[یہ مولانا وصی مظہر ندوی کے ایک شاگرد جناب محمد اسحق کی تحریر ہے۔ اس کے مندرجات مصنف
کے مشاہدات اور تاثرات پر مبنی ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ مدیر]
آخر اللہ کی مرضی پوری ہوئی اور میرے محسن ومربی اور شفیق استاذ مولاناسید وصی مظہر صاحب ندوی کینیڈا میں ۲جنوری ۲۰۰۶ کو ۸۲ سال کی عمر میں اس عالم فانی کو الوداع کہہ گئے۔مولانا جہاں حیدرآباد شہر کے پہلے میئر اور وفاقی وزیر رہے، وہاں وہ حیدرآباد میں جماعت اسلامی کے مؤسس بھی تھے۔ مولانا محترم ایک نہایت طباع، ذہین، بلند حوصلہ، نیک سیرت، سادہ لوح اور زاہد شب زندہ دار تھے۔ وہ اگست ۱۹۲۴ میں لکھنؤ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید حبیب اصغر ندوی اچھا علمی اور ادبی ذوق رکھتے تھے۔
مولانا ندوی نے ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد صاحب سے گھر پر ہی حاصل کی۔ پھر والد صاحب نے ’’ندوۃالعلما‘‘ میں داخل کرادیا۔ مولانا اپنی کلاس کے سب سے کم عمر طالب علم تھے۔ وہ ندوہ کی طلبہ تنظیم کے صدر بھی رہے۔ندوہ میں انھیں جس طرح کے اساتذہ سے اکتساب علم کا موقع ملا، ایسے اساتذہ شاید ندوہ کواب کبھی نصیب نہ ہوں۔ ان اساتذہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (علی میاں)، مولانا سید مسعود عالم صاحب ندوی، محمد مراکشی، مولانا ابواللیث صاحب اصلاحی (امیر جماعت اسلامی ہند بھی رہے)، مولانا عبدالسلام قدوائی، مولانا محمد ناظم ندوی اور مولانا کے عم محترم سید ودود الحئی ندوی شامل ہیں۔یہ سب اعلیٰ پائے کے استاد تھے۔
مولانا جس زمانے میں ندوہ میں زیر تعلیم تھے، اس زمانے میں حضرت مولانا علی میاں مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کی دعوت سے بہت متاثر تھے اور اپنے تفسیری لیکچرز میں بارہا مولانا مودودی کا نام بھی لیا کرتے تھے۔ استاد کی زبان سے مولانا مودودی کا نام سن کر مولانا ندوی نے دوران تعلیم میں مولانا مودودی کی کتب کا مطالعہ کرنا شرو ع کر دیا تھا۔ پہلی بار مولانا مودودی سے بالمشافہ ملنے کا اتفاق انھیں ۵ جنوری ۱۹۴۱ کو اس وقت ہوا جب مولانا مودودی ندوہ کے طلبہ کو ’’نیا نظام تعلیم‘‘ کے موضوع پر خطبہ دینے لکھنؤ تشریف لائے۔ مولانا ندوی کی عمر اس وقت ۱۷ سال تھی۔ وہ مولانا مودودی کی شخصیت اور علم سے بہت متاثر ہوئے۔ دوسری بار وہ مولانا مودودی کی تقریر ’’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ سننے علی گڑھ گئے، جہاں مولانا مودودی نے یہ مقالہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۱ کو پڑھا تھا۔
