HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

چہرے کا پردہ اور ’’حکمت قرآن‘‘

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


ماہنامہ’’ اشراق‘‘ نے ’’چہرے کا پردہ‘‘ کے عنوان سے اگست ۲۰۰۵ کے شمارہ میں میرا مضمون شائع کیاتھا۔ ’’محدث‘‘ نے اگست کے شمارہ میں صفحہ ۵۳ پر ضیاء اللہ برنی صاحب کا یہ قول شائع کیاتھا کہ ’’اس کا شافی جواب بھی کسی صاحب علم کی توجہ کا منتظر ہے۔‘‘ جس صاحب علم نے اس جواب کی طرف توجہ دی ہے وہ قرآن اکیڈمی کے شعبۂ ریسرچ کے ملازم حافظ محمد زبیر ہیں۔ یہ جواب ’’حکمت قرآن‘‘ کے دسمبر ۲۰۰۵ میں شائع ہونا شروع ہوا اور فروری ۲۰۰۶ تک اس کی تین قسطیں جاری ہوچکی ہیں۔

میرے مضمون کا عنوان تھا ’’چہرے کا پردہ‘‘۔ اس میں میں نے صرف اس موضوع پر بحث کی ہے کہ چہرے کا پردہ واجب ہے یا غیر واجب۔ میں نے کہیں بھی اس کے بدعت یا مستحب ہونے کو موضوع بحث نہیں بنایا۔ حافظ محمد زبیر صاحب نے خواہ مخواہ اپنے جواب کو فقہی عنوان سے نوازا ہے یعنی چہرے کا پردہ واجب، مستحب یا بدعت۔ اگر وہ اس عنوان کے تحت اپنا مستقل مضمون لکھتے تو مجھے اعتراض کا حق نہ ہوتا۔ مگر انھوں نے اپنے مضمون کے آغاز ہی میں میرے مضمون کا حوالہ دیا ہے، اس لیے میں یہ محسوس کرنے میں حق بجانب ہوں کہ انھوں نے اس جواب کو فقہی عنوان دے کر خلط مبحث سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ اور خاص مکتب فکر سے تعلق کی بنا پر اپنے ذہن میں جمے ہوئے خیالات کو تحقیق کے بغیر جو ں کاتوں ’’حکمت قرآن‘‘ کے صفحات تک منتقل کردیاہے۔ اگر انھوں نے میرے مضمون کو کھلے دل و دماغ سے پڑھنے کی کوشش کی ہوتی تو ان کو بہت سے اعتراضات کا جواب مضمون کے اندر ہی سے مل جاتا۔

ایک اور بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ علامہ ناصرالدین البانی کے بارے میں حافظ صاحب کی معلومات بہت ہی کمزور ہیں۔ ان کی معلومات کا دارومدار ان کی کتاب ’’حجاب المراۃ المسلمہ‘‘ ہے جس کا آٹھواں ایڈیشن ۱۹۸۷ء میں بیروت سے چھپا۔ پھر انھوں نے اس کتاب کا نام ’’جلباب المراۃالمسلمہ‘‘ رکھا جس کا دوسرا ایڈیشن۱۹۹۴ء میں چھپا۔ اس کتاب کے سرورق پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:

’’کانٹ چھانٹ کے بعد نیا ایڈیشن جس میں بہت سی ابحاث اور نادر فوائد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ عورت کا چہرہ قابل پوشیدگی نہیں اور یہی جمہور صحابہ، ائمہ اور بڑے بڑے حنبلی فقہا کا مسلک ہے اور ان لوگوں کا منہ توڑ جواب جو اس بارے میں تشدد سے کام لیتے ہیں۔اسی کتاب میں انھوں نے اپنی مستقل تصنیف ’الرد المفحم علی من خالف العلماء وتشدد وتعصبت‘ (ان علما کا منہ توڑ جواب جنھوں نے (چہرے کو کھلا رکھنے کی) مخالفت کی اور تشدد اور تعصب سے کام لیا)۔‘‘

’’جلباب المراۃ‘‘ کے مقدمہ میں صفحہ ۵ سے لے کر صفحہ ۱۷ تک اسی تصنیف کے اقتباسات پھیلے ہوئے ہیں۔

