قریش کو انذار
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو غلبۂ حق کی بشارت
اور اُن کا تزکیہ و تطہیر
ـــــــــــــــــــــــــ
یہ قرآن مجید کا تیسرا باب ہے۔ اِس میں ’یونس ‘ (۱۰)سے ’النور‘ (۲۴)تک پندرہ سورتیں ہیں ۔ اِن سورتوں کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن میں سے پہلی چودہ سورتیں ام القریٰ مکہ میں اور آخری سورہ ’النور‘ ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔
قرآن مجید کے دوسرے ابواب کی طرح یہ چیز اِس باب میں بھی ملحوظ ہے کہ یہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا اور ایک مدنی سورہ پر ختم ہو جاتا ہے۔
اِس کے مخاطب اصلاًقریش مکہ ہیں۔ اہل کتاب کو اُنھی کے ضمن میں بعض موقعوں پر تنبیہ کی گئی ہے، اِس لیے کہ اِن سورتوں کے زمانۂ نزول میں وہ بھی قریش کی حمایت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے لیے میدان میں آچکے تھے۔ تزکیہ و بشارت کے مضامین میں ،البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والے بھی جگہ جگہ مخاطب ہوئے ہیں، بلکہ سورئہ طہٰ میں تمام تر خطاب آپ ہی سے کیا گیا ہے۔
اِس کا موضوع قریش کو انذار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت اور اُن کا تزکیہ و تطہیر ہے، جس میں غلبۂ حق کی بشارت کا پہلو نمایاں ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں کا موضوع انذار و بشارت ہے۔ دوسری سورہ میں اِس انذار و بشارت کے تاریخی دلائل، البتہ زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ دونوں میں خطاب قریش سے ہے اور اِن کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میںیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ اتمام حجت میں نازل ہوئی ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الٓرٰ قف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ{۱} اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَباً اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ{۲}
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ م بَعْدِ اِذْنِہٖ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ{۳} اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا وَعْدَاللّٰہِ حَقًّا اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ{۴} ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ{۵} اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ{۶} اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَنُّوْا بِھَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ{۷} اُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ{۸}اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ{۹}دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۱۰}
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورہ ’الر‘ ہے۱؎۔ یہ اُس کتاب کی آیتیں ہیں جو سراسر حکمت ہے۲؎۔ کیا اِن لوگوں کو اِس پر حیرانی ہو گئی کہ ہم نے اِنھی میں سے ایک شخص پر وحی کی ہے کہ لوگوں کو خبردار کرو ۳؎اور جو مان لیں، اُنھیں خوش خبری پہنچا دوکہ اُن کے لیے اُن کے پروردگار کے پاس بڑا مرتبہ ہے۴؎۔ (اِس حقیقت کو سمجھنے کے بجاے) اِن منکروں نے کہہ دیا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے۵؎۔ ۱-۲
(لوگو۶؎)،حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر معاملات کا نظم سنبھالے ہوئے اپنے عرش پر قائم ہو گیا۷؎۔ اُس کی اجازت کے بغیر کوئی (اُس کے حضور میں) سفارش کرنے والا نہیں ہے۸؎۔ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے، لہٰذا اُسی کی بندگی کرو۔ کیا تم سوچتے نہیں ہو؟تم سب کو (ایک دن) اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۹؎۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا۱۰؎، اِس لیے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کو انصاف کے ساتھ (اُن کے عمل کا) بدلہ دے اور جنھوں نے انکار کر دیا ہے، اُن کے انکار کے بدلے اُن کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔ وہی۱۱؎ ہے جس نے سورج کو تاباں اور چاند کو روشنی بنایا ۱۲؎اور اُس کے لیے منزلیں ٹھیرا دیں تاکہ تم (اُس سے) برسوں کی گنتی اور (اُن کا) حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بے مقصد نہیں بنایا ہے۱۳؎۔ وہ اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اپنی نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے۔ یقینا رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور جو کچھ زمین اور آسمانوں میں اللہ نے پیدا کیا ہے، اُس میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ڈرتے ہیں۱۴؎۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور اِسی دنیا کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، اُنھی کا ٹھکانا جہنم ہے اُن کے اعمال کی پاداش میں۔ (اِس کے بر خلاف) جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کا پروردگار اُن کے ایمان کی بدولت اُنھیں (اُن کی منزل تک) پہنچا دے گا۔ اُن کے نیچے ، نعمت کے باغوں میں (اُن کے لیے) نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہاں اُن کی صدا ہو گی کہ اے اللہ، تو پاک ہے۱۵؎ اور اُن کی تسلیمات سلامتی کی دعا ہو گی اور آخری کلمہ یہ ہو گا کہ شکر اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے عالم کا پروردگار ہے۔۳-۱۰
۱؎ اِس نام کے کیا معنی ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
۲؎ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِس کتاب کی صداقت کا معیار خود اِس کی حکمت ہے۔ یہ اِس کے لیے کسی خارجی شہادت کی محتاج نہیں ہے۔
۳؎ یعنی اِس میں انکار و استعجاب اور حیرانی کی کیا بات ہے؟ خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اِنھی کے اندر سے ایک شخص کو منتخب کیا ہے تو یہی قرین عقل ہے۔ یہ اُس کے ماضی و حاضر اور اخلاق و کردار سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اُس کی راست بازی اور امانت و دیانت کو جانتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، اِن کا معلم و مرشد اور اِن کے لیے نمونہ و مثال بھی کوئی جن یا فرشتہ نہیں، بلکہ انسان ہی ہو سکتا تھا۔ چنانچہ خدا نے اِنھی کے ایک بہترین فرد کا انتخاب کیا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں یہ گویا اِنھی کی زبان اور اِنھی کے ضمیر کی گواہی ہے جو اِن کے آگے پیش کی جا رہی ہے۔
۴؎ اصل میں ’قَدَمَ صِدْقٍ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی ایسا مرتبہ جس میں عزت، بلندی اور لازوال سرفرازی ہو۔ یہ معنی لفظ ’صِدْق‘ سے پیدا ہوئے ہیں جو رسوخ و استحکام اور تمکن پر دلیل ہوتا ہے۔
۵؎ یعنی جب دیکھا کہ اِس کی بات لوگوں کو متوجہ کر رہی ہے تو کہہ دیا کہ یہ شخص الفاظ کی جادوگری کا ماہر ہے۔ اِس کو کوئی مافوق ہستی اور اِس کے کلام کو کوئی مافوق چیز سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض فصاحت و بلاغت اور حسن بیان کا کمال ہے۔ اِس سے زیادہ اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
۶؎ یہاں سے آگے اُس انذار و بشارت کی دلیل بیان ہو رہی ہے جس سے سورہ کی ابتدا ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔(اِس میں) مقدمات کی ترتیب اِس طرح ہے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور جس کا خالق ہونا تمھیں خود بھی تسلیم ہے، وہی تمھارا رب اور آقا و مولیٰ ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو، آقا و مولیٰ کوئی اور بن جائے؟ اگر تم نے کچھ اور رب بنا کر اُن سے کچھ امیدیں باندھ رکھی ہیں تو یہ محض تمھاری حماقت ہے جو عقل و فطرت اور خود تمھارے اپنے مسلمہ کے خلاف ہے۔ پھر یہ کائنات کسی اتفاقی حادثے کے طور پر ظہور میں نہیں آگئی ہے، بلکہ یہ خدائی دنوں کے حساب سے چھ دنوں یا بالفاظ دیگر چھ ادوار میں درجہ بدرجہ ارتقا پذیر ہوئی ہے۔ یہ تدریج و ترتیب اور یہ ارتقا خود شاہد ہے کہ نہ اِس کا ظہور کوئی اتفاقی حادثہ ہے، نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا ہے، بلکہ یہ نہایت اہتمام سے پیدا کیا ہوا ایک باغایت و بامقصد کارخانہ ہے اور اِس کی مقصدیت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان جو اِس کائنات میں خلیفہ کی حیثیت رکھتا ہے یوں ہی شتر بے مہار نہ چھوڑ دیا جائے، بلکہ اُس کے سامنے ایک ایسادن آئے جس میں وہ لوگ پورے انصاف کے ساتھ اپنے اعمال کا صلہ پائیں جنھوں نے خالق کائنات کی پسند کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ لوگ اپنے جرائم کی سزا بھگتیں جنھوں نے اِس دنیا کو کھیل تماشا سمجھا اور ساری زندگی بطالت میں گزاری۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۳)
۷؎ یعنی پیدا کرنے کے بعد نہ کسی گوشے میں خاموش بیٹھ گیا ہے اور نہ اپنی مخلوقات کے معاملات دوسروں کے سپرد کرکے اُن سے بے تعلق ہو گیا ہے، بلکہ عرش حکومت پر متمکن ہے اور اپنی دنیا کا نظم خود چلا رہا ہے۔
۸؎ اِس لیے لوگوں کو اِس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ کسی کی سعی و سفارش اُنھیں خدا کے عذاب سے بچا لے گی۔
۹؎ یعنی تمھیں بھی اور تمھارے اُن معبودوں کو بھی جنھیں تم اپنے گمان کے مطابق خدا کے شریک اور اُس کے حضور میں سفارش کرنے والے سمجھتے ہو۔ آیت میں ’جَمِیْعًا‘ کی تاکید اِسی مضمون کو ظاہر کرتی ہے۔
۱۰؎ یعنی جس طرح ابتدا کی ہے، اُسی طرح دوبارہ پیدا کر دے گا۔ اُسے کوئی دشواری پیش نہ آئے گی۔ اِس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جب خلق اور اعادئہ خلق، دونوں میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے تو مرجع و مولیٰ بھی وہی ہے۔ اُس کے سوا کوئی دوسرا یہ حیثیت کس بنیاد پر حاصل کر سکتا ہے؟
۱۱؎ اوپر توحید کا استدلال تھا۔ اب جزا و سزا کے قطعی ہونے کی دلیل بیان ہو رہی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اِس کارخانۂ کائنات پر جو شخص بھی غور کرے گا، اُس کو یہ حقیقت نہایت نمایاں طور پر نظر آئے گی کہ یہ کسی کباڑیے کا مال گودام نہیں، بلکہ اِس کے ہر گوشے میں اِس کے خالق کی عظیم قدرت اور اُس کی بے پایاں رحمت و ربوبیت نمایاں ہے۔ اِس کے اندر نہایت اعلیٰ اہتمام ہے۔ بے نظیر ترتیب و انتظام ہے، بے مثال اقلیدس و ریاضی ہے۔ سورج معین نظام اوقات کے ساتھ نکلتا اور اپنی تابانیوں سے سارے جہان کو روشن کرتا ہے۔ اُس کے فیض سے گرمی، سردی، خزاں اور بہار کے مختلف موسم پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک ہماری دنیا کی زندگی اور اُس کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ چاند اُس سے کسب نور کر کے اپنی معین منزلیں طے کرتا اور ہماری تاریک راتوں میں مختلف زاویوں سے ہمارے لیے شمع برداری بھی کرتا ہے اور ہمارے مہینوں اور سالوں کی تقویم بھی بناتا ہے ـــــ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دنیا خیر و شر اور نیکی و بدی کے درمیان امتیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے گی یا یوں ہی ختم ہو جائے گی؟ اگر یہ مان لیا جائے تو یہ ساری قدرت و حکمت بے مقصد وبے غایت ہو جاتی ہے جو اِس کائنات کے ہر گوشے میں جلوہ گر ہے۔ پھر تو یہ دنیا بالکل باطل اور ایک کھیل تماشا بن کے رہ جاتی ہے اور یہ ایک ایسی خلاف عقل، ایسی خلاف عدل اور ایسی خلاف فطرت بات ہے کہ کوئی سلیم العقل اور کوئی مستقیم الفطرت انسان ایک لمحے کے لیے بھی اِس کو باور نہیں کر سکتا۔ کچھ اینٹیں ایک جگہ بکھری ہوئی پڑی ہوں تو اُن کو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ یونہی پڑی ہوئی ہیں، لیکن کیا یہی گمان تاج محل، لال قلعہ اور لاہور و دلی کی جامع مسجدوں کے متعلق بھی کر سکتے ہیں؟‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۵)
۱۲؎ آیت میں سورج کے لیے ’ضِیَآئ‘ اور چاند کے لیے ’نُوْر‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ نور خنک روشنی کو کہتے ہیں اور ضیا میں روشنی کے ساتھ تپش کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ چاند اور سورج کی روشنی میں یہ فرق ایک امر واقعی ہے۔ لفظ ’تاباں‘ سے یہی مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۱۳؎ چنانچہ جو عاقل بھی اِس نظام عالم کو دیکھے گا، یہی پکارے گا کہ یہ اتھاہ معنویت اور یہ حیرت انگیز نظم و ترتیب بے مقصدنہیں ہے، بلکہ ضرور کسی عظیم غایت کے ساتھ وجود پذیر ہوا ہے۔
۱۴؎ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ یہ کائنات بے مقصد نہیں ہے، بلکہ ایک عظیم نتیجے تک پہنچنے والی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اِس نظام پر جو شخص بھی غور کرتا ہے، وہ لازماً اِس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ اضداد کے اندر ایک مشترک مقصد کے لیے یہ حیرت انگیز توافق اِسی شکل میں وجود میں آسکتا ہے، جب یہ مانا جائے کہ یہ سارا کارخانہ صرف ایک قادر و قیوم کے ارادے کے تحت کام کر رہا ہے اور پھر اِس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس نے ربوبیت و پرورش کا یہ سارا نظام کھڑا کیا ہے اور اُس کو اِس اہتمام سے چلا رہا ہے، وہ انسان کو مطلق العنان اور غیر مسئول نہیں چھوڑے گا، بلکہ اِس کے بعد ایک ایسا دن لازماً آنا ہے جس میں وہ اِس ربوبیت کا حق پہچاننے والوں کو اُن کی حق شناسی کا انعام دے گا، اور اِس سے بے پروا رہنے والوں کو جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۶)
۱۵؎ یعنی اِس بات سے پاک ہے کہ کبھی کوئی عبث کام کرے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