HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱۷۶-۱۸۹ (۲۸)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ )  


وَلاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْْئًا، یُرِیْدُ اللّٰہُ اَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ، وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ{۱۷۶}اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْْئًا، وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۱۷۷}وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْْرٌ لِّاَنْفُسِہِمْ، اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا، وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ{۱۷۸}

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْْہِ، حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ، وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْْبِ، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَشَآئُ، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ، وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ{۱۷۹}

وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْْرًا لَّہُمْ، بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ، سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ{۱۸۰} لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآئُ، سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا، وَقَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْْرِ حَقٍّ، وَّنَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ{۱۸۱} ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْْدِیْکُمْ، وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ{۱۸۲}

اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیْْنَآ اَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰی یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ، قُلْ: قَدْ جَآئَ کُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ، وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ، فَلِمَ قَتَلْتُمُوْہُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۱۸۳} فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ، جَآؤُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ{۱۸۴}کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ، وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ، وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ، وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ{۱۸۵}

لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ، وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ، وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا، وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ{۱۸۶} وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ، وَلاَ تَکْتُمُوْنَہٗ، فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ، وَاشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً، فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ{۱۸۷}لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا، وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا، فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ، وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۱۸۸} وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْرٌ{۱۸۹}

اور تمھارے لیے، (اے پیغمبر) یہ لو گ کسی غم کا باعث نہ ہوں جو (اِس وقت) کفر کی راہ میں بڑے سرگرم ہیں۔ یہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ اللہ چاہتا ہے کہ آخرت میں اِن کا کوئی حصہ نہ رکھے۔ (یہ مجرم ہیں) اور اِن کے لیے (وہاں) بڑا ہی سخت عذاب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایمان کو چھوڑ کر جن لوگوں نے بھی اپنے لیے کفر خریدا ہے، وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور اُن کے لیے (اُس نے) بڑا دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہ ڈھیل جو ہم اِن کو دے رہے ہیں، اِس کو یہ منکر اپنے حق میں کوئی بہتری کی چیز نہ سمجھیں۔ (اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ) اِن کو یہ ڈھیل ہم صرف اِس لیے دے رہے ہیں کہ اپنے گناہوں میں یہ کچھ اور اضافہ کر لیں۔ (اِس کے بعد اِنھیں ہمارے ہی پاس آنا ہے) اور (وہاں)ایک سخت ذلیل کر دینے والی سزا اِن کی منتظر ہے۔ ۱۷۶-۱۷۸

(اِس جنگ کے موقع پر جو آزمایش پیش آئی ہے، یہ اس کو سمجھ نہیں رہے۔ اِنھیں بتائو کہ) اللہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ پاک کو ناپاک سے الگ کیے بغیر مسلمانوں کو اُسی طرح چھوڑ دے ، جس طرح تم تھے،۲۵۵ اور نہ یہ اللہ کا طریقہ ہے کہ تمھیں غیب پر مطلع کر دے (اور اِن کے دلوں کی حالت جان کر تم اِنھیں الگ الگ کر لو)، بلکہ اللہ (کا طریقہ یہ ہے کہ اِس کے لیے وہ) اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، منتخب کر لیتا ہے، (پھر اُن کی جدوجہد میں ایسی آزمایش برپا کرتا ہے کہ کھوٹے اور کھرے، سب ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں)۔ اِس لیے اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان رکھو اور( جان لو کہ) اگر تم ایمان اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمھارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ ۱۷۹

اور (اِن میں سے) جو لوگ اُن چیزوں میں بخل کرتے ہیں جو اللہ ہی نے اپنے فضل سے اُنھیں عطا فرمائی ہیں، وہ یہ خیال نہ کریں کہ یہ اُن کے لیے بہتر ہے۔ نہیں، یہ اُن کے حق میں بہت برا ہے۔ (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جس چیز پر اُنھوں نے بخل کیا ہے، قیامت کے دن اُس کا طوق اُنھیں پہنایا جائے گا اور (معلوم ہونا چاہیے کہ) زمین و آسمان کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے جانتا ہے۔۲۵۶ اللہ نے اُن لوگوں کی بات سن لی ہے جنھوں نے کہا ہے کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی ہیں۔۲۵۷ اِن کی یہ باتیں ہم لکھ رکھیں گے۲۵۸ اور اِس سے پہلے جو پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں، (وہ بھی ہم نے لکھ رکھا ہے) اور (فیصلے کے دن) اِن سے کہیں گے کہ اب چکھو آگ کا عذاب۔ یہ تمھارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے اور اللہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ ۱۸۰-۱۸۲

