[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
(۱) وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا.(النساء ۴: ۳۴)
’’اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں سمجھاؤ پھر خواب گاہوں میں ان کو الگ کر دو اور انھیں (بطور تنبیہ کے ہلکی) ضرب لگاؤ، پھر اگر وہ تمھارا کہا مان لیں تو انھیں ایذا پہنچانے کی راہ تلاش نہ کرو۔ بے شک، اللہ سب کے اوپر اور سب سے زیادہ بڑائی رکھنے والا ہے۔‘‘
(۲) وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَآ اَنْ یُصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.(النساء ۴ :۱۲۸)
’’اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے سرکشی یا کنارہ کشی کا اندیشہ ہو تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہ ہو گا اگر کوئی مصالحت کی قرارداد آپس میں ٹھہرا کر صلح کر لیں۔ (نااتفاقی سے) صلح بہرحال بہتر ہے۔ اور انسانی طبیعتوں میں بخل موجود ہوتا ہے۔ اور اگر تم احسان کرو اور تقویٰ کرو تو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
سب سے پہلے ہم مذکورہ آیات میں لفظ ’نشوز‘ پر لغت کی رو سے بحث کریں گے تاکہ اس کے حقیقی اور مجازی معنوں کا تعین ہو سکے۔
’’مقاییس اللغۃ‘‘ میں ابن فارس کا قول ہے کہ نون، شین اور زا، یہ تینوں حروف بلندی اور اونچائی پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ ’النشز‘ اونچی اور بلند جگہ کو کہا جاتا ہے۔ امام راغب نے بھی ’’مفردات‘‘ میں ’نشز‘ کے معنی بلند جگہ کے کیے ہیں۔ انھوں نے ایک محاورہ نقل کیا ہے ’نشز فلان عن مقرّہ‘ یعنی فلاں اپنی جگہ سے اوپر ابھرا اور ہر اوپر اٹھنے والی چیز کو ’ناشِز‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً ’جِبین ناشز‘ ابھری ہوئی پیشانی، ’عرِق ناشِز‘ ابھری ہوئی رگ کو کہتے ہیں۔
اس کے ایک معنی بیٹھنے سے اٹھ کھڑے ہونا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا.(المجادلہ ۵۸: ۱۱)
’’جب کہا جائے کھڑے ہو جاؤ تو کھڑے ہو جایا کرو۔‘‘
امام ابن تیمیہ نے ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ (۱۴/۲۱۱) میں اس کے معنوں میں بلندی کے ساتھ سختی کا بھی اضافہ کیا ہے، یعنی بلند اور سخت زمین۔
لغوی تشریح سے ثابت ہوا کہ لفظ ’نشوز‘ کے اصل معنی اونچی اور سخت زمین کے ہیں اور دوسرے، جیسا کہ قرآن میں آیا کہ بیٹھا ہوا شخص اگر اٹھ کھڑا ہو تو اسے بھی ’نشوز‘ کہا جاتا ہے۔ زیر نظر آیات میں لفظ ’نشوز‘ اپنے اصل معنوں میں استعمال نہیں ہوا، بلکہ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پہلے معنی کے اعتبار سے ’نشوز‘ کے مجازی معنی بلندی اور برتری کے ہیں، یعنی اپنے آپ کو برتر سمجھ کر سرکشی اور نافرمانی کرنا، نفرت کرنا اور بغض رکھنا، بدسلوکی کرنا اور علیحدہ ہو جانا ہے۔ دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کے معنی سر اٹھانا اور مخالفت پر اتر آنا ہے۔
اس لفظ کا اطلاق میاں اور بیوی دونوں پر ہوتا ہے۔ میاں بیوی میں سے کسی ایک کا احساس برتری ایک کو دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھنے دیتا۔ ان میں سے کسی ایک کا مخالفت پر اتر آنا، سرکشی کرنا، نفرت کرنا، جھگڑنا، بدسلوکی کرنا اور ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جانا ہے۔ امام رازی سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۲۸ کے تحت فرماتے ہیں کہ ’نشوز‘ کے معنی دونوں (میاں بیوی) کا ایک دوسرے سے نفرت کرنا ہے۔ صاحب ’’روح المعانی‘‘ نے لکھا ہے: ’نشوز‘ کے معنی کسی سبب سے ایک کا اپنے آپ کو برتر سمجھ کر دوسرے سے اعراض کرنا ہے اور اس کا اطلاق زوجین میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے۔ امام قرطبی نے ابو منصور لغوی کا قول نقل کیا ہے کہ ’نشوز‘ زوجین کی ایک دوسرے سے نفرت کو کہا جاتا ہے۔ ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں سید قطب نے ’نشوز‘ کے معنی ازدواجی زندگی میں خرابی بیان کیے ہیں۔
’’لسان العرب‘‘ میں ابواسحاق کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ’نشوز‘ سے مراد یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ ’’تاج العروس‘‘ میں ابو اسحاق کا قول نقل کرنے کے بعد لکھا گیا ہے کہ اس کے علاوہ شوہر بیوی پر سختی کرتا اور مارتا ہے اور ایذا پہنچاتا ہے۔ ’’المعجم الوسیط‘‘ میں ہے: عورت نے ’نشوز‘ کیا یا خاوند نے، اس کے معنی ہیں کہ اس نے نافرمانی اور بدسلوکی کی۔ عورت بھی ’ناشز‘ ہے اور مرد بھی ’ناشز‘۔ ’نشوز‘ نفسیاتی حالت کی حقیقی تصویر ہے جو نافرمانی اور سرکشی کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے، کیونکہ ’ناشز‘ اونچی زمین کی طرح سر اٹھانا اور بلند ہونا ہے۔ ایسا وہ محض نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے کرتا ہے۔ جس طرح چلتے چلتے ہموار زمین میں خلاف معمول کوئی اونچی اور سخت جگہ آ جاتی ہے بالکل اسی طرح میاں بیوی کی ہموار اور خوشگوار زندگی میں خلاف معمول اونچ نیچ پیدا ہو جاتی ہے۔
’نشوز‘ سے مراد صرف عورت کی طرف سے اپنے شوہر کی نافرمانی ہرگز نہیں جیسا کہ غلط طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اہل لغت اور مفسرین کی مذکورہ تصریحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’نشوز‘ کا ارتکاب میاں اور بیوی سے یکساں ہوتا ہے، مگر بعض مفسرین نے میاں اور بیوی کے ’نشوز‘ کے الگ الگ معنی کیے ہیں جو بالکل مناسب نہیں۔ ان کے ذہن میں میاں کی محض مرد ہونے کے ناتے فضیلت راسخ ہے، وہ کیسے تسلیم کر لیں کہ حاکم اور مالک نافرمان اور سرکش ہو سکتا ہے، وہ تو بس مار سکتا ہے اور تکلیف پہنچا سکتا ہے ۔ شادی بیاہ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کی رو سے بیوی خاوند کے حقوق ادا کرتی ہے اور خاوند بیوی کے۔ جو بھی حقوق ادا نہ کرے گا، اسے ہم نافرمان اور سرکش کہیں گے۔ اگر مرد بیوی کے حقوق تسلیم کرنے سے انکار کرے گا تو اسے نافرمان نہ کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟
بعض مفسرین نے بیوی کی نافرمانی کے ضمن میں ایسی باتیں لکھی ہیں جن پر کسی طرح بھی ’نشوز‘ کا اطلاق نہیں ہوتا، مثلاً امام رازی النساء (۴: ۳۴) کے تحت فرماتے ہیں کہ ’نشوز‘ قولاً بھی ہوتا ہے اور فعلاً بھی۔ قولاً ’نشوز‘ یہ ہے کہ پہلے بیوی میاں کے بلانے پر لبیک کہتی تھی اور جب اس سے وہ ہم کلام ہوتا تھا تو میٹھی میٹھی باتیں کرتی تھی پھر اس کے رویہ میں تبدیلی آ گئی، اور فعلاً ’نشوز‘ یہ ہے کہ جب وہ گھر میں داخل ہوتا تھا تو وہ احتراماً کھڑی ہو جاتی تھی اور جب وہ خواہش کرتا تھا تو بیوی دوڑ کر خوشی خوشی اس کے بستر کی طرف آ جاتی تھی، اب بدل گئی۔ اس قسم کی علامات ’نشوز‘ کے خوف کو حتمی شکل عطا کر دیتی ہیں۔ امام صاحب سمجھتے ہیں کہ عورت جذبات سے عاری ہوتی ہے۔ وہ انسان نہیں موم کی ناک ہے جسے خاوند اپنی خواہش کے مطابق موڑ لیتا ہے۔ شادی کے ابتدائی ایام میں عورت کے پاس ان چونچلوں کے لیے وقت ہوتا ہے جب بچے ہو جاتے ہیں تو اس کی توجہ ان چونچلوں سے ہٹ جاتی ہے اور وہ ان سے بڑھ کر اہم کاموں میں مشغول ہو جاتی ہے۔ ’’البحر المحیط‘‘ میں اسی آیت کے تحت عطاء کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ’نشوز‘ یہ ہے کہ عورت عطر نہ لگائے اور شوہر کو اپنے سے روکے رکھے۔ شوہرکے لیے پہلے جو بناؤ سنگار کرتی تھی اب نہ کرے۔ ایسی باتوں کو ’نشوز‘ میں شامل کرنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔
دونوں آیات مبارکہ میں ’نشوز‘ سے پہلے لفظ ’خوف‘ استعمال ہوا ہے۔ امام راغب نے ’’مفردات‘‘ میں لکھا ہے کہ خوف کے معنی ہیں: کسی مکروہ امر کی توقع ایسی علامت سے جو ظنی ہو یا علم کی حد تک پہنچی ہوئی ہو۔ اس کے مقابلہ میں رجاء اور طمع کے معنی ہیں: کسی محبوب امر کی توقع ایسی علامت سے جو ظنی ہو یا علم کی حد تک پہنچی ہوئی ہو۔ ’’کتاب التقریب فی علم الغریب‘‘ میں ہے: ’خاف الشء‘ یعنی اس نے چیز کو جان لیا اور اسے یقین ہو گیا، کیونکہ انسان کسی چیز سے اس وقت تک نہیں ڈرتا جب تک اسے معلوم نہ ہو کہ وہ چیز کیا ہے۔ مسبب بول کر سبب مراد لیا جاتا ہے۔ یہ کتاب ’’المصباح المنیر‘‘ کے مؤلف احمد بن محمد الفیّومی کے بیٹے کی تصنیف ہے۔
اس میں کیا حکمت ہے کہ علم کے بجاے لفظ خوف استعمال ہوا ہے؟ ان جذبات و احساسات کو جو میاں بیوی ایک دوسرے کے بارے میں رکھتے ہیں خوف سے تعبیر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دراصل یہ فعل ان سے صادر نہیں ہونا چاہیے۔ اسی لیے یہ نہیں کہا گیا کہ ’ینشزن وینشزون‘ (وہ سرکشی کرتی ہیں یا کرتے ہیں)۔ میاں بیوی میں پیار، محبت اور ہم آہنگی ایک فطری عمل ہے اور ’نشوز‘ ایک غیر فطری عمل ہے۔ اس لیے اللہ نے اس خلاف فطرت عمل کو براہ راست ان کی طرف منسوب نہیں کیا۔ یہ عملی نظام اس فطرت کے خلاف ہے جو ہم آہنگی پر قائم ہے اور زوجین کی معاشرت بھی اسی نظام کے مطابق چلتی ہے۔ اس تعبیر میں میاں بیوی کے لیے ایک طرح کی وارننگ ہے کہ تمھارا یہ فعل تمھارے اصل مرتبہ و مقام کے مطابق نہیں، اس سے تمھاری مستقبل کی زندگی معرض خطر میں پڑ جائے گی اور تمھاری شادی کا بندھن ٹوٹ جائے گا، دوسرے اس تعبیر میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اس سرکشی کا وسوسہ یا وہم نہیں ہونا چاہیے۔ خوف کسی فرضی خیال کا نام نہیں، بلکہ کسی برے نتیجہ کے ظاہر ہونے کی توقع ہے جس کی علامتیں یقینی طور پر ظاہر ہو چکی ہوں۔ جہاں خوف کی وجہ سے حقوق اور ذمہ داریوں پر اثر پڑتا ہو، وہاں محض ظنی علامتوں پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی، بلکہ یقینی علامتیں ہونی چاہییں۔ اس طرح ان مفسرین کی رائے بھی بے وقعت ہو جاتی ہے جو ظنی علامتوں پر ہلکی اور یقینی علامتوں پر سخت سزا تجویز کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل آیات کی طرف۔ میاں بیوی اجتماعی فریضہ ادا کرتے ہیں۔ دونوں کے پیش نظر خاندان، سوسائٹی اور نوع انسانی کی بھلائی ہوتی ہے، دونوں کے کاندھوں پر خاندان کی، وطن کی اور انسانیت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان کے درمیان جب کشیدگی پیدا ہو جائے تو قرآن حکیم اس کشیدگی سے بچاؤ کے لیے کچھ اقدام تجویز کرتا ہے تاکہ میاں اور بیوی کے درمیان پیار اور محبت کی فضا قائم رہے اور شادی کا مضبوط بندھن ٹوٹنے نہ پائے۔ یہ میاں اور بیوی کے درمیان کوئی معرکہ نہیں کہ جب بیوی سرکشی کرے تو اس کا سر پھوڑ دیا جائے اور اگر مرد سرکشی کا مرتکب ہو تو کچھ دے دلا کر صلح کر لی جائے۔ قرآن چاہتا ہے کہ اگر میاں اور بیوی کے درمیان نفرت سر اٹھا لے تو دونوں پر واجب ہے کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق مسائل کا حل تلاش کریں۔
