HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ایمان کا ذائقہ

(مسلم، رقم ۳۴)


عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ذَاقَ طَعْمَ الِإیْمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا.
’’حضرت عباس۱ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:اس شخص نے ایمان کا مزا پا لیا جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے رسول ہونے پر دل وجان سے راضی ہو گیا۔ ‘‘
لغوی مباحث

ذاق: چکھا، کھا لیا۔ یہاں یہ مادی کے بجائے معنوی شے کے لیے آیا ہے اور اس سے نیل وادراک مراد ہے۔ یعنی کسی چیز کو پالینا اور اسے دل ودماغ کا حصہ بنا لینا۔

طعم: لذت مراد ہے۔ اسی معنی کے لیے ایک دوسری روایت میں ’حلاوۃ‘(مٹھاس) کا لفظ آیا ہے۔

رضی: لفظی مطلب ہے: راضی ہوا، خوش ہوا۔ یہاں اس سے دل کا انشراح، قناعت، مسرت اور سیری مراد ہے۔

معنی

اس روایت میں تین باتیں سمجھنے کی ہیں۔پہلی اور نمایاں ترین چیز یہ ہے کہ دین بطور خاص ایمانیات کے ایک خاص پہلو کو ’’ایمان کی لذت چکھنے‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری چیزدین کے ساتھ وابستگی کے لیے ’’راضی ہونا‘‘کے لفظ کا استعمال ہے۔ اور تیسری چیزیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے رب ہونے اوراپنے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے کے پہلو کو نمایاں کیا ہے۔

اصل میں یہ روایت دین کے ساتھ وابستگی کے نفسیاتی پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔ کسی شے کو حاصل کرنے کے لیے اس کا ذائقہ چکھ لینے کی تعبیر بہت معنی خیز ہے۔ گویا ایک ایسی چیز ہے جس کو پا لینے کی تمنا موجود ہے۔ لیکن اس کو پالینے کی حقیقت کیا ہے اس کا شعور واضح کرنا پیش نظر ہے۔ چکھ لینا کی تعبیر سے جیسا کہ ہم نے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے نیل وادراک مراد ہے۔ لیکن یہ نیل و ادراک وہ ہے جو پانے والے کو ایک سرشاری اور اطمینان بھی فراہم کرتا ہے۔

راضی ہونا کی تعبیر بھی اپنے اندر یہی حقیقت رکھتی ہے۔ آدمی جس چیز پر راضی ہو جاتا ہے تو پھر وہ اسی کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ گویا اس نے اپنی تلاش کی منزل کو پا لیا ہے اور اب اسے کسی دوسری چیز کی حاجت نہیں رہی۔ خالق کائنات ہی اس کا رب ہے، اس کا آقا ومولا ہے اور اس کا پروردگار ہے یہ بات جب اس کے علم سے بڑھ کر اس کی زندگی بن جاتی ہے اور وہ سب کے در چھوڑ کر صرف ایک اللہ کے در سے وابستہ ہوجاتا ہے تو یہ اللہ کے رب ہونے پر راضی ہونا ہے۔ اسلام کی تعلیمات جب علم میں آتی ہیں اور حق کی تلاش اور جستجو مکمل ہو جاتی اور آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اب اسے اپنی زندگی کے شب وروز گزارنے کے لیے کسی اور رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے تو یہ اسلام کے دین ہونے پر راضی ہونا ہے۔ جب تک کوئی آدمی اللہ کی رضا کے لیے قرآن وسنت ہی کو کافی نہ سمجھتا ہو، اسے خبر دار رہنا چاہیے کہ وہ حقیقت میں اسلام کے دین ہونے پر راضی نہیں ہے۔ یہی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا ہے۔ وہ ہدایت ورہنمائی جس پر آخرت کی فلاح کا انحصار ہے صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی ہدایت و رہنمائی ہے۔ جب کسی شخص کی آنکھیں اس غرض کے لیے صرف انھی کی ذات والا صفات کی طرف اٹھیں تو یہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہونا ہے۔

وہ شخص جس نے توحید کے اقرار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کے لائے ہوئے دین میں دل کا اطمینان، باقی ادیان و نظریات سے مستغنی ہونے اور اسلام پر عمل کرنے میں رغبت کی کیفیات کا تجربہ کرلیا یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔

اس روایت میں جس نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے وہ بعینہٖ وہی بات ہے جس کے لیے قرآن مجید میں ’حسبنا اﷲ ‘اور ’ رضوا عنہ ‘وغیرہ کی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں۔

متون

کتب حدیث میں یہ روایت جزوی فرق کے ساتھ انھی الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ وہ فرق روایت کے آخری جملے میں ہے۔ مسلم نے ’رسولا‘ درج کیا ہے جب کہ زیادہ تر مرویات میں ’ نبیا‘ کا لفظ آیا ہے۔ مضمون کی مناسبت ’نبیا‘ کے لفظ سے زیادہ ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت میں دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔

یہی مضمون دوسرے اسلوب میں بھی روایت ہوا ہے مثلاً مسلم ہی کی ایک روایت ہے:

ثلاث من کن فیہ وجد بہن حلاوۃ الایمان من کان اﷲ ورسولہ احب الیہ مما سواہما وان یحب المرء لا یحبہ الا ﷲ وان یکرہ ان یعود فی الکفر بعد ان انقذہ اﷲ منہ کما یکرہ ان یقذف فی النار.(رقم۴۳)
’’ جس آدمی میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کے باعث ایمان کی حلاوت پالیتا ہے۔ ایک وہ جسے اللہ اور اس کے رسول ان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ جب کسی آدمی سے محبت کرے تو اللہ ہی کے لیے کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں لوٹ جانے کو جبکہ اللہ نے اسے اس سے نکال دیا ہے اسی طرح نا پسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘

اسی طرح صاحب مرقاۃ نے دیلمی کی ’’مسند الفردوس‘‘ کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضور نے یہی بات بطور ذکر تعلیم کی ہے:

الظوا السنتکم قول لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اللّٰہ وان اﷲ ربنا والاسلام دیننا ومحمد نبینا. فانکم تسألون عنہا فی قبورکم.(مرقاۃ ۱/ ۷۶)
’’ اپنی زبان سے بار بار اس بات کو دہراؤ کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ اللہ ہمارا رب ہے ، اسلام ہمارا دین ہے اور محمد ہمارے نبی ہیں۔ کیونکہ تم سے تمھاری قبروں میں اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
کتابیات

مسلم، رقم۳۴، ۴۳، ۱۸۸۴۔ ترمذی، رقم۲۶۲۳۔ احمد، رقم۱۷۷۸، ۱۷۷۹۔ ابن حبان، رقم۱۶۹۴۔ ابویعلیٰ، رقم۶۶۹۲۔

 ________________

B