یہ لوگ، جنھوں نے کہا ہے کہ اللہ نے ہمیں یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ ہم کسی رسول کی بات اُس وقت تک نہ مانیں گے، جب تک وہ ایسی قربانی نہ کرے جسے کھانے کے لیے آسمان سے آگ اترے۔ اِن سے کہو: تمھارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول نہایت واضح نشانیاں لے کر آ چکے ہیں اور وہ نشانی بھی لائے ہیں جس کے لیے تم کہہ رہے ہو،پھر تم نے اُن کو قتل کیوں کر دیا، اگر تم سچے ہو؟۲۵۹ اِس لیے، اے پیغمبر یہ تمھیں جھٹلاتے ہیں(تو اِس میں تعجب کی کیا بات ہے)، بہت سے رسول تم سے پہلے بھی (اِسی طرح) جھٹلائے گئے ہیں جو کھلی ہوئی نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔۲۶۰ (تم مطمئن رہو اور یہ بھی انتظار کریں)، ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تمھیں پورا پورا اجر تو قیامت کے دن ہی ملے گا۔ پھر جو دوزخ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، وہی کامیاب ہے اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سودا ہے۔ ۱۸۳-۱۸۵

(ایمان والو)،تمھارے جان و مال میں تمھاری آزمایش تو ہر حال میں ہونی ہے اور اپنے سے پہلے کے اہل کتاب کی طرف سے اور اُن لوگوں کی طرف سے جنھوں نے شرک کیا ہے، تمھیں بہت سی تکلیف دہ باتیں بھی سننا پڑیں گی۔۲۶۱ (اِس لیے تیار رہو) اور (یاد رکھو کہ ) اگر تم ثابت قدم رہے اور تم نے تقویٰ اختیار کیے رکھا تو یہ بڑی عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔ اور اُن لوگوں کو جنھیں کتاب دی گئی ، اُن کا وہ عہد بھی یاد دلائو جو اللہ نے اُن سے لیا تھا کہ تم لوگوں کے سامنے اِس کتاب کو لازماً بیان کرو گے اور اِسے ہرگز نہ چھپائو گے۔ پھر اُنھوں نے اِسے پس پشت ڈال دیا۲۶۲ اور تھوڑی قیمت کے بدلے میں اِسے بیچ ڈالا۔ سو کیا ہی بری ہے وہ چیز جسے یہ خرید لائے ہیں۔ تم اُن لوگوں کو عذاب سے بری نہ سمجھو جو اپنے اِن کرتوتوں پر مگن ہیں اور ایسے کاموں پر اپنی تعریف چاہتے ہیں جو اُنھوں نے کیے نہیں ہیں،۲۶۳ اور (جان رکھو کہ ) اُن کے لیے ایک دردناک سزا تیار ہے اور (وہ اِس سے بھاگ کر کہیں جا نہیں سکتے ، اِس لیے کہ) زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۱۸۶-۱۸۹

۲۵۵؎  اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزا و سزا کا جو فیصلہ ان کے لیے اسی دنیا میں صادر ہونے والا تھا، وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس طرح کے کسی فیصلے کے لیے انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ پہلے لوگوں کو ایمان و عمل کے لحاظ سے الگ الگ کر دیا جائے۔

 ۲۵۶؎  یہ اس لیے فرمایا ہے کہ منافقین جس طرح جان دینے سے جی چراتے تھے، اسی طرح مال کے معاملے میں بھی چور تھے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے تھے۔

 ۲۵۷؎  یہ منافقین کے اس استہزا کا ذکر ہے جو وہ قرآن کی دعوت انفاق کا کرتے تھے۔ قرآن جب یہ کہتا کہ کون ہے جو اللہ کو قرض دے تو یہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ جی ہاں، اللہ ان دنوں بہت غریب ہو گئے ہیں، اس لیے وہ ہم امیروں سے قرض مانگ رہے ہیں۔

 ۲۵۸؎  اصل الفاظ ہیں: ’سنکتب ما قالوا‘ یہ تہدید نہایت بلیغ ہے۔ استاذ امام نے اس کی بلاغت اس طرح واضح فرمائی ہے:

’’۔۔۔فن بلاغت کے اداشناس اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دو لفظوں کے اندر جو قہر و غضب چھپا ہوا ہے، اس کی تعبیر ہم عاجزوں کے قلم سے صفحوں میں بھی ممکن نہیں ہے۔ پھر اس سے زیادہ بلیغ بات یہ ہے کہ اسی پر عطف کر دیا ہے ’وقتلھم الانبیاء بغیر حق‘ کو ، یعنی ان کے ناحق قتل انبیا کو بھی ہم نے لکھ رکھا ہے۔یہ قتل انبیا کا جرم، ظاہر ہے کہ یہود کا ہے۔ منافقین کے ایک قول اور یہود کے ایک فعل کو ایک ہی زمرے میں اس طرح شمار کرنا اور دونوں کے لیے ضمیر بھی ایک ہی استعمال کرنا یہاں دو باتوں پر دلیل ہے: ایک تو اس بات پر کہ یہ سنگین بات کہہ کر یہ منافقین یہود کی اسی برادری میں پھر جا شامل ہوئے ہیں جس سے نکل کر انھوں نے اسلام میں داخل ہونے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ دوسری یہ کہ منافقین کا یہ استہزا اور یہود کا یہ عمل، دونوں ایسے سنگین جرائم ہیں کہ خدا ان کو بھولنے والا نہیں ہے، بلکہ وہ بھی ایک دن ان سے کہے گا کہ ’ذوقوا عذاب الحریق‘، خدا کا یہ عذاب چکھو اور یہ عذاب جو کچھ بھی ہو گا، ان کے اعمال ہی کا ثمرہ و نتیجہ ہو گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر کسی قسم کا ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۱۹)    

