفعالی قوتوں سے نوازا کہ ان دونوں کے امتزاج ہی سے وہ حسن اور اعتدال پیداہوتاہے جواس کائنات کے ذرے ذرے سے نمایاں ہے اوراس کی مقصدیت کے پہلوسے حددرجہ مطلوب بھی ہے۔حاصل یہ ہے کہ ہماری کوششیں مرد وزن کے امتیازی خصائل اوران کی حکمتوں کوسمجھنے کے لیے ہونی چاہییں نہ کہ ان سے بے پروا ہو جانے ، بلکہ ان پر معترض ہوجانے کے لیے۔

تیسرے یہ کہ خداکی طرف سے دی گئی ہرفضیلت ،دراصل ہماری آزمایش کے لیے ہے۔ مان بھی لیں کہ مردکوکچھ زیادہ ملاہے اور عورت کواس کی نسبت سے کچھ کم،مگرحقیقت یہی ہے کہ اسی میں دونوں کاامتحان ہے۔خدا چاہتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی فطری خصوصیات کی آرزو کریں اور نہ انھیں ہدف بناکرآپس میں کوئی محاذآرائی کریں، بلکہ مرد کو جو کچھ ملا، وہ اس کے مطابق اور عورت کوجوکچھ ملا، وہ اس کے مطابق،اپنامیدان عمل بنائیں اوراسی میں اپنے سب جوہر دکھائیں اور اس طرح اپنے امتحان میں کامیابی کے مواقع پیداکریں۔اس معتدل رویے کو اپنانے میں شایدکبھی غلطی نہ ہوتی اگر زیربحث آیت سے پہلے اس کی تمہیدی آیت کوبھی ٹھیک طرح سے دیکھ لیا جاتا۔ اس میں واضح طور پر ارشاد ہوا ہے: ’’اورجوکچھ اللہ نے تم میں سے ایک کودوسرے پر ترجیح دی ہے،اس کی تمنانہ کرو،(اس لیے کہ)مردوں نے جوکچھ کمایاہے ،اس کاحصہ انھیں مل جائے گا اور عورتوں نے جوکچھ کمایاہے،اس کا حصہ انھیں بھی لازماًمل جائے گا۔(ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تمناہوتواس میدان میں آگے بڑھو)اور(اس کے لیے)اللہ سے اس کے فضل کاحصہ مانگو۔یقینااللہ ہرچیزکاعلم رکھتاہے۔‘‘ ۷؂

وجۂ دوم

زیربحث آیت کایہ فقرہ——’وَبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ (اور اس لیے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں)——مرد کی قوامیت کی دوسری وجہ کوبیان کرتاہے۔اس میں انفاق سے مرادکسی اور پر نہیں ، بلکہ مردوں کااپنی بیویوں پر خرچ کرناہے ،اس لیے کہ مردوں کی انھی پرقوامیت کی دلیل میں اس کا ذکرآیاہے۔مزیدیہ کہ اس خرچ سے مرادایک آدھ مرتبہ خرچ کرنابھی نہیں،اس لیے کہ ’اَنْفَقُوْا‘ کا جو فعل ماضی ہے، و ہ یہاں بیان واقعہ کے بجاے بیان عادت کے لیے آیاہے۔مدعایہ ہے کہ شوہروں کو بیویوں پر قوام بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مستقل طورپران پرخرچ کرتے ، یعنی ان کے مالی کفیل ہوتے ہیں۔

بعض حضرات نے قوامیت کی بحث کی طرح یہاں بھی یہ نکتہ پیداکیاہے کہ اس آیت میں عرب معاشرے اوراس کے رواج کی رعایت ہے۔وہاں چونکہ مردہی کماتے اور وہی خرچ کرتے تھے ، اس لیے انھی کے انفاق کا ذکر ہوا اور اس پرمبنی انھی کی قوامیت کاحکم قرآن نے دیا۔لیکن آج کے زمانے میں جبکہ عورت بھی مردہی کی طرح کماتی اور اپنے گھر میں خرچ کرتی ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ پھربھی مردہی کواس پرقوام بنایاجائے؟بلکہ اگرکہیں صرف عورت ہی کماتی ہو تو پھر آگے بڑھ کر اسے ہی قوام کیوں نہ بنادیاجائے؟اس نکتہ آفرینی اوراس پرمبنی ان سوالات کے جواب میں اگرچہ وہی دلائل کافی ہیں جوقوامیت کی بحث کے ذیل میں گزرے،تاہم چندباتیں مزیدبھی اس ضمن میں کہی جا سکتی ہیں:

پہلی یہ کہ اگریہی بات کہناقرآن مجیدکے پیش نظرہوتاتواس کے لیے زیادہ موزوں الفاظ ’وبما ینفقون من اموالھم‘ کے ہوتے۔یعنی مضارع کا فعل لایا جاتاجوحال کاواضح طورپرفائدہ دیتا اورہمیں بتاتاکہ اس وقت مردوں کوعورتوں پر قوام اس لیے بنادیا گیا ہے کہ وہ ان پراپنے مال خرچ کررہے ہیں۔لیکن یہاں مضارع کے بجاے ’اَنْفَقُوْا‘ کا فعلِ ماضی استعمال ہوا۔یہ فعل جس طرح ان حضرات کے استدلال کو احتمال کے درجے میں لے گیا،اسی طرح ایک دوسری بات کا احتمال بھی اس نے پیدا کردیاکہ مردوں کایہ انفاق نہ عارضی ہے نہ عرب معاشرے کے ساتھ خاص کسی قسم کی روایت ہے ،بلکہ ایک دائمی اورابدی نوعیت کارواج ہے۔ اوریہ احتمال اُس وقت محض احتمال نہیں، ایک متعین اور حتمی بات ہو گیا جب ’وَبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ کا یہ فقرہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ پر عطف ہوا۔ اس عطف نے واضح کردیاکہ جس طرح مردوں کومخصوص دائرے میں ایک فطری اورمستقل نوعیت کی فضیلت حاصل ہے،اسی طرح ان کا عورتوں پر خرچ کرنا بھی انسانی تاریخ کاایک مستقل اورمسلسل عمل ہے،اس لیے کہ یہ انفاق ،دراصل ان کی اسی صلاحیت کا ظہورہے جس میں انھیں دوسروں پرفضیلت حاصل ہے۔غرض یہ کہ فعل ماضی کا استعمال اور ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ پر اس کاعطف ، یہ دونوں چیزیں آخری درجے میں واضح کر دیتی ہیں کہ ’وَبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ کے الفاظ میں کسی وقتی عمل یاکسی علاقائی رواج کی نہیں، بلکہ مردوں کے ایک مستقل وصف اوران کی مسلسل تاریخ کی خبردی گئی ہے۔دوسرے لفظوں میں پوری بات یوں ہے کہ مردوں کوقوام اس لیے بنایاگیاہے کہ وہ بیویوں کے مالی کفیل ہیں ، اوریہ ذمہ داری ہمیشہ سے مردوں ہی نے اٹھائی ہے کہ اس کواٹھانے کی فطری صلاحیت دراصل موجود بھی انھی میں ہے۔۸؂

عورت اگرآج کماتی اورگھرمیں خرچ کرتی ہے تووہ یہ سب کچھ کس حیثیت سے کرتی ہے ،یہ وہ دوسری بات ہے جواس ضمن میں واضح رہنی چاہیے۔کیایہ نکاح کے بعداس پرعائد ہونے والی ایک ذمہ داری ہے کہ جسے ہرحال میں نبھانااس پرلازم ہے، حتیٰ کہ اس کے شوہراورخاندان کا حق ہے کہ وہ اس بنیادپرعدالت تک میں جا سکیں یا پھر یہ محض تعاون کی ایک صورت ہے جو ایک فرد خاندان کے دوسرے فردکے ساتھ رضاکارانہ کیاکرتاہے؟ظاہرہے،یہ تعاون ہی ہے اوراسی طرح کاتعاون ہے جوکوئی بھی شہری اپنے حکمران سے اورکوئی بھی ملازم اپنے کاروباری سربراہ سے بھی کرسکتاہے اورجس کی وجہ سے حکمران کاحق حکومت ختم ہوجاتاہے اورنہ سربراہ کاحق سربراہی چھین لیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا بیوی کے مالی تعاون کواس بات کی دلیل سمجھ لیناکہ شوہراب اس کاقوام نہیں رہا،یہ کسی بھی صورت میں صحیح طرز نہیں ہے۔

