مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر۔ اعظم گڑھ یوپی بھارت) سے یہ غم انگیز اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مدرسہ کے ناظم جناب حاجی رشید الدین صاحب انصاری ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۹ء کی صبح کو رحلت فرما گئے۔ حاجی صاحب مرحوم، استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے حقیقی بھائی تھے۔ مولانا کے انتقال کے بعد انھی نے مدرسہ کی نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور پھر مدرسہ کی خدمت ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اب اگرچہ کچھ سالوں سے ضعف و پیری کے سبب سے معذور و مجبور ہو گئے تھے، کسی عملی خدمت میں کوئی حصہ نہیں لے سکتے تھے، لیکن مدرسہ کے ساتھ ان کا قلبی و روحانی تعلق قائم تھا اور یہ تعلق بہت سی برکتوں کا باعث تھا۔ مجھے حاجی صاحب مرحوم کے ساتھ ۱۳ / ۱۴ سال مدرسہ کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ اس پوری مدت کے ذاتی تجربات کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ان کو نہایت شریف، نہایت کریم النفس، نہایت رقیق القلب، نہایت خدا ترس، نہایت محبت کرنے والا اور لوگوں کے کام آنے والا انسان پایا۔ وہ کسی کو ضرر پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ کسی کی تکلیف اور پریشانی کا حال سنتے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ اگر کوئی شخص اپنے کسی کام میں مدد کا طالب ہوتا تو خواہ وہ کوئی چھوٹا آدمی ہو یا بڑا، فوراً اس کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور اس کا کام کر کے بہت خوش ہوتے۔ اپنے بڑے بھائی یعنی مولانا مرحوم سے ان کو محبت عشق کے درجہ تک تھی۔ مولانا مرحوم کو بھی ان سے بڑی محبت تھی۔ ان دونوں بھائیوں کی محبت جاننے والوں کے حلقہ میں ضرب المثل رہی ہے۔ مولانا کی زندگی میں یہ اپنی وسیع زمین داری کا انتظام دیکھتے اور مولانا مرحوم اپنے علمی و مذہبی کاموں میں مشغول رہتے۔ مولانا کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ میرے اور رشید کے حال پر سعدی کی وہ حکایت صادق آتی ہے، جس میں انھوں نے دو بھائیوں کا حال لکھا ہے کہ ’دو برادر بودند۔ یکے علم آموخت دیگرے مال اندوخت۔‘ مولانا مرحوم کے فیض صحبت سے قرآن مجید کی تلاوت سے بڑی گہری دلچسپی ہو گئی تھی۔ روزانہ صبح کو تلاوت بڑے اہتمام سے کرتے اور چونکہ عربی نہیں جانتے تھے اس وجہ سے بہت سے اردو انگریزی ترجمے سامنے رکھ کر قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے۔ غالباً ۱۹۵۱ء یا ۱۹۵۲ء میں مجھ سے آخری ملاقات ہوئی تو چپکے سے میرے کان میں فرمایا کہ ’امین! چند رکعتیں تہجد کی بھی پڑھنے کی توفیق مل جاتی ہے۔‘ یہ سب مولانا مرحوم سے دلی محبت کا فیضان تھا۔
مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر) دلی ہمدردی کا مستحق ہے کہ یکے بعد دیگرے اس کے دو ستون گر گئے۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مولانا کے عزیز ترین اور قابل ترین شاگرد اور مدرسہ کے صدر مدرس مولانا اختر احسن صاحب مرحوم نے انتقال فرمایا۔ اور اب اکتوبر ۱۹۵۹ء میں مولانا کے عزیز ترین بھائی اور مدرسہ کے ناظم، جناب حاجی رشید الدین صاحب مرحوم نے رحلت فرمائی۔ یہ دونوں حادثے مدرسہ کے لیے بڑے ہی سخت ہیں۔ ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مرحومین کو جنت نصیب کرے اور مدرسہ کو ان کے نعم البدل عطا فرمائے۔
میں اب کن لفظوں میں بتاؤں کہ ان دونوں ہی ہستیوں سے میرے ذاتی تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔ دل کی بہت سی باتیں الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتیں اور جو بات ادا نہ ہو سکے، اس کا راز نہفتہ ہی رہنا بہتر ہے۔ بس ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں اور اپنے لیے اس بات کی دعا کہ جو فرصت حیات میسر ہے، وہ رب کی رضا کے کاموں میں بسر کرنے کی توفیق حاصل ہو۔(ماہنامہ میثاق لاہور، دسمبر۱۹۵۹ء)
___________