دینی مدارس کے سماجی کردار اور ان میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں حکومت اور معاشرہ دونوں تذبذب اور تشکیک میں مبتلا ہیں ۔ اربابِ اقتدار ایک ہی سانس میں ان کی معاشرتی خدمات کی تعریف کرتے اور ساتھ ہی ان کی چار دیواری سے ’’دہشت گرد‘‘ برآمد کرتے ہیں ۔ معاشرے کے صاحبانِ وسائل اور عام افراد، دونوں ان اداروں کے سماجی رویے کے شاکی ہیں لیکن ساتھ ہی مذہبی معاملات میں ان مدارس کے فارغ التحصیل اہلِ علم کی آرا کو مستند خیال کرتے اور اس حوالے سے ان ہی کی طرف رجوع کر تے دکھائی دیتے ہیں۔اس طرح وہ ان کے وجود کو اپنی دینی ضرورت سمجھتے ہوئے ان کی آبادی اور توسیع کے لیے وسائل فر اہم کر تے ہیں۔
تذبذب اور تشکیک پر مبنی کسی پالیسی اور رائے کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔اس بنا پراس معا ملے میں کسی فیصلہ کن اقدام سے پہلے معاشرتی اور حکو متی سطح پر ذہنی یک سوئی ضروری ہے۔ اس تذبذب اور تشکیک کا یہ نتیجہ ہے کہ حکومت کے فیصلے نیم دلانہ ہیں جن میں استمرار ہے نہ تیقن۔ چنانچہ اگر اصلاح کے نام پر کوئی قدم اٹھتا ہے تو وہ بھی ایک نیا ابہام پیدا کرتا ہے۔
اس وقت ہمیں اس معاملے کوصرف دینی حوالے ہی سے نہیں، سماجی اعتبار سے بھی سمجھنا ہے کیونکہ دینی مدارس کا وجود ہمارے معاشرتی ماحول پر بعض غیر معمولی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس باب میں چند امور اگر بطور مقدمہ پیشِ نظر رہیں تو مسئلے کی تفہیم آسان ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر:
دینی تعلیم ہماری معاشرتی ضرورت ہے۔ کوئی ایسا معاشرہ جس کی کم و بیش ستانوے فی صد آبادی مسلمان ہو، وہ اپنے دینی تشخص کے معاملے میں بے پروا نہیں ہو سکتا۔ ہر مسلمان گھرانہ یہ ضروری سمجھتا ہے کہ اس کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت ہو تاکہ وہ ایک مسلمان کی زندگی گزارسکیں۔
تعلیمی نظام میں دینی و غیر دینی کی تقسیم مسلمان معاشرے کے لیے ہمیشہ ایک اجنبی تصور رہاہے۔تخصّص(Specialization)تو بلا شبہ ہوتا تھا، لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنی بنیاد کے اعتبار سے بعض تعلیمی ادارے دینی ہوں اور بعض غیر دینی۔ یہ معلوم ہے کہ ہمارے ہاں اس کا آغاز اس وقت ہوا جب انگریز یہاں کے حکمران بنے اور انھوں نے ریاستی سطح پر تعلیم کے ایسے نظام کو فروغ دیا جس میں مسلمانوں کی مذہبی ضروریات کو نظر انداز کیا گیاتھا ۔ مسلمان معاشرے کی اس ضرورت کو پورا کرنے اور دینی ورثے کی حفاظت کے لیے بعض اہلِ خیرنے جو اہتمام کیا ، اس کا نتیجہ یہ دینی مدارس ہیں۔ایسی کا وشوں کے نتیجے میں ہندوستان کامسلمان معاشرہ زندہ رہا اگرچہ مسلمانوں کا سیاسی اقتدارختم ہو گیا۔
قیام پاکستان کے بعد ہونا یہ چاہیے تھا کہ تعلیم کی اس دوئی کا خاتمہ کر دیا جاتا تاکہ ایک قوم بننے کا عمل سہل ہو جاتا اور ہمارا اجتماعی وجود یوں ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتا ۔ بہ وجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔ریاست کی سطح پر جب اس اہم ضرورت کو نظر انداز کیا گیا تو حسبِ سابق معاشرے نے اس نظامِ تعلیم کی سرپرستی جاری رکھی۔ اس طرح دینی مدارس ایک متبادل نظامِ تعلیم کے طور پر نہ صرف موجود رہے بلکہ پھلتے پھولتے رہے۔