تیسری بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ اگرشوہرکسی بھی وجہ سے نان ونفقہ نہیں دے پاتااوراس کی جگہ عورت اس ذمہ داری کو ادا کرتی ہے تواس کامطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ اب عورت مردپرقوام ہوجائے گی۔جس طرح، مثال کے طور پر، اگر حکمران روٹی کپڑااورمکان جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے سے قاصررہ جائیں اورہم خودان کابندوبست کریں تویہ بات ان حاکموں کے نااہل ہونے کی توواضح دلیل ہوگی، مگران کی حکومت کے خاتمے اوراس کے مقابل میں دوسری حکومت کو کھڑا کردینے کاجواز ہرگزنہ ہوگی،بلکہ اس وقت دوہی راستے شہریوں کے پاس ہوں گے:وہ اس صورت حال کوجوں کاتوں قبول کیے رکھیں یا پھراس حکومت کوتبدیل کرنے اور اس کی جگہ دوسری حکومت کے قیام کا جو آئینی راستہ ہو،اسے اختیارکرلیں۔بالکل اسی طرح،اگر مرد اپنی قوامیت کی دونوں بنیادیں کھو بیٹھتا ہے، یعنی اس میں مدافعت اورکسب کی طاقت رہ جاتی ہے اورنہ وہ عملی طور پربیوی کونان ونفقہ ہی دیتاہے توایسی صورت حال میں بیوی کے پاس بھی دوہی راستے رہ جائیں گے: وہ اپنے شوہرکی محبت میں، اوراگریہ نہ ہوتواپنی اولادہی کی محبت میں، اس معاملے کواسی طرح چلنے دے۔یاپھرشوہرکی قوامیت سے نکل جانے اورکسی دوسرے کی قوامیت میں آجانے کاوہ راستہ اختیارکرے جواسلامی قانون نے اس کے لیے وضع کررکھاہے،یعنی وہ شوہر سے طلاق کا تقاضا کرے،اگروہ طلاق نہ دے توعدالت کے ذریعے سے خلع لے کرکسی اورسے شادی کر لے۔مگر اس کے پاس یہ تیسراراستہ ہرگزنہیں ہے کہ وہ اپنے اس انفاق کی بناپراپنی قوامیت کا ڈھنڈورا بھی ضرور پیٹ ہی ڈالے۔

یہاں ایک سوال پیداہوسکتاہے، وہ یہ کہ جس طرح کسی بھی شہری کایہ حق ہے کہ وہ حکومت سے اختلاف کے بعدخوداپنی حکومت سازی کے لیے کوشش کرسکتااوراسے حاصل بھی کرسکتاہے ، اسی طرح عورت کایہ حق کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنی قوامیت کے لیے کوئی کوشش کرے اورپھراسے حاصل بھی کرسکے؟اس کے جواب میں یادرہے کہ حکومت کرنے کاحق اوراس کی اہلیت ہم اصول میں ہر شہری کے لیے برابرتسلیم کرتے ہیں،مگرجہاں تک خاندان کی قوامیت کامعاملہ ہے تواس میں میاں اور بیوی ہرگز برابرنہیں ہیں۔وہ اس لیے کہ مردکوقوّام صرف اس کے انفاق کی بناپر نہیں بنایا گیاکہ جوکوئی خرچ کرے، وہ خودقوام ہوجائے، بلکہ اس کی پہلی وجہ تومرد کی وہ اہلیت ہے جس کا ذکر ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ میں ہوا اور جوعورت کے بجاے صرف اسی میں پائی جاتی ہے۔مزیدیہ کہ وہ کسبی بھی نہیں کہ عورت محنت کرے اوراسے حاصل کرلے۔چنانچہ عورت اس معاملے میں مردکے برابرکسی طرح بھی نہیں ہے کہ اس بنیادپر اس کی قوامیت کااِمکان کسی بھی درجے میں مان لیاجا سکے۔۹؂

