بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ{۱۰۰}
وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ{۱۰۱}
وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۱۰۲} خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۱۰۳} اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ{۱۰۴} وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ{۱۰۵}
وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِاللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْھِمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۱۰۶}
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًام بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ{۱۰۷} لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ{۱۰۸} اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی تَقْوٰی مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْھَارَ بِہٖ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ{۱۰۹} لَا یَزَالُ بُنْیَانُھُمُ الَّذِیْ بَنَوْارِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِہِمْ اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُہُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۱۱۰}
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ{۱۱۱} اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۱۲}
مہاجرین و انصار کے اُن لوگوں سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے ہیں اور وہ بھی جنھوں نے خوبی کے ساتھ اُن کی پیروی کی ہے۲۶۵؎۔ اللہ نے اُن کے لیے ایسے باغ تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔۱۰۰
تمھارے ارد گرد جو بدوی رہتے ہیں، اُن میں بھی بہت سے منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی۔ وہ اپنے نفاق میں طاق ہو چکے ہیں۔ تم اُن کو نہیں جانتے، ہم اُن کو جانتے ہیں۲۶۶؎۔ اُنھیں عنقریب ہم دو مرتبہ سزا دیں گے۔۲۶۷؎ پھر وہ ایک عذاب عظیم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔۱۰۱
(اِن کے علاوہ) کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ اُنھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اورکچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ اُن پر توجہ فرمائے، اِس لیے کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۲۶۸؎۔تم اُن کے مالوں کا صدقہ قبول کرلو،۲۶۹؎ اِس سے تم اُنھیں پاکیزہ بنائو گے اور اُن کا تزکیہ کرو گے۔ ۲۷۰؎اور اُن کے لیے دعا کرو، اِس لیے کہ تمھاری دعا اُن کے لیے وجہ تسکین ہو گی۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۲۷۱؎۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوںکی توبہ قبول کرتا ہے اور اُن کے صدقات کی پذیرائی فرماتا ہے اور (نہیں جانتے کہ) اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۲۷۲؎۔ (اُن سے) کہہ دو کہ عمل کرو، اب اللہ اور اُس کا رسول اور (اُن کے ) ماننے والے تمھارے عمل کو دیکھیں گے اور تم جلد اُس کے حضور پیش کیے جائو گے جو تمام کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے۔ پھر وہ تمھیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔۱۰۲-۱۰۵
(اِسی طرح) کچھ دوسرے ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے فیصلے تک ٹھیرا ہوا ہے۔ وہ اُنھیں سزا دے گا یا اُن کی توبہ قبول کرے گا۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۲۷۳؎۔۱۰۶