مدارس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا تو بلا مبالغہ لاکھوں افراد مختلف حوالوں سے ان سے وابستہ ہوگئے۔ سماجیات کے عمومی اصولوں کے تحت ان کی حیثیت ایک ’’طبقے ‘‘کی ہو گئی اور پھر فطری نتیجے کے طور پر طبقاتی مفاد وجود میں آ گیا۔ اب ایک طرف کچھ لوگوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی کہ وہ اس طبقاتی مفاد کا دفاع کریں گے اور دوسری طرف وہ گروہ سامنے آئے جنھوں نے مدارس کی اس اجتماعی قوت سے اپنے دنیاوی اور مادی مفادات کی آبیاری کی ۔ یہ گروہ ریاست اور سیاسی علما تھے۔
ریاست نے جس طرح ان مدارس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ، اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں لیکن ’’جہاد افغانستان‘‘ ’’طالبان‘‘ اور’’جہادِ کشمیر‘‘ شاید اس کے سب سے بڑے مظاہر ہیں۔ یہ استعمال درست تھا یا غلط ، یہ سوال اس تجزیے سے براہ راست متعلق نہیں، یہاں اس پہلو کو بطورامرِ واقعہ بیان کرنا مقصود ہے کہ کس طرح ریاست نے اپنے مقاصد کے لیے اس اجتماعی قوت سے فائدہ اٹھایا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کے بعد جو جنگ ہوئی، وہ گوریلا جنگ تھی ۔ اس میں تربیت یافتہ فوج کے ساتھ ، گوریلا کارروائیوں کے لیے ’’مجاہدین‘‘ کی ضرورت بھی تھی۔ پاکستانی ریاست کے اس اقدام کو مغربی دنیا کی بھر پور حمایت حاصل تھی کیونکہ مغرب اس معرکے میں سوویت یونین کی فیصلہ کن شکست کا آرزومند تھا۔ بعد میں میں جب پاکستان نے افغانستان میں ایک’’پاکستان حامی‘‘(Pro-Pakistan)حکومت کا خواب دیکھا تو’’طالبان ‘‘ کو میدان میں اتاراگیا۔ کشمیر کا معاملہ یہ تھا کہ بعض بین ا لاقوامی پابندیوں اور بھارت کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کے باعث، ریاست کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ علانیہ کوئی اقدام کرے۔ ریاست نے اس کے لیے جو متبادل پالیسی بنائی، اس میں قرعہِ فال پھرمدارس کے نام نکلا۔
سیاسی علما نے ان مدارس کو اپنے حلقہ انتخاب کی حیثیت دے دی۔ سیاست کے لیے عصبیت ناگزیر ہے۔ اس وقت میدانِ سیاست میں جو لوگ برو ئے کارہیں ،وہ کسی نہ کسی عصبیت پر کھڑے ہیں۔ یہ عصبیت حلقہ انتخاب سے لے کر قومی سطح تک پھیلی ہوئی ہے۔ کہیں یہ برادری ہے، کہیں لسانی شناخت ہے، کہیں علاقائیت ہے اور کہیں نسلی وابستگی۔ گروہی مفاد بھی ایک سیاسی عصبیت ہے، جیسے سرمایہ داری یا جاگیر دار طبقے کی نمایندگی۔ جو ’’علما‘‘ سیاسی مقاصد رکھتے تھے، ان کے پاس اس نوعیت کی عصبیت موجود نہیں تھی۔ انھوں نے ان مدارس کی مذہبی عصبیت کو اپنی سیاسی بنیاد بنا لیااور اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ یہ کامیابی ان معنوں میں نہیں ہے کہ وہ اپنے علانیہ یا تحریری منشور کے مطابق ریاست کا نظام دے پائے بلکہ سیاسی معنوں میں ہے۔ یعنی وہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں ایک مؤثر فریق کے طور پر سامنے آئے اور’’ حصہ بطورِ جثہ ‘‘ لینے میں کامیاب ہوئے۔
بعض اہل علم نے کوشش کی کہ وہ اپنے مدارس کو سیاسی علما کی دسترس سے محفوظ رکھ سکیں اور اپنا کردار حسبِ سابق ادا کرتے رہیں۔ یہ کردار روایتی دینی علم کا دفاع اور معاشرے کی دینی ضروریات کے لیے افراد کی فراہمی ہے۔ تاہم یہ ادارے اب انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