اس قدر واضح موقف کے باوجود حافظ صاحب کے نزدیک علامہ ناصرالدین البانی معذور اور عنداللہ ماجور ہیں، کیونکہ وہ سلفی ہیں، مگر پروفیسر خورشید عالم قابل گرفت ہے، کیونکہ وہ ان کا ہم نوا نہیں:

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے


اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔

سب سے پہلے اس استدلال سے بحث کرتے ہیں جو محض مشاہدہ کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے۔ حافظ صاحب نے اپنے جواب کی دوسری قسط ’’حکمت قرآن‘‘ کے جنوری کے شمارے میں فرمایا ہے: ’’چونکہ زنا کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب چہرے کا کھلا رکھنا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے زنا سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب و ذرائع سے بھی منع کر دیا۔‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں کہ ’’عورت کا چہرہ زنا کا داعیہ ہے۔‘‘ انھوں نے شرم گاہ کی حفاظت کو چہرے کے پردے کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل مضمون نگار اس منطق کے بدیہی نتیجے سے واقف نہیں ہیں۔ اگر صاحب مضمون کی منطق کے مطابق اس بدیہی نتیجے کو مان لیا جائے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مرد کا چہرہ بھی عورت کے لیے زنا کا داعیہ ہے۔ تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ مرد بھی اپنا چہرہ چھپا لیں جیسا کہ سعودی عرب کے بعض قبائل میں رواج ہے اور ان مردوں کو ’ملثمین‘ (نقاب پوشوں) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سورۂ نور میں چہرے کو دیکھ کر نگاہیں جھکانے کا جو حکم مردوں کو دیا گیا ہے وہی حکم عورتوں کو دیا گیا ہے، بلکہ عورتوں کو پہلے حکم دیا گیا ہے اور مردوں کو بعد میں۔

محض چہرے کی ٹکڑی کو دیکھ کر کسی سلیم الفطرت انسان کے ذہن میں جنسی ہیجان پیدا نہیں ہو سکتا۔ لاکھوں انسان ننگے چہروں کے ساتھ مناسک حج ادا کرتے ہیں، کیا کوئی سلیم الفطر ت انسان ان چہروں کو دیکھ کر زنا کا تصور بھی کر سکتا ہے، رہا بدفطرت تو اس کی بات ہی کچھ اور ہے، وہ اسلامی احکام کا مخاطب ہی نہیں۔ کیا کھیت کھلیان میں کام کرنے والی، سر پر گھاس پھونس کا گٹھا اٹھانے والی، کئی کلومیٹر دور سے پانی کے گھڑے اٹھا نے والی یا شہروں کی سڑکوں پر روڑی کوٹنے والی، نونو دس دس اینٹوں کو اٹھا کر تعمیر میں حصہ لینے والی اور مشائخ کے گھروں میں جھاڑو پوچا لگانے والی عورتوں کے ننگے چہروں کو دیکھ کر کسی سلیم الفطرت کے دل ودماغ میں زنا کے جذبات پیدا ہوتے ہیں یا تعریف و تحسین اور ہم دردی کے جذبات؟ ہاں اگر چہرے کے بناؤ سنگار کے ساتھ سر کے بال کھلے ہوں اور ایک خاص انداز سے بنائے ہوئے ہوں اور قمیص کا کھلا گریبان سینے کی غمازی کر رہا ہو تو جنسی جذبات ابھر سکتے ہیں ، مگر محض چہرے کے ننگا ہونے سے اس کا قطعی کوئی احتمال نہیں۔

