HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ

حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے بنوازد (بنواسد:ابن ہشام)میں پرورش پائی۔ قدیم الاسلام تھے۔ ان کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے ۔اسلام کی طرف لپکنے والے نفوس قدسیہ میں ان کا نمبرانتالیسواں یا تینتالیسواں تھا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دار ارقم میں جانے سے پہلے ایمان لائے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ماں جائے طفیل بن عبداﷲ ازدی کے غلام تھے۔ام رومان ان دونوں کی والدہ تھیں۔مملوک ہونے اور معاشرہ میں کمزور حیثیت رکھنے کی وجہ سے مشرکوں نے حضرت عامر پر بہت ظلم ڈھائے، لیکن وہ ایمان پر ثابت قدم رہے۔ آخرکار سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں خرید کر آزاد کر دیا اوروہ ان کی بھیڑ بکریاں چرانے لگے۔ حضرت عامر بن فہیرہ ساتویں غلام تھے جنھیں سیدنا ابوبکر نے خود خرید کراﷲ کی رضاجوئی کے لیے آزاد کیا۔ایک روایت ہے کہ فہیرہ حضرت عامر کی والدہ کا نام تھا۔اگر یہ درست ہے تو ان کے والد کا نام کسی تاریخ میں مذکور نہیں ہوا۔ مولا کا لفظ غلام آزاد کرنے والے آقا اور آزادشدہ غلام دونوں کے لیے بولا جاتا ہے ،ان کے باہمی تعلق کو موالات کا نام دیا جاتا ہے۔ عرب کا دستور ہے ،آزاد شدہ کو اپنے مولا کے قبیلے کا رکن سمجھ کر اسی سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اسی نسبت موالات سے حضرت عامر تیمی کہلاتے ہیں، کیونکہ سیدنا ابوبکر کا تعلق بنوتیم سے تھا۔ ابو عمرو۱؂ ان کی کنیت تھی۔ حضرت عامر بن فہیرہ سیا ہ فام تھے۔