دینی مدارس کا نصاب جوہری طور پر مسلکی و گروہی ضروریات کے پیشِ نظر مرتب کیا گیا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل علما معاشرے میں کسی خاص مسلک کے مبلغ کے طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مساجد مسلکی اور فقہی بنیادوں پر منقسم ہیں۔
اس وقت دینی مدارس کی تعلیم اور ماحول سے معاشرے میں تقسیم کا عمل بہت گہرا ہو گیا ہے۔ایک دینی مدرسے کا فارغ التحصیل یا طا لب علم اپنے ظاہر،بودوباش،اطوارو عادات،معا شرتی رویے اور مشاغل کے اعتبار سے سماج کے دیگر طبقات سے یکسر مختلف دکھا ئی دیتا ہے۔دینی مدارس کی اس روایت ، سماجی کردار اور پاکستانی معاشرے کی دینی ضروریات کو پیشِ نظر رکھیں تو چند باتیں واضح ہوتی ہیں:
ریاست اور سیاسی علما کے ہاتھوں دینی مدارس کے سو ء استعمال کے بعد اب معاشرہ ان کے بارے میں ابہام اور تشکیک میں مبتلا ہے، تاہم وہ یہ بھی خیال کرتا ہے کہ معاشرے کی دینی ضروریات متقاضی ہیں کہ یہ نظام باقی رہے۔
معاشرے کی دینی ضروریات، اس وقت تین طرح کی ہیں ۔
۱۔بچوں کے لیے روزمرہ کی دینی تعلیم۔
۲۔نکاح و طلاق، ولادت و موت ، حضانت ووراثت جیسے مسائل میں دینی احکام سے آگاہی و تکمیل۔
۳۔مساجد کا انتظام و انصرام۔
معاشرہ دینی مدارس کے کردار سے مطمئن نہیں، لیکن اس کے پاس اپنی دینی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوئی متبادل انتظام نہیں ہے۔ وہ بادلِ نخواستہ اسے قبول کیے ہوئے ہے۔ ریاست اس بات سے بڑی حد تک آگاہ ہو چکی کہ دینی مدارس کے باب میں اس سے ایک مجرمانہ غلطی سر زدہوئی ہے اور اب اس حکمتِ عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ مدارس چونکہ اب ایک سماجی طبقہ ہے جس سے لوگوں کے مفادات وابستہ ہوگئے ہیں۔ اس لیے اس طبقے کی طرف سے کسی ردِ عمل کے خوف سے ،وہ دینی مدارس کے بارے میں کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔ وہ دینی مدارس کی تنظیموں کو حیلوں بہانوں سے قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ان کی ناراضی کا خوف بھی ا س کا دامن گیر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب اس صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے؟ ریاست اور معاشرہ اس تذبذب اور تشکیک سے کیسے باہر نکلیں؟
ہمارے نزدیک اس کا ایک طویل المدتی حل ہے اورایک قلیل المدتی۔
۱۔طویل ا لمدتی حل کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔
دوئی پر مبنی اس نظام کویکسر ختم کر دیا جائے۔ ملک میں ایک ہی نصابِ تعلیم ہو جو بارہ سال کی ابتدائی تعلیم پر مبنی ہو۔ اس میں جس طرح سماجی اور طبیعی علوم ایک خاص سطح تک سکھا دیے جاتے ہیں ، اسی طرح دینی علوم کی بھی تدریس کی جائے۔
میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز کی طرزپر اعلیٰ دینی تعلیم کے ادارے قائم کیے جائیں تاکہ بارہ سال کی بنیادی تعلیم کے بعد جس طرح ڈاکٹر اور انجینئر تیار ہوتے ہیں، اس طرح لوگ دین کے عالم بھی بنیں۔
آج جس طرح حکومت ماہرین کی مدد سے جامعات اور پیشہ ورانہ تعلیم کا نصاب بناتی ہے ،جو سارے ملک میں رائج ہوتاہے،اسی طرح دینی علوم کے ماہرین کی معاونت سے دین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی نصاب بنائے، جو ظاہر ہے، کسی خاص مسلک یا فقہ پر مبنی نہ ہو، بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ہماری دینی روایت کا احاطہ کرتا ہو۔ اس سے فرقہ وارانہ تلخی بڑی حد تک کم ہو جائے گی۔
