بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا، اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ{۸۷} وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلاً طَیِّبًا، وَّاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ{۸۸} لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ، وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ، فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ۔ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ، وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ، کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ، لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ{۸۹}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ، لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ{۹۰} اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ، وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ، فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ{۹۱} وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا، فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ{۹۲} لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ{۹۳}
۱۔ ایمان ۱۹۰؎ والو، جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمھارے لیے جائز کی ہیں، ۱۹۱؎ اُنھیں حرام نہ ٹھیراؤ ۱۹۲؎ اور نہ حدود سے تجاوز کرو۔ ۱۹۳؎ اللہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ۱۹۴؎ جو حلال و طیب چیزیں اللہ نے تمھیں بخشی ہیں، اُنھیں کھاؤ پیو اور (اپنے) اُس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان لائے ہو۔ (تم میں سے بعض لوگ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں، سو جان لو کہ) اللہ تمھاری اُن قسموں پر کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو تم بے ارادہ کھا لیتے ہو، ۱۹۵؎ لیکن جو قسمیں دل کے پختہ ارادے سے کھاتے ہو، اُن پر ضرور مواخذہ کرے گا۔ ۱۹۶؎ (سو اِس طرح کی قسم اگر توڑ دی جائے) تو اُس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اُس معیار کا کھانا کھلایا جائے جو تم عام طور پر اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا اُنھیں پہننے کے کپڑے دیے جائیں یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔ پھر جسے یہ میسر نہ ہو، اُس کے لیے تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھا بیٹھتے ہو۔ ۱۹۷؎ (اِسے ادا کرو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اللہ اِسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم اُس کے شکر گزار رہو۔۱۹۸؎ ۸۷-۸۹
۲۔ ایمان والو، یہ شراب ۱۹۹؎ اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر، سب گندے شیطانی کام ہیں، سو اِن سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوے میں لگا کر تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے ۲۰۰؎ اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ ۲۰۱؎ پھر کیا (اِن چیزوں سے) باز آتے ہو؟۲۰۲؎ (اِن سے باز آ جاؤ) اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور (نافرمانی سے) بچتے رہو۔ لیکن (ہماری اِس ہدایت سے) منہ موڑو گے تو جان لو کہ ہمارے پیغمبر پر تو اِس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ وضاحت کے ساتھ پہنچا دے۔ ۲۰۳؎ (تم میں سے) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اچھے عمل کرنے لگے ہیں، اُنھوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا، اُس پر کوئی گناہ نہیں ہے، جب کہ اُنھوں نے تقویٰ اختیار کیا، ایمان لائے اور اچھا عمل کرتے رہے، پھر مزید یہ کہ تقویٰ اختیار کیا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے، پھر یہی نہیں، تقویٰ اختیار کیا اور (خدا کے ہر حکم پر) خوبی کے ساتھ عمل پیرا ہوئے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ خوبی کا رویہ اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ۲۰۴؎ ۹۰-۹۳