میرے بھائی، میرے برخوردار! زنا کے داعیہ کا تعلق ذہن کی خباثت اور غلط تربیت سے ہے۔ محض چہرے کو دیکھ کر زنا کا خیال ان بدفطرت لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو عورت کو انسان کی بجائے محض شہوانی آسودگی کا آلہ سمجھتے ہیں، جن کے سینوں میں ہوس چھپ چھپ کر تصویریں بنا لیتی ہے۔ کیا ہم ان بدفطرت لوگوں کی خاطر عورت کو نارمل زندگی گزارنے سے محروم کرنا چاہتے ہیں؟پھر ہمارے مذہبی پیشواؤ ں نے آنکھوں کو کھولنے کی اجازت تو دے رکھی ہے۔ آنکھیں ظاہر ہے کہ چہرے کا اہم ترین حصہ ہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ حافظ صاحب نے یہ منطق بگھارنے کے بعد اپنی بات کو ایک حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایسی حدیث ہے جس کو امام ناصرالدین البانی نے چہرے کو کھلا رکھنے کے لیے ایک مضبوط دلیل کے طور پر ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ ۶۲ پر پیش کیا ہے اور حاشیہ میں اس کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔

آخری حج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد فضل بن عباس آپ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے کہ قبیلۂ خثعم کی ایک خوب صورت عورت نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مسئلہ پوچھا۔ فضل بن عباس نے اس عورت کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ آپ نے ان کی ٹھوڑی کو پکڑ کر دوسری طرف کر دیا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح لکھا ہے۔ محترم حافظ صاحب نے اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چہرے فتنے کا محل ہیں جبھی تو حضور نے فضل بن عباس کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چہرہ فتنے کا محل ہے تو آپ نے اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم کیوں نہ دیا؟ جس کا جواب حافظ صاحب یہ دیتے ہیں کہ وہ عورت حالت احرام میں تھی۔ عصر حاضر کے سب سے بڑے محدث ناصرالدین البانی نے اس جواب کو قطعاً غلط قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ واقعہ قربان گاہ کے پاس ۱۰ ذی الحجہ (یعنی قربانی والے دن) پیش آیا جب حاجی احرام کھول دیتے ہیں۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری ۱؂ میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ رمی سے فارغ ہونے کے بعد، قربان گاہ کے قریب پیش آیا۔

انھوں نے امام ابن حزم کا قول نقل کیا ہے کہ اگرچہرہ قابل ستر ہوتا تو آپ سب لوگوں کے سامنے خاموش رہ کر اس بات کی تائید نہ کرتے ، بلکہ اس عورت کو حکم دیتے کہ اوپر سے چہرہ پر کوئی پردہ لٹکا لے۔ اس کے بعد علامہ نے فتح الباری ۲؂ کے حوالہ سے ابن بطال کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ چہرے کا چھپانا مسلمان عورتوں کے لیے اس طرح واجب نہیں جس طرح امہات المومنین پر واجب تھا۔

حافظ ابن حجر نے ابن بطال کا قول نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’خثعمیہ کے قصے سے استدلال محل نظر ہے، کیونکہ وہ حالت احرام میں تھی۔‘‘

علامہ ناصرالدین البانی فرماتے ہیں: ’’ہم اوپر حافظ ابن حجر کا قول فتح الباری ۳؂ سے نقل کر آئے ہیں کہ خثعمی عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت سوال کیا جب آپ جمرۃ العقبہ کی رمی سے فارغ ہوچکے تھے یعنی احرام کھل چکے تھے گویا کہ حافظ ابن حجر اس بات کو بھول گئے جس کی تحقیق انھوں نے خود کی تھی۔ فرض کیا وہ حالت احرام میں تھی توبھی حضرت عائشہ کی حدیث کے مطابق ان کے لیے روا نہ تھا کہ وہ اجنبیوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کرتیں، بلکہ اوپر سے کوئی پردہ لٹکا لیتیں۔ خاص طور پر جبکہ وہ حسین تھیں اور فتنے کا ڈر بھی تھا، مگر آپ نے صرف چہرہ موڑنے پر اکتفا کیا اور اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہ دیا۔‘‘ اس بحث کی روشنی میں حافظ زبیر صاحب کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس حدیث سے اپنے موقف کے لیے دلیل پکڑیں۔