نجی سطح پر بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، تاہم ان پر نصاب اور تعلیمی ماحول کے حوالے سے وہ تمام پابندیاں عائد ہونی چاہییں جن کا التزام اس وقت نجی جامعات یا سماجی و طبیعی علوم کے اداروں کے لیے ضروری ہے۔
عالمِ اسلام کے تمام ممالک کی طرح مساجد کا اہتمام و انصرام ریاست اپنی تحویل میں لے لے۔ مسجد کے قیام سے لے کر امام و خطیب کی تعیناتی تک ، تمام امور حکومتی سرپرستی میں طے کیے جائیں ۔ نجی سطح پر مسجد کے قیام اور امام کی تعیناتی جیسے معاملات پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
اگر ریاست چاہے تو پانچ سال کی منصوبہ بندی سے اس نظام کو فروغ دے سکتی ہے ۔ اس ضمن میں پہلا مرحلہ یہ ہو گا کہ رائے عامہ اور معاشرتی طبقات کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کے سنجیدہ رائے ساز طبقات، جو اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں ، وہ عامۃ الناس کو قائل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ دوسری طرف اس حوالے سے حکومتی سطح پر ہونے والی ہر پیش رفت پارلیمنٹ کی معرفت کی جائے، اسے عوامی نمایندوں کو تائید حاصل ہونی چاہیے۔
۲۔چونکہ اس وقت ملک میں مدارس کا ایک مؤثر نظام موجود ہے، اس لیے اس کو نظر انداز کرکے یا اعتماد میں لیے بغیر کوئی اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سرِ دست بعض فوری اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ اسے ہم قلیل المدتی منصوبہ قرار دیتے ہیں۔
اس وقت دینی مدارس کے حوالے سے کوئی قدم اٹھاتے وقت ان کی پانچ نمایندہ تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔
مساجد چونکہ اس وقت مسلکی بنیاد پر قائم ہیں ،اس لیے یہ اہتمام کیا جائے کہ ہر مسلک کی مسجد میں متعلقہ وفاق ( تعلیمی بورڈ ) کی طرف سے امام اور خطیب تعینات ہو۔ اگر وہ مذہبی حوالے سے کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو متعلقہ وفاق اس کا ذمہ دار ہو اور چاہے تو اس کوبدل دے۔
فوری طور پر کسی مسجد کی تعمیرکے لیے حکومتی اجازت لازم قرار دے دی جائے۔
دینی مدارس کے اب تک فارغ التحصیل تمام افراد کے لیے مختصر دورانیے، مثلاً تین ماہ کے، کورسز ترتیب دیے جائیں۔ ان میں سماجی و طبیعی علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم دی جائے ا ور اس کمی کو ممکن حد تک دور کرنے کی سعی کی جائے، جو اس وقت دینی اداروں کے نصاب اور تعلیمی ماحول میں موجود ہے۔ ان کورسز میں شرکت کو سرکاری ملازمتوں وغیرہ کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔ یہ کورسز مختلف جامعات یا وزارتِ تعلیم کے تحت منظم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری و غیر سرکاری علمی و تحقیقی اداروں کو یہ ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ کورسز کی کامیاب تکمیل پر حکومت اس کی سند جاری کرے۔
ہماری حکومتیں وقتًا فوقتًا بعض اقدامات اٹھاتی رہی ہیں جن کا تعلق مدارس کے تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے سے ہے۔ مثال کے طور پر کمپیوٹر کی تعلیم کے لیے حکومت نے ایک موقع پر مدارس کو اساتذہ اور کمپیوٹر کی فراہمی کا اعلان کیا ۔ اس طرح کے اقدامات کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
