حضرت ابو سلمہ کا اصل نام عبداﷲ تھا، لیکن وہ اپنی کنیت سے زیادہ جانے جاتے ہیں ۔عبد الاسد ان کے والد اور ہلال بن عبداﷲ دادا تھے۔مخزوم بن یقظہ پانچویں جد تھے جن کے نام پران کا قبیلہ بنومخزوم کہلاتا ہے۔ساتویں جد مرہ بن کعب پر ان کا شجرۂ نسب رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرہ سے جا ملتا ہے ،مرہ کے بیٹے کلاب آپ کے جد تھے، جبکہ ابوسلمہ کا تعلق ان کے دوسرے بیٹے یقظہ کی نسل سے تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی برہ بن عبدالمطلب ابوسلمہ کی والدہ تھیں۔
حضرت ابوسلمہ السابقون الاولون میں شامل تھے،قبولیت اسلام میں ان کا نمبر گیارہواں تھا۔ سیدنا ابوبکر نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعواے نبوت پرسر تسلیم خم کیا تو ان کی دعوت پر حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد بھی فوراً ایمان لے آئے۔ اگلے ہی روز وہ عثمان بن مظعون ،ابوعبیدہ، عبدالرحمن بن عوف،ابوسلمہ اور ارقم کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی آیات پڑھ کر سنائیں تو یہ پانچوں اصحاب بھی نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے۔ د ارارقم بعد میں وجود میں آیا۔
ابوسلمہ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد ہونے کے علاوہ رضاعی بھائی بھی تھے۔ابولہب کی باندی ثوبیہ نے پہلے حمزہ پھر آپ کو، اس کے بعد ابوسلمہ کو دودھ پلایا۔
ابو سلمہ کی شادی ہند بنت ابو امیہ سے ہوئی جو بعد میں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔
ابوسلمہ حبشہ اور مدینہ کو ہجرت کرنے والے اولیں لوگوں میں سے تھے۔ان پربنومخزوم کے تشدد کی تفصیل کہیں بیان نہیں ہوئی، لیکن لا محالہ ان کی تعدی ہی ان کی ہجرت کی وجہ بنی۔ باقی اصحاب بھی قریش کی مسلسل ایذا رسانی کا شکار رہے تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں ہدایت فرمائی: ’’تمھیں چاہیے تھا کہ حبشہ کی طرف نکل جاتے ،اس لیے کہ وہاں جس بادشاہ کی حکومت ہے، اس کے ہاں ظلم نہیں ہوتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے،( وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک اﷲ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا‘‘۔آپ کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے رجب ۵ ؍نبوی میں بارہ مرد (طبری اور ابن کثیر نے گیارہ کا عدد لکھ کر بارہ مردوں کے نام درج کیے ہیں، جبکہ ذہبی نے دس مردوں کے نام لکھے ہیں )اور چار عورتیں کچھ پیادہ، کچھ سوارشعیبہ کے ساحل سمندر پر پہنچے اور حبشہ جانے کے لیے نصف دینار کرایے پر کشتی حاصل کی ۔یہ حضرت عثمان اور ان کی اہلیہ رقیہ، حضرت ابوحذیفہ اور ان کی بیوی سہلہ، حضرت زبیر، حضرت مصعب، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوسلمہ اور ان کی زوجہ ام سلمہ، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ اور ان کی بیوی لیلیٰ، حضرت ابوسبرہ، حضرت حاطب بن عمرو، حضرت سُہیل بن بیضا اور حضرت عبداﷲ بن مسعود تھے۔ کل تراسی اہل ایمان نے حبشہ ہجرت کی ،باقی اصحاب بعد میں روانہ ہوئے۔ پھر جب مشرکین قریش کے ایمان لانے اور مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم بند ہونے کی افواہ حبشہ پہنچی تو تینتیس صحابہ نے مکہ واپسی کا قصد کیا، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد اور حضرت عثمان بن مظعون ان میں شامل تھے۔ مکہ پہنچ کر اس خبر کا غلط ہونا ثابت ہو گیا تو اکثر اہل ایمان حبشہ واپس چلے گئے۔ تاہم چند نے مکہ میں اپنے لیے جاے پناہ ڈھونڈ لی۔ حضرت عثمان نے اپنے چچا ولید بن مغیرہ کی پناہ قبول کی جبکہ حضرت ابوسلمہ اپنے ماموں ابوطالب کی حفاظت میں آ گئے۔ ان کے قبیلے بنومخزوم کے سرکردہ افراد ابوطالب کے پاس آئے اور کہا: آپ نے اپنے بھتیجے محمد کو ہم سے بچائے رکھا ،کیا اب ہمارے قبیلے کے فرد اور ہمارے بھتیجے ابوسلمہ کو بھی ہم سے بچائیں گے؟انھوں نے جواب دیا: وہ میرا بھانجا ہے، میری پناہ میں آنا چاہتا تھا۔میں اس کی حفاظت ایسے ہی کروں گا، جیسے بھتیجے کی حفاظت کی۔ یہ واحد موقع تھا جب ابولہب کے منہ سے کلمۂ خیر نکلا ، اٹھا اور بولا: تم اکثر اس بزرگ سے اپنی قوم کو پناہ دینے پر پوچھتے رہتے ہو۔بخدا، باز آ جاؤ ،ورنہ ہم اس کا ساتھ دینے کھڑے ہو جائیں گے تاکہ یہ اپنے ارادوں کی تکمیل کر لے ۔ اس پر بنومخزوم کے افراد واپس چلے گئے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ حج کے زمانہ میں مکہ آنے والے عرب قبائل کے رؤساکو اسلام کی دعوت دیتے ۔ رجب ۱۰ ؍ نبوی میں آپ کو کامیابی ہوئی جب خزرج کے چھ افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ۱۱ ؍ نبوی میں یثرب کے بارہ اور ۱۲ ؍ نبوی میں بہتر لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔نصرت اسلام کی ان بیعتوں کے بعد آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اﷲ نے تمھارے بھائی بند بنا دیے ہیں اور ایسا شہر دے دیا ہے جہاں تم اطمینان سے رہ سکتے ہو۔ چنانچہ حضرت ابوسلمہ پہلے مہاجر تھے جو مدینہ پہنچے۔ابن ہشام اور طبری کہتے ہیں کہ وہ بیعت عقبۂ ثانیہ (بیعت عقبۂ کبریٰ) سے ایک سال پہلے مدینہ ہجرت کر چکے تھے۔ حبشہ سے واپس آکر انھیں پھر سے قریش کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ اتو حبشہ لوٹنا چاہا، لیکن انصار کے اسلام کی اطلاع اور آپ کے اذن ہجرت کا سن کر یثرب کا رخ کیا۔ حضرت خزیمہ بن ثابت کی روایت مختلف ہے کہ حضرت ابوسلمہ محرم کی ۱۰ تاریخ کو مدینہ پہنچے۔ حضرت ابوسلمہ کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداﷲ بن جحش اور ان کے بھائی ابو احمد عبد دار ہجرت پہنچے۔ دو ماہ کے بعد اکثر اہل ایمان نے ہجرت کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ ۱۲ ؍ ربیع الاول کو تشریف لائے۔ حضرت ابوسلمہ، حضرت عامر بن ربیعہ اور حضرت ابن جحش قبا میں مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں مقیم ہوئے۔ آپ آئے تو حضرت سعد بن خیثمہ کے ساتھ حضرت ابوسلمہ کی مواخات قائم فرمائی اور رہنے کے لیے وہ جگہ عنایت کی ،بعد میں جس کے پڑوس میں بنو عبدالعزیز کے گھر بنے۔ حضرت ابوسلمہ کے وارث اس قطعۂ زمین کو بیچ کر بنوکعب میں منتقل ہو گئے۔
حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوسلمہ مدینہ روانہ ہونے لگے، مجھے اونٹ کے کجاوے پر بٹھایا اور بیٹے سلمہ کو میری گود میں دے دیا۔اونٹ کی مہار پکڑ کر نکلے تھے کہ( میرے قبیلے) بنومغیرہ(بنومخزوم کی شاخ، بنو مغیرہ بن عبداﷲ بن عمر بن مخزوم) کے افراد ان کی طرف بڑھے اور کہا: اپنے اوپر تو تم نے ہماری مر ضی نہیں چلنے دی۔ہم تمھیں کیسے اجازت دیں کہ ہماری بیٹی کو ساتھ لے کر گھومتا پھرے ؟پھر اونٹ کی نکیل پکڑلی اور مجھے ابو سلمہ سے الگ کر لیا۔ اس موقع پر ابوسلمہ کے بھائی، بنوعبدالاسد بھڑک اٹھے۔میرا بیٹا سلمہ چھین لیا اور بولے: شوہر سے علیحدہ ہونے کے بعدہم اپنی اولاد کو ام سلمہ کے پاس نہ رہنے دیں گے۔ اس طرح ہمارا کنبہ تین حصوں میں منقسم ہو گیا، حضرت ابوسلمہ مدینہ چلے گئے، مجھے بنو مغیرہ نے روک لیا اور سلمہ کو بنو عبدالاسد لے کر چلتے بنے۔ اب اگلے ایک سال کے لیے میرا یہ معمول بن گیا ،ہرروز سویرے سویرے مکہ کے ریگ زارمیں اس مقام پر جا بیٹھتی جہاں شوہر سے مفارقت ہوئی تھی اور شام تلک روتی رہتی۔آخرکار بنومغیرہ کے ایک شخص کو جو میرا چچیرا تھا ، میرا گریہ دیکھ کر مجھ پر ترس آ گیا۔اس نے اپنے قبیلے کے زعما سے کہا: اس بے چاری کی راہ کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟اسے اس کے بیٹے سے جدا کر رکھا ہے۔ انھوں نے اس کی درخواست مان لی تو حضرت ام سلمہ نے سسرال سے اپنا بیٹا لیا اور تن تنہا مدینہ روانہ ہو گئیں۔مکہ سے چار میل باہر نکلی تھیں کہ تنعیم کے مقام پر عثمان بن طلحہ نے جو ابھی ایمان نہ لائے تھے، انھیں دیکھ کر پوچھا: بنت ابوامیہ، کہاں جا رہی ہو؟ کہا: یثرب،اپنے خاوند کے پاس،اس بیٹے کے علاوہ میرے ساتھ کوئی نہیں۔ عثمان بولے: تمھیں تو کہیں چھوڑا بھی نہیں جا سکتا،پھر ان کے اونٹ کی مہار پکڑ کر چل پڑے۔ وہ انھیں حفاظت سے منزل بہ منزل لے کر چلے اور مدینہ جا پہنچے۔قبا میں بنوعمرو بن عوف کی بستی پہنچ کر کہا: تمھارا میاں یہاں مقیم ہے اور خود مکہ لوٹ گئے۔نیک فطرت عثمان نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کیا۔
۲ ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم غزوۂ عشیرہ کے لیے مدینہ سے باہر گئے تو حضرت ابوسلمہ کو مدینہ کا قائم مقام حاکم مقرر فرمایا۔کم و بیش ایک ماہ تک انھوں نے یہ ذمہ داری ادا کی ۔ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق غزوۂ بواط عہد اسلامی کا پہلا غزوہ تھا تاہم حضرت زید بن ارقم غزوۂ عشیرہ ہی کو اول قرار دیتے ہیں۔
حضرت ابوسلمہ نے جنگ بدر میں بھرپور شرکت کی، وہ شہ سوار تھے۔ ایک مرجوح روایت کے مطابق ابوسلمہ جنگ بدر میں حصہ لینے کے بعد مدینہ پہنچے تو ان کا انتقال ہوا۔دوسری روایت جسے درست مانا گیا ہے، یہ ہے کہ انھوں نے ۴ ھ میں جنگ احد میں حصہ لینے کے بعد وفات پائی۔اس جنگ میں ابواسامہ جشمی کے تیر کی نوک سے ان کے بازو میں گہرا زخم لگا،انجام کاریہی ان کی شہادت کا سبب بنا ۔ان کے بیٹے عمر بن ابوسلمہ کا بیان ہے کہ احد سے واپسی پرابوسلمہ نے قبا میں بنو امیہ بن زید کے ہاں قیام کیا۔ وہ ایک مہینہ اپنے گھاؤ کا علاج کرتے رہے۔بظاہر وہ مندمل ہوگیا، لیکن اندرونی خرابی برقرار رہی جودکھائی نہ دیتی تھی۔محرم۴ھ کے آخر یا اگلے مہینے صفر کے شروع میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو پچپن صحابہ کے ایک دستے کی امارت سونپ کر قطن کی طرف بھیجا۔ طلیحہ اسدی اور اس کا بھائی سلمہ بن خویلد یہاں کے سردار تھے جنھوں نے آپ سے جنگ کرنے کے لیے فوج جمع کر رکھی تھی۔بنواسد ہی کے ایک آدمی نے آپ کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوسلمہ کو پرچم عنایت کر کے فرمایا: اپنے سریہ کو لے کر بنواسد کی سرزمین پہنچ جانااور ان پر حملہ کر دینا۔ آپ نے اﷲ کا تقویٰ اختیار کرنے اور مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی تلقین بھی کی۔سریہ کی آمد پر بنواسد قطن کے چشمہ پراپنے مال مویشی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ حضرت ابو سلمہ نے مویشی دبوچ لیے ،تین غلاموں کو پکڑا اور چند دنوں کے بعدمدینہ لوٹ آئے۔ جاسوسی کرنے والے اسدی کو غنیمت میں سے حصہ دیا گیا۔یہ سریہ حضرت ابوسلمہ کے نام پر سرےۂ ابوسلمہ کہلاتا ہے۔ اس مہم سے لوٹنے کے سترہ دن بعد ان کا زخم پھر پھوٹ پڑا اور جان لیوا ثابت ہوا۔
ابوسلمہ کاآخری وقت آیا تورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔وہ جان کنی کے عالم میں تھے، پردے کے دوسری طرف عورتیں رورہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: میت کی جان نکل رہی ہوتی ہے تو اس کی نگاہیں پرواز کرنے والی روح کا پیچھا کرتی ہیں، تم دیکھتے نہیں کہ آدمی مر جاتا ہے تو اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ جب حضرت ابوسلمہ کا دم نکل گیا تو آپ نے دست مبارک سے ان کی آنکھیں بند کر دیں۔آپ نے عورتوں کو تلقین کی کہ (میت پربین کرتے ہوئے) اپنے لیے بددعا نہیں، بلکہ بھلائی کی دعا ہی مانگو، کیونکہ فرشتے میت اور اس کے اہل خانہ کی دعا یا بددعا پر آمین کہتے ہیں۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابوسلمہ کے لیے یوں دعا فرمائی: اے اﷲ، ابوسلمہ کی مغفرت کر دے۔ ہدایت یافتوں (اہل جنت) میں ان کا درجہ بلند کر دے ۔ پس ماندگان میں ان کا قائم مقام ہو جا۔ اے رب العٰلمین، ہماری اور ان کی مغفرت کردے۔ قبر میں ان کے لیے کشادگی کر دے اور اسے منور کر دے (مسلم، رقم ۲۰۸۵، ۲۰۸۶۔ ابن ماجہ، رقم ۱۴۴۷)۔ ان کی بیوہ ام سلمہ نے آپ سے سوال کیا: یا رسول اﷲ، میں کیسے دعا کروں؟ فرمایا: کہو، اے اﷲ، ابوسلمہ کی مغفرت کر دے، اور ہمیں ان کا بہتر بدل عنایت کر (ابو داؤد، رقم ۳۱۱۵۔ نسائی، رقم ۱۸۲۶۔ احمد، رقم ۲۶۶۰۸)۔ ام سلمہ کہتی ہیں:میں نے سوچا کہ ابوسلمہ پردیسی تھے،پردیس میں فوت ہوئے۔ میں ان کے لیے ایسا گریہ کروں گی جس کا چرچا ہو اور جس کی مثال دی جایا کرے۔میرا ساتھ دینے کے لیے مدینہ کی وادئ صعید سے ایک عورت آئی۔مجھ سے پہلے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے ملے اور فرمایا: کیا تو چاہتی ہے کہ شیطان کو اس گھر میں دوبارہ داخل کر دے جہاں سے اﷲ اسے نکال چکا ہے ۔آپ نے یہ ارشاد دو باردہرایا۔ چنانچہ میں نے بین کرنے کا ارادہ ترک کر دیا (مسلم، رقم ۲۰۸۹۔ احمد، رقم ۲۶۴۷۲)۔ مسلم کے ایک شارح نے ’صعید‘ سے مراد بالائی مدینہ، یعنی قبا لیا ہے جو درست نہیں۔