ہمارے ہاں بعض حلقوں میں یہ خیال رائج ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے خدا کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے۔ان میں سے بہت سے لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ خدا کا استعمال اس کی توہین کے مترادف ہے۔ اس لیے ایسے لوگ اس معاملے میں بہت جذباتی بھی ہوجاتے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ نقطہ نظرتہَ در تہَ غلط فہمیوں پر مشتمل ہے۔ پیش نظر مضمو ن میں ہم قرآن و حدیث اور زبان و بیان کے مسلمات کی روشنی میں اس مسئلے کا علمی جائزہ لے کر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کا کیا نام درست ہے اور کیا نہیں، کس نام کو اس کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اور کس کو نہیں ،اس کا فیصلہ نزول قرآن کے وقت ہی ہوگیا تھا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’الرحمن‘ بیان ہوا ہے۔الرحمن کا لفظ عربی زبان کا معروف لفظ تھا جس سے مشرکین عرب واقف تھے۔تاہم ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے وہ اللہ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔جبکہ اللہ تعالیٰ کے نام کے طور پر الرحمن کا لفظ زیادہ تر اہل کتاب میں استعمال ہوتا تھا۔قرآن کریم نے بھی بعض مقامات پر اس نام کو اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے طور پر استعمال کیا۔مثلاًسورہ الرحمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الرحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے)الرحمن(1,2:55
جب قرآن نے لفظ الرحمن کو استعمال کیا تو مشرکین عرب، جو مخالفت پر تلے بیٹھے تھے ،انھوں نے اس بات کو اچھالنا شروع کردیا۔قرآن کریم میں مشرکین کے ردعمل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الرحمن کو سجدہ کرو توکہتے ہیں : الرحمن کیا ہے؟کیا ہم اس چیز کوسجدہ کریں جس کا تم ہمیں حکم دیتے ہو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت کو اور بڑھا تی ہے۔(الفرقان :25 60)
یہ چونکہ توحید کا مسئلہ تھا، جس کی وضاحت قرآن کا بنیادی موضوع ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ غلط فہمی دور کردی کہ اللہ کے سوا کسی اور نام سے ذات باری تعالیٰ کو پکارنا غلط ہے۔فرمایا:
اے نبی انھیں بتادوتم اللہ کہہ کر پکارو یا الرحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔(سورہ بنی اسرائیل:17 110)
یہ آیت اس مسئلے کے بارے میں بھی ایک قطعی فیصلہ دے دیتی ہے جو لفظ خد اکے حوالے سے آج درپیش ہے۔یہ نص قطعی صاف بیان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف الرحمن کہہ کر پکارنا درست ہے بلکہ ہر وہ اچھا نام جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے لیے کسی زبان، علاقے یا قوم میں رائج ہے، اس نام سے اللہ تعالیٰ کو پکارنا بالکل جائز ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص قوم یا علاقے کا رب نہیں،بلکہ رب العالمین ہے۔ اس کا تصورہر گروہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔ لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر ان سب ناموں سے مراد ایک ہی ہستی ہوتی ہے، جسے اہل عرب نزول قرآن کے وقت اللہ کہتے تھے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے زمین کا تصور ہر قوم ، گروہ اور علاقے میں پایا جاتا ہے۔ مگر ہر اہل عرب اسے ارض، انگریز ارتھ اور ہم لوگ زمین کہتے ہیں۔ کیا ان تین مختلف ناموں سے زمین کے تصور میں تبدیلی آگئی؟یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کی ہے۔ اب صرف ایک سوال کا جواب باقی ہے کہ کیا ہماری زبان میں ’خدا ‘کوئی اچھا لفظ ہے یا نہیں؟اس کا جواب ہمیں لغت میں مل جاتا ہے۔اردو ڈکشنری بورڈ کی شائع کردہ اردوزبان کی سب سے بڑی اور مستند لغت میں خدا کے لفظ کے تحت لکھا ہے۔
’’بندے کے مقابل، خالق کائنات کا ذاتی نام اور خوداس کی ذات جس کے صفاتی نام ننانوے ہیں اورجو اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، وہ یکتاہے اور اس کامثل کوئی نہیں۔‘‘ 460/8
کیا اس وضاحت کے بعد لفظ خدا کے استعمال کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے؟اردو لغت والوں نے لفظ خدا کے یہ معنی گھر بیٹھے تخلیق نہیں کیے ہیں۔اہل زبان جب کبھی لفظ خد اکو زبان سے ادا کرتے ، وہ جب خدا کی قسم کھاتے، وہ جب گواہ بناتے ہیں، ان کے ذہن میں اللہ کے سوا کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔کسی زبان کی اصل سند اس کے اساتذہ کا کلام ہوتا ہے ۔دیکھیے کہ اردو زبان کے ائمہ کس طرح خدا کے لفظ کو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔میر کا شعر ہے:
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
غالب کہتے ہیں:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اقبال کہتے ہیں:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنو ں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں ا س کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
دور حاضر کے معروف نعت وثناخواں شاعر مظفر وارثی کی حمد کا یہ شعر تو بچے بچے کو یاد ہے:
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے
وہی خدا ہے، وہی خدا ہے
یہ اشعار جب سنے جاتے ہیں تو ذہن میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ،کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔
سورہ بنی اسرائیل کی آیت اس بحث میں فیصلہ کن ہے۔ مگر ذرا اور آگے چلیے اور دیکھیے کہ انبیا کا کیا طریقہ تھا۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔یہ لفظ دو اجزا سے مرکب ہے۔ اِسر اور ایل۔قدیم عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کو ’ایل‘ کے لفظ سے پکارا جاتا تھا۔جبکہ اِسر کے معنی بندے کے ہیں۔ اس طرح ان کے لقب اسرائیل کا مطلب ہوا ’ایل‘یعنی اللہ کا بندہ۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی۔86برس کی عمر میں ان کے دعا کے جواب میں جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹاعطا فرمایاتو آپ نے ان کا نام اسماعیل رکھا۔اس نام کا مطلب ہے کہ ’ایل‘یعنی اللہ تعالیٰ نے سنا۔
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان انبیاکے زمانے پر اس بات پرکوئی نکیر نہیں کی بلکہ قرآن میں ان دونوں ناموں کا ذکر کرکے قیامت تک اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کسی زبان میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو لفظ بھی رائج ہے ، اللہ تعالیٰ کو وہ قبول ہے۔ چاہے وہ عربی لفظ ہو یا عبرانی، ہندی ہو یا یونانی، اردو ہو یا فارسی۔ ساری زبانیں اللہ ہی کی ہیں۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے لیے عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے لفظ کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے وگرنہ لازماََ قرآن ان پیغمبروں کے نام بدل کر استعمال کرتایاانھی پیغمبروں کے زمانے میں ان کے ناموں کی تصحیح کرا دیتا۔
عام طور پر یہ بیان کیا جاتاہے کہ لفظ خدا میں بڑی ’شرعی ‘قباحتیں ہیں۔مثلاََ یہ غیر اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کی جمع بھی استعمال ہوتی ہے۔یہ فارسی میں بدی کی طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
آئیے لفظ خدا پر ان اعتراضات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں لفظ ’خدا ‘جب تنہا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہی ہستی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں، جیسا کہ اوپر ہم نے اردو زبان میں خدا کے معنی کے تحت بیان کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ بدی کی طاقت کے لیے فارسی زبان میں لفظ اہرمن کا استعمال ہوتا ہے نہ کہ خدا کا۔خدا کا لفظ تنہا جب کبھی آتا ہے اس کے معنی کبھی بدی کے خدا کے نہیں ہوتے۔ تاہم اردو اور فارسی زبان میں لفظ خدا مالک ،بادشاہ اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اس پس منظر میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں لفظ خدا کے ساتھ کوئی اور لفظ ملتا ہے اور غیر اللہ کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔ جیسے فارسی میں بدی کی طاقت کو خدائے اہرمن کہتے ہیں۔ اسی طرح اردو زبان میں میر تقی میرؔ کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔اسی طرح یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ خدا کے لفظ کی جمع بھی اردو زبان میں مستعمل ہے۔
مگر کیا ان وجوہات کی بنا پر لفظ خدا کا استعمال غلط ہوگیا؟ ہر گز نہیں۔قرآ ن میں اللہ تعالیٰ کے لیے عربی کا ایک ایسا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے ،جس میں نہ صرف یہ سارے ’شرعی ‘عیب پائے جاتے ہیں،بلکہ کچھ مزیدعیب ہیں جو لفظ خدا میں نہیں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کیا لفظ ہے۔
قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کو رب کہا گیا ہے۔قرآن و حدیث میں منقول بے شماردعائیں اس لفظ سے شروع ہوتی ہیں مگر یہ لفظ انسان کے لیے عربی میں عام استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم نے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاًسورہ یوسف میں ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام سے دو قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انھوں نے تعبیر دیتے وقت ان کے آقاکے لیے جو لفظ کہا ،قرآن نے اس کے لیے ’رب‘ کا لفظ استعمال کیا۔
’’امااحدکما فیسقی ربہ خمراَ‘‘َ َیوسف (41:12)
تم میں ایک اپنے آقا کو شراب پلائے گا
اسی آیت سے ذرا قبل ہی اس لفظ کی جمع ’’ارباب‘‘ ، اہل مصر کے ان دیوی دیوتاؤں کے لیے استعمال کی گئی ،جنھیں اہل مصر پوجتے تھے:
ء ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القھارََ(یوسف (39:12)
کیا بہت سے جدا جدا رب بہتر ہیںیا وہ ایک اللہ ،جو سب پر غالب ہے۔
جمع کے علاوہ اس لفظ کی مونث بھی عربی میں مستعمل ہے جبکہ لفظ خدا کم از کم اس عیب سے تو بری ہے۔ایک بہت مشہور حدیث جسے حدیثِ جبریل کہا جاتا ہے، اس کے الفاظ ہیں۔
ان تلد الامۃ ربتھا(مسلم رقم8)
یعنی قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی۔
جب اس سب کے باجود قرآن نے بلاجھجک اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیا ہے تو خدا کے لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ یاد رہے کہ موجودہ اردو زبان میں یہ لفظ اب اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہوچکا ہے۔ جسے اس بات میں شبہ ہو وہ اپنے استاد، دفتر یا دکان کے مالک یاصدرمملکت کو اس لفظ سے پکارے اور دیکھے کہ اردگرد کے لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
ہمیں اس نقطہ نظر پر اس لیے اعتراض ہے کہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کو اپنا ’قومی ‘معبود قرار دینے کی سوچ کارمحسوس ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سوچ سے متاثر مسلمان جب دعوت دین کے لیے اٹھے گا توکسی انگریز غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دیتے وقت اس کا اصل زور یہ بات بتانے پرصرف ہوگا کہ تم جس ہستی کو Godکہتے ہو وہ بالکل غلط ہے ۔ تمھیں میرے اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ اسی طرح وہ ایک ہندو سے کہے گا کہ تم ایشور کے ماننے والے ہو جبکہ تمھیں اللہ کو ماننا چاہیے۔اس کے نتیجے میں دوسرا فریق یہ سمجھے گا کہ مجھے میرے معبود سے ہٹاکر کسی اور معبود کی طرف لایا جا رہا ہے۔پھر اس کے دل میں ایک اجنبیت اور وحشت پیدا ہوگی اور عین ممکن ہے کہ یہی اجنبیت قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔
یہی سبب ہے کہ انبیا کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔وہ کبھی نام پر بحث نہیں کرتے، شرک پر بحث کرتے ہیں۔ ان صفات پر بحث کرتے ہیں جو اللہ سے منسوب کردی جاتی ہیں۔ آپ قرآ ن میں کبھی اس گفتگوکو پڑھیے جو انبیا و رسل اور ان کی اقوام کے بیچ میں ہوئی ہے۔اس میں سارا زور توحید کو منوانے پر ہے ۔ قرآن بیان کرتا ہے کہ تمام رسول اپنی قوم کی زبان ہی بولتے تھے۔(ابراہیم4:14)۔ان رسولوں کی اقوام اپنی زبان میں یقینااللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے پکارتی ہوں گی۔وہ رسول بھی اسی نام سے اللہ کو پکارتے تھے۔مگر وہ کہتے تھے کہ تم جسے رب العالمین مانتے ہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تنہا اسی کی عبادت کرو۔
آج ہمارے لیے بھی یہی طریقہ آئیڈیل ہے۔اور ہم اس طریقے پر تب ہی عمل کرسکتے ہیں جب ہم ظواہر پرستی سے باہر نکل کر یہ جان سکیں کہ اللہ ایک ہے اور سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔پھر یہ ممکن ہوگا کہ ایک امریکی کو ہم یہ بتاسکیں گے کہ تم God کی عبادت کرتے رہو، لیکن اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ کسی کو اس کا بیٹا اور بیوی نہ قرار دو۔ایک ہندو کو ہم بتاسکیں گے کہ یہ ٹھیک ہے کہ خالق کائنات ایشور ہی ہے مگر دیکھو اس کے ساتھ کسی دیوی دیوتا یا اوتار کو معبود نہ مانو۔
اس کے بعد وہ شخص جب اسلام قبول کرکے نماز پڑھے گا،قرآن پڑھے گا،دین کے مقرر کردہ دیگر اعمال ادا کرے گا تووہاں وہ اللہ ہی کا نام لے گا۔مگریہ حق کسی کو نہیں کہ وہ اس کی زبان بدلوانے کی کوشش کرے۔ اسے اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان میں اللہ کو جو چاہے کہہ کر پکارے۔کیوں کہ سارے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں۔یہ حق اسے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور کوئی اس سے اس کا یہ حق نہیں چھین سکتا۔
_______________