 ۲۵۹؎  اس سے پہلے منافقین کے ذکر سے بات یہود کے ذکر تک پہنچ گئی تھی۔ اس لیے یہ ان کی ایک شرارت کا حوالہ دے کر اس کی بھی تردید فرما دی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہود کی جس شرارت کا حوالہ دیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو چپ کرانے کے لیے یہ کہتے کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت ہے کہ ہم کسی شخص کے دعویٰ رسالت کی اس وقت تک تصدیق ہی نہ کریں، جب تک اس سے یہ معجزہ نہ صادر ہو کہ وہ ایسی قربانی پیش کرے جس کو کھانے کے لیے قبولیت کے نشان کے طور پر آسمان سے آگ اترے۔ یہ بات یہود محض شرارت کی وجہ سے کہتے تھے۔ تو رات میں بعض انبیا سے اس معجزے کا صادر ہونا مذکور ہے مثلاً سلاطین ۱۸: ۳۷-۳۸ میں ایلیا نبی کے متعلق اور تواریخ ۷:۱ میں حضرت سلیمان کے متعلق،لیکن یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ یہ معجزہ لوازم و شرائط نبوت میں سے ہے۔ جب تک کوئی نبی یہ معجزہ نہ دکھائے، اس کا دعویٰ نبوت ہی قابل غور نہیں، بالخصوص آخری نبی سے متعلق تو ان کے ہاں جو پیشین گوئیاں ہیں، وہ اس قسم کے تکلفات سے بالکل ہی خالی ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۲۲۰)

 ۲۶۰؎  اصل میں یہاں تین لفظ استعمال ہوئے ہیں: بینات، زبر اور کتاب منیر۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:

’’’بینات‘ کے معنی واضح اور روشن کے ہیں۔ یہ لفظ آیات کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں جہاں کہیں یہ لفظ تنہا بغیر موصوف کے استعمال ہوا ہے، دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ واضح اور مسکت دلائل کے معنی میں یا حسی معجزات کے معنی میں۔
’زبر‘زبور کی جمع ہے۔ اس کے معنی ٹکڑے، قطعے اور صحیفے کے ہیں۔ مزامیر داؤد کے لیے اس کا استعمال معروف ہے۔ یہاں اس سے مراد انبیا کے وہ صحائف ہیں جو تورات کے مجموعہ میں شامل ہیں۔
کتاب منیر‘ سے مراد تورات ہے۔ قرآن سے پہلے کی نازل شدہ چیزوں میں سے تورات ہی ہے جو اس لفظ کا اصلی مصداق ہو سکتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۲۲۱)

 ۲۶۱؎  یہ ان آزمایشوں کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبر کے ساتھیوں کو اس کے منکرین کی طرف سے ان کی تطہیر کے لیے لازماً پیش آتی ہیں تاکہ عذاب سے پہلے وہ ان سے الگ بالکل نمایاں ہو جائیں۔

 ۲۶۲؎  یعنی اس طرح کی باتیں تو انھیں یاد ہیں کہ بعض پیغمبروں نے ایسی قربانی کی تھی جسے آگ نے آسمان سے اتر کر کھا لیا تھا، مگر اللہ نے اپنی کتاب ان کے سپرد کرتے وقت جو عہد ان سے لیا تھا، وہ انھیں یاد نہیں رہا۔ انھیں یاد دلائو کہ ان کا یہ عہد اب بھی ان کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود ہے۔ چنانچہ استثنا میں ہے:

’’اس لیے میری ان باتوں کو تم اپنے دل اور اپنی جان میں محفوظ رکھنا اور نشان کے طور پر ان کو اپنے ہاتھوں پر باندھنا اور وہ تمھاری پیشانی پر ٹیکوں کی مانند ہوں۔ اور تم ان کو اپنے لڑکوں کو سکھانا اور تو گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اٹھتے وقت ان ہی کا ذکر کیا کرنا۔ اور تو ان کو اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اور اپنے پھاٹکوں پر لکھا کرنا۔‘‘(۱۱: ۱۸-۲۰)

اسی طرح انجیلوں میں بھی یہ نہایت موثر اسلوبوں میں بیان ہوا ہے۔ متی میں ہے:

’’جو کچھ میں تم سے اندھیرے میں کہتا ہوں، اجالے میں کہو اور جو کچھ تم کان میں سنتے ہو، کوٹھوں پر اس کی منادی کرو۔‘‘ (۱۰: ۲۷)

 ۲۶۳؎  یعنی اللہ کے عہد کو اپنے دنیوی اغراض کے لیے حقیر داموں بیچ دینے کے باوجود جن کی خواہش ہے کہ انھیں حامل کتاب سمجھا جائے، انھیں خدا کی برگزیدہ امت قرار دیا جائے اور دنیا اور آخرت، دونوں میں خدا کی تمام عنایتوں اور تمام لطف و کرم کا تنہا حق دار مانا جائے۔

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــ

B