اگر عائلی معاملات میں خلل واقع ہو جائے تو دوبارہ ہم آہنگی حاصل کرنے کے لیے قرآن نے ترجیح کے اعتبار سے تین تجاویز پیش کی ہیں۔ ان تجاویز کا تذکرہ مخصوص ترتیب اور تسلسل سے ہے۔ ان تجاویز کے درمیان حرف واؤ استعمال ہوا ہے۔ واؤ عام طور پر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جمہور علما کے نزدیک یہ ترتیب کا فائدہ بھی دیتی ہے۔ آیۂ مبارکہ میں ایک عقلی قرینہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واؤ یہاں ترتیب کے لیے استعمال ہوئی ہے، کیونکہ اگر ترتیب مقصود نہ ہوتی تو مارنے کے بعد نصیحت اور خواب گاہ سے علیحدگی کی کیا ضرورت رہ جاتی؟ صاحب ’’روح المعانی‘‘ نے ’’الکشاف‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیت کی عبارت ترتیب پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ واؤ نرمی اور سختی کے مختلف اجزا پر داخل ہوئی ہے اور وہ اجزا یعنی نصیحت، خواب گاہ سے علیحدگی اور ضرب مرحلہ وار وارد ہوئے ہیں۔ امام رازی نے حضرت علی کے قول کا حوالہ دیا ہے کہ پہلے اسے زبان سے سمجھائے اگر وہ باز آ جائے تو پھر اسے ایذا دینے کے بہانے تلاش نہ کرے۔ اگر وہ نہ مانے تو خواب گاہ سے الگ ہو جائے۔ اگر پھر نہ مانے تو ایک ہلکی ضرب لگائے اور اگر پھر بھی نہ مانے تو پھر میاں بیوی کی طرف سے دو حَکم بھیجے جائیں۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ مراحل میں ترتیب کا انحصار اس بات پر ہے کہ میاں کو بیوی کی سرکشی کا اندیشہ ہو، لیکن جب اس کو یقین ہو جائے تو یہ سارے اقدام ایک ساتھ اٹھائے جا سکتے ہیں۔ یہ قطعی غلط تصور ہے، کیونکہ ترتیب کا انحصار سرکشی کے خوف پر نہیں، بلکہ ان کی حقیقی سرکشی پر ہے جیسا کہ آیت کے آخر میں ’اَطَعْنَ‘ کے فعل سے ظاہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوف کے معنی یقین کیے گئے ہیں۔ صاحب ’’البحر المحیط‘‘ نے آیت کے ضمن میں ابن عطیہ کا قول نقل کیا ہے کہ وعظ و نصیحت خواب گاہ سے علیحدگی اور ضرب مختلف مراحل ہیں اگر ایک مرحلہ میں بیوی مان جائے تو دوسرے مرحلہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ امام زمخشری کا قول ہے: سب سے پہلے وعظ کا حکم ہے پھر خواب گاہ سے علیحدگی کا اور پھر ضرب کا۔
قرآن حکیم میں سرکش عورتوں کی اصلاح کے لیے سب سے پہلے حکم یہ ہے کہ مرد ان کو سمجھائیں۔ جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو وہاں سخت تدبیر سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ایسی عورتوں کی صحیح رہنمائی کرنا، انھیں نصیحت کرنا اور مناسب رویہ اپنانے میں ان کی مدد کرنا شوہروں کی ذمہ داری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بیویوں میں کچھ کمزوریاں ہوں اور ان کے بعض رویے مردوں کو پسند نہ آئیں، ایسی صورت میں ان کی رہنمائی کر کے درست راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ ہر سمجھ دار آدمی جانتا ہے کہ کون سی نصیحت عورت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ نصیحت ہر عورت کی نفسیات کو سامنے رکھ کر کی جائے گی، بعض عورتوں پر یہ چیز اثر انداز ہو گی کہ ان میں اللہ کی نگرانی، اس کے خوف اور سزا کا شعور پیدا کر دیا جائے۔ کچھ عورتیں ایسی ہیں جن کو دنیا میں برے انجام اور جگ ہنسائی سے ڈرایا جا سکتا ہے اور کچھ کے سامنے تاریک مستقبل کا نقشہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ سلیم الفطرت خواتین کی اصلاح صرف اسی قدم سے ہو جائے گی اور اگلا قدم اٹھانے کی نوبت نہیں آئے گی۔
دوسرا مرحلہ ’وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ‘ (خواب گاہوں میں ان کو الگ کر دو) ’ھجر‘ کے معنی انسان کا اپنے غیر سے الگ ہو جانا ہے، خواہ جسم سے الگ ہو یا زبان سے یا دل سے۔ یہاں ’ھجر‘ کی نسبت ’مضاجع‘ یعنی خواب گاہوں کی طرف ہے۔ یہ کنایہ ہے جنسی ملاپ کو ترک کرنے کا (suspension of sexual relations) یعنی ان سے محبت آمیز کلام اور محبت کا میل جول ترک کر دیا جائے۔ سیدھے سے اس مفہوم کے بجاے مفسرین نے اس جملے کی ایسی ایسی تفسیریں کی ہیں جن سے قرآن کی طہارت پر حرف آتا ہے۔ ’’احکام القرآن‘‘ میں قاضی ابن العربی نے ایسی چار توجیہات کا ذکر کیا ہے جو موضوع کو اور بھی پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ کچھ عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو میاں سے محبت کرتی ہیں۔ محض غصے اور طیش کی وجہ سے ان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے، کچھ مرد کو آزمانا چاہتی ہیں کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ کچھ اپنے حسن کے غرور میں مبتلا ہو کر مرد کو خوبصورت لباس اور زیورات کی خریداری پر آمادہ کرنا چاہتی ہیں اور کچھ کے سر پر خاندانی برتری کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ کچھ کو ان کے خاندان کے لوگ اپنے مفادات کے لیے آمادہ کرتے ہیں کہ وہ یہ رویہ اختیار کریں۔ چنانچہ یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ شریک حیات ہیں مدمقابل نہیں۔ اس مرحلے پردوسرے قدم کی ضرورت پڑے گی۔
بستر کشش و جاذبیت کا مقام ہوتا ہے۔ بیوی کا غرور عروج پر ہوتا ہے۔ اس میدان میں جو عورت کا خاص میدان ہے اگر مرد اپنی قوت ارادی کو استعمال کر کے اپنے آپ پر قابو پا لے تو بیوی کا غرور ٹوٹ جائے گا۔ ایک کمرے میں ایک بستر پر ایک ساتھ سونے سے زوجیت کا شعور ابھرتا ہے۔ جب میاں اس حالت میں بیوی سے منہ موڑ کر سوئے گا تو یہ شعور بیوی سے سوال کرے گا کہ اس کا سبب کیا ہے؟ وہ اس سبب کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس طرح ناچاقی ختم ہو جائے گی۔ ایک سلیم الفطرت عورت کے لیے خاوند کی طرف سے ایسا سلوک کافی سزا ہے اور وہ فوراً اپنے رویے کو درست کر لے گی، لیکن اس مفارقت کے بھی کچھ آداب ہیں۔ مرد کو چاہیے کہ خواب گاہ کو نہ چھوڑے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے قول کے مطابق بستر بھی نہ چھوڑے، بلکہ اپنی قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے بیوی کی طرف پیٹھ پھیر لینا ہی کافی ہے۔ یہ مفارقت صرف خواب گاہ تک محدود ہو، جیسا کہ امام طبری نے بہز بن حکیم کی روایت سے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’لا تہجر إلا فی المبیت‘ ’’یعنی صرف خواب گاہ میں علیحدگی اختیار کرو۔‘‘ دوسرے اپنوں اور غیروں کے سامنے اس علیحدگی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اس سے بیوی ذلت محسوس کرے گی اور اس کی سرکشی میں اور بھی اضافہ ہو گا۔ مقصد تو بیماری کا علاج ہے نہ کہ بیوی کو ذلیل کر کے خاندان کو برباد کرنا۔ اگر بچوں کو علیحدگی کا علم ہو گیا تو وہ بھی پریشان ہوں گے۔