بالائی مصر کے لیے تو یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ،عوالئ مدینہ کے لیے نہیں۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ ابوسلمہ کی وفات کے بعد(ایام عدت میں) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے ہاں آئے۔میں نے آنکھوں پر ایلوا (مصبّر، aloe) لگا رکھا تھا۔ فرمایا: یہ کیا ؟میں نے کہا: ایلوا ہے ،اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ چہرے کو جوان دکھاتا ہے،رات کے وقت لگاؤ اور دن کو صاف کر دو۔ مزید فرمایا: (عدت کے دوران میں)خوشبو اور مہندی لگا کر کنگھی نہ کیا کرو،بیری کے پانی ہی سے اپنا سر ڈھانپ لیا کرو (ابوداؤد، رقم ۲۳۰۵۔ نسائی، رقم ۳۵۶۷)۔
حضرت ابو سلمہ کی تاریخ وفات ۲۷ ؍ جمادی الثانی۴ھ ہے۔ ابن عبدالبر نے ۳ھ کا سن بتایا ہے۔ ذہبی نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ قبا (عالیہ)میں ابوسلمہ اکثر بنو امیہ بن زید کے کنویں ’عسیر‘پر جایا کرتے تھے۔نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر ’یسیرہ‘ کر دیا تھا۔ اس کنویں کی چرخی کے تھموں کے مابین ابو سلمہ کی میت رکھ دی گئی اورکنویں سے پانی نکال کر ان کو غسل دیا گیا ۔پھر جنازہ مدینہ لایا گیا جہاں ان کی تدفین ہوئی۔ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو سلمہ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔روایت ہے کہ آپ نے نو تکبیریں کہیں۔ پوچھا گیا: یا رسول اﷲ، آپ کو سہو ہوا یا بھول گئے؟ فرمایا: مجھے سہو ہوا نہ بھولا۔اگر میں حضرت ابوسلمہ کے لیے ایک ہزار تکبیریں بھی کہتا تو وہ اس کے اہل تھے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نامۂ اعمال سب سے پہلے جس شخص کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ’فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ‘ (الحاقہ ۶۹:۱۹) ،ابوسلمہ بن عبدالاسد ہوں گے اور سب سے پہلے جس شخص کے بائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا ’وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ‘ (الحاقہ۶۹: ۲۵)، ان کے بھائی سفیان بن عبدالاسد ہوں گے۔
حضرت ابوسلمہ کی ایک ہی شادی کا ذکر ملتا ہے جو بنومخزوم ہی کی ہند بنت ابوامیہ سے ہوئی۔ہند بھی اپنی کنیت ام سلمہ سے زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے ہاں دو بیٹوں، سلمہ اور عمر اوردو بیٹیوں زینب اور درہ کی ولادت ہوئی۔ عمرکی پیدایش قیام حبشہ کے دوران میں ہوئی۔یہ روایت کہ زینب بھی حبشہ میں متولد ہوئیں،درست نہیں، اس لیے کہ وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے عقد کے وقت ام سلمہ کی گود میں دودھ پیتی تھیں اور آپ انھیں دودھ پلاتے دیکھ کر لوٹ جاتے تھے۔ اس صورت حال میں حضرت عمار بن یاسر نے ان کی دودھ پلائی کا انتظام کیا ( احمد، رقم ۲۶۶۶۹) ۔
حضرت ابوسلمہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اور ان کی اہلیہ ام سلمہ نے ان سے حدیث روایت کی ہے۔ ان کی واحد روایت، جسے ترمذی ،ابن ماجہ اورامام احمد نے نقل کیا، یہ ہے: حضرت ابوسلمہ نے (ایک دن گھر آئے تو) اپنی اہلیہ ام سلمہ سے کہا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک فرمان سنا ہے جس سے بڑی خوشی ہوئی ۔