اور جنھوں نے ایک مسجد بنائی ہے۲۷۴؎۔ اِس لیے کہ (اسلام کو) نقصان پہنچائیں اور کفر کو تقویت دیں اور اہل ایمان میں پھوٹ ڈالیں اور اُن لوگوں کے لیے ایک کمین گاہ فراہم کریں جو اِس سے پہلے خدا اور اُس کے رسول کے ساتھ برسرجنگ رہے ہیں، (وہ بھی آئیں گے) اور (آکر) قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو صرف بھلائی چاہی تھی۲۷۵؎، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔ تم اُس میں کبھی کھڑے نہ ہونا۔ وہی مسجد اِس کی حق دار۲۷۶؎ ہے کہ تم اُس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو جس کی بنیاد اول دن سے (خدا کے) تقویٰ پر قائم کی گئی ہے۲۷۷؎۔اُس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ اُنھی کو پسند کرتا ہے جو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہوں۲۷۸؎۔کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے تقویٰ اور اُس کی خوشنودی پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک کھوکھلی کگر پر اٹھائی جو گرنے کو ہے اور وہ اُس کو لے کر دوزخ کی آگ میں جا گری؟ اللہ اِس طرح کے ظالموں کو کبھی راہ نہ دکھائے گا۔ ۲۷۹؎یہ عمارت جو اُنھوں نے بنائی ہے، ہمیشہ اُن کے دلوں میں بے یقینی کی بنیاد بنی رہے گی، الاّ یہ کہ اُن کے دل ہی ٹکڑے ہو جائیں۔۲۸۰؎ اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ ۱۰۷-۱۱۰
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ (پیغمبر کے ہاتھ پر بیعت کرکے) ایمان لائے ہیں، اُن کے جان و مال اللہ نے جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۲۸۱؎۔یہ اللہ کے ذمے ایک سچا وعدہ ہے، تورات اور انجیل اور قرآن میں۲۸۲؎۔اور اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہو۔ سو اِس سودے پر خوشی منائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، شکر کرنے والے ہیں، (خدا کی راہ میں) سیاحت کرنے والے ہیں، (اُس کے آگے) رکوع اور سجدہ کرنے والے ہیں، بھلائی کی تلقین کرنے والے ہیں، برائی سے روکنے والے ہیں اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہیں۲۸۳؎۔ (وہی سچے مومن ہیں)اور (اے پیغمبر)، اِن مومنوں کو خوش خبری دے دو۲۸۴؎۔۱۱۱-۱۱۲
۲۶۵؎ یہ اب عام مسلمانوں اور منافقین ، دونوں کے سامنے نمونے اور مثال کی حیثیت سے اُن لوگوں کو پیش کر دیا ہے جو پیغمبر کے ساتھیوں میں گل سرسبد اور اصل سرمایہ تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ فرمایا کہ اِس امت کا ہراول دستہ مہاجرین و انصار میں سے وہ سابقون اولون ہیں جنھوں نے سب سے پہلے نبی کی دعوت پر لبیک کہی، جو اُس وقت اسلام کی طرف بڑھے، جب ایک قدم بھی اُس کی طرف بڑھنا گوناگوں مزاحمتوں کا مقابلہ کیے بغیر ممکن نہ تھا اور جو اُس وقت نبی کی حمایت و مدافعت کے لیے اٹھے، جب اُس کی حمایت و مدافعت تمام احمر و اسود سے لڑائی مول لینے کے ہم معنی تھی۔
دوسرے درجے پر وہ لوگ ہیں جو اگرچہ اولیت و اسبقیت کا درجہ تو حاصل نہ کر سکے، تاہم اُنھوں نے پورے اخلاص اور پوری راست بازی سے سابقین اولین کے نقش قدم کی پیروی کی۔ اِس پیروی میں اُنھوں نے کسی نمایش، کسی مصلحت، کسی غرض یا کسی نوع کے تذبذب اور نفاق کو دخیل نہیں ہونے دیا۔ ایک مرتبہ بڑھ کر اُنھوں نے پیچھے مڑنے کا نام نہیں لیا۔ جن سے کٹنا تھا، اُن کو کاٹا تو اِس طرح کہ کوئی تسمہ لگا نہیں رہنے دیا اور جن سے جڑے تو اِس طرح نہیں کہ:
منہ پھیر کر اِدھر کو اُدھر کو بڑھا کے ہاتھ
بلکہ اِس طرح جڑے کہ:
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اِسی خلوص و صداقت اور ظاہر و باطن کی اِسی کامل ہم آہنگی اور ہم رنگی کو یہاں ’اِحْسَان‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ’اِحْسَان‘ کے معنی ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں کہ کسی کام کو کمال حسن و خوبی سے انجام دینے کے بھی ہیں۔
۔۔۔ فرمایا کہ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ اُن سے اِس لیے راضی ہوا کہ وہ اپنے بندوں سے حق کی راہ میں جو صبر و ثبات، جو عزیمت و استقامت، جو جاںبازی و سرفروشی چاہتا ہے، اُس کا اُنھوں نے حق ادا کر دیا اور اُنھوں نے اللہ اور رسول سے جو عہد باندھا ،زندگی کے تمام نشیب و فراز میں، تمام مزاحمتوں اور مخالفتوں کے علی الرغم، پوری خوبی سے اُس کو نبھایا۔ اُن کے رب نے اُن کو جو قوتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائیں ،اُن کو اُنھوں نے درجۂ کمال تک پروان چڑھایا اور اُن کو اپنے رب ہی کی رضا طلبی میں صرف کیا۔ شیطان کو اُن میں ساجھی بننے کا، اپنے امکان کی حد تک کوئی موقع نہیں دیا۔
اللہ سے اُن کے راضی ہونے کامطلب یہ ہے کہ اللہ نے اُن کے ساتھ جو معاملہ کیا، اُس کو ہر رنگ میں اُنھوں نے اُس کے عدل، اُس کی حکمت اور اُس کی رحمت پر محمول کیا۔ اُن کو اگر کوئی افتاد پیش آئی تو اُس کو اُنھوں نے اپنی کسی خامی کا علاج سمجھا، کوئی مشکل پیش آئی تو اُس کو صبر و عزیمت کا امتحان جانا، سکھ ملا تو دل و جان سے اُس کے شکرگزار ہوئے، دکھ ملا تو صابر و مطمئن رہے، کسی حال میں بھی اپنی امید کے چراغ کو اُنھوں نے گل نہیں ہونے دیا۔ طوفان اٹھے، بجلیاں چمکیں ،بلکہ کبھی کبھی برق خرمن سوز سارے خرمن کو جلا کر خاکستر بھی کر گئی، لیکن اُن کے نفس مطمئنہ کو کوئی چیز بھی ہلا نہ سکی۔ وہ بدستور ’رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کی چٹان پر جما رہا اور بالآخر اُس نے ’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘ کی ابدی بشارت حاصل کی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۳۵)
۲۶۶؎ یہ مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ اِن کے معاملے میں ہوشیار رہو اور منافقین کو بھی کہ دوسرے تمھیں پہچاننے میں دھوکا کھا سکتے ہیں، لیکن اللہ خوب جانتا ہے کہ تم کیسے بھگل بنائے ہوئے ہو۔
۲۶۷؎ یعنی ایک مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں اور دوسری مرتبہ عالم برزخ میں، جب دنیا سے رخصت ہوں گے۔
۲۶۸؎ یہ لوگ منافق نہیں تھے۔ تاہم کمزوریوں میں ضرور مبتلا تھے۔ چنانچہ تبوک کے موقع پر بھی اِن سے کمزوری صادر ہوئی، لیکن جیسے ہی متنبہ کیے گئے، اِنھیں سخت ندامت ہوئی اور باتیں بنانے کی کوشش کرنے کے بجاے اِنھوں نے صدق دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے یہاں تک کیا کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے، جب تک اللہ و رسول کی طرف سے معاف نہ کر دیے جائیں* ۔ اِنھیں بشارت دی گئی ہے کہ اِن کے اعمال اچھے رہے تو امید ہے کہ اللہ اِن کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اِس سے قیامت کی جزا و سزا کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اِسی طرح کے لوگ ہیں جن کے بارے میں توقع کی جا سکتی ہے کہ وہاں بھی کسی سزا کے بغیر ہی معاف کر دیے جائیں گے۔