تیسرے اور آخری مرحلہ کے بیان سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں ’اہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ‘ کی ایک حیرت انگیز تفسیر کی طرف توجہ دلاؤں۔ امام المفسرین محمد بن جریر طبری آیت کے اس ٹکڑے کے بارے میں کم و بیش چار اقوال دینے کے بعد فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک سب سے بہتر قول یہ ہے کہ ’اھجروھن‘کو ’ھجار‘ سے ماخوذ مان کر یہ ترجمہ کیا جائے اور ان عورتوں کو بستر کے ساتھ اس رسی سے باندھا جائے جس سے اونٹ کے پاؤں باندھے جاتے ہیں اور پھر ان کو جنسی ملاپ پر مجبور کیا جائے۔ یہ تفسیر پڑھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ قرآنی آیت کی کس قدر وحشیانہ اور غیر انسانی تاویل کی جا رہی ہے محض اس لیے کہ مرد کی حاکمیت کو ثابت کیا جائے۔ اللہ بھلا کرے دو بڑے مفسرین کا جنھوں نے اس تفسیر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امام زمخشری نے صرف ایک بلیغ جملہ لکھا ہے کہ یہ تفسیر ان لوگوں نے کی ہے جن کے دماغ بوجھل (ثقال) ہیں، یعنی وہ انسان اور حیوان میں تمیز نہیں کرتے۔ لیکن سب سے اچھی تنقید قاضی ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ نے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کتاب و سنت کے ایک عالم کی یہ کس قدر بڑی لغزش ہے! مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ کس سند کی بنیاد پر انھوں نے یہ تاویل کی ہے۔ ایک روایت کا حوالہ دے کر انھوں نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کا ماخذ یہ روایت ہو جو کہ غریب ہے۔ حیرت ہے کہ عربی لغت پر اتنا عبور ہونے کے باوجود درست بات ان سے اوجھل رہی۔ امام قرطبی اور صاحب ’’البحر المحیط‘‘ نے بھی اس تاویل پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
’’تفسیر المنار‘‘ میں ہے ’واضربوھن‘ (ان کو ہلکی ضرب لگاؤ)۔ امام راغب نے ضرب کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنے کے لکھے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ ہاتھ سے مارنے کے لیے بھی استعمال ہوا اور لاٹھی سے مارنے کے لیے بھی۔یہ بھی ہے کہ سر پر مارو، چہروں پر مارو اور پیٹھ پر مارو۔ مگر زیر بحث آیت میں یہ لفظ مطلق استعمال ہوا ہے، اس کے مفعول کا بھی ذکر نہیں۔ جس طرح الصافات (۳۷: ۹۳) میں ’ضَرْبًا بِالْیَمِیْنِ‘ کا ذکر ہے، اسی طرح یہاں پر بھی یہی معنی مراد ہے۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ استعارۃً ہلکے جسم کے آدمی کو ’ضرب‘ کہا جاتا ہے، اس کو ہلکے پن میں ایک ہلکی ضرب سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
اسلام کی تعلیم ایک خاص طبقہ کے لیے نہیں، بلکہ تمام طبقات کے لیے ہے۔ قرآن نے ان سلیم الفطرت عورتوں کا ذکر کیا جن کی اصلاح پند و نصیحت سے ہو جاتی ہے اور ان سلیم الفطرت کا بھی ذکر کیا کہ ان کی عزت نفس مجروح ہوئے بغیر محض ان کی اصلاح کی غرض سے خواب گاہ میں ان سے علیحدگی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ عورتوں کا ایک طبقہ ہر ملک اور ہر قوم میں ایسا ہے جن کے لیے نہ نصیحت کارگر ہوتی ہے اور نہ محبت کے میل جول کا ٹوٹنا ان پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایسے طبقے کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں: ایک یہ کہ ان کے ساتھ کچھ اور زیادہ سختی کی جائے۔ دوسرے ان کو طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے الگ کر دیا جائے۔ شادی کا بندھن بڑا مضبوط بندھن ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی پاس داری کی جائے اور اس پیمان وفا کو عمر بھر نبھایا جائے۔ کبھی کبھی مذکورہ دونوں اقدامات ناکافی ثابت ہوتے ہیں اور عورت کی سرکشی قائم رہتی ہے تو آخری علاج اور استثنائی صورت کے طور پر تیسرے مرحلے میں مخصوص شرائط کے ساتھ مرد کو عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے۔ صرف ایسی عورتوں پر جو اپنی فطرت اور مزاج کی وجہ سے ضرب کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتیں۔ فرض کریں اگر سو میں سے ایک عورت کی اصلاح مار کے ذریعے ممکن ہو تو اسلام اصلاح کے اس اسلوب کو کیوں ممنوع قرار دے۔ اس آیت مبارکہ میں اصلاحی تدابیر کا تدریجی ذکر بھی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اس تدبیر کو استعمال کرنے کی اس موقع پر اجازت دی گئی ہے جہاں سب تدبیریں ناکام ہو جائیں، جہاں بیوی اپنی فطرت سے بالکل منحرف ہو گئی ہو اور یہ انحراف معمولی نوعیت کا نہ ہو۔ صحیح مسلم کی روایت بتاتی ہے کہ بیوی کو کب مارا جائے گا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا:
إتقوا اللّٰہ فی النساء فإنھن عندکم عوان ولکم علیہن أن لا یوطئن فرشکم أحد تکرھونہ فإن فعلن ذلک فاضربوہن ضربًا غیر مبرّح.