اﷲ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان پر آبائی شہر مکہ تنگ پڑ گیا تو اﷲ کی طرف سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا اذن ہوا۔ پہلے حضرت مصعب، حضرت ابن ام مکتوم، حضرت عمار، حضرت سعد، حضرت ا بن مسعود، حضرت بلال اور حضرت عمر پہنچے۔ پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے قصد فرمایا، سیدنا ابوبکرآپ کے ساتھ تھے۔ مشرکین کے تعاقب سے محفوظ رہنے کے لیے آپ مکہ کے باہر واقع غار ثور میں چھپ گئے۔ سیدنا ابوبکر نے اپنے بیٹے حضرت عبداﷲ سے کہا کہ مکہ میں رہ کر دن بھر ان کے بارے میں کی جانے والی باتیں سنے اور رات کو انھیں آ کر بتایا کرے۔ انھوں نے اپنے آزاد کردہ حضرت عامر بن فہیرہ کوبھی حکم دیا کہ رات کے وقت بکریاں ان کے پاس لے آیا کرے۔ سیدنا ابوبکر اور آپ نے غار میں تین دن قیام کیا۔ اس دورا ن میں حضرت عامرکا یہ معمول رہا کہ دن کے وقت دوسرے چرواہوں کے ساتھ بکریاں چراتے اور رات کے اندھیرے میں جبل ثور پر لے آتے۔ سیدنا ابوبکر اور آپ بکریوں کا دودھ دوہ کر پی لیتے۔ یہ روایت بھی موجود ہے کہ ان دنوں میں آپ کی غذا یہی رہی تاہم صحیح یہی ہے کہ اسما بنت ابو بکر نے گھر سے کھانا پکا کر پہنچایا۔ابن اسحاق کی روایت کے مطابق آپ نے بکری ذبح کر کے اس کا گوشت بھی کھایا۔ حضرت عبداﷲ بن ابوبکر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور اپنے والد سیدنا ابوبکر کو مل کر منہ اندھیرے لوٹتے تو حضرت عامر بن فہیرہ ان کے پیچھے اپنا ریوڑ لے کر چل پڑتے۔اس طرح ان کے نقش ہاے قدم مٹ جاتے اور کسی کھوجی کے لیے ان کے رات کے سفر کا سراغ لگانا ممکن نہ رہتا۔تین دن گزر گئے تو مکہ کے لوگ آپ کا کھوج لگاتے تھک گئے۔ تب بنو عبد بن عدی کی شاخ بنو دئل کا غیر مسلم ماہر گائیڈ عبداﷲ بن ارقط(یا اریقط) دو اونٹنیاں لے کر پہنچا۔ان کی قیمت سیدنا ابوبکر ادا کر چکے تھے، لیکن آپ نے ان سے اپنی اونٹنی کے دام طے کر کے بیع مکمل کی تب اس پر سوار ہوئے۔ دوسری اونٹنی سیدنا ابوبکر کے لیے تھی، انھوں نے حضرت عامرکو پیچھے بٹھا لیا۔ حضرت عامر نے آپ ہی کے ساتھ ہجرت کی اور راستہ بھر آپ کی خدمت کرتے رہے۔ پیر چار ربیع الاول کو آپ غار سے نکلے، حضرت عبداﷲ بن اریقط آپ کو مدینہ جانے والے عام راستے کے بجاے ساحل سمندر کے پاس والے رستے سے لے کر گیا۔ اگلے دن جب آپ زیریں مکہ کے ساحل کی طرف نکل آئے تھے، مشرکین کے اعلان کردہ سو اونٹوں کا انعام پانے کی حرص میں بنو مدلج کے سردار سراقہ بن مالک بن جعشم نے تعاقب کرتے ہوئے آپ کو آن لیا۔پاس پہنچ کر اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا اوراس کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔یہ اس کے گھر سے نکلنے کے بعد چوتھی لغزش تھی ۔سراقہ نے گھوڑے کو مارا،پچکارا۔ اس کے پاؤں کسی طور باہر نہ نکلے تو ’امان‘، ’امان‘ پکارا۔امان ملنے پر بدلے میں اس نے اپناتمام مال و متاع آپ کو دینے کی پیش کش کی، آپ نے قبول نہ کی ۔ اس نے آپ کو قریش کی تدبیروں سے بھی آگاہ کیا۔ آپ نے اتنا فرمایاکہ ہمارا سفر مخفی رکھنا پھر سراقہ کی التجا پر دعا فرمائی کہ گھوڑا زمین سے چھوٹ جائے ۔آخر میں سراقہ نے درخواست کی کہ اسے پروانۂ امن لکھ دیا جائے۔ حضرت عامر بن فہیرہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر دستاویز امان لکھی تو وہ لوٹ گیا۔

سفر ہجرت کی پہلی منزل قبا میں حضرت بنوعمرو بن عوف کا محلہ تھا جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر اور حضرت عامر بن فہیرہ نے تین دن یا اس سے کچھ زیادہ قیام کیا۔ مدینہ پہنچ کر حضرت عامر بن فہیرہ حضرت سعد بن خیثمہ کے مہمان ہوئے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عامر اور حضرت اوس بن معاذ کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔

مدینہ کو بخاروں کی سرزمین کہا جاتا تھا۔ حضرت عامر بن فہیرہ مدینہ پہنچے تواس نئے شہر کی بدلی ہوئی آب و ہوا نے ان پربھی اثرکیا۔ انھیں بخار نے آن لیا، سیدنا ابوبکراور سیدنا بلال کو بھی ان کے ساتھ بخار چڑھا۔ یہ سب ایک ہی گھر میں مقیم تھے۔ سیدہ عائشہ اپنے والد کی تیمارداری کے لیے آئیں تو حضرت عامر کی خیریت بھی دریافت کی۔ تپ کی شدت میں حضرت عامر نے یہ اشعار پڑھے :

لقد وجدت الموت قبل ذوقہ
ان الجبان حتفہ من فوقہ
’’میں نے موت کا ذائقہ چکھنے سے پہلے ہی اسے پا لیاہے، بلاشبہ بزدل کی موت اوپر سے آتی ہے ۔‘‘
کل امریءٍ مجاہد بطوقہ
کالثور یحمی جلدہ بروقہ
’’ہر شخص اپنی طاقت کے بقدر جد وجہد کرتا ہے جیسے بیل سینگ سے اپنی جلد کی حفاظت کرتا ہے ۔‘‘