۲۶۹؎ یعنی وہ صدقہ جو اب یہ اپنے گناہوں کی تلافی کے لیے کریں گے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ توبہ اور تطہیر کے لیے سب سے زیادہ موثر چیز اللہ کی راہ میں انفاق ہی ہے۔
۲۷۰؎ آیت میں تطہیر اور تزکیہ کے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔قرآن میں اِن دونوں کے مواقع استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ ’تطہیر‘ میں غالب پہلو ظاہری اور باطنی نجاستوں اور رذائل سے پاک کرنے کا ہے اور تزکیہ میں رذائل سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں اور خوبیوں کو نشوونما دینے اور فضائل اخلاق سے آراستہ کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۳۹)
۲۷۱؎ پیچھے منافقین کے بارے میں فرمایا تھا کہ نہ اُن کے صدقات قبول کیے جائیں گے اور نہ پیغمبر اُن کے لیے دعا و استغفار کریں گے، بلکہ اُن میں سے کوئی مر جائے تو اُس کے جنازے کی نماز بھی نہیں پڑھیں گے۔ یہ اُس کے برعکس ہدایت کی گئی ہے کہ اُن لوگوں کے لیے رحمت و برکت کے یہ سب دروازے کھول دیے جائیں جنھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔
۲۷۲؎ اوپر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔ اب یہ براہ راست اِن لوگوں کو توبہ اور توبہ کے لیے صدقہ و انفاق کی ترغیب ہے۔
۲۷۳؎ آگے آیت ۱۱۸سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین آدمی تھے۔ روایتوںمیں اِن کے نام کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع بیان ہوئے ہیں۔ تبوک کے موقع پر جو کمزوری اِن سے صادر ہوئی، اُس کا اِنھوں نے بھی نہایت سچائی کے ساتھ اعتراف کر لیا تھا، مگر اللہ نے اپنے علم و حکمت کے تقاضے سے اِن کا معاملہ موخر کر دیا اور فرمایا کہ ابھی دیکھیں گے کہ اِنھیں سزا دی جائے یا معاف کیا جائے۔اِس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ زیر عتاب ہیں اور اللہ ابھی اِن سے راضی نہیں ہوا۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ جس درجے اور مرتبے کے یہ لوگ تھے، اُس کے لحاظ سے اِس طرح کی کمزوری اِن سے متوقع نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر اپنی اِس غلطی کا اُس شدت کے ساتھ اِنھوں نے احساس بھی نہیں کیا، جس شدت کے ساتھ اُس کا احساس اِنھیں کرنا چاہیے تھا۔ چنانچہ تزکیہ و تطہیر کے لیے اِن کا معاملہ موخر کر دیا گیا۔
۲۷۴؎ اِس جملے میں خبر محذوف ہے۔ آگے ’وَلَیَحْلِفُنَّ‘ کا جملہ اُسی پر عطف ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ منافقین کے سب سے زیادہ شریر گروہ کا ذکر ہے۔ اِن لوگوں کی جس شرارت کی طرف یہاں اشارہ ہے، وہ یہ ہے کہ اگرچہ مدینہ میں دو مسجدیں پہلے سے موجود تھیں، ایک مضافات شہر میں مسجد قبا، دوسری شہر کے اندر مسجد نبوی، لیکن اِنھوں نے اپنے مفسدانہ اغراض کے لیے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی ایک الگ مسجد بنائی۔ مقصود تو اِن کا یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں وہ کرنا چاہتے تھے، اُس کے لیے ایک اڈا مہیا کریں، لیکن اُس کو نام مسجد کا دیا تاکہ اِس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر اپنی دین داری کی دھونس بھی جمائیں اور اپنے مقاصد بھی پورے کر سکیں۔ اُس کو مسلمانوں کی نظروں میں مقبول اور مقدس بنانے کے لیے اِنھوں نے یہ کوشش بھی کی کہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں ایک مرتبہ نماز پڑھ دیں تاکہ اُس کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں وہی احترام حاصل ہو جائے جو مسجد قبا کو حاصل ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کے اغراض مشئومہ بھانپ کر پہلے تو اِن کو ٹال دیا، پھر جب اُس کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہو گئیں تو اُس میں نماز پڑھنا تو الگ رہا، آپ نے تبوک سے واپسی پر اُس کو گروا بھی دیا***۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۴۱)