’’عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ وہ تمھارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں (زمانۂ جاہلیت میں ایسی سوسائٹی تھی) اور تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ تمھارے گھر میں کسی دوسرے کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مارو مگر صرف اس طرح کہ مار کا نشان نہ پڑے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مارنے کی اجازت سخت جرم پر ہے۔ کسی خاوند کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بیوی کو پیٹتا رہے۔ عورت کی ہر کوتاہی، غفلت، بے پروائی یا اپنی شخصیت، اپنی راے اور ذوق کے اظہار کی قدرتی خواہش پر اس کو مارنے لگے۔ یہ اجازت دین کا نام لے کر جلاد بننے کے لیے نہیں ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ تجویز عہد نبوت میں کیسے بروے کار لائی گئی۔ دور جاہلیت میں عورتوں پر ہر قسم کا جسمانی اور نفسیاتی تشدد روا رکھا جاتا تھا۔ زیربحث آیت مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب عورت پر ایک عرصے سے مسلط جور و ستم ابھی جاری تھا۔ اس سے ذہن میں زمانۂ جاہلیت کے رسم و رواج کی قرآنی ہدایات کے ساتھ ایک نفسیاتی کش مکش کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ یہ کش مکش زندگی کے مختلف میدانوں میں نظر آتی ہے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اسلامی تعلیمات مسلمانوں کے دل و دماغ میں راسخ نہیں ہوئی تھیں۔ آیت کا واضح مقصد عورت کے اس وقت کے وحشیانہ ظلم کو محض ایک ہلکی ضرب لگانے تک محدود کرنا تھا، نہ کہ مارپیٹ کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس حرکت کے لیے لائسنس جاری کرنا۔ اس سلسلہ میں مرحلہ وار احادیث یوں مروی ہیں:
ابوداؤد، سنن النسائی الکبریٰ اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تضربوا إماء اللّٰہ.(رقم ۲۱۴۶، ۹۱۶۷، ۱۹۸۵)
’’اللہ کی بندیوں کو مت مارا کرو۔‘‘
اس کے بعد حضرت عمر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ ہم اہل قریش کے مرد عورتوں پر غالب تھے۔ ہم مدینہ آئے تو ہم نے دیکھا کہ اہل مدینہ کی عورتیں مردوں پر غالب ہیں۔ ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے مل کر مردوں کے خلاف سرکش ہو گئی ہیں تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور گزارش کی کہ عورتوں نے مردوں کے خلاف بغاوت کر دی ہے تو آپ نے مارنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد عورتوں کے گروہ کے گروہ ازواج مطہرات کے پاس آئے جو اپنے خاوندوں کی شکایت کر رہی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کر کے فرمایا:
لقد أطاف اللیلۃ بآل محمد سبعون إمراۃ کلہن یشکون أزواجہن ولا تجدون اولئک خیارکم. ومعناہ أن الذین ضربوا أزواجھم لیسوا خیرًا ممن لم یضربوا.(التفسیر الکبیر ۱۰/ ۷۳)
’’آج رات ستر عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر والوں کے پاس آئیں۔ یہ لوگ تم میں سے اچھے لوگ نہیں۔ مطلب یہ کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں وہ ان سے اچھے نہیں جو نہیں مارتے۔‘‘
امام رازی کہتے ہیں کہ امام شافعی کا قول ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نہ مارنا زیادہ بہتر ہے۔ ویسے بھی زیربحث حدیث کے بارے میں امام شافعی کا قول ہے کہ مارنے کی اجازت ہے، حکم نہیں۔ قاضی ابن العربی نے ’’احکام القرآن‘‘ میں مشہور تابعی عطاء کا قول نقل کیا ہے:
لا یضربھا وإن أمرھا ونھاھا ولم تطعہ ولکن یغضب علیہا.(۱ /۵۳۶)
’’یعنی بیوی کو مت مارے، خواہ وہ اس کا حکم نہ مانے، ہاں غصے کا اظہار کرے۔‘‘
قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ یہاں مارنے کا حکم مباح کے معنوں میں ہے، مگر مکروہ ہے۔ انھوں نے دلیل کے طور پر عبداللہ بن زمعہ کی حدیث پیش کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
إنی لأکرہ للرجل بضرب أمتہ عند غضبہ ولعلہ أن یضاجعہا من یومہ.(احکام القرآن ۱/ ۵۳۶)
’’میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ آدمی اپنی باندی کو مارے پیٹے، ہو سکتا ہے کہ وہ اسی روز اس سے ہم بستری بھی کرے۔‘‘
عبداللہ بن زمعہ سے مروی ہے:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیضرب أحدکم إمرأتہ کما یضرب العبد ثم یجامعھا فی آخر الیوم.(بخاری، رقم ۴۹۰۸)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو دن کے شروع میں ایسے مارتا ہے جیسے غلام کو مارا جاتا ہے اور دن کے آخر میں اس سے ہم بستری کرتا ہے۔‘‘
کیونکہ مرد اور بیوی کا ملاپ گہرے بندھن اور ایک دوسرے کا جزو ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ایک شریف اور باعزت انسان یہ کیسے گوارا کر سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی ایک جزو کو غلاموں کی طرح کوڑوں سے مارے۔ نہ اسے دل مانتا ہے نہ دماغ۔ ترمذی اور طبرانی نے ایک اور حدیث روایت کی ہے:
خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی.(ترمذی، رقم ۳۸۹۵۔ المعجم الکبیر، رقم ۸۵۳)
’’ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘
ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی بیوی یا خادم کو نہیں مارا اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے کسی کو بھی ضرب نہیں لگائی۔ آپ کے پاس نو بیبیاں تھیں اور بیویوں میں اکثر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں جن سے مرد غضب میں آکر ان پر زیادتی کر بیٹھتے ہیں۔ جو لوگ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نمونہ بنانا چاہتے ہیں، وہ کبھی بھی بیویوں پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔ اگر مارنے کی ضرورت پڑے تو ضرب ہلکی ہو بار بار ایک جگہ پر نہ مارا جائے، اذیت رساں نہ ہو اور اپنے پیچھے نشان چھوڑنے والی نہ ہو، لاٹھی اور کوڑے سے نہ مارا جائے۔ حضرت ابن عباس سے غیر مبرح ضرب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: مسواک یا اس جیسی چیز سے مارا جائے۔ چہرے پر نہ مارا جائے، کیونکہ چہرہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا آئینہ دار ہے۔ مارنا اصلاح کے لیے ہو، نہ کہ انتقام کے لیے دراصل مارنے کا مقصد بیوی میں عظمت اور عزت کے جذبات پیدا کر کے اس میں تحریک پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کم از کم وسائل کا استعمال ضروری ہے۔ مولانا مودودی ’’تفہیم القرآن‘‘ میں زیربحث آیت کے تحت کہتے ہیں ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کو مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے، بادل نخواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند فرمایا ہے‘‘۔
فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً.(النساء ۴: ۳۴)
’’پھر اگر وہ تمھارا کہا مان لیں تو پھر ان کو ایذا دینے کے بہانے نہ تلاش کرو۔‘‘
اللہ نے اس ٹکڑے میں اصلاح کی حد بندی کر کے صحیح راستے کی نشان دہی کر دی ہے۔ ٹکڑے کا مطلب ہے کہ اگر وہ وعظ و نصیحت سے ہی ’نشوز‘ سے رجوع کر لیں تو بستر سے علیحدگی اور ضرب لگانے کے لیے بہانے مت تلاش کرو، یہ ظلم ہے۔ ان الفاظ سے صاف پتا چلتا ہے کہ اوپر کی ترتیب تدریجی ہے۔ اگر پہلے مرحلہ پر عورت مان جائے تو دوسرے مرحلہ کی نوبت نہیں آنی چاہیے، ورنہ حدود سے تجاوز ہو گا، جس پر اللہ کی بارگاہ میں سخت بازپرس ہوگی۔ وہ مرد جو عورتوں پر ظلم کرتے ہیں، ان کو اپنے گھروں میں تو سیادت حاصل ہو جاتی ہے، مگر ان کے بچوں کی تربیت ظلم سہنے کے ماحول میں ہوتی ہے۔ پس وہ بھی غلاموں کے مانند ان کے سامنے ذلیل ہو جاتے ہیں جن کے ساتھ ان کو زندگی گزارنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا.(النساء ۴: ۳۴)
’’بے شک، اللہ بلند اور بہت بڑا ہے۔‘‘
امام طبری ’’جامع البیان‘‘ (۵/ ۷۰) میں فرماتے ہیں: ’’بے شک، اللہ ان سے اور ہر چیز سے بلند ہے۔ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو۔ پس عورتوں پر ظلم کرتے اور ان کی ایذا کے بہانے ڈھونڈتے وقت اللہ سے ڈرو، وگرنہ تمھارا رب جو تم سے بلند تر ہے تم سے ان کا بدلہ لے لے گا۔‘‘آیت کے اس ٹکڑے میں مردوں کے لیے تنبیہ ہے کہ اپنی طاقت کا گھمنڈ نہ کرو اللہ کی طاقت ان کی طاقت سے زیادہ ہے۔ اگر وہ حد سے بڑھ کر ہاتھ اٹھائیں گے تو اللہ ان پر سزا کا ہاتھ اٹھائے گا۔
دوسری آیت النساء (۴: ۱۲۸) میں اللہ نے لفظ ’نشوز‘ میاں بیوی دونوں کے لیے استعمال کر کے بتایا ہے کہ شادی کا معاہدہ طرفین کے درمیان طے پاتا ہے۔ اگر بیوی اس معاہدے میں خرابی پیدا کرنے کی کاوش کرے گی تو وہ سرکش اور نافرمان قرار پائے گی اور اگر میاں اس میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ سرکش اور نافرمان کہلائے گا۔ دونوں کو برابر کی اہمیت دی گئی ہے۔ ’نشوز‘ سے مراد صرف ایک عورت کی طرف سے اپنے شوہر کی نافرمانی ہرگز نہیں، جیسا کہ غلط طور پر سمجھا جاتا ہے۔ سید قطب نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں ’نشوز‘ سے مراد ازدواجی معاملات میں خرابی بیان کیے ہیں۔ زیرنظر آیت میں اس سرکشی اور پہلو تہی کا ذکر ہے جو شوہر کی جانب سے ہوتی ہے جب وہ اپنی بیوی کے سامنے اونچی اور بلند سرزمین کی طرح سر اٹھا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو بلند و برتر سمجھ کر بیوی کی طرف اس نگاہ سے نہیں دیکھتا جس نگاہ سے ایک ساتھی دوسرے ساتھی کی طرف دیکھتا ہے۔ علامات و آثار کا یقین ہونے پر بیوی کو اپنے اور بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہو جاتی ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ علامات بڑھتے بڑھتے جدائی کی صورت اختیار کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت پیدا ہونے سے پہلے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر آپس میں مصالحت کی تجویز دی ہے۔
اللہ نے عورتوں کے بارے میں فتویٰ کا وعدہ کیا ہے۔ زیرنظر آیت میں اللہ نے وہ فتویٰ دیا ہے۔ اس آیت میں عورتوں کے جذبات و احساسات کا خیال کرتے ہوئے اللہ نے لفظ ’نشوز‘ کے ساتھ لفظ اعراض کا اضافہ کیا ہے۔ کم و بیش سب مفسرین نے لکھا ہے کہ مرد کا ’نشوز‘ یہ ہے کہ بیوی سے بدسلوکی کرے۔ وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو، نان و نفقہ کو اور پیار اور محبت کو بیوی سے روکے رکھے اور اسے گالی گلوچ اور مارپیٹ سے ایذا پہنچائے۔ اعراض ’نشوز‘ سے کم تر ہے، یعنی بیوی سے گفتگو نہ کرے اور انس و محبت سے پیش نہ آئے۔ اللہ نے مرد کی روگردانی اور پہلوتہی کو بھی برداشت نہیں کیا، بلکہ اسے ’نشوز‘ ہی کے زمرے میں شمار کیا ہے۔ اس آیت کے سیاق میں تعدد ازواج کے مسئلہ کا ذکر ہے اور بعد والی آیت میں بتایا گیا ہے کہ تم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکتے۔ آیت کے شان نزول میں چار مختلف روایات ہیں، سب کا موضوع یہی ہے کہ مرد دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ سب روایات میں دوسری شادی کے لیے مرد کو حق بجانب سمجھا گیا ہے، خواہ یہ شادی کسی معقول سبب کی وجہ سے ہو، یعنی پہلی بیوی سے اولاد نہ ہو یا وہ مستقل بیمار ہو اور اس کی شفایابی کی امید نہ ہو یا محض لذت پرستی کے سوا کوئی سبب نہ ہو، یعنی بیوی بوڑھی ہو گئی ہو، بدصورت لگنے لگی ہو، لذت پرستی کے لیے جوان اور خوبصورت سے شادی کرنا چاہتا ہو، مقام حیرت یہ ہے کہ ان روایات میں ایک روایت ام المومنین حضرت سودہ کے بارے میں ہے جنھوں نے طلاق کے خوف سے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ کو دے دی تھی۔ روایت بیان کرنے والوں نے اس بات کا خیال نہ کیا کہ بات سرکش خاوند کی ہو رہی ہے۔ کیا نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے تھے؟ وہ تو انتہائی شفیق اور مہربان شوہر تھے، خاوند کو حاکم و مستبد ثابت کرنے کے لیے لوگوں کے منہ سے کیا کیا بے ہودہ باتیں نکل جاتی ہیں؟ امام ابن حزم ’’المحلّی‘‘ (۱۰/ ۹۲) میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت سودہ سن رسیدہ ہو گئیں تو انھوں نے خود ہی اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی، آپ نے طلاق دینے کا قطعی قصد نہیں کیا تھا۔