حکومت اس کا اہتمام کرے کہ عالمِ اسلام کے دیگر ممالک میں قائم دینی تعلیمی اداروں کے ساتھ ان مدارس کے طلبہ و اساتذہ کا مؤثر رابطہ قائم ہوتاکہ وہ اس سے آگاہ ہوں کہ معاصر اسلامی دنیا میں دینی تعلیم و تحقیق کا کام کس نہج پر آگے بڑھ رہا ہے۔
اس نوعیت کا ربط و ضبط عام تعلیم کے ملکی اداروں کے ساتھ بھی بڑھایا جائے۔ اساتذہ اور طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ ملیں تاکہ فاصلوں میں کمی آئے۔ مدارس کے مختلف بورڈ ز کے طلبہ کے مابین بھی اس طرح کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔
آج مدارس میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کے سماجی کردار سے مطمئن نہیں۔ وہ ان کے نصاب اور تعلیمی ماحول ، دونوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کو تلاش کیا جائے اور انہیں اس حوالے سے فعال بنایا جائے۔
ذرائع ابلاغ اس بات میں بہت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ سول سوسائٹی اور میڈیا، مل کر دینی تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار کریں۔
جس طرح عمومی تعلیم کے اداروں کو روایتی سیاست دانوں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے ، اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ دینی مدارس کو سیاسی علما سے بچایا جائے۔ حکومت، ان مدارس کے ذمہ داران اور معاشرے کے دیگر طبقات کو،جو ان مدارس کو وسائل مہیا کرتے ہیں ، مل کر اس بارے میں کوئی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی ۔ صاحبانِ وسائل انھی اداروں کی معاونت کریں جو دینی تعلیم کے لیے خاص ہوں اور حکومت ،پارلیمنٹ کی مدد سے ایسے اقدامات کرے جو تعلیم کے تمام دینی و عمومی اداروں کو مذہبی وغیر مذہبی سیاست دانوں سے محفوظ رکھ سکیں۔
قلیل ا لمدتی منصوبہ کسی گھمبیر مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہوتا ، زیادہ نقصان سے بچنے کی ایک وقتی تدبیر ہوتی ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا اجتماعی دینی تشخص برقرار رہے اور ہم مذہب کے سوء استعمال کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں تو لازم ہے کہ طویل المدتی منصوبہ بنا کر اس مسئلے سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جائے۔ دینی مدرسوں کے ذمہ داران کو بھی بہت سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہو گا کہ ہر معاشرے میں دین تک ر سائی بالعموم اہلِ مذہب کی معرفت ہوتی ہے۔ اگر اس کو پیش کرنے والے اس کی حفاظت نہ کریں اور انسانی خواہشات کا گردو غبار اسے اپنی لپیٹ میں لے لے تومذہب کا حسن گہنا جاتا ہے۔یہ واقعہ یورپ میں پیش آچکا۔ پاکستان میں یہ آواز تیز تر ہو رہی ہے کہ ریاست و اجتماعیت کو مذہبی اثرات سے محفوظ بنایا جائے۔ اس کے لیے تمام دلائل اہلِ مذہب کے رویے سے لیے جاتے ہیں ۔ قرآن وسنت کی تعلیمات میں ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ کشش موجود ہے کہ اگر انھیں صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے رکھا جائے تو وہ اس کی طرف دوڑے چلے آئیں۔ اہلِ مذہب کو سوچنا ہو گا کہ اگر وہ مذہب کی طرف پیش قدمی میں رکاوٹ بنیں گے تو اﷲ کے حضور میں، خدشہ ہے کہ انہیں سخت جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں یومِ آخرت کی رسوائی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
________________