۲۷۵؎ مطلب یہ ہے کہ ہمارے پیش نظر تو صرف اتنی بات تھی کہ اللہ کے ذکر اور اُس کی عبادت کے لیے ایک جگہ اور بنادی جائے اور جو مسلمان اندھیری راتوں یا سردی اور بارش میں مسجد کی دوری کے باعث جماعت کی حاضری سے محروم رہ جاتے ہیں، وہ بھی جماعت کا ثواب حاصل کر سکیں۔
۲۷۶؎ اصل میں ’اَحَقُّ‘ کا لفظ ہے، مگر موقع کلام سے واضح ہے کہ یہ نسبت اور تقابل سے مجرد ہو کر آیا ہے۔ عربی زبان میں ’اَفْعَلُ‘ اِس طریقے سے بھی آتا ہے۔
۲۷۷؎ جملے کا اسلوب بتا رہا ہے کہ اِس سے مسجد قبا مراد ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد ضرار اِسی کے توڑ پر بنائی گئی تھی***۔
۲۷۸؎ اِس میں، اگر غور کیجیے تو مسجد قبا کے نمازیوں کی تعریف کے ساتھ مسجد ضرار کے مفسدین پر تعریض بھی ہے کہ یہ ظاہر و باطن ، دونوں میں آلودئہ غلاظت ہیں اور اللہ اِس طرح کے لوگوں کو سخت نا پسند کرتا ہے۔
۲۷۹؎ یعنی اُس منزل کی راہ نہ دکھائے گا جو قیامت میں اہل ایمان کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
۲۸۰؎ یہ تعلیق بالمحال کا ایک خوب صورت اسلوب ہے۔ ہم اپنے محاورے میں کہتے ہیں کہ یہ داغ اب کپڑے کے ساتھ ہی جائے گا۔ اِسی طرح فرمایا ہے کہ ’اِلاَّ ٓاَنْ تُقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ‘۔
۲۸۱؎ اسلام کی حقیقت یہی بیع و شرا ہے، لیکن یہاں خاص طور پر اِس کا حوالہ اِس لیے دیا ہے کہ پیغمبر کی موجودگی میں اِس بیع و شرا کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اُس کے ماننے والے منکرین حق کے لیے خدا کے عذاب کا تازیانہ بن جائیں اور اُن کو ماریں، خواہ اُن میں سے بعض اِس کے نتیجے میں خود بھی مارے جائیں۔پیچھے جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے، اُن کے نفاق کا اصلی سبب یہی تھا کہ وہ خدا سے اپنے جان و مال چراتے تھے۔ چنانچہ واضح کر دیا ہے کہ پیغمبر کے ہاتھ پر جو بیعت کی جاتی ہے، اُس کا سب سے بڑا تقاضا اِس وقت خدا کی راہ میں قتال ہی ہے۔
۲۸۲؎ یعنی جان و مال کی قربانی کے عوض جنت کا وعدہ۔ انجیل میں جس چیز کو آسمانی بادشاہی سے تعبیر کیا گیا ہے ، وہ یہی ہے۔ پیغمبر کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو جو بادشاہی دنیا میں حاصل ہوتی ہے، وہ اِسی کی ابتدا ہے۔ تورات کے مترجمین نے اِسی بنا پر ہر جگہ اِسے ایک ایسے ملک پر چسپاں کر دیا ہے، جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے، یعنی فلسطین کی سرزمین جس کے وہ دنیا میں امیدوار تھے۔
۲۸۳؎ اصل میں مبتدا محذوف ہے، یعنی ’ھم التائبون‘۔ یہ منافقین کے سامنے اُن اوصاف کی وضاحت کر دی ہے، جن کا حامل ہر سچے مومن کو ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ ایمان کے تقاضے کیا ہیں اور کون سا رویہ کفر اور نفاق میں داخل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہاں اہل ایمان کے کردار کے جو اجزا بیان ہوئے ہیں، اُن میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر ہے۔ توبہ کے معنی رجوع الی اللہ کے ہیں۔ خدا کی بندگی اور اطاعت کی راہ میں بندے کا پہلا قدم یہی ہے کہ وہ شیطانی راہوں میں ہرزہ گردی چھوڑ کر اپنے رب کی طرف لوٹتا ہے اور اُس کی صراط مستقیم پر چلنے کا عزم کرتا ہے۔ پھر یہی توبہ ہے جو ہر گام پر اُس کو سنبھالتی ہے۔ جب کبھی اُس کا کوئی قدم راہ سے بے راہ ہو جاتا ہے، یہ توبہ اُس کی دست گیری کرتی اور اُس کو راہ پر لگاتی ہے۔