زیرنظر آیت کا مضمون عام ہے، اسے دوسری شادی کے لیے محدود نہیں کیا جا سکتا۔ بالفرض اگر آیت کے سیاق و سباق کے لحاظ سے ’نشوز‘ کو دوسری شادی تک ہی محدود کر لیا جائے تو پھر بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے دوسری شادی کو سرکشی سے تعبیر کیا ہے۔ ازدواجی زندگی زوجین کے باہمی سکون پر قائم ہے۔ آیت میں اس علامت کی طرف اشارہ ہے جس سے پریشانی کے احساسات ابھرتے ہیں، وہ اس طرح کہ عورت محسوس کرتی ہے کہ مرد اپنے آپ کو برتر سمجھ کر اس کی طرف دھیان نہیں دیتا اور اسے اس کی طرف سے کشیدگی اور بے رخی کا احساس ہوتا ہے۔ خوف کی تعبیر اس اندرونی کش مکش کو ظاہر کرتی ہے جو عورت کو اپنے اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں لاحق ہوتی ہے اور ڈرتی ہے کہ کہیں یہ بڑھتے بڑھتے لاعلاج نہ ہو جائے اور ازدواجی رشتہ ٹوٹ جائے۔ بیوی کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ اس کا میاں تکبر کا شکار ہے اور اس سے بے رخی کرتا ہے۔ محض وہم اور وسوسہ نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ میاں مالی اور سیاسی امور میں مصروف ہو یا علمی گتھی سلجھانے میں لگا ہو یا ان کے علاوہ دینی و دنیوی مسائل میں مشغول ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ تکبر اور بے رخی کی چھان بین کرے۔ اگر اسے پتا چل جائے کہ یہ نفرت اور بغض کی وجہ سے نہیں، بلکہ دوسرے خارجی اسباب کی وجہ سے ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کو معذور سمجھے اور صبر سے کام لے۔
میاں کی جانب سے ہر وہ بات جس سے بیوی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، اس کا اور بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑتا ہو اور گھر کا سکون برباد ہوتا ہو، وہ سرکشی اور پہلو تہی کے زمرے میں شمار ہو گی خواہ وہ محض بدسلوکی یا مارپیٹ کی ایذارسانی کی شکل میں ہو یا محض لذت پرستی کی خاطر، دوسری شادی کا روپ دھار لے یا بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے ناجائز جنسی تعلقات کی صورت میں ہو۔ اس مشکل کا علاج اللہ نے یہ تجویز کیا ہے:
فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَآ اَنْ یُصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ.(النساء ۴: ۱۲۸)
’’تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں (کسی قرار داد پر) صلح کر لیں اور صلح بہرحال بہتر ہے۔‘‘
مرد چونکہ قصوروار ہے، اس لیے صلح کے لیے پہل اسے ہی کرنی پڑے گی۔ اگر میاں کچھ اپنے حقوق کو چھوڑ دے اور کچھ دوسرے کے حقوق پر دست درازی کو چھوڑ دے تو صلح آسانی سے ہو سکتی ہے۔ اصلاح احوال کی غرض سے مرد کو اپنے مال اور خواہشات کی قربانی دینی پڑے گی، کیونکہ مصالحت کے معاملہ میں عموماً روپے پیسے اور خواہشات سدراہ ہو جایا کرتی ہیں۔ اسے اپنی بیوی کو یقین دہانی کرانی پڑے گی کہ وہ سرکشی کے سارے خدشات کو دور کر دے گا، بدسلوکی اور ایذارسانی نہیں کرے گا۔ حرام کاری سے بچے گا اور جنسی لذت کے لیے دوسری شادی نہیں کرے گا یا اگر دوسری شادی کسی معقول سبب کی وجہ سے کرے گا تو وہ پہلے سے بڑھ کر اس کے حقوق کی حفاظت کرے گا اور اس کے لیے اگر زیادہ مال خرچ کرنا پڑا تو وہ ضرور کرے گا اور اسے اور اس کے بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا اور بیوی اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر جذبات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس سے نکاح کی گرہ ٹوٹنے سے بچ جائے گی، اسی لیے ’وَالصُّلْحُ خَیْرٌ‘ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ صلح کا اختیار بیوی کے پاس ہے۔ اس کو صلح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایسا کرنا ظلم ہے۔ بیوی اپنی مصلحت کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گی۔ اگر وہ سمجھے کہ طلاق کے بجاے شوہر کے ساتھ رہنا اس کے حق میں بہتر ہے تو وہ اس کے ساتھ رہے گی اور اگر وہ سمجھے کہ شوہر کی سرکشی کو وہ برداشت نہیں کر سکتی تو وہ اس سے علیحدہ ہونے میں آزاد ہو گی۔ اسلام نے فسخ نکاح کا حق عورت کو دیا ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اس طرف اشارہ کروں کہ اس آیت کی تفسیر میں بھی مفسرین نے مردانہ تعصب سے کام لیا ہے۔ مرد کے قصور وار ہونے کے باوجود وہ صلح کا سارا بوجھ عورت پر ڈالتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مرد پر عورت کے تین حقوق ہوتے ہیں، حق مہر، نان و نفقہ اور شب بسری۔ مرد کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اسے ان تمام حقوق سے یا ان میں سے کچھ حقوق سے دست بردار ہونا چاہیے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان حقوق سے دست بردار ہونے کے بعد وہ بیوی کیسے رہے گی، وہ تو یرغمال بن جائے گی۔ گویا عورت ان کے نزدیک جذبات و احساسات رکھنے والی انسان نہیں، بلکہ ایک بے روح چیز ہے جو شوہر کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنے جذبات اور اپنے بچوں کا مستقبل قربان کر دے گی۔ کیا یہ عادلانہ نظام ہے اور سکون و محبت کی وہ فضا ہے جو اسلام قائم رکھنا چاہتا ہے؟ تعصب نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو بھی انھوں نے حاکم و مستبد شوہروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ.(النساء ۴: ۱۲۸)
