عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہُ قَالَ: صَلّٰی لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلاَۃَ الصُّبْحِ بِالْحُدَیْبِیَۃِ عَلٰی إِثْرِ سَمَاءٍ کَانَتْ مِنَ اللَّیْلَۃِ. فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: ہَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ. قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُؤْمِنٌ بِیْ وَکَافِرٌ. فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰہِ وَرَحْمَتِہِ، فَذٰلِکَ مُؤْمِنٌ بِیْ وَکَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ. وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ کَذَا وَکَذَا، فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِیْ وَمُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.
حضرت زید بن خالد جہنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی بارش کے بعد حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے فرمایا: جانتے ہو، تمھارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔ (آپ نے فرمایا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میرے بندوں میں سے کچھ نے میرے اوپر ایمان اور کچھ نے میرے انکار پر صبح کی ہے۔ چنانچہ جس نے کہا ہے کہ ہم پر اللہ کے فضل اور رحمت سے بارش ہوئی ہے، یہ میرے اوپر ایمان رکھنے والا اور ستاروں کا منکر ہے۔ اور جس نے کہا ہے کہ فلاں فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی ہے تو وہ میرا منکر اور ستاروں کا ماننے والا ہے۔
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلٰی مَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالَ: مَا أَنْعَمْتُ عَلٰی عِبَادِيْ مِنْ نِعْمَۃٍ إِلاَّ أَصْبَحَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ بِہَا کَافِرِیْنَ. یَقُوْلُوْنَ: الْکَوَاکِبُ وَبِالْکَوَاکِبِ.
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ تمھارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ فرمایا ہے: میں جب بھی کوئی نعمت عطا کرتا ہوں تو بندوں میں سے کچھ اس کے سبب کافر ہوجاتے ہیں۔ کہنے لگ جاتے ہیں: یہ ستارے ہیں، یہ ستاروں کے سبب سے ہے۔
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ بَرَکَۃٍ إِلاَّ أَصْبَحَ فَرِیْقٌ مِّنَ النَّاسِ بِہَا کَافِرِیْنَ. یُنْزِلُ اللّٰہُ الْغَیْثَ. فَیَقُوْلُوْنَ: الْکَوْکَبُ کَذَا وَکَذَا.فِیْ حَدِیْثٍ: بِکَوْکَبِ کَذَا وَکَذَا.
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب بھی آسمان سے کوئی برکت نازل کرتے ہیں تو لوگوں میں سے کچھ اس کی وجہ سے کافر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بارش نازل کرتے ہیں، لیکن یہ کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں ستارہ ہے۔
ایک روایت میں ہے: فلاں اور فلاں ستارے کے سبب سے ہے۔
عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ (رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: مُطِرَ النَّاسُ عَلٰی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ شَاکِرٌ وَمِنْہُمْ کَافِرٌ. قَالُوْا ہٰذِہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ. وَقَالَ بَعْضُہُمْ: لَقَدْ صَدَقَ نَوْءُ کَذَا وَکَذَا. قَالَ: فَنَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ: فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ، حَتّٰی بَلَغَ: وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ.
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بارش ہوئی تو آپ نے فرمایا: لوگوں میں سے کچھ شاکر اور کچھ کافر ہو گئے۔ کچھ نے کہا: یہ اللہ کی رحمت ہے اور کچھ نے کہا: یہ فلاں اور فلاں ستارے کے سبب سے ہے۔ کہتے ہیں: اس موقع پر (الواقعہ ۵۶: ۷۵۔ ۸۲ کی) یہ آیات نازل ہوئیں: ’فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ‘ سے ’وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ‘ تک۔
’إثر سماء‘: ’ سماء ‘ کا مطلب ویسے تو آسمان ہے، بارش چونکہ اوپر سے آتی ہے، اس لیے اس کی نسبت آسمان کی طرف کر دی جاتی ہے۔ یہاں بھی ’سماء ‘ کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ’إثر ‘ کا لفظ پیچھے یا بعد کے معنی میں آتا ہے۔
’نوء‘ : ’ نوء ‘ ، ’ ناء ‘ کا مصدر ہے۔ اس کا مطلب بوجھ سے جھکنے کا ہے۔ ستاروں کی نسبت سے یہ فعل ستاروں کے فجر کے وقت مغرب کی سمت نیچے جانے کے لیے بھی آتا ہے۔ پھر اسی سے یہ لفظ محض ستاروں کے غروب وطلوع کے لیے استعمال ہو جاتا ہے۔ یہاں مصدر فاعل کے معنی میں آیا ہے۔
’مَوٰقِعِ النُّجُوْمِ‘ : ستاروں کے مواقع سے ان کی جگہ یا مقامات بھی مراد ہو سکتے ہیں اور ان کے گرنے کی جگہ یا ہدف بھی اس کا مطلب ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ دوسرے معنی مراد ہیں۔