ارشاد فرمایا: ’’جب کسی مسلمان پر کوئی مصیبت ٹوٹے (یعنی اس کا کوئی عزیز دنیا سے چلا جائے) تو اسے چاہیے کہ انا ﷲواناالیہ راجعون کہہ کر یہ دعا مانگے: اے اﷲ، میں تجھی سے اس صدمے پرصبر کرنے کا اجر چاہتا ہوں،مجھے اجر و ثواب دے اور اس مصیبت کا بہترین بدل عنایت کر۔یقیناًاﷲ اسے نعم البدل عطا کر دیتا ہے۔پھر جب حضرت ابو سلمہ کا آخری وقت آیا تو انھوں نے دعا مانگی: اے اﷲ، میرے اہل خانہ میں مجھ سے بہتر قائم مقام لے آ۔ ان کی وفات کے بعد ام سلمہ نے دعا مانگی: ’انا ﷲواناالیہ راجعون‘، (ہم اﷲ کے ہیں اور اسی کے پاس لوٹنے والے ہیں)۔میں اﷲ ہی سے اپنا صدمہ برداشت کرنے کا اجر چاہتی ہوں۔مجھے اس کا ثواب(بدل)عطا کر ۔ام سلمہ کہتی ہیں: پھر میرے دل میں آیا کہ میرے لیے ابوسلمہ سے بہتر کون ہو گا؟ہر گز نہیں ،کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (ترمذی ، رقم ۳۵۱۱۔ابن ماجہ، رقم ۱۵۹۸۔ احمد، رقم ۱۶۳۴۴)۔ جب ان کی عدت ختم ہوئی تو سیدنا ابوبکر نے پیغام عقد بھیجا،انھوں نے انکار کر دیا، سیدنا عمر نے شادی کی درخواست کی تو وہ نہ مانیں۔ آخرکار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حاطب بن ابوبلتعہ کے ہاتھ نکاح کا پیغام بھیجاتو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ انھوں نے کہا: مرحبا یا رسول اﷲ، مسند احمد کی روایت کے مطابق نکاح کا پیغام دینے آپ خود تشریف لے گئے۔ام سلمہ نے تین عذر پیش کیے: ان میں شدت رقابت پائی جاتی ہے،عمر رسیدہ ہیں اور بال بچوں والی ہیں۔ آپ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: میں اﷲ سے دعا کروں گا کہ وہ تمھاری رقابت یا غیرت کو ختم کر دے گا۔میں عمر میں تم سے بھی بڑا ہوں اور تمھارے بچے میری بھی اولاد ہیں۔تب ام سلمہ نے ہاں کر دی (مسلم، رقم ۲۰۸۲۔ابو داؤد، رقم ۳۱۱۹۔ احمد، رقم ۲۶۶۶۹)۔ مسند احمد کی روایت میں پوری تفصیل ہے، جبکہ باقی کتب کی روایات اس تفصیل کے ٹکڑوں پر مشتمل ہیں۔ مسلم اور ابودؤدنے یہ روایت حضرت ام سلمہ سے حضرت ابوسلمہ کے واسطے کے بغیر نقل کی ہے ۔
حضرت ام سلمہ کا آپ سے نکاح شوال کے آخری دنوں میں ہوا، اسی لیے وہ کہا کرتی تھیں کہ شوال کے مہینے میں نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ عقد کے بعد حضرت ابو سلمہ کے بچے عمر،سلمہ اور زینب اپنی والدہ کے ساتھ آپ کی پرورش میں آگئے۔ایک بار حضرت ام سلمہ نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا میں مال زکوٰۃ ابوسلمہ کے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تمھیں اس کا اجر ملے گا (بخاری، رقم ۱۴۶۷)۔ آپ نے سلمہ کا نکاح اپنے چچا حمزہ کی بیٹی سے کیا۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، الجامع المسند الصحیح (بخاری،شرکۃ دارالارقم)، المسند الصحیح المختصر من السنن(مسلم،شرکۃ دارالارقم)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، البدایہ و النہایہ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،سیراعلام النبلاء (ذہبی)، کتاب العبرو دیوان المبتداء و الخبر (ابن خلدون)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)،تہذیب التہذیب (ابن حجر)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: ام سلمہ،سید نذیر نیازی)۔
____________