’’بخل اور حرص انسانی نفوس کے سامنے حاضر رہتا ہے۔‘‘
’شُحّ‘ اس بخل کو کہتے ہیں جس کے ساتھ حرص جمع ہو۔ بخل تو یہ ہے کہ انسان اپنے کسی حق کو چھوڑنا نہیں چاہتا اور حرص یہ ہے کہ کسی دوسرے کا حق چھیننا چاہتا ہے۔ اگر یہ بخل و حرص نہ ہوں تو صلح آسانی سے ہو سکتی ہے۔ قرآن حکیم کی لغت کے لحاظ سے انتہائی بلیغ تعبیر ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان کی سرشت میں بخل اور حرص داخل ہے، وہ کبھی اس سے غائب نہیں ہوتا۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کو خوش رکھنے کے لیے بخل اور حرص سے کام نہیں لینا چاہیے، بلکہ مل جل کر مصالحت کے عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہیے تاکہ ہر ایک کی وہ خواہش پوری ہو جائے جس کی توقع وہ دوسرے سے کر رہا ہے۔
’اَنْفُس‘ سے مراد نفوس انسانی ہیں جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، مگر بعض مفسرین نے اپنے مردانہ مزاج کے پیش نظر بخل اور لالچ کو عورتوں کے ساتھ خاص کر دیا ہے تاکہ عورت سرکش مرد کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اپنے حقوق کو قربان کرنے میں بخل سے کام نہ لے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرد کوئی آسمانی مخلوق ہے اور حرص و بخل اس کے پاس بھی پھٹک نہیں سکتا۔ امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ بخل اور حرص عورتوں کا خاصہ ہے، حالاں کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ بخل اور حرص کو مرد کی طرف منسوب کیا جائے، کیونکہ سرکشی کا ارتکاب اس کی طرف سے ہو رہا ہے اور وہ اس بات سے بخل کر رہا ہے کہ اپنی زندگی بچوں والی پرانی بیوی کے ساتھ گزارے اور حریص ہے کہ نوجوان نئی نویلی دلہن بیاہ لائے جو اس کے لیے جنسی لذت کا سامان مہیا کرے اور اس کی پہلی بیوی اور بچے صرف دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے ایسا سب کچھ اس کی خواہشات پر نچھاور کر دیں۔ اس سے بڑا استیصال اور بلیک میلنگ اور کیا ہو سکتی ہے؟ کیا یہی ہے پیار، محبت اور سکون کی فضا جو اسلام خاندان کے درمیان قائم کرنا چاہتا ہے؟
وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.(النساء ۴ :۱۲۸)
’’اگر تم احسان کرو اور تقویٰ کرو تو اللہ اس سے جو تم کرتے ہو باخبر ہے۔‘‘
یہاں خاص طور پر عورتوں کے ساتھ معاشرت میں احسان کرنا اور ان کی حق تلفی سے بچنا اور ان کے خلاف سرکشی اور پہلوتہی سے اجتناب کرنا مراد ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ یہاں مردوں سے خطاب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اپنی بیوی کو قائم رکھو، خواہ وہ تمھیں ناپسند ہو اور خواہ تمھیں تمھاری خواہش کے مطابق جنسی لذت حاصل نہ ہوتی ہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے حسن سلوک کا اجر دے گا۔ صاحب ’’البحر المحیط‘‘ نے ماتریدی کا قول نقل کیا ہے کہ ’اِنْ تُحْسِنُوْا‘ سے مراد یہ ہے کہ تم عورتوں کو ان کے حقوق سے بڑھ کر دو۔ ’تَتَّقُوْا‘ سے یہ مراد ہے کہ ان کے حقوق میں سے کچھ بھی کم نہ کرو۔ مولانا امین احسن اصلاحی ’’تدبرقرآن‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’’اِنْ تُحْسِنُوْا‘ اور ’تَتَّقُوْا‘ کے الفاظ سے مرد کو ابھارا گیا ہے کہ ایثار و قربانی اور احسان و تقویٰ کا میدان اصلاً اسی کے شایان شان ہے۔ وہ عورت سے لینے والا بننے کے بجاے اسے دینے والا بنے‘‘۔ گویا دونوں کو صلح صفائی کا مشورہ دینے کے بعد احسان و تقویٰ کی ذمہ داری صرف مردوں پر عائد کی گئی ہے۔ سرکشی چونکہ ان کی طرف سے ہے، اس لیے بیوی سے حسن سلوک اور اس کے حقوق کی پاس داری بھی انھوں نے کرنی ہے۔ امام زمخشری نے اس سلسلہ میں بڑی دل چسپ روایت بیان کی ہے کہ عمران بن حطان خارجی نہایت بدشکل تھا، مگر اس کی بیوی انتہائی خوش شکل، ایک دن بیوی نے عمران کے چہرے پر نظر ڈال کر کہا: الحمدللہ، اس نے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کہا ہے؟ اس نے کہا: میں بھی جنتی ہوں اور تو بھی جنتی ہے۔ وہ کہنے لگا: وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا، کیونکہ تجھے میرے جیسی بیوی ملی تو تو نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے تجھ جیسا شوہر ملا تو میں نے صبر کیا۔ اللہ نے شکر کرنے والے اور صبر کرنے والے بندوں سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
قرآن نے بتایا ہے کہ بیوی کے اچھے برے ہونے کا اندازہ صرف ایک پہلو دیکھ کر نہیں لگانا چاہیے، بالکل اسی طرح مرد کے اچھے یا برا ہونے کا اندازہ صرف ایک پہلو دیکھ کر نہیں لگانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ جو عورت یا مرد صورت کے حسین نہ ہوں، وہ سیرت کے حسین ہوں۔ وفاداری، فرماں برداری، امانت و دیانت، شایستگی اور خوش اخلاقی حسن و جمال ہی کے مختلف انداز ہیں۔
خوبی ہمیں کر شمہ و ناز و خرام نیست
بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست
قرآن نے جو احکام بیان کیے ہیں، ان میں انسانی فطرت اور زمینی حقائق کو سامنے رکھا ہے۔ اگر میاں بیوی کی زندگی میں خلاف معمول کوئی بات ہو جائے تو دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ اگر ان کو خوف ہو کہ وہ اللہ کے قائم کیے ہوئے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان میں سے جو بھی دوسرے سے خلاصی چاہے، وہ دوسرے کو راضی کر لے۔