سیدہ عائشہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایاکہ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم بخار کی وجہ سے ہذیانی کیفیت میں ہیں تو آپ نے دعا فرمائی:

’’اے اﷲ! مدینہ ہمارے لیے محبوب بنا دے ،ہم اس سے مکہ جیسی یا اس سے بڑھ کر محبت کریں۔ اسے ہماری صحت کا باعث بنا دے ۔اس کے پیمانوں، صاع(سیر اورپاؤ) و مُد(تولہ و ماشہ)میں برکت ڈال دے اور اس کے بخار کو جحفہ (یامہیعہ:شام کی طرف جانے والے راستے پر واقع مقام) منتقل کر دے۔‘‘(بخاری، رقم ۱۸۸۹، مسلم، رقم ۳۳۲۱)

جمادی الثانی ۲ ھ میں جنگ بدر سے کچھ پہلے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عبداﷲ بن جحش کی سربراہی میں آٹھ (یا بارہ) مہاجرین پر مشتمل ایک سریہ روانہ فرمایا۔اسے سرےۂ عبداﷲ بن جحش کہاجاتا ہے۔ حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سہیل بن بیضا، حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت واقد بن عبدﷲ اس میں شامل تھے۔ آپ نے ابن جحش کو ایک خط دیا اور ہدایت فرمائی کہ اسے دو دن کے سفر کے بعد وادئملل پہنچ کر کھولنا۔ انھوں نے جب خط کھو لا تو لکھا پایا، سفر جاری رکھ کر مکہ و طائف کے مابین واقع وادئ نخلہ پہنچو۔ حضرت عبداﷲ بن جحش نے ساتھیوں سے کہا، جو شہادت کا متمنی ہے ،آگے چلے اور وصیت کرتا جائے۔ بحران کے مقام پر حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عتبہ کی مشترکہ سواری کھوگئی تھی ،وہ اسے ڈھونڈنے نکل گئے۔ ابن جحش باقی افراد کو لے کرنخلہ پہنچے ۔کشمش، کھالیں اور دوسرا سامان تجارت لے کر قریش کا قافلہ وہاں سے گزرا تو انھوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ حضرت واقد بن عبداﷲ نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیااور عثمان بن عبداﷲ اور حکم بن کیسان کو قید کر لیا۔مغیرہ بن عثمان فرار ہو گیا۔ یہ اسلامی تاریخ کاپہلا مقتول ،پہلا قیدی اور اولین مال غنیمت تھا۔پہلے امیرجیش اسلامی حضرت عبداﷲ بن جحش نے دور اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے تئیں تقسیم کرکے پانچواں حصہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے رکھ لیا، حالانکہ خمس کا حکم نازل نہ ہوا تھا۔ حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں، عمرو بن حضرمی کے قتل سے قریش کو اس قدر دھچکا لگا کہ یہ جنگ بدر کا ایک سبب بن گیا۔

دوسری روایت کے مطابق یہ غزوہ رجب کی ابتدائی تاریخوں میں ہوا ۔مشرکین کی طرف سے حرام مہینے کی حرمت پامال کرنے کا الزام لگا توارشاد ربانی نازل ہوا:

یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ.(البقرہ ۲: ۲۱۷)
’’آپ سے حرام مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں قتال کرنا کیسا ہے؟کہہ دیجیے، ماہ حرام میں قتال کرنا بہت سنگین ہے لیکن اﷲ کی راہ سے روکنا، اس کا کفر کرنا، مسجد حرام کا راستہ بند کرنا اور وہاں کے رہنے والوں کو نکال باہر کرنا اس سے بھی بد تر ہے۔فتنہ پھیلانا قتل کرنے سے بھی بڑا جرم ہے‘‘

حضرت عامر بن فہیرہ نے بدر و احد کے غزوات میں حصہ لیا۔ان جنگوں میں کوئی خاص واقعہ ان سے منسوب نہیں۔