اب آتے ہیں علمی دلائل کی طرف۔

مولانا حافظ محمد زبیر صاحب نے دلیل اول کے طور پر سورۂ احزاب کی آیت ۵۹ کو پیش کیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صاحب مضمون نے خاصی کاوش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر دے۔ آمین۔ علمی دیانت کا تقاضا تھا کہ انھوں نے جس تفصیل کے ساتھ مفسرین کے اقوال کا حوالہ دیا ہے، اسی تفصیل کے ساتھ احزاب کے بعد نازل ہونے والی سورۂ نور کی آیت ۳۰ میں ’الا ما ظہر منہا‘ کے بارے میں بھی ان تمام مفسرین کے اقوال کا حوالہ دیتے تو تقابلی مطالعہ سے حافظ صاحب کی سمجھ میں بات آجاتی اور مجھے یہ تحریر لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی، قارئین پر یہ بات واضح رہے کہ ابھی حافظ صاحب کے مضمون کی ایک ہی قسط یعنی سورۂ احزاب کی آیت کی تفسیر شائع ہوئی تھی کہ ’’ندائے خلافت‘‘ میں پردے کے بارے میں قارئین کے سوال پر دومرتبہ حکمت قرآن کے مضمون کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ گویا یہ پہلی قسط ہی پردے کے بارے میں مستند ہے اور حرف آخر کا حکم رکھتی ہے اور پردے کے بارے میں اصل احکام سورۂ احزاب میں نازل ہوئے ہیں، سورۂ نور کے مطالعہ کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو قرآنی آیات میں اس قسم کی حیلہ گیری تحریف کے مترادف ہے۔

سورۂ احزاب کی زیربحث آیت میں صاحب مضمون نے لفظ جلباب کی لغوی بحث کا برا مانتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’جلباب کے شرعی معنوں میں بدن کے علاوہ چہرے کو ڈھانپنا بھی ہے۔‘‘ گویا کہ جلباب کے لغوی اور شرعی معنوں میں مغایرت ہے اور اہل لغت لفظ جلباب کے شرعی معنوں سے ناآشنا ہیں۔ یہ بہت بڑی جسارت ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض کروں کہ امام بیضاوی، زمخشری، ابوراغب اصفہانی، فرّاء اور اخفش کی طرح بہت سے اہل لغت صاحب تفسیر بھی ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ لغت میں لفظ جلباب کے معنی کچھ اور ہوں اور شریعت میں کچھ اور۔ خود قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ جلباب کا مقصد چہرہ چھپانا نہیں وگرنہ ’ادناء‘ کا فعل لانے کی کیا ضرورت تھی؟ مفسرین نے لفظ ’ادناء‘ کے کنایہ سے چہرہ چھپانے کا مفہوم نکالا ہے نہ کہ لفظ جلباب سے۔

دوسری بات حافظ صاحب نے یہ فرمائی ہے: ’’ہمارا مقصد اس بحث سے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ درج ذیل مفسرین نے ’جلباب مع الادناء‘ سے چہرے کا پردہ مراد لیا ہے تاکہ پروفیسر صاحب کے اس ’’قول مبارک ‘‘ ’’یہی وجہ ہے کہ فقہ کے کسی امام نے وجوب ستر کے دلائل میں اس آیت سے استنباط نہیں کیا‘‘ کی قلعی کھل سکے۔ ہم یہی عرض کریں گے کہ ان مفسرین کی فقاہت کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔ ‘‘

سبحان اللہ! ماریں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ میرا مطالبہ یہ تھا کہ کسی فقیہ کاقول پیش کریں جس نے ستر کی بحث میں سورۂ احزاب کی آیت سے استدلال کیا ہو۔ مگر حافظ صاحب فقیہ کا قول نقل کرنے کی بجائے مفسرین کے اقوال کو پیش کرتے ہیں۔ حافظ صاحب کے فہم کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ فقیہ اور مفسر کا فرق نہیں سمجھتے۔

سورۂ احزاب کی آیت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس کی شان نزول کا جاننا ضروری ہے۔

امام طبری اپنی تفسیر میں ۴؂ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ کی بیبیاں اور دوسری مسلمان عورتیں رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی تھیں۔ کچھ لوگ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے راستے میں بیٹھ جاتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

