اس شمارے کا آغاز حسب سابق جناب جاوید احمد غامدی کے نظم کلام کی رعایت سے جاری ترجمۂ قرآن ’’البیان‘‘ سے ہوا ہے۔ اس اشاعت میں سورۂ توبہ (۹) کی آیات ۹۰۔۹۹ کا ترجمہ اور مختصر حواشی شامل ہیں۔ گذشتہ آیات میں شہری منافقین کا ذکر تھا، جبکہ ان آیات میں بدوی منافقین کا ذکر ہے۔ نفاق میں اشتراک کی وجہ سے دونوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ ضمنًا حقیقی معذورین کے امتیاز کے لیے ان کی مغفرت کی بشارت بھی دی گئی ہے۔
’’معارف نبوی‘‘ میں زینت کے لیے لباس پہننے کے حوالے سے ’’موطا امام مالک‘‘ کی چند روایات کا انتخاب شامل ہے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، صحابۂ کرام اور سیدہ عائشہ وحفصہ کے اقوال اور امام مالک کے چند فتاویٰ پر مشتمل ہیں۔
’’مقامات‘‘ میں ’’ترکی میں حدیث کی تدوین جدید‘‘ کے زیر عنوان جناب جاوید احمد غامدی کا ایک شذرہ شامل ہے۔ اس میں انھوں نے ترک اہل علم کے حدیث پر علمی وتحقیقی منصوبے کو سراہا ہے۔ غامدی صاحب نے بیان کیا ہے کہ اسلام کے دور اول سے دور حاضر تک کوئی دور ایسا نہیں ہے جو حدیث کی تحقیق و جستجو کے کام سے خالی رہا ہوا ور جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کی گئی روایتوں کے صحیح و سقیم کو الگ کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ موجودہ زمانے میں اس کی ایک نہایت اہم مثال علامہ ناصر الدین البانی کا کام ہے۔ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ ترک علما کی کاوش کی علمی منزلت کا اندازہ تو ان کی تحقیقات اور ان کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہی ہو گا، مگر یہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس کواہل علم کی ایک جماعت ادارے کی صورت میں انجام دے رہی ہے۔
’’سیر وسوانح‘‘ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہے۔ اس میں ان کے سفر ہجرت، سریۂ عبداللہ بن جحش اور غزوۂ بئر معونہ میں عظیم کردار کو بیان کیا گیا ہے۔
’’نقطۂ نظر‘‘ میں جناب پروفیسر خورشید عالم کا مضمون ’’میاں یا بیوی کی سرکشی قرآن کی نظر‘‘ میں شائع کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ لفظ ’نُشُوْز‘ (سرکشی) کا اطلاق میاں اور بیوی، دونوں پر ہوتا ہے، کسی ایک کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے۔ تائید میں انھوں نے قرآن، حدیث اور تعامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا ہے۔
’’وفیات‘‘ میں ’’مولانا اختر احسن اصلاحی‘‘ کے زیر عنوان امام امین احسن اصلاحی کا مضمون شائع کیا ہے۔ اس میں انھوں نے امام حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے خاص شاگرد اور اپنے شریک درس کا ذکر کیا ہے۔