مولانا ندوی کی بڑی بہن ٹی بی کی مریضہ تھیں۔ مولانا انھیں لے کر ۱۹۴۵ء میں جب ’’نینی تال‘‘ گئے تو وقت گزارنے کے لیے وہاں ’’کوثر‘‘ منگوانا شروع کر دیا۔ ان دنوں ’’کوثر‘‘ میں مولانا مودودی کی وہ تقاریر شائع ہو رہی تھیں جو انھوں نے جماعت اسلامی کے پہلے کل ہند اجتماع کے موقع پر اپریل ۱۹۴۵ کو بمقام دارالسلام پٹھان کوٹ میں کی تھیں۔ اس اجتماع کی تقاریر پڑھنے کے بعد مولانا ندوی نے فیصلہ کر لیا کہ اب زندگی صرف فریضۂ اقامت دین کے کام میں کھپانی ہے اور پھر گھر واپس آتے ہی غالباً ۱۹۴۵ء کے آخر میں رکنیت جماعت کی درخواست دے دی۔ مولانا کی یہ درخواست اپریل ۱۹۴۶ میں منظور ہو گئی۔ اس کے بعد مولانا ۱۹۴۶ء کے الٰہ آباد کے اجتماع میں شریک ہو گئے۔ یہ واقعہ ایسے ہوا کہ اجتماع میں شرکت کے لیے مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی جس ٹرین سے الٰہ آباد تشریف لے جا رہے تھے، وہ کچھ دیر کے لیے لکھنؤ ٹھہری، مولانا وصی مظہر ندوی اس وقفے میں مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کو اپنے گھر لے آئے اور پھر ان قائدین کے ساتھ ہی الٰہ آباد روانہ ہو گئے۔ اس اجتماع کے بعد مولانا ندوی نے واپس آ کر رکنیت کا حلف اٹھایا۔ مولانا لکھنؤ جماعت اسلامی کے مکتبہ کے انچارج اور خازن بھی رہے۔ ۱۹۴۶ء کے اجتماع میں مولانا مودودی کی شخصیت سے مولانا ندوی نے بڑا گہرا اثر لیا۔
پاکستان بننے کے بعد مولانا پاکستان تشریف لے آئے۔ مولانا بحری جہاز کے ذریعے سے کراچی پہنچے تھے، اسی لیے ابتدائی قیام کراچی ہی میں رہا۔ مولانا نے کراچی آتے ہی جماعتی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ اس وقت جماعت اسلامی کا اجتماع دکنی مسجد میں ہوا کرتا تھا اور امیر جماعت جناب خواجہ محمد صدیق صاحب درس قرآن دیا کرتے تھے ۔ مولانا ندوی باقاعدگی سے اجتماع میں شریک ہوتے تھے۔
مولانا ندوی اپنے ماموں کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ مولانا کے ماموں بھی ندوہ کے فارغ اور ایک انتہائی لائق اور ذہین آدمی تھے۔ وہ صوبۂ سندھ کے محکمۂ تعلیم کے ڈائریکٹر عمر بن داؤد پوتہ کی اہلیہ کو عربی سکھاتے تھے۔ انھوں نے داؤد پوتہ صاحب سے ندوی صاحب کا ذکر کیا تو انھوں نے مولانا ندوی کو ملنے کے لیے بلوایا اور ان کا عربی کا کچھ امتحان بھی لیا۔ ایک قصہ عربی میں لکھنے کو دیا اور کچھ دیر عربی میں بات چیت بھی کی۔ وہ مولانا سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے مولانا سے کہا کہ آپ اسی لب و لہجہ میں عربی پڑھائیے گا، ابھی ان حضرات کی یہ بات چیت جاری تھی کہ نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد کے ہیڈ ماسٹر غلام محمد ہاشوانی صاحب آ گئے۔ داؤد پوتہ صاحب نے ان سے کہا کہ یہ آپ کے اسکول کے لیے ایک اچھے عربی ٹیچر ہیں۔ یوں مولانا ندوی ہاشوانی صاحب کے ساتھ ۱۹۴۸ء میں حیدرآباد تشریف لے آئے۔
حیدر آباد میں مولانا کا قیام مدرسۂ جامعہ عربیہ تلک چاڑی میں رہا۔ یہ مدرسہ اب جامعہ عربیہ ہائی اسکول بن گیا ہے۔ اس مدرسہ کے بانی سید اکبر علی شاہ صاحب تھے۔ سید اکبر علی صاحب نے اس مدرسہ میں انجمن ترقی اردو کا دفتر بھی قائم کیا ہوا تھا۔ یہاں ان کی فرمایش پر مولانا ندوی نے عربی کا ایک ادارہ قائم کرکے عربی پڑھانی شروع کر دی، ساتھ ہی مرکز جماعت کو لکھا کہ جماعت کے ارکان و متفقین کے پتے دیے جائیں تاکہ ان سے رابطہ کیا جا سکے۔مرکز نے ایک صاحب سید عبدالودود کا پتا دیا۔ مولانا ندوی نے ان سے رابطہ کیا۔ ان کے ساتھ ایک اور نوجوان ساتھی غلام حسین میمن بھی تھے۔ ان دو افراد کو ساتھ ملاکر مولانا ندوی نے حیدر آباد میں جماعت اسلامی قائم کی اور اورنگ زیب مسجد کے ساتھ ایک لائبریری ’’مکتبۂ اسلامی‘‘ کے نام سے قائم کی۔ اس مکتبہ میں مولانا ندوی صاحب نے ایک کامیاب تجربہ کیا کہ وہ مولانا مودودی کے خطبات کے مجموعہ سے کوئی ایک خطبہ پمفلٹ کی شکل میں شائع کرتے اور صرف ایک آنہ کی قیمت پر لوگوں کو گھر گھر جا کر یہ خطبات فروخت کرتے اور اگر کوئی بغیر پیسا دیے پڑھنا چاہتا تو اسے بھی دے دیتے۔ اس کے ساتھ ساتھ جماعت کی دعوت بھی دیتے۔ دوسرا تجربہ جو اس سے بھی زیادہ کامیاب رہا، وہ یہ تھا کہ لائبریری کی معمولی رکنیت فیس لے کر لوگوں کے نام اور پتا کا اندراج کر لیتے اور انھیں کتب مہیا کردیتے۔ نئی کتاب آتی تو ان کے گھر جا کر انھیں پڑھنے کو دے آتے اور جب یہ کتاب واپس لاتے تو ان کی پسند کی کوئی دوسری کتاب انھیں دے آتے۔ یہ ایسا کامیاب تجربہ تھا کہ فرماتے تھے کہ کچھ عرصہ بعد لائبریری کے ممبران کی تعداد ۵۰۰ ہو گئی تھی۔
مولانا ندوی جس زمانے میں حیدر آباد ضلع و ڈویژن کے امیر تھے، تو وہ سنیچر کی شام سائیکل پر کبھی ٹنڈو جام کبھی ٹنڈو محمد خان اور کبھی کسی اور قریبی علاقے میں چلے جاتے اتوار کی چھٹی کا پورا دن وہاں جماعت کی دعوت پہنچانے میں صرف کرتے اور شام کو واپس لوٹتے۔لاہور سے جب جماعت اسلامی کا اخبار روزنامہ ’’تسنیم‘‘ نکلنا شروع ہوا تو مولانا صاحب فجر کی نماز پڑھ کر سائیکل پر اسٹیشن جاتے اور خیبر میل سے اخبار تسنیم لے کر انڈس گلاس ورکس سے لے کر عامل کالونی تک ایک ایک خریدار تک پہنچاتے اور پھر ۳۰:۷ بجے نور محمد ہائی اسکول پہنچ جاتے، پھر اسکول میں مختصر سی اصلاحی تقریر کرتے۔ جماعت اسلامی کے ۴ نکاتی مطالبۂ اسلامی کی مہم بھی نہایت سرگرمی سے چلاتے رہے۔ مولانا مودودی کا خطاب ’’مطالبۂ نظام اسلامی‘‘ لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مختلف مساجد میں پڑھ کر سناتے رہے۔
۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلہ پر جن افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، ان میں سب سے پہلے مولانا عبدالستار خان صاحب نیازی کو موت کی سزا سنائی گئی، لیکن اس وقت عوام ا ور اخبارات پر ایسا خوف طاری تھا کہ اس خبر پر کوئی عوامی رد عمل سامنے نہیں آیا اور اخبارات نے بھی اس خبر کو ایک کالمی خبر کے طور پر شائع کیا۔ اس فیصلے کے بعد یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اب مولانا مودودی کو بھی پھانسی کی سزا سنا دی جائے گی اور یہ اندیشہ درست بھی ثابت ہوا۔ مولانا نیازی کی پھانسی کی سزا پر مولانا ندوی نے ایک قرارداد منظور کرائی اور خطیبوں کو تیار کیا کہ وہ یہ قرارداد مساجد میں پاس کرائیں۔ اس قرارداد کا اثر یہ ہوا کہ جب مولانا مودودی کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا تو اخبارات نے اس خبر کو شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ اس کے نتیجے میں جمود دور ہو گیا۔ مولانا ندوی یہ خبر ریڈیو پر اخبارات آنے سے پہلے ہی سن چکے تھے۔ وہ یہ خبر سننے کے بعد ایک رکن جماعت نجم الدین صاحب کے گھر گئے اور ان کے گھر کے فون کے ذریعہ سے دیگر ارکان کو جمع کیا۔ ۱۰، ۱۲ آدمی جمع کرکے انھوں نے حیدرآباد میں ہڑتال کرانے کا پروگرام بنایا۔ وہ تلک چاڑی کے انجمن تاجران کے صدر سے ملے اور انھیں ہڑتال کے لیے تیار کیا۔ انھوں نے پورا بازار بند کرا دیا پھر مختلف جگہوں پر احتجاجی ریلی کے ذریعہ سے ایسی کامیاب ہڑتال کرائی کہ سگریٹ اور پان تک کے کیبن بند کرا دیے۔ پھر اسی روز رات کو ایک جلسہ کیا جس میں میر رسول بخش تالپور اور مولانا عبدالقیوم کانپوری اور مزید کئی لیڈر بھی شامل ہوئے۔ ان سب نے بڑی زور دار تقاریر کیں۔ یہ جلسہ بہت کامیاب رہا۔ مولانا ندوی کے اس جلسے اور ہڑتال نے پورے ملک کو رہنمائی دی۔ اس خبر پر پہلے دن صرف حیدرآباد ہی میں احتجاج ہوا تھا۔ بقیہ ملک میں اس کے بعد ردعمل سامنے آیا۔
مولانا ندوی ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۴ء تک نور محمد ہائی اسکول میں پڑھاتے رہے۔ پھر ۱۹۵۴ء ہی میں سندھ اوریئنٹل کالج میں پڑھانا شروع کر دیا اور غالباً ۱۹۵۷ء تک پڑھاتے رہے۔
۱۹۵۷ء کے قریب کچھ معاشی حالات کے پیش نظر ’’ادارۂ اسلامی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور ۵ روپے ماہانہ پر لوگوں کو عربی پڑھانا شروع کر دی، پھر نواب شاہ ہائی اسکول میں شاہ ولی اللہ اوریئنٹل کالج قائم کرنے کی منظوری حاصل کر لی تھی، لیکن مولانا شفیع نظامانی اور مولانا جان محمد بھٹو کے اصرار پر منصورہ ہالا میں شاہ ولی اللہ اوریئنٹل کالج قائم کیااور ۱۹۵۷ء سے ۱۹۶۹ء تک کالج کی نظامت کے فرائض ادا کیے۔ ۱۹۶۳ء میں جب جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرکے اس کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان گرفتار کر لیے گئے تو مولانا کو بھی حوالۂ زنداں کر دیا گیا۔
جماعت اسلامی کی تاریخ میں ۵۶۔۱۹۵۸ء کا دور ایسا تھا کہ جماعت اسلامی کی تاسیس سے تا امروز اس دور سے زیادہ شدید بحران نہیں آیا۔ اس دور میں جماعت اسلامی نے بقول اہلیہ شیخ سلطان احمد صاحب (رکن جماعت اسلامی) ’’اپنی جھولی سے ہیرے نکال پھینکے تھے۔‘‘ اس بحرانی دور میں جب جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پر شوریٰ میں بحث جاری تھی تو مولانا ندوی مولانا مودودی کے رویے سے بہت دل برداشتہ ہوئے اور انھوں نے شوریٰ سے واپسی کے بعد مولانا مودودی کو خط میں لکھا کہ :
’’مجھے شوریٰ میں آپ کے رویے سے بہت دکھ ہوا آپ میں وہ صبر و تحمل نہیں تھا جو آپ کے مزاج کا حصہ رہا ہے۔ آپ ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے کہ جو آپ کی تائید کر رہے تھے اور ان لوگوں کی تقاریر میں مداخلت کر رہے تھے جو آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔‘‘
