بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَجَآئَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَھُمْ وَقَعَدَ الَّذِیْنَ کَذَبُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۹۰}
لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآئِ وَلَا عَلَی المَرْضٰی وَلَاعَلَی الَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۹۱} وَّلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَھُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ{۹۲} اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ وَھُمْ اَغْنِیَآئُ رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ{۹۳}
یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنْ اَخْبَارِکُمْ وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ{۹۴} سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَکُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْھِمْ لَتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمْ اِنَّھُمْ رِجْسٌ وَّمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ{۹۵} یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ{۹۶} اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۹۷}
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّیَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَ عَلَیْھِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۹۸} وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ اَلَآ اِنَّھَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ سَیُدْخِلُھُمُ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۹۹}
بدوی۲۵۶؎ عربوں میں سے بھی بہانہ کرنے والے آئے کہ اُنھیں بھی (پیچھے رہنے کی) اجازت مل جائے اور جنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول سے (ایمان کا) جھوٹا عہد کیا تھا، وہ (اِس کے بغیر ہی گھروں میں) بیٹھے رہے۲۵۷؎۔ اِن کے منکروں کو عنقریب ایک دردناک عذاب پکڑے گا۔۲۵۸؎۹۰
اُن لوگوں پر ، البتہ کوئی گناہ نہیں جو کمزور ہیں اور اُن پر جو بیمار ہیں اور اُن پر بھی جو خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتے، جبکہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں۲۵۹؎۔ ایسے نیک کاروں پر کوئی الزام نہیں ہے اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اِسی طرح اُن پر بھی کوئی الزام نہیں ہے کہ جب تمھارے پاس آتے ہیں کہ اُن کے لیے سواری کا بندوبست کر دو، تم کہتے ہو کہ میں تمھارے لیے سواری کا بندوبست نہیں کر سکتا تو اِس طرح لوٹتے ہیں کہ اُن کی آنکھوں سے اِس غم میںآنسو بہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے خرچ پر جانے کی مقدرت نہیں رکھتے۔ الزام تو اُن لوگوں پر ہے جو تم سے رخصت مانگتے ہیں، دراں حالیکہ وہ مال دار ہیں۔وہ اِس پر راضی ہو گئے کہ اُن کے ساتھ ہوں جو پیچھے (گھروں میں) بیٹھنے والی ہیں اور اللہ نے (اِس کے نتیجے میں) اُن کے دلوں پر مہر کر دی۔ اب وہ کچھ نہیں جانتے (کہ کس انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں)۔۹۱-۹۳
تم لوگ (اِس سفر سے) اُن کی طرف پلٹو گے تو وہ تمھارے سامنے طرح طرح کے عذرات پیش کریں گے۔ تم صاف کہہ دینا کہ بہانے نہ بنائو۔ ہم تمھاری کسی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔ اللہ نے ہم کو تمھارے حالات بتا دیے ہیں۲۶۰؎۔اب اللہ اور اُس کا رسول تمھارا عمل دیکھیں گے، پھر تم اُس کے سامنے پیش کیے جائو گے جو کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے اور وہ تمھیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔تمھاری واپسی پر وہ تمھارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ تم اُن سے صرف نظر کرو۔ تو اُن سے صرف نظر ہی کر لو،۲۶۱؎ اِس لیے کہ وہ سراسر گندگی ہیں اور اُس کے بدلے میں جو کماتے رہے، اُن کا ٹھکانا جہنم ہے۔ وہ تمھارے سامنے قسمیں کھائیں گے کہ تم اُن سے راضی ہو جائو۔ سو اگر تم راضی ہو بھی جائو تو ایسے بد عہدوں سے اللہ ہرگز راضی ہونے والا نہیں ہے۔ یہ بدوی عرب کفر اور نفاق میں زیادہ سخت اور اِسی لائق ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ اتارا ہے، اُس کے حدود سے بے خبر رہیں۲۶۲؎۔اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔۹۴-۹۷