۴ھ کے آغاز میں وسطی عرب کے قبیلہ بنو عامر بن صعصہ کا ایک معزز سردارابوبراعامر بن مالک مدینہ آیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تحفہ پیش کیا۔ آپ نے ہدیہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہم کسی مشرک سے تحفہ نہیں لیتے۔آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے ردکی نہ قبول، تاہم یہ کہاکہ آپ کی دعوت خوب ہے ،اس کی اشاعت کے لیے اپنے کسی صحابی کو اہل نجد کی طرف روانہ کریں ۔ امید ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں گے۔ آپ نے فرمایا، مجھے اندیشہ ہے کہ نجدی انھیں نقصان پہنچائیں گے ۔ابوبرا نے کہا، ان کی طرف سے میں پناہ دیتا ہوں۔تب صفر کے مہینے میں آپ نے ستر (چالیس: ابن اسحاق) صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایک وفدکو کوہ احدسے رخصت کیا۔اس کے ارکان میں اصحاب صفہ کی اکثریت تھی، انھیں قرا کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ دن بھر لکڑیاں چنتے، انھیں بیچ کراپنا اور ساتھیوں کا پیٹ بھرتے، (مسجد کا پانی بھرتے) اور رات کو (تلاوت کرتے اور) نوافل ادا کرتے۔ حضرت منذر بن عمرو انصاری، حضرت حارث بن صمہ، حضرت حرام بن ملحان، حضرت عروہ بن اسما، حضرت نافع بن بدیل اور حضرت عامر بن فہیرہ اس میں شامل تھے۔ حضرت منذر شہادت کی بہت آرزو رکھتے تھے۔ تبلیغی وفد بئر معونہ پہنچا اور یہاں ایک غار میں قیام کاارادہ کیا۔یہ کنواں بنوسلیم کی ملکیت تھااوربنو عامر کی سر زمین اور بنوسُلیم کی زمین سنگلاخ کے مابین واقع تھا۔پھر اپنے ساتھی حرام بن ملحان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط دے کر بنو عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس بھیجا۔یہ ابوبرا کا بھتیجا تھا۔عامر نے نامۂ رسول پڑھنے کے بجاے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد اور ماموں حضرت حرام پر تیر پھینکا (یا عقب سے نیزہ مارا) اور شہید کر ڈالا۔ حضرت حرام شدید زخمی ہو گئے، مرنے سے پہلے نعرہ بلند کیا، اﷲ اکبر! ’فزت و رب الکعبۃ‘! ’’رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ انھیں قتل کرنے کے بعدعامربن طفیل نے مبلغین اسلام کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اپنے قبیلے بنوعامر بن صعصہ کے لوگوں کو پکارا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم تمھارے چچا ابوبرا کا پیمان نہیں توڑ سکتے، انھوں نے مسلمانوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ تب اس نے ہمسایہ قبیلہ بنوسُلیم کی شاخوں عصیہ، رعل اور ذکوان کو بلا لیا۔ سب اکٹھے ہو کر باہر نکل آئے اور مسلمانوں کو گھیر لیا۔وہ تلواریں نکال کر آرام گاہوں سے نکل آئے، لیکن چند مسلمان ایک بڑی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ ایک صحابی حضرت کعب بن زید انصاری کے سوا سب نے جام شہادت نوش کیا۔ حضرت کعب بھی شدید زخمی تھے اور کافروں کے زعم میں جان دے بیٹھے تھے، تاہم انھوں نے موت کے منہ سے نکل کر نئی زندگی پائی اور غزوۂ خندق میں شہید ہوئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ وفد کے دو رکن حضرت عمرو بن امیہ ضمری اور حضرت منذر بن محمد انصاری اونٹوں کو چرانے نکلے ہوئے تھے۔جب انھوں نے وفد کی قیام گاہ پر چیلوں کو منڈلاتے ہوئے دیکھا توواپس لپکے۔ قریب پہنچ کر دیکھا کہ ان کے سارے ساتھی شہید کر دیے گئے ہیں،ان کے لاشے بکھرے پڑے ہیں اور حملہ آور گھڑ سوار ابھی وہیں کھڑے ہیں۔ جوش غیرت میں یہ حملہ آوروں پر پل پڑے۔ شہادت کے متمنی حضرت منذر بن محمد نے اپنے ہم نام حضرت منذر بن عمرو کی طرح مراد پائی، جبکہ حضرت عمروبن امیہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں عامر نے پیشانی کے بال کاٹ کر انھیں رہا کر دیا اورکہا،تم مضری ہو، میں تمھیں اس غلام کے بدلے میں آزاد کرتاہوں جو میری ماں پر کسی وجہ سے آزاد کرنا لازم ہو گیا تھا۔