اس کے جواب میں مولانا مودودی نے مولانا ندوی کو سخت الفاظ میں ایک خط لکھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ جماعت میں اگر کسی کو کچھ کام کرنے کا موقع ملا ہے تو اسے اپنی حیثیت پہچاننی چاہیے۔مولانا ندوی نے اس خط کے بعد رکنیت جماعت اور شوریٰ کی رکنیت کے علاوہ سب عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ مولانا ندوی اس زمانے میں بقیہ ارکان جماعت کو بھی سمجھاتے رہے کہ استعفیٰ دینے کے بجائے جماعت کے اندر رہ کر اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔ کوٹ شیر سنگھ میں شوریٰ کا اجتماع رکھا گیا۔ اس اجتماع میں مولانا مودودی نے جو تقریر ارکان شوریٰ کو بریف کرنے کے لیے کی، اس میں کہا کہ :
’’جمہوریت جو کسی اسٹیٹ میں ہوتی ہے، وہ اور ہوتی ہے اور جو جمہوریت کسی تحریک میں ہوتی ہے، وہ دوسری قسم کی ہوتی ہے، مثلاً اسٹیٹ کی جمہوریت میں حزب اختلاف وغیرہ ہو سکتی ہے، لیکن تحریک میں اصل کام امیر کا ہوتا ہے اور اصل ذمہ داری بھی، وہی پارٹی لائن طے کرتا ہے، جبکہ شوریٰ امیر کی رائے کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے صرف تجاویز دے، یہ نہ ہو کہ شوریٰ امیر کی رائے کے خلاف کوئی رائے دے؟‘‘
مولانا مودوی کی اس تقریر کے بعد مولانا ندوی نے اپنی تقریر یہ کہتے ہوئے شروع کی کہ ’’مولانا مودودی کے افتتاحی خطاب کے بعد تو مجھے یہ تقریر کرنا ہی نہیں چاہیے تھی، کیونکہ اس سے جماعت میں پھر حزب اختلاف بنے گی، لیکن یہ قرارداد اس لیے پیش کرنا ضروری ہے کہ میری نظر میں مولانا کا نقطۂ نظر غلط ہے۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں، کیونکہ جس تحریک میں اختلاف رائے اور اظہار خیال کی آزادی نہ ہو گی، جب وہ کامیاب ہو کرایک اسٹیٹ میں تبدیل ہو گی تو اس میں بھی یہی صورت حال ہو گی اور کہا جائے گا کہ اسٹیٹ کے دشمن بہت ہیں، لہٰذا اسٹیٹ میں اختلافی رائے یا حزب اختلاف کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
مولانا ندوی کی اس تقریر کے بعد مولانا مودودی نے اپنی یہ تقریر جو ’’تسنیم‘‘ لاہور میں چھپنے جا چکی تھی، ایک آدمی کو بھیج کر چھپنے سے رکوا دی اور پھر جماعت اسلامی نے اس تقریر کو کبھی شائع نہیں کیا۔شوریٰ کے وقفہ میں مولانا اصلاحی نے مولانا ندوی کو شاباش دی اور کہا کہ ’’بھئی تم نے تو کمال کر دیا۔‘‘اسی زمانے میں مولانا ندوی کا مولانا مودودی کی آرا سے ٹکراؤ ہوا اور یہ وہ دور تھا کہ بقول حضرت مولانا امین احسن صاحب اصلاحی: ’’میں وہ ہوں کہ میری آنکھیں انتہائی تاریکی میں بھی روشنی ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ لیکن اس وقت مجھے بھی روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔‘‘ اس زمانے کا ایک خوب صورت تبصرہ مولانا اصلاحی کے گشتی مراسلہ کا مجھے یاد آرہا ہے۔ فرماتے ہیں:’’اس نئے دستور کو کوئی سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو، مگر میں ضرور سمجھتا ہوں اس کا خلاصہ دو نکتوں میں یہ ہے کہ سارے اختیارات مجلس عاملہ کو حاصل ہیں اور مجلس عاملہ امیر جماعت کی جیب میں ہے!‘‘