ان روایات کا موضوع ایک ہی ہے۔ اس دنیا میں ظاہر ہونے والے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے اذن اور ارادے کے تحت ہیں۔ انسان کی بدبختی یہ ہے کہ وہ اس کو جاننے اور ماننے کے باوجود مختلف ہستیوں ، ستاروں، جگہوں اور اوقات کو موثر مانتا ہے۔ ستاروں کی گردش ہو یا مختلف اوقات یا اشیا کا سامنے آنا ہو، وہ اس سے مستقبل کے اندازے قائم کرتا اور انھی اشیا کے حوالے سے غیب جاننے کے درپے رہتا ہے۔ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں علم غیب کی نفی کی ہے اور کئی اسالیب میں یہ بات جگہ جگہ قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مستقبل کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ زندگی، موت، رزق، اولاد اور پیش آمدہ حالات کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے جبت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ جبت کا مطلب یہ ہے کہ ہم مختلف مادی مظاہر یا مادی اشیا میں ایسا اثر مانیں جو مادی نہ ہو۔ مثلاً تیرہ کے ہندسے کی نحوست، کوے کے بولنے سے مہمانوں کا آنا مراد ہونا، ہاتھوں کی لکیروں اور ستاروں کی گردش سے نحس وسعد کو سمجھنا وغیرہ۔ قرآن مجید نے اس کو شرک اور شیطان کی پیروی کے ساتھ متعلق کر کے بیان کیا ہے جس سے اس کی شناعت واضح ہوتی ہے۔ غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ توہم پرستی اور شرک ایک ہی خاندان کے جرائم ہیں۔
ستاروں کی گردش سے حالات و واقعات کو منسوب کرنا کم وبیش ہر معاشرے میں رائج ہے۔ عرب معاشرے میں بھی یہ بات رائج تھی۔ روایت میں بیان کردہ صورت اس رویے کا ایک مظہر ہے۔ ستاروں کا طلوع وغروب اور ان کا افق پر جگہوں کو تبدیل کرنابہت حد تک زمین کی سورج کے گرد گردش کی وجہ سے ہے۔ یہی گردش سورج سے زمین کے فاصلے کے کم وبیش ہونے اور دن اور رات کے طول میں فرق کا باعث ہے جس سے موسموں میں تبدیلی آتی ہے۔ لیکن بات اس سے آگے بڑھتی ہے اور اسی گردش سے مقدر کے الٹ پھیر کو وابستہ کر دیا جاتا ہے۔ یہی چیز ہے جسے اس روایت میں کفر قرار دیا گیا ہے۔
شارحین روایت نے ستاروں کے ظہور وغیوب کو موثر بالذات ماننے کو غلط قرار دیا ہے اور اسے موسموں کے الٹ پھیر کو سمجھنے کی علامت قرار دینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔ ان کی مراد یہ ہے کہ اگر کسی کا یہ اعتقاد ہو کہ فلاں ستارہ فلاں چیز کے ظاہر ہونے کا خود باعث ہے تو یہ چیز غلط ہے، لیکن اگر وہ کسی ستارے کے سامنے آنے سے یہ سمجھ لے کے اب فلاں موسم شروع ہونے والا ہے تو یہ بات غلط نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک بھی یہ فرق درست ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آسمان سے رزق خدا بھیجتا ہے، اس میں اصل چیز خدا کا فیصلہ ہے اور خدا کے فیصلوں کو ستاروں اور اشیا سے متعلق سمجھنا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور اس کی حقیقی قدرت اور عظمت نہ پہچاننا ہے، یہی چیز ہے جو اسے کفر سے ملا دیتی ہے۔
ان روایات میں سے ایک روایت میں قرآن مجید کی ایک آیت کا حوالہ بھی موجود ہے۔ سورۂ واقعہ کی ان آیات کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ آیت ستاروں کے گرنے کو قرآن کی حفاظت کے انتظام کے شاہد کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر یہ بات بیان ہوئی ہے کہ شیاطین جب سن گن لینے کے لیے اوپر جاتے ہیں تو ان پر سنگ بار ی ہوتی ہے، یہی سنگ باری ہے جسے یہاں اور دوسرے مقامات پر ستاروں کے گرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قیاس یہی ہے کہ محض لفظی مناسبت سے اس آیت کو موضوع زیر بحث سے جوڑ دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے اس مقام کا زیر بحث موضوع سے تعلق جوڑنا تکلف سے خالی نہیں۔
متون
امام مسلم نے اس روایت کے چار متن دیے ہیں۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی واقعے کے مختلف بیانات ہیں۔ کسی نے تفصیل سے بات بیان کی ہے اور کسی نے مختصر۔ کسی نے بیان کا پس منظر بھی بیان کر دیا ہے اور کسی نے روایت کو محض اصولی بات کے بیان تک محدود رکھا ہے۔ کچھ روایات میں قرآن مجید کی سورۂ واقعہ کی آیات بھی بطور استدلال منقول ہیں۔ اس کے علاوہ فرق محض لفظی ہیں۔ امام مسلم نے جو جملے چار روایتوں کی صورت میں روایت کیے ہیں، دوسری کتب حدیث میں بعض جملے ایک دوسرے متن سے تبدیل بھی ہو گئے ہیں۔
بخاری، رقم۸۱۰،۹۹۱؛ مسلم، رقم۷۱۔۷۳؛ ابن حبان، رقم۱۸۸، ۶۱۳۲؛ ابوداؤد، رقم۳۹۰۶؛ ترمذی، رقم ۳۲۹۵؛ نسائی، رقم۱۵۲۴؛ سنن کبریٰ، رقم۱۸۳۳ ۔ ۱۸۳۶، ۱۰۷۵۹، ۱۰۷۶۱؛ سنن بیہقی، رقم۲۸۵۳، ۶۲۴۳، ۶۲۴۴؛ مسند احمد بن حنبل، رقم۹۴۴۴، ۸۷۲۴، ۸۷۹۷، ۱۷۰۷۶، ۱۷۱۰۲، ۱۷۰۹۰؛ المعجم الکبیر، رقم۵۲۱۳، ۵۲۱۵، ۱۲۸۸۱؛ موطا مالک، رقم ۴۵۱؛ الادب المفرد، رقم۹۰۷۔
_______________