۱۹۰؎ اپنے مضمون کے لحاظ سے سورہ یہاں ختم ہوئی۔ اِس سے آگے اب اُسی طرح ایک ضمیمہ ہے، جس طرح سورۂ نساء کے آخر میں ہے۔ اِس میں اللہ تعالیٰ نے اُن سوالوں کا جواب دیا ہے جو اِس سورہ کے مباحث سے متعلق لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوئے ہیں۔ اِن میں سے ہر سوال کا جواب ’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘ کے خطاب سے شروع ہوتا ہے۔ قرآن نے سوالات نقل نہیں کیے، اِن کا جواب، البتہ ایک ترتیب کے ساتھ دیا ہے اور درمیان میں اشارہ بھی کر دیا ہے کہ یہ لوگوں کے سوالات ہی ہیں جن کا جواب اِس ضمیمے میں دیا گیا ہے۔ نساء اور مائدہ تو ام سورتیں ہیں۔ اِن کے خاتمے کی یہ مماثلت بتاتی ہے کہ قرآن میں سورتیں کس کس پہلو سے توام ہوتی ہیں۔
پہلا سوال آیات ۱-۲ میں عہد و پیمان کی پابندی کی تمہید کے بعد یہ بتانے سے پیدا ہوا ہے کہ چند مستثنیات کے سوا تمام چوپائے حلال ٹھیرائے گئے ہیں۔ لوگوں نے پوچھنا چاہا ہے کہ اگر اللہ کے نام پر باندھے گئے عہد و پیمان کی اہمیت دین میں اِس درجہ غیر معمولی ہے تو کوئی شخص اگرشریعت کی حرمتوں کے علاوہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام ٹھیرانے کی قسم کھا بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے؟
دوسرا سوال اِنھی آیات سے یہ پیدا ہوا ہے کہ اِن میں بیان کردہ حرمتوں کے سوا اگر ہر چیز حلال ہے تو شراب اور جوے کے بارے میں کیا ہدایت ہے؟ اِس سوال کا جواب اگر یہ ہے کہ یہ دونوں حرام ہیں تو جو لوگ اِس سے پہلے اِن چیزوں میں ملوث رہے ہیں، اُن کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟
تیسرا سوال بھی اِنھی آیات میں حالت احرام کے شکار کی حرمت کے ذکر سے پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرکوئی شخص اِس حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے تو اُس کو کیا کرنا چاہیے؟ نیز یہ کہ احرام کی حالت میں سمندر کے شکار کا کیا حکم ہے؟ اِس لیے کہ سمندر کے سفر میں تو بعض اوقات شکار کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
چوتھا سوال بھی اِنھی آیات سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہدی، قلائد اور اِسی طرح کے دوسرے شعائر کی حرمت اِن آیتوں میں بڑی تاکید کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ اِس سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ کے نام سے جن جانوروں کی حرمت قدیم زمانے سے مذہبی رسوم کی بنا پر مسلم چلی آرہی ہے، اُن کے متعلق اب آخری فیصلہ کیا ہے؟ ہدی اور قلائد کی طرح اُن کی یہ حرمت بھی قائم ہے یا ختم کر دی گئی ہے؟
پانچواں اور آخری سوال کتمان شہادت کے اُس رویے پر قرآن کے تبصرے سے پیدا ہوا ہے جو خدا کی شریعت اور آخری بعثت کے معاملے میں یہودو نصاریٰ اختیار کیے ہوئے تھے۔ لوگوں کو تشویش ہوئی ہے کہ اِس کے بعد وہ اپنی وصیت پر گواہی کے لیے کیا اہتمام کریں؟ یہ اُن سوالوں میں سے ہے جو کسی بات کے ذکر سے ذہن کے دوسری طرف منتقل ہوجانے سے پیدا ہو جاتے ہیں۔
۱۹۱؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ بعض چیزیں فی الاصل پاکیزہ ہیں، مگر کوئی خارجی سبب بعض اوقات ایسا پیش آجاتا ہے جس سے اُن کو خباثت لاحق ہو جاتی ہے۔ مثلاً، ایک جانور حلال ہے، لیکن اُس کو ذبح نہیں کیا گیا یا ذبح تو کیا گیا ہے، مگر اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کر دیا گیا ہے۔