خیر اس بحث کو چھیڑنا میرا مقصود نہ تھا، بلکہ میں تو اس وقت کے حالات اس لیے سامنے لا رہا ہوں کہ اندازہ ہو سکے کہ اتنے بحرانی اور اختلافی دور میں بھی مولانا ندوی نے جماعت سے شدید اختلاف کے باوجود رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیا اور جماعت میں رہ کر اصلاحی کوششیں جاری رکھیں۔
اس بحث و نزاع اور بقول مولانا اصلاحی برے مشیروں کا اندازہ مولانا مودودی کو اس وقت ہوا جب وہ ’’خیرخواہ اور مخلص مشیروں ‘‘ کی ٹیم کو اپنی غلط پالیسیوں کا شکار بنا چکے تھے اور جماعت اسلامی غلط پالیسی کے نتیجے میں ایک غلط موڑ مڑ چکی تھی۔ لیکن مولانا مودودی کو اس کا احساس ہوتے ہی انھوں نے ۵۵۔۱۹۵۶ء کی جائزہ کمیٹی کی طرز کی ایک قرارداد فروری ۱۹۷۲ء کی مرکزی مجلس شوریٰ میں خود پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ:
’’جماعت اپنے آپ کو سیاسی محاذ سے پیچھے ہٹائے گی اور رابطۂ عوام مہم صالح قیادت کی تبدیلی کے نام پر نہیں، بلکہ رجوع الی اللہ کے نام پر شروع کرے گی۔‘‘
اب بجائے اس کے کہ اس قرارداد پر عمل کیا جاتا مولانا مودودی کی علالت کے باعث، اس قرارداد کو پس پشت ڈال دیا گیا اور میاں طفیل محمد صاحب نے دستور کی سات نکاتی مہم شروع کر ڈالی جس کے لیے مولانا مودودی نے میاں صاحب کو منع کیا اور فرمایا کہ ’’آپ ان چیزوں میں نہ پڑیں۔‘‘ مذکورہ بالا قرارداد کے بعد جماعت کی سیاسی سرگرمیوں پر مولانا ندوی نے صوبۂ سندھ کے ارکان کا اعلان ہو جانے کے بعد امیر صوبۂ سندھ کو ایک قرارداد پیش کرنے کا نوٹس بھیجا۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ صوبۂ سندھ کے ارکان کا یہ اجتماع محسوس کرتا ہے کہ انتخابی سیاست اور طریقۂ کار کے ذریعہ سے اسلامی انقلاب کی جو کوشش کی جا رہی ہے، وہ قابل اطمینان نہیں، مرکزی شوریٰ کے اجلاس بھی اس ضمن میں ہو چکے ہیں، لہٰذا کل پاکستان اجتماع بلا کر اس مسئلہ کو زیر غور لایا جائے۔
مولانا ندوی نے امیر صوبہ کو قرارداد کا متن بھیجا اور ساتھ ہی یہ لکھا کہ: ’’اگر آپ نے یہ قرارداد مجھے پیش کرنے کی اجازت نہ دی تو میں ارکان تک یہ قرارداد براہ راست بھیجوں گا۔‘‘ لیکن امیرصوبہ نے جواب دیا:’’چونکہ یہ بات مرکزی شوریٰ سے متعلق ہے، لہٰذا اسے یہاں زیر غور نہیں لایا جا سکتا۔‘‘پھر امیرصوبہ کو مولانا نے لکھا کہ ارکان، بے شک یہاں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، لیکن قرارداد کے پاس کرنے کے بعد کل پاکستان کا اجتماع بلانے کا مطالبہ تو کریں گے، فیصلہ تو کل پاکستان اجتماع ہی میں ہو گا۔ امیر صوبہ کی طرف سے مذکورہ بالا قرارداد کو اجتماع ارکان سندھ میں پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر مولانا ندوی نے اس قرارداد کی ۵ فوٹو کاپیاں مختلف ارکان کو بھیج دیں اور ان سے یہ کہا کہ جو اس قرارداد سے متفق ہوں، وہ دستخط کرکے مختلف ارکان تک یہ کاپیاں بھیج دیں۔ اس قرارداد پر اس طرح ۷۲،۷۴ ارکان نے دستخط کر دیے۔
