HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

مولانا اختر احسن اصلاحی

میں اور مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم دونوں ایک ہی ساتھ ۱۹۱۴ء میں مدرسۃ الاصلاح سیرائے میر، اعظم گڑھ کے ابتدائی درجوں میں داخل ہوئے اور مدرسہ کا تعلیمی کورس پورا کر کے ایک ہی ساتھ ۱۹۲۲ء میں فارغ ہوئے۔ اس کے بعد مولانا اختر احسن تو مدرسہ ہی میں تدریس کی خدمت پر مامور ہو گئے اور میں دو اڑھائی سال اخبارات میں اخبار نویسی کرتا پھرا۔ ۱۹۲۵ء میں استاذ امام مولانا فراہی نے مجھے یہ ایماء فرمایا کہ میں اخبار نویسی کا لاطائل مشغلہ چھوڑ کر ان سے قرآن حکیم پڑھوں۔ میرے لیے اس سے بڑا شرف اور کیا ہو سکتا تھا۔ میں فوراً تیار ہو گیا اور مولانا نے مدرسہ ہی میں درس قرآن کا آغاز فرما دیا جس میں مدرسہ کے دوسرے اساتذہ کے ساتھ مولانا اختر احسن مرحوم بھی شریک ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ پورے پانچ سال قائم رہا۔

طالب علمی کے دور میں تو ہم دونوں کے درمیان ایک قسم کی معاصرانہ چشمک و رقابت رہی تعلیم کے میدان میں بھی اور کھیل کے میدان میں بھی۔ لیکن مولانا فراہی کے درس میں شریک ہونے کے بعد ہم میں ایسی محبت پیدا ہو گئی کہ اگر میں یہ کہوں تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ ہماری یہ محبت دو حقیقی بھائیوں کی محبت تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے غالباً سال ڈیڑھ سال بڑے رہے ہوں گے۔ انھوں نے اس بڑائی کا حق یوں ادا کیا کہ جن علمی خامیوں کو دور کرنے میں مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوئی، اس میں انھوں نے نہایت فیاضی سے میری مدد کی۔ بعض فنی چیزوں میں ان کو مجھ پر نہایت نمایاں تفوّق حاصل تھا۔ اس طرح کی چیزوں میں ان کی مدد سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ اس پہلو سے اگر میں ان کو اپنا ساتھی ہی نہیں استاذ بھی کہوں تو شاید بے جا نہ ہو۔

مولانا فراہی کے درس میں اگرچہ مدرسہ کے دوسرے اساتذہ بھی شریک ہوتے، لیکن میرے واحد ساتھی مولانا اختر احسن ہی تھے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی خاص توجہ بھی ہم ہی دونوں پر رہی۔ مولانا اختر احسن اگرچہ بہت کم سخن آدمی تھے، لیکن ذہین اور نہایت نیک مزاج۔ اس وجہ سے ان کو برابر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا خاص قرب اور اعتماد حاصل رہا۔ انھوں نے حضرت استاذ کے علم کی طرح ان کے عمل کو بھی اپنانے کی کوشش کی، جس کی جھلک ان کی زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہوئی اور مجھے ان کی اس خصوصیت پر برابر رشک رہا۔

مولانا اختر احسن کو استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کا بھی شرف حاصل ہوا، حالانکہ مولانا کسی کو خدمت کا موقع مشکل ہی سے دیتے تھے۔ یہ شرف ان کو ان کی طبیعت کی انھی خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوا، جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا۔

استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ مدرسۃ الاصلاح کے ذریعہ سے جو تعلیمی اور فکری انقلاب پیدا کرنا چاہتے تھے، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ موزوں اشخاص نہ ملنے کے سبب سے تھی۔ مولانا اختر احسن مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت سے اس تعلیمی مقصد کے لیے بہترین آدمی بن گئے تھے۔ اگر ان کو کام کرنے کی فرصت ملی ہوتی تو توقع تھی کہ ان کی تربیت سے مدرسۃ الاصلاح میں نہایت عمدہ صلاحیتوں کے اتنے اشخاص پیدا ہو جاتے جو نہایت وسیع دائرے میں کام کر سکتے۔ لیکن ان کو عمر بہت کم ملی، اور جو ملی اس میں بھی وہ برابر مختلف امراض کے ہدف رہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا حوصلہ عطا فرمایا تھا۔ اپنی مختصر زندگی میں انھوں نے مدرسۃ الاصلاح کی بڑی خدمت کی۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اپنی اس خدمت کا معاوضہ انھوں نے اتنا کم لیا کہ اس ایثار کی کوئی دوسری مثال مشکل ہی سے مل سکے گی۔

میں نے ۱۹۳۵ء میں استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مطبوعہ تصنیفات کی ترتیب و تہذیب اور اشاعت کے لیے مدرسۃ الاصلاح میں دائرۂ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کے زیر اہتمام ایک اردو ماہنامہ ’الاصلاح‘ کے نام سے جاری کیا تاکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے افکار سے اردو خواں طبقہ کو بھی آشنا کیا جائے۔ اس ادارے میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے عربی مسودات کی ترتیب و تہذیب کا کام مولانا اختر احسن مرحوم نے اپنے ذمہ لیا اور رسالہ کی ترتیب کی ذمہ داری میں نے اٹھائی۔ مولانا اختر احسن مرحوم اگرچہ تحریر و تقریر کے میدان کے آدمی نہیں تھے، لیکن مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کے ترجمہ کے کام میں انھوں نے میری بڑی مدد فرمائی اور رسالہ میں بھی ان کے مضامین وقتاً فوقتاً نکلتے رہے۔ رسالہ تو کچھ عرصہ کے بعد بند ہو گیا، لیکن دائرۂ حمیدیہ الحمد للہ! برابر استاذ امام کی عربی تصنیفات کی اشاعت کا کام کر رہا ہے اور اس کے کرتا دھرتا مولانا اختر احسن مرحوم کے تلامذہ ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعی مشکور فرمائے!

مولانا اختر احسن مرحوم پر یہ چند سطریں میں نے مولانا کے ایک شاگرد عزیزی محمد عنایت اللہ سبحانی کے اصرار پر لکھ دی ہیں۔ اگر مجھے استاذ مرحوم کی سیرت لکھنے کی سعادت حاصل ہوتی تو اس میں بسلسلۂ تلامذۂ فراہی ان کا ذکر تفصیل سے آتا۔ لیکن اب بظاہر اس طرح کے کسی کام کا موقع میسر آنے کی توقع باقی نہیں رہی۔ اب تو بس یہ آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں استاذ مرحوم کے ساتھ برادر مرحوم کی معیت بھی نصیب کرے!

B