۱۹۲؎ اِس سے مراد کسی چیز کو اِس دعوے کے ساتھ ممنوع ٹھیرانا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے یا نیکی اور فضیلت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے یا اِس پر عذاب و ثواب مترتب ہو سکتا ہے۔ اِس میں زیادہ دخل مشرکانہ عقائد و اوہام کو ہوتا ہے۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اِس طرح کے کسی ادعا یا گمان کے بغیر کسی چیز کے کھانے سے اجتناب بھی اِسی کے تحت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اگر اِس قسم کی کوئی بات نہ ہو، بلکہ مجرد ذوق یا باقتضاے صحت یا بربناے احتیاط و کفایت کسی چیز کا استعمال کوئی شخص ترک کر دے تو یہ چیز تحریم میں داخل نہیں ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/۵۸۸)
۱۹۳؎ یہ الفاظ یہاں ’حرام نہ ٹھیراؤ‘ کے مقابل میں آئے ہیں، اِس لیے مدعا یہ ہے کہ پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھیراؤ اور حلال و حرام کے معاملے میں اللہ کے قائم کردہ حدود سے تجاوز کر کے اُس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنا لینے کی جسارت بھی نہ کرو۔
۱۹۴؎ قرآن میں اِس تعبیر سے بالعموم اِس کا لازم مراد ہوتا ہے، یعنی اُن سے نفرت کرتا ہے۔
۱۹۵؎ قسم بعض اوقات بالکل لغو، بے فائدہ اور مہمل ہوتی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ بندۂ مومن کو اِس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے، لیکن اپنے بندوں پر یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایت ہے کہ وہ اِس طرح کی قسموں پر دنیا اور آخرت میں کوئی مواخذہ نہ کرے گا۔
۱۹۶؎ دین میں قسم کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔ عہد پورا کرنا اسلام کے بنیادی اخلاقیات میں سے ہے۔ اِس سورہ کی ابتدا اِسی تاکید سے ہوتی ہے۔ قسم اِس عہد کو بالکل آخری درجے میں محکم کر دیتی ہے۔ مسلمان جب اپنے کسی عزم، ارادے یا عہد پر اللہ کی قسم کھاتا ہے تو وہ گویا اپنے پروردگار اور عالم کے پادشاہ کو اپنی بات پر گواہ ٹھیراتا ہے۔ انسانی تمدن میں تمام معاشرتی، سماجی اور سیاسی معاملات اور معاہدوں میں استحکام کا ذریعہ ہمیشہ سے قسم ہی رہی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ قسم اگر پختہ عزم کے ساتھ اور دل کے ارادے سے کھائی گئی ہے، اُس کے ذریعے سے کوئی عہدو پیمان باندھا گیا ہے، اُس سے حقوق و فرائض پر کوئی اثر مترتب ہوتا ہے یا وہ خدا کی کسی تحلیل و تحریم پر اثرانداز ہو سکتی ہے تو اُس پر اللہ تعالیٰ لازماً مواخذہ فرمائے گا۔
۱۹۷؎ قسم کی جو اہمیت اوپر بیان ہوئی ہے، اُس کے باوجود بارہا ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ آدمی کے لیے اپنی قسم پوری کرنا ممکن نہیں رہتا یا وہ محسوس کرتا ہے کہ اُس سے اللہ کا یا اُس کے نفس کا یا دوسروں کا کوئی حق تلف ہو جائے گا۔ آیت سے واضح ہے کہ اِس صورت میں قسم توڑی جا سکتی ہے، بلکہ بعض صورتوں میں قسم توڑ دینا دین و اخلاق کی رو سے ضروری ہو جاتا ہے۔ کفارے کا یہ طریقہ اِسی مقصد سے مقرر کیا گیا ہے۔
۱۹۸؎ اِس سے واضح ہے کہ یہ توضیحی آیات ہیں جو اِس سورہ کے مباحث سے متعلق پیدا ہونے والے بعض سوالوں کے جواب میں نازل ہوئی ہیں۔ اِن کے بعد اگلی آیت سے دوسرے سوال کا جواب شروع ہو جاتا ہے۔
۱۹۹؎ سورۂ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہے اور عقل عام بھی یہی کہتی ہے کہ شراب کی حرمت میں اصل علت اُس کے اندر نشے کا پایا جانا ہے۔ اِس وجہ سے ہر نشہ آور چیز کا حکم یہی ہو گا اور سدذریعہ کے اصول پر اُس کی مقدار قلیل بھی اُسی طرح حرام ہوگی، جس طرح مقدار کثیر حرام ہے۔