دوسری اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ سورۂ احزاب سورۂ نور سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں اس بات کو ثابت کیا ہے۔ حافظ صاحب نے حوالہ جات پیش کرنے میں تساہل سے کام لیا ہے۔ اس سلسلہ میں امام طبری اور زمخشری کا حوالہ دوں گا۔ طبری کا جو حوالہ حافظ صاحب نے اپنے مضمون میں دیا ہے، اس کے فوراً بعد امام صاحب فرماتے ہیں: پھر ’ادناء‘ کی تعریف کے بارے میں اس تاویل میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنے چہرے اور سر کو ڈھانپ لیں، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جلباب کو اپنی پیشانیوں پر باندھ لیں۔ یہاں انھوں نے ابن عباس کا یہ قول نقل کیاہے کہ ادناء الجلباب کا مطلب ہے کہ جلباب کو سر پر اوڑھ کر پیشانی پر کس لیا جائے۔ پھر مشہور تابعی قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ اپنے ابرووں کو چھپا لیں۔ حافظ صاحب نے یہ حوالے دانستہ طور پر گول کر دیے ہیں، کیوں؟

زمخشری کا جو حوالہ حافظ صاحب نے دیا ہے، اس کے معاً بعد صاحب کشاف نے ایسی بات کہی ہے جو غالباً حافظ صاحب سمجھ نہیں سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ یہ کہیں کہ ’من جلابیبہن‘ میں حرف جار ’من‘ کے کیا معنی ہیں تو ’من‘ تبعیض (Splitting) کے لیے آیا ہے اور اس تبعیض کی دو صورتیں ہیں: ایک صورت تو وہ ہے جس میں ’ادناء‘ کے معنی نیچے کرنا ہے دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنے یہاں کے جلابیب میں سے کوئی ایک جلباب اوڑھ لیں۔ اور مراد یہ ہے کہ شریف زادی لونڈی کی مانند صرف قمیص اور اوڑھنی کے ساتھ نہ نکلے، بلکہ گھر میں پڑے ہوئے دو یا دو سے زائد جلبابوں میں سے ایک اوڑھ لے۔ حافظ صاحب نے زمخشری کے یہ الفاظ حذف کر دیے ہیں یا تو اس لیے کہ وہ بات نہیں سمجھ سکے یا پھر اس لیے کہ یہ بات ان کے ذہن میں پہلے سے بیٹھے ہوئے خیالات سے متصادم ہے۔

ان تمام حوالہ جات میں دو باتیں مشترک اور قابل غور ہیں۔

ایک تو ابن سیرین کے اس اثر کا سہارا لیا گیا ہے جس کی رو سے ایک آنکھ کے سوا سارا چہرہ چھپا یا جائے۔ اس اثر پر عصر حاضر کے سب سے بڑے محدث نے بحث کی ہے اور جلباب المراۃ المسلمہ۵؂ میں اس کی قلعی کھول دی ہے۔ اس کے مقابلہ میں قتادہ کی روایت سے ابن عباس کا قول جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، زیادہ قوی ہے۔ ابن نجیح نے مجاہدبن جبر مکی سے اثر روایت کیا ہے کہ ’ادناء‘ سے مراد پیشانی پر باندھنا ہے۔ مجاہد نے سورۂ نور کی آیت ۳۱ کی جو تفسیر کی ہے، وہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے۔ ابن عباس نے ’ادناء‘کی تفسیر یوں کی ہے۔’تدنی الجلباب الی وجہہا ولا تضرب بہ یعنی لا تستر‘ ’’چادر چہرے تک نیچی کی جائے گی، مگر اس کو چھپائے گی نہیں۔‘‘ ’’درمنثور‘‘ میں سعید بن جبیر کا قول نقل ہوا ہے کہ ادناء کا طریقہ یہ ہے کہ سر اور سینے پر جمایا جائے گویا ’لیضربن بخمرھن علی جیوبہن‘ اسی ’ادناء‘ کی تفسیر ہے۔

ابن سیرین کے اس ضعیف اثر کو تو دور حاضر کے مذہبی پیشوا بھی نہیں مانتے جنھوں نے ایک آنکھ کھلی رکھنے کی بجائے دو آنکھوں کو کھلا رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