اِن بدویوں میں وہ بھی ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کو ایک تاوان سمجھتے ہیں اور تمھارے لیے زمانے کی گردشوں کے منتظر ہیں۔ بری گردش اِنھی پر ہے اور اللہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ اور اِنھی بدویوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اُس کو اور رسول کی دعائوں کو ۲۶۳؎خدا کے ہاںتقرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سو اِس میں شبہ نہیں کہ یہ دونوں اُن کے لیے تقرب کا ذریعہ ہیں۲۶۴؎۔ اللہ اُن کو ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۹۸-۹۹
۲۵۶؎ پیچھے شہری منافقین کا رویہ زیر بحث تھا جو مدینہ اور اُس کے گرد و نواح میں رہتے تھے۔ یہاںسے آگے اُن منافقین کا ذکر شروع ہوتا ہے جو دیہات میں رہتے تھے۔
۲۵۷؎ یعنی کوئی جھوٹا سچا عذر پیش کرنے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی۔
۲۵۸؎ یعنی اِن بدوی عربوں کے منکروں کو۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِن میں سچے اہل ایمان بھی تھے جو دین کی نصرت کے ہر موقع پر ایثار و قربانی کے لیے پیش پیش رہتے تھے۔
۲۵۹؎ یہ قید نہایت اہم ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اِس لیے کہ بہت سے مریض اور غریب ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو گھر بیٹھے بیٹھے اپنی ریشہ دوانیوں اور فتنہ پردازیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ اِس قسم کے لوگ گناہ سے بری نہیں ہوں گے۔ گناہ سے بری صرف وہی ہوں گے جو اپنی کمزوری، بیماری یا غربت کے سبب سے اگر میدان جنگ میں نہ پہنچ سکیں توجہاں ہیں، وہیں اپنے امکان کے حد تک اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کریں اور اگر کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے اپنے بستروں پر اور گھروں میں صدق دل سے اسلام اور مسلمانوں کی فتح مندی کی دعائیں اور اپنی محرومی پر غم کریں کہ افسوس ہے کہ وہ جہاد کے اہل نہیں رہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۲۶)
۲۶۰؎ آیت میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور اُنھی کے لحاظ سے ہر جگہ جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں، مگر لفظ ’قُلْ‘ واحد ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سب مسلمانوں کی طرف سے منافقین کو جواب دلوادیا گیا ہے۔ گویا پیغمبر کی زبان تمام مومنین مخلصین کے دلوں کی ترجمان ہے۔ پیغمبر اور امت کے درمیان جو اعتماد، جو حسن ظن اور جو کامل ہم آہنگی تھی، یہ اسلوب اُس کو بھی نہایت لطیف طریقے سے ظاہر کر رہا ہے اور اِس میں منافقین پر تعریض کا جو پہلو ہے، وہ بھی نمایاں ہو رہا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۲۷)
۲۶۱؎ اصل میں لفظ ’اِعْرَاض‘ آیا ہے۔ یہ، اگر غور کیجیے تو نہایت بلاغت کے ساتھ دو مختلف، بلکہ متضاد معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پہلے درگذرکر لینے کے معنی میں اور اِس کے بعد منہ پھیر لینے کے مفہوم میں۔ یعنی وہ تم کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے کہ جو کچھ ہو چکا ہے، اُسے نظر انداز کرو۔ سو ٹھیک ہے، اُنھیں اب نظر انداز ہی کردو۔ اِس طرح کی گندگی کو نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہے۔
۲۶۲؎ اِس لیے کہ اُنھوں نے کبھی اِن حدود کو سمجھنے اور اِن میں بصیرت پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ اور بصیرت اُنھی کو عطا فرماتا ہے جو اپنے آپ کو اِس کا سزاوار ثابت کرتے ہیں۔
۲۶۳؎ یعنی وہ دعائیں جو اُن کے ایمان و اخلاص اور اِس انفاق کے نتیجے میں اُن کو حاصل ہوتی ہیں۔
۲۶۴؎ اصل الفاظ ہیں:’اَلاَ اِنَّھَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ‘۔ اِن میں ضمیر مونث سے غلط فہمی نہ ہو۔ قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے، اُس کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جب ایک مذکر اور مونث کو جمع کرکے اُن کے لیے کوئی منصوب یا مجرور ضمیر لانا پیش نظر ہو تو وہ جس طرح عام قاعدے کے مطابق مثنیٰ صورت میں آتی ہے، اِسی طرح اگر معنی میں ابہام کا اندیشہ نہ ہو اور مذکر و مونث ، دونوں کی طرف ضمیر کے رجوع کے قرائن بالکل واضح ہوں تو واحد مونث بھی آسکتی ہے، بلکہ کلام عرب کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے مواقع پر یہ بالعموم واحد مونث ہی آتی ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