توبہ کے بعد عبادت کا ذکر ہے۔ یہ خدا کے سب سے بڑے حق کا حوالہ ہے۔ جو بندہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے، اُس پر خدا کا اولین حق اُس کی عبادت کا عائد ہوتا ہے اور چونکہ خدا کے سوا کوئی اور اِس حق میں ساجھی نہیں ہے، اِس وجہ سے اِس کا بلاشرکت غیرے ہونا اِس کی صفت لازمی ہے اور ساتھ ہی اطاعت بھی چونکہ اِس کا بدیہی تقاضا ہے، اِس وجہ سے وہ بھی اِس کا جزو لاینفک ہے۔ عبادت کے ساتھ حمد کا ذکر ہے جو تمام عبادات کی روح ہے، اِس لیے کہ نماز اور زکوٰۃ وغیرہ۔۔۔سب خدا کی شکرگزاری اور اُس کی نعمتوں کے اعتراف کے مظاہر ہیں۔ اگر بندے کے اندر شکرگزاری اور اعتراف نعمت کا جذبہ بطور ایک صفت کے راسخ نہ ہو تو نہ تو وہ عبادت کا حق ادا کرنے پر آمادہ ہی ہوتا ہے اور نہ اُس کی عبادت کے اندر کوئی روح ہی ہوتی ہے۔
اِس کے بعد سیاحت کا ذکر ہے ۔۔۔یہ اُن تمام سرگرمیوں، مشقتوں اور ریاضتوں کی ایک جامع تعبیر ہے جو آدمی اپنے ظاہر و باطن کی تربیت و اصلاح، دین کو سمجھنے اور سمجھانے، اُس کو پھیلانے اور بڑھانے کے لیے والہانہ اور سرفروشانہ اختیار کرتا ہے اور جن کی راہ میں اپنی زندگی کی لذتیں، راحتیں، امنگیں اور خوشیاں بے دریغ قربان کرتا ہے۔
پھر نماز کاذکر ہے جس کے لیے ’الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ نماز کاذکر قرآن میں جہاں جہاں اِس اسلوب سے ہوا ہے، وہاں صرف فرض نمازیں مراد نہیں ہیں، بلکہ خلوت کی نمازیں مراد ہیں۔ یہی نمازیں اُن تمام چیزوں کی محافظ بھی ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور یہی اُس ریاضت کو بھی زندگی اور نشوونما بخشتی ہیں جو سیاحت کے لفظ سے تعبیر کی گئی۔
اِس کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر ہے۔ اوپر جو باتیں بیان ہوئی ہیں، اُن کا بیش تر تعلق فرد کی اپنی اصلاح و تربیت سے ہے۔ اب یہ اُن کا تعلق قوم اور جماعت کے ساتھ واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ نیکی کاحکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے ہیں۔ وہ دوسروں کے خیر و شر سے بے تعلق رہ کر زندگی نہیں گزارتے، بلکہ دوسروں کی اصلاح و تربیت کے لیے بھی اپنے اندر تڑپ رکھتے ہیں اور اپنی طاقت و صلاحیت کے مطابق اصلاح منکر کافرض انجام دیتے ہیں۔
آخر میں حفظ حدود اللہ کا ذکر ہے۔ یہ درحقیقت تقویٰ کی تعبیر ہے اور خاتمہ پر ایک ایسی صفت کا حوالہ دے دیا گیا ہے جو سب سے زیادہ جامع ہے۔ یعنی وہ زندگی کے تمام مراحل میںبرابر چوکنے رہتے ہیں کہ خدا نے جو حدود قائم فرمائے ہیں، اُن میں سے کوئی حد ٹوٹنے نہ پائے۔ نہ وہ خود کسی حد کو توڑنے کی جسارت کرتے ہیں اور نہ اپنے امکان کی حد تک کسی دوسرے کو اُس کے توڑنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۴۷)
۲۸۴؎ اِس جملے کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔
[باقی]
_______
* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۲/ ۵۰۵۔
** تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۲/ ۵۰۸۔
*** تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۲/ ۵۰۹۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