دوسرے مفسرین کو یہ بات تسلیم ہے کہ ’یدنین‘ کا اصلی مفہوم چھپانا نہیں، لیکن چونکہ ان کے سامنے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں وہ ضعیف روایات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکم کنیزوں کے مقابلہ میں آزاد عورتوں کی پہچان کے بارے میں ہے، اس لیے انھوں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے۔ لیکن کسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن حکیم نے فقط آزاد عورتوں کو مورد عنابت قرار دیا ہے اور کنیزوں کی آزار سے چشم پوشی کی ہے۔

علامہ ناصرالدین البانی نے اس موضوع پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ ۶؂ انھوں نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ان تمام روایات کا ذکر کیا ہے جو ابن سعد، سیوطی (الدرالمنثور) اور امام طبری نے روایت کی ہیں، وہ فرماتے ہیں:

’’یہ تمام روایات مرسل ہیں، صحیح نہیں۔ ان کے راوی ابو مالک، ابو صالح، کلبی، معاویہ بن قرہ اور حسن البصری ہیں۔ ان میں سے کوئی روایت مستند نہیں، اس لیے قابل حجت نہیں۔ کیونکہ ان کا ظاہری مفہوم شریعت مطہرہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ ان سے تویہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کنیزوں کی ایذارسانی کا کوئی ازالہ نہیں کیا اور ان کو بے پردہ رہنے دیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ بعض مفسرین نے ان ضعیف روایات سے دھوکا کھا کر اللہ تعالیٰ کے قول ’نساء المومنین‘ کو آزاد عورتوں تک محدود کر دیا۔ اور اس بنا پر دعویٰ کیا کہ لونڈی کے لیے سر اور بالوں کو چھپانا واجب نہیں، بلکہ بعض اہل مذہب نے تو اس حد تک مبالغہ آرائی کی کہ لونڈی کے ستر کو مرد کے ستر کی مانند قرار دیا یعنی ناف سے لے کر گھٹنوں تک اور کہنے لگے کہ ’’اجنبی کے لیے لونڈی کے بال، بازو، پنڈلیاں، سینہ اور پستان دیکھنا جائز ہے۔ ...ظاہر یہی ہے کہ نساء المومنین میں آزاد اور لونڈیاں سبھی شامل ہیں۔‘‘

پھر انھوں نے امام ابن حزم اندلسی کا طویل حوالہ دیا ہے جنھوں نے المحلیٰ میں فرمایا ہے:

’’لونڈی اور آزاد عورت میں فرق کیسا، جبکہ اللہ کا دین ایک ہے، فطرت ایک ہے۔ یہ سب شریف زادیوں اور کنیزوں کے لیے یکساں ہے۔ اس فرق کو واضح کرنے کے لیے کوئی نص نہیں۔ بعض لوگوں نے اللہ کے اس قول ’یدنین علیہن من جلابیبہن ذلک ادنی ان یعرفن فلا یوذین‘ میں ٹھوکر کھائی ہے کہ اللہ نے اس کا حکم اس لیے دیا کہ فاسق عورتوں کے منہ لگتے تھے، اس لیے آزاد عورتوں کو حکم دیا کہ وہ جلباب پہنیں تاکہ فاسقوں کو پتا چل جائے یہ آزاد عورتیں ہیں، ان کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔‘‘(۳: ۲۱۸)
’’ہم (یعنی امام ابن حزم) اس فاسد تفسیر سے بری الذمہ ہیں۔ یہ تفسیر یا تو ایک عالم کی لغزش ہے یا فاضل عاقل کی ٹھوکر ہے یا کسی فاسق کا کذب وافترا، کیونکہ اس کی رو سے اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ لونڈیوں کی عزت سے کھیلیں۔ یہ تو رہتے زمانے تک کے لیے ایک مصیبت ہے۔
اس بارے میں مسلمانوں میں قطعی اختلاف نہیں کہ زنا لونڈی کے لیے اسی طرح حرام ہے جس طرح آزاد عورت کے لیے۔ ایک آزاد عورت کا پیچھا کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح لونڈی کا۔ اس لیے لازم ہے کہ اس بارے میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے سواکسی کو سند نہ مانیں، پھر انھوں نے حضرت عائشہ سے مروی حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں آئے تو ان کی ایک لونڈی تھی جو چھپ گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اسے ماہواری آنے لگی ہے؟ کہا گیا کہ ہاں آپ نے اپنے عمامہ کو پھاڑا اور فرمایا: اس سے سر ڈھانپ لو۔ لونڈیوں سے چھیڑ چھاڑ کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ وہ کام کاج کے لیے باہر نکلتی ہیں اور سوسائٹی میں غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ آیت کے اس ٹکڑے کی صحیح تفسیر جیسا کہ ابن العربی نے احکام القرآن میں بیان کی ہے، یہ ہے کہ جب عورت باوقار لباس پہن کر نکلے گی تو اوباش لوگوں کو اسے چھیڑنے کی جرات نہیں ہوگی۔ ان کو پتا چل جائے گا کہ یہ باعصمت عورت ہے یہ تفسیر صحیح نہیں کہ چہرہ دیکھ کر پتا چلے گا کہ یہ آزاد ہے یا کنیز۔‘‘(۳: ۲۱۹)