بئر معونہ کے سانحہ میں بڑے بڑے صاحب فضیلت ، حفاظ و قرا اصحاب رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش کیا۔ انھی میں سے ایک حضرت عامر بن فہیرہ تھے۔ مشہور ہے کہ کشت و خون کے بعد ان کا جسد خاکی نہ ملا ۔ان کے قاتل جبار بن سلمی کلابی کا بیان ہے ،میں نے حضرت عامر کو نیزہ ماراتو کسی نے ان کی نعش اچک لی پھر میرے دیکھتے دیکھتے آسمان کی طرف بلند ہو گئی اور زمین پر سراغ تک نہ رہا۔ تب یہ روایت عام ہو گئی کہ حضرت عامر کو فرشتے لے گئے اور ان کی میت کی تدفین انھوں نے ہی کی۔ ’’طبقات ابن سعد‘ ‘میں مذکور اس روایت کو حضرت عروہ بن زبیر نے سیدہ عائشہ سے نقل کیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے معتبر روایت صحیح بخاری کی ہے،جب بئر معونہ کے شہدا کی شہادت ہو چکی اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری عامر بن طفیل کی قید میں آئے تو اس نے شہدا کی میتوں کے بیچ ایک میت کی طرف اشارہ کر کے پوچھا، یہ کون ہے؟ انھوں نے بتایا، حضرت عامر بن فہیرہ۔ تب عامر بن طفیل نے کہا، میں نے اس کوقتل کے بعد آسمان کی طرف بلند ہوتے دیکھا حتیٰ کہ اسے آسمان و زمین کے بیچ معلق دیکھتا رہا پھر یہ نعش واپس زمین پر رکھ دی گئی۔ حضرت جبار بن سلمی مزیدکہتے ہیں ،میں اس مشاہدے کے بعد قبول اسلام پرآمادہ ہوا۔ بئر معونہ کے دن میں نے ایک مسلمان (حضرت عامر بن فہیرہ) کے سینے میں نیزہ گاڑ دیا ۔نیزہ اس کے جسم سے نکلا تو وہ پکارا، واﷲ! میں کامیاب ہوا۔میں نے سوچا ، قتل تو میں نے کیا ہے ،وہ کیسے کامیاب ہوا؟ دوسر ے مسلمانوں نے بتایا، اس نے مقام شہادت پا لیا اس لیے بامراد ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عامر بن فہیرہ کو عامر بن طفیل نے خودقتل کیا، وہ دشمن خدا کہتا ہے ، میں نے حضرت عامر پر نیزے کا پہلا وار کیا تو ان کے زخم سے نور خارج ہوا۔ (دلائل النبوۃ: غزوۂ بئر معونہ) حضرت عامربن فہیرہ کی عمر چالیس برس ہوئی۔

رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک ماہ تک سانحۂ بئر معونہ اوراس سے کچھ دن پہلے واقع ہونے والے اسی قسم کے حادثۂ فاجعہ یوم رجیع کے شہدا کے قاتلوں کے لیے فجر کی نماز میں قراء ت کرنے کے بعد رکوع سے پہلے رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحیان کا نام لے کر بددعا فرماتے رہے۔یہ قنوت نازلہ کی ابتدا تھی۔ طبرانی نے دعاکے یہ الفاظ نقل کیے ہیں، ’اللّٰہم اکفنی عامرا‘،’’اے اﷲ! عامر سے میرا بدلہ لے لے ‘‘۔

حضرت عامر لکھنا پڑھنا جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتبین میں شامل ہوئے۔

مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح(بخاری ، شرکۃ دار الارقم)،تاریخ الامم والملوک (طبری)،صحیح تاریخ الطبری(محقق:محمد بن طاہر برزنجی)، دلائل النبوۃ (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)، الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)،اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ(ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)، فتح الباری(ابن حجر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، سیرت النبی (شبلی نعمانی)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ جات، بئرمعونہ: پروفیسرعبدالقیوم۔عامر بن صعصعہ ،عامر بن طفیل: W.Caskel)۔

—————

۱؂ ابواحمد: انساب الاشراف، بلاذری۔

B