سندھ کے اجتماع ارکان میں میاں محمد شوکت صاحب نے مولانا ندوی پر نجویٰ اور سازش کا الزام لگایا اور ان کے خلاف ایک تقریر کی۔ مولانا نے فرمایا کہ نجویٰ قرآن مجید میں کانا پھوسی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ میں نے تو یہ قرارداد پیشگی اطلاع کے بعد ارکان کو دی ہے، اس پر میاں صاحب نے مولانا کا مذاق اڑایا او رفرمایا کہ نجویٰ اسے بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اس اجتماع کے بعد مولانا ندوی صاحب کو ۳۲ صفحات پر مبنی فیصلہ، جماعت سے اخراج کا بھیج دیا گیا۔ یہ فیصلہ صوبے کی سطح پر ہوا۔ مولانا ندوی اس وقت حج پر روانہ ہو رہے تھے۔ حج پر روانہ ہونے سے پہلے انھوں نے ایک مختصر اپیل امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد صاحب کے نام لکھی کہ: ’’جماعت سے میرے اخراج کا فیصلہ کر دیا گیا ہے جس کا مجھے اندیشہ تھا، آپ اس فیصلے کو معطل کریں تاآنکہ میں حج سے واپس آ کر مفصل اپیل دائر کر سکوں۔‘‘یہ اپیل مقامی جماعت نے آگے نہ پہنچائی اور ندوی صاحب نے ڈھائی ماہ انتظار کرنے کے بعد مرکز کو لکھا کہ :’’آپ نے میری اپیل کا جواب نہیں دیا تو ممکن ہے کہ میں اپنے حق کے لیے سول کورٹ سے رجوع کروں۔‘‘تب مولانا اسلم سلیمی صاحب نے جواب دیا کہ آپ کی کوئی اپیل مرکز کو نہیں ملی، پھر ندوی صاحب نے اپیل کی کاپی مرکز جماعت کو بھجوائی (یہ اپیل مقامی جماعت کو دینے کا سبب یہ تھا کہ کہیں ڈاک سے یہ اپیل سنسر ہو جائے اور جماعت کے اندرونی اختلاف کا حکومت کو علم ہو جائے)۔
حقائق معلوم ہونے پر اسلم صاحب نے مولانا ندوی صاحب کو ایک ماہ کی مزید مہلت دی۔ اس کے بعد مولانا ندوی نے ایک مفصل اپیل مرکز جماعت کو بھیجی، مگر دو ڈھائی ماہ تک اس اپیل کا بھی کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
اسی زمانے میں میاں طفیل محمد صاحب اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کے بیانات اخبارات میں چھپے کہ جماعت اسلامی، مسلم لیگ کے ساتھ انضمام کے لیے تیار ہے۔ان بیانات کے چھپنے پر مولانا مودودی جو عملی سیاست سے جماعت اسلامی کو ایک بار پھر دعوتی تحریک بنانا چاہ رہے تھے، بہت ناراض ہوئے اور میاں صاحب اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کے بیانات کے خلاف مولانا مودودی نے ایک بیان اخبارات کو چھپنے کے لیے بھیجا۔ مگر میاں طفیل محمد صاحب کے سیکرٹری نشر و اشاعت نے اس بیان کو اخبارات میں چھپنے سے روکنے کی سر توڑ کوشش کی جس کے نتیجے میں اخبارات کے دفاتر سے مولانا مودودی کے پاس فون آنے لگے کہ کیا آپ اپنا بیان واپس لے رہے ہیں؟ تو مولانا مودودی نے اس پر فرمایا کہ ’’میں اپنا کوئی بیان دے کر واپس نہیں لیتا ‘‘ اور مولانا مودودی کا یہ بیان میاں صاحب کی کوششوں کے باوجود ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’مشرق‘‘ میں چھپ بھی گیا۔مولانا مودودی کے اس بیان کو پڑھنے کے بعد ندوی صاحب نے مرکز کو لکھا کہ: ’’آپ نے میری اپیل کا کوئی جواب تک نہیں دیا اور اب آپ حضرات چونکہ مسلم لیگ سے انضمام کے لیے بالکل تیار ہیں ، تو میرے نزدیک موجودہ جماعت اسلامی وہ جماعت ہی نہیں رہی جس میں میں