۲۰۰؎ اصل الفاظ ہیں: ’فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ‘۔ اِن میں ’فی‘ انہماک و اشتغال کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ جوے اور شراب سے لوگوں کے درمیان دشمنی اور انتقام کی آگ کس طرح بھڑکتی ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں یہ وبا پھیل جائے، اُس میں یا تو عفت، عزت، ناموس اور وفا و حیا کا احساس مٹ جائے گا، جیسا کہ مغرب زدہ سوسائٹی میں آج مشاہدہ ہو رہا ہے اور یہ بجاے خود ایک عظیم حادثہ ہے اور اگر اِن کی کوئی رمق باقی رہے گی تو ناگزیر ہے کہ آئے دن اِن کی بدولت تلواریں کھنچی رہیں۔ عرب عفت و عصمت، خودداری اور غیرت کے معاملے میں بڑے حساس تھے اور یہ اِن کی بہت بڑی خوبی تھی، لیکن ساتھ ہی شراب اور جوے کے بھی رسیا تھے، اِس وجہ سے جام و سنداں کی یہ بازی اُن کے لیے بڑی مہنگی پڑ رہی تھی۔ جہاں کسی نے شراب کی بدمستی میں کسی کے عزت و ناموس پر حملہ کیا، کسی کی تحقیر کی، کسی کو چھیڑا یا جوے میں کوئی چیند کی (اور یہ چیزیں جوے اور شراب کے لوازم میں سے ہیں)، وہیں تلواریں سونت لیتے اور افراد کی یہ لڑائی چشم زدن میں قوموں اور قبیلوں کی جنگ بن جاتی اور انتقام در انتقام کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا کہ صرف مہینے اور سال نہیں، بلکہ پوری صدی گزار کر بھی یہ آگ ٹھنڈی نہ پڑتی۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۵۹۰)
۲۰۱؎ خدا کی یاد کے بعد نماز کا ذکر عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ جوا اور شراب انسان کو خدا سے غافل کرتے ہیں اور انسان خدا سے غافل ہو جائے تو اُس پر شیطان مسلط ہو کر رہتا ہے۔ اُس کی گرفت سے بچنا پھر اُس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شیطان اُسے خواب دکھاتا اور زندگی کی اصل حقیقتوں سے رودررو ہونے کی جرأت اُس کے اندر سے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے۔
۲۰۲؎ استفہام یہاں امر کے مفہوم میں ہے۔ امر کا سادہ اسلوب اختیار کرنے کے بجاے استفہام کا یہ اسلوب کیوں اختیار کیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس اسلوب میں امر کے ساتھ زجر، موعظت، تاکید و تنبیہ اور اتمام حجت کا مضمون بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ یہاں غور کیجیے تو اسلوب کلام اِس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ شراب اور جوے کے مفاسد کی تفصیل اتنے مختلف مواقع پر اور اتنے مختلف پہلوؤں سے تمھارے سامنے آچکی ہے کہ اب اِس معاملے میں کسی کے لیے بھی کسی اشتباہ کی گنجایش باقی نہیں رہی ہے تو بتاؤ، اب بھی اِس سے باز آتے ہو یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ امر کے سادہ اسلوب میں یہ سارا مضمون نہیں سما سکتا تھا۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۵۹۱)
۲۰۳؎ یعنی پیغمبر کا فرض پورا ہو گیا۔ اِس کے بعد تمھاری ذمہ داری ہے۔ نہیں سمجھتے تو اِس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔
۲۰۴؎ یہ ایک ضمنی سوال کا جواب ہے کہ شراب اگر ایسی ناپسندیدہ چیز ہے تواُن لوگوں کا کیا ہوگا جو اِس سے پہلے پیتے رہے ہیں یا پیتے تھے اور اِس دوران میں وفات پا چکے ہیں؟ اِن لوگوں کے لیے تو اب توبہ و اصلاح کا بھی کوئی موقع باقی نہیں رہا۔ قرآن نے اِس کا جواب دیا ہے کہ اِس طرح کے معاملات میں اللہ تعالیٰ اتمام حجت کے بغیر گرفت نہیں کرتے۔ چنانچہ جو لوگ ہر حال میں تقویٰ پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام ہدایات پر ایمان و اخلاص کے ساتھ عمل کرتے رہے ہیں، اُن سے اُن چیزوں کے کھانے پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا جو اُنھوں نے اُس وقت کھائی تھیں، جب اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ اپنا حکم بیان نہیں کیا تھا۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