_______

۱؂ ممکنہ غلط فہمیوں کورفع کرنے کایہ انداز، قرآن مجیدکاعام طریقہ ہے۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۸ میں ہے: ’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ‘ کہ مردوں کے لیے عورتوں پرایک درجہ ترجیح کاہے۔ یہ ترجمہ ’دَرَجَۃٌ‘ کی تنوین کو تنکیرکی تنوین سمجھ کر کیا گیا ہے۔ ہوسکتا تھا کوئی دوسرااِسی کو تفخیم کی تنوین مان کر اس کا ترجمہ ’بہت بڑا درجہ‘ کرتا اور اس طرح مردصاحب کوجاعرش پر بٹھاتا۔ لیکن قرآن نے اس متوقع احتمال کو ’وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ‘ کہہ کریک سر مستردکردیاہے ۔اس لحاظ سے اس آیت اور زیربحث آیت میں صرف ایک فرق ہے،یعنی سورۂ بقرہ میں ممکنہ شبہے کا رد پہلے اور سورۂ نساء میں یہی عمل بعدمیں کیا گیا ہے۔

۲؂ چنانچہ یہاں اس نکتہ آفرینی کاکوئی جوازنہیں رہ جاتاجس کے مطابق عورت اگر کسی معاشرے میں اتنی فعال ہوجائے کہ مردوں کے سے اوصاف اپنے اندرپیداکرلے تووہاں مرد کے بجاے اسے ہی قوام ہونا چاہیے ۔

۳؂ بالکل اسی طرح، جیسے ریاست کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاستی امورانجام دینے کی بنیادی صلاحیت رکھتا ہو۔

۴؂ مشہورعرب شاعر، عمرو بن کلثوم کے زمانے میں بھی یہ حقیقت اسی طرح موجود تھی۔اس کے ایک شعرمیں عورتیں اپنے مردوں کویہ کہہ کرجنگ پر ابھارتی ہیں: ’ویقلن لستم بعولتنا ان لم تمنعونا‘ ’’جو حفاظت ہماری نہ کرسکوتم ،شوہر ہمارے پھرنہیں ہوتم۔ ‘‘

۵؂ ریاست اور بالخصوص فلاحی ریاست ،یہ جس طرح ماضی میں ہرجگہ موجودنہیں رہی ،اسی طرح حال میں بھی بہت سی جگہوں پر اس کاوجودناپیدہے۔لہٰذا اس پرخاندان کے اُس ادارے کی حفاظت اور کفالت کس طرح چھوڑی جاسکتی ہے جوانسانی فطرت کا ازلی وابدی تقاضاہے اورجسے ہرحال میں اورہر مقام پرقائم ہوکر رہناہے۔سوضروری ہے کہ خاندان کی ان ناگزیر ضرورتوں کا مستقل انتظام ہو اوراس کا مسؤل اس شخص کوبنایاجائے جواس کی فطری صلاحیت رکھتاہواور زمان ومکان اور حالات و احوال سے وہ قطعی طورپربے نیاز بھی ہو۔

۶؂ یہاں ضمناًیہ بات بھی سامنے رہے کہ حیاتیاتی تفریق پرمبنی خصائل جس طرح مستقل نوعیت رکھتے ہیں،اسی طرح ان پرمبنی کرداربھی کبھی نہیں بدلتے۔چنانچہ مردکواگرانھی کی بنیادپرقوام بنایاگیاہے تو اسے قوام ہی رہناہے ،قطع نظراس سے کہ زمانہ کتنے اوراق الٹ چکااورحالات کتنی ہی کروٹیں لے چکے۔

۷؂ النساء ۴:۳۲۔

۸؂ لہٰذا،مدین کے کنویں پربھیڑبکریوں کولے جانے کی مثال سے یہ بات قطعاًثابت نہیں ہوتی کہ میاں بیوی کی ذمہ داریاں ان کاماحول اورمعاشرہ متعین کرتا ہے ۔اول تویہ مثال میاں اوربیوی کی نہیں ، عورت اورمردکی ہے۔ دوم، ’وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ‘ کے الفاظ میں اُس ضرورت کا بیان ہوگیاہے جس کی بنا پر ایساکرلیناکسی کے نزدیک بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔

۹؂ البتہ،یہ عین ممکن ہے کہ کوئی مرد اپنی فطری اہلیت سے بالکل محروم رہ جائے اوراس کی عورت میںیہ سب کچھ بدرجۂ اَتم پایا جاتا ہو۔لیکن اول تویہ صورت محض استثنائی ہوگی اورقانون ہمیشہ عموم پربنا کرتے ہیں۔دوم اس صورت میں بھی قوامیت عملاًچاہے عورت کے ہاتھ میںآجائے،مگرقانونی طورپریہ مردہی کے پاس رہے گی۔

____________

B