HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

نظر بد کے لیے جھاڑ پھونک کرنا

ترتیب و تدوین: خالد مسعود ۔ سعید احمد

(اَلرُّقْیَۃُ مِنَ الْعَیْنِ)


حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ قَیْسٍ الْمَکِّیِّ اَنَّہُ قَالَ دُخِلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاِبْنَیْ جَعْفَرِ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فَقَالَ لِحَاضِنَتِھِمَا مَالِیْ أَرَاھُمَا ضَارِعَیْنِ فَقَالَتْ حَاضِنَتُھُمَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ تَسْرَعُ اِلَیْھِمَا الْعَیْنُ وَلَمْ یَمْنَعْنَا أَنْ نَسْتَرْقِیَ لَھُمَا اِلَّا اَنَّا لَا نَدْرِیْ مَا یُوَافِقُکَ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَرْقُوْا لَھُمَا فَاِنَّہُ لَو سَبَقَ شَیْئُ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْہُ الْعَیْنُ.
حمید بن قیس مکی کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے۔ آپ نے ان کو دودھ پلانے والیوں سے کہا کہ میں ان کو کمزور کیوں دیکھتا ہوں؟ تو ان کی دودھ پلانے والیوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، ان کو نظر بہت جلد لگ جاتی ہے اور ہم ان کے لیے ٹونے ٹوٹکے نہیں کرتیں، کیونکہ معلوم نہیں کہ آپ اس کو پسند کریں گے یا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو جھاڑ پھونک کراؤ، کیونکہ تقدیر پر اگر کوئی چیز سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر بد اس پر سبقت کر لیتی۔
وضاحت

’ضارع‘ کمزور کو کہتے ہیں۔ ’استرقاء‘ کا لفظ جھاڑ پھونک کروانے کے لیے آتا ہے۔ حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے۔ بچوں کی آیاؤں نے ان کی کمزوری کو نظر بد پر محمول کیا۔ ہمارے یہاں بھی عورتیں بچے کی پرورش میں اپنا کوئی قصور ماننے کو تیار نہیں ہوتیں۔ اگر کسی کمزور بچے کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو یہی جواب دیتی ہیں کہ اس پر نظر بد کا اثر ہے۔

اس روایت میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ ان کے لیے جھاڑ پھونک کراؤ؟ بچوں کی صحت کے لیے آپ خود دعا کر سکتے تھے۔ آپ کی دعا سے بہتر اور پاکیزہ کس کی دعا ہو سکتی تھی اور آپ کی دعا کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھتیجوں سے زیادہ اور کون محبوب ہو سکتا تھا۔ آپ فرما دیتے کہ میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اس کے بجاے آپ نے فرمایا کہ جھاڑ پھونک کراؤ۔ نظر بد کے اثر کو زائل کرنے کا یہ بڑا کارگر نسخہ ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا آپ روایتی جھاڑ پھونک کرنے والوں کے عمل کی تاثیر کے قائل تھے؟ یہ بالکل ناممکن بات ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا بھی اگر ہو سکتا ہے تو وہ دعا کا ہو سکتا ہے جو ایک مشروع چیز ہے۔ روایت میں اگر ’استرقاء‘ کا لفظ آگیا ہے تو اسے دعا ہی پر محمول کرنا چاہیے۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ حَدَّثَہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَیْتَ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ فِی الْبَیْتِ صَبِیٌّ یَبْکِیْ فَذَکَرُوْا لَہُ اَنَّ بِہِ الْعَیْنَ قَالَ عُرْوَۃُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ألَا تَسْتَرْقُوْنَ لَہُ مِنَ الْعَیْنِ.
عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو گھر میں ایک بچہ رو رہا تھا۔ آپ کو بتایا گیا کہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔ عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے نظر بد سے جھاڑ پھونک کیوں نہیں کراتے؟
وضاحت

یہاں بھی روایت میں وہی مشکل ہے جو پچھلی روایت میں تھی۔ قرآن مجید میں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں جو چیز ہے وہ دعا ہے، جھاڑ پھونک نہیں۔ دعا میں کلمات طیبہ کا ہونا ضروری ہے۔ کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، ان کو پڑھ کر مریض پر پھونک دیں تو یہ عمل درست ہو گا۔ اگر اس کو ’استرقاء‘ کہا گیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

____________

B