بہر کیف یہ بات تعجب خیز ہے کہ جن مفسرین (میری مراد عربی مفسرین ہے) کا حوالہ حافظ محمد زبیر صاحب نے اس آیت کے ضمن میں دیا ہے، ان سب نے سورۂ نور کی تفسیر میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کا چھپانا واجب نہیں۔ بلکہ امام طبری، علامہ زمخشری، امام رازی بحوالہ قفال امام قرطبی اور طنطاوی جوہری نے چہرے کو کھلا رکھنے کی حکمت کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ اسی بنا پر میرا حافظ صاحب سے مطالبہ تھا کہ جس تفصیل سے انھوں نے سورۂ احزاب میں حوالہ جات نقل کیے ہیں، اگر وہ اسی تفصیل سے سورۂ نور کے بارے میں حوالہ جات نقل کرتے تو بات نکھر کر سامنے آجاتی، یہ کیسے ہوا کہ مفسرین نے نہ اپنی گفتگو کے تناقض کی طرف توجہ دی اور نہ سورۂ نور کی مذکورہ آیت کی منسوخیت کا دعویٰ کیا۔ جب سورۂ احزاب میں ’ادناء الجلباب‘ کا مطلب چہرہ چھپانا ہے تو پھر اوڑھنی سے سر ڈھانپنے اور اسے سینے کے گرد لپیٹنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟

بات کو سمجھنے کے لیے آیت زیر بحث سے پہلی آیت کی طرف دیکھنا ہوگا جس میں ارشاد ربانی ہے:

وَالَّذِیْنَ یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْْرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُہْتَاناً وَإِثْماً مُّبِیْناً.(۳۳: ۵۸)
’’وہ لوگ جو بلا سبب ایمان دار مردوں اور عورتوں کی تکلیف کاسامان فراہم کرتے ہیں، وہ بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لیتے ہیں۔‘‘

یہ آیت ان لوگوں کی مذمت کرتی ہے جو مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد عورتوں کوحکم دیاگیا ہے کہ وہ اپنی آمدورفت میں وقار اور سنجیدگی کا لحاظ رکھیں تاکہ موذی افراد کی ایذا سے محفوظ رہیں۔ اس آیت کو پیش نظر رکھنے سے زیربحث آیت کوسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مفسرین کے نزدیک سورۂ نور اور سورۂ احزاب کی آیات میں تناقض نہیں ہے۔ یہ لوگ سورۂ نور کی آیت کو ایک کلی اور دائمی حکم کی حیثیت سے سمجھتے ہیں خواہ عورتوں کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ ہو یا نہ ہو، لیکن سورۂ احزاب کی آیت ان کے نزدیک، ان عورتوں کے لیے مخصوص ہے جو اوباش لوگوں کی مزاحمت سے دوچار ہوں۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ بدنہاد مرد عورت کے منہ لگیں اور دست درازی کریں تو ایسی حالت میں چہرہ چھپانا تو ایک طرف عورت پر واجب ہے کہ گھر سے ہی نہ نکلے، مگر ہر زمان ومکان کی عورت پر چہرہ چھپانا خواہ ایذارسانی کا کوئی خطرہ نہ ہو، تشدد ہے اور دین میں غلو کے مترادف ہے۔ اس سلسلہ میں علامہ البانی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی ہے:

لا تشددوا علی انفسکم، فانما ھلک من قبلکم بتشدیدھم علی انفسہم، وستجدون بقایاھم فی الصوا مع والدیارات.(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ،رقم ۳۶۹۴)
’’اپنے آپ پر سختی نہ کرو، کیونکہ اس سختی کے باعث تم سے پہلے لوگ برباد ہوگئے۔ تم ان لوگوں کی بقیہ نسل گرجوں اور خانقاہوں میں دیکھو گے۔‘‘

مفسرین کرام نے اس فرق کو پیش نظر رکھ کر آیات کی تفسیر کی ہے۔ ان کو یہ بات تسلیم ہے کہ ’ادناء‘ کا اصلی مفہوم چھپانا نہیں، لیکن ان کے پیش نظر وہ ضعیف روایات ہیں کہ یہ حکم کنیزوں کے مقابلہ میں آزاد عورتوں کی پہچان کے بارے میں ہے، اس لیے انھوں نے بطور احتیاط اس سے چہرہ چھپانے کا مطلب اخذ کیا ہے۔ علامہ ناصرالدین البانی نے ’ادناء‘ کے بارے میں بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا ہے کہ مخالفین نے دوقسم کی غلطی کی ہے۔ ۷؂

’’پہلے تو انھوں نے آیت جلباب میں ادناء کی تفسیر چہرے کو ڈھانپنا کیا ہے۔ یہ لغت میں اس لفظ کی اصل کے خلاف ہے، کیونکہ اس لفظ کے اصلی معنی تقرب کے ہیں جیسا کہ لغت کی سب کتابوں میں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ راغب اصفہانی نے المفردات میں کہا ہے: ’یقال دانیت بین الأمرین وأدنیت احدھما من الآخر‘ یعنی میں نے دو چیزوں کو باہم قریب کیا یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کیا۔مثال کے طور پر انھوں نے زیربحث آیت کو پیش کیا ہے۔(میں نے اس قول کی تائید میں ابن قتیبہ دینوری، نحوولغت کے امام کسائی، صاحب کشاف(تفسیر اور اساس البلاغہ) کے اقوال اپنے مضمون میں پیش کیے ہیں، مگر حافظ زبیر صاحب نے ان تمام اقوال کو شذوذات سے تعبیر کیا ہے) اس سلسلہ میں ترجمان القرآن ابن عباس کی تفسیر حجت کے لیے کافی ہے ’تدنی الجلباب الی وجہہا ولا تضرب بہ‘یعنی جلباب چہرے کی طرف نیچے کیا جائے گا، مگر اسے چھپائے گا نہیں۔‘‘

علامہ البانی نے حافظ ابن قطان کا یہ جواب نقل کیا ہے (ص۵۷) کہ ’یدنین علیہن من جلابیبہن‘ کے وہی معنی ہوں گے جو ’ولیضربن بخمرھن علی جیوبہن‘ کے ہیں یعنی جلباب اتنا نیچے کیا جائے گا کہ اس سے گلے کا ہار اور کانوں کی بالیاں چھپ جائیں۔

’’دوسرے انھوں نے جلباب کی تفسیر ایسا کپڑا کی ہے جو چہرے کو ڈھانپ لیتا ہے۔ لغت میں اس معنی کی کوئی اصل نہیں پھر یہ علما کی اس تفسیر کے منافی ہے کہ یہ ایسا کپڑا ہے جسے عورت اپنی اوڑھنی پر ڈالتی ہے، انھوں نے اپنے چہرے پر نہیں کہا۔‘‘

[باقی]

———————

۱؂ ۴: ۶۷۔

۲؂ ۱۱: ۸۔

۳؂ ۴: ۶۷۔

۴؂ ۱۲: ۴۹۔

۵؂ حاشیہ ص۸۸۔

۶؂ ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ ۹۰ ۔ ۹۵ ۔

۷؂ جلباب المراۃ المسلمہ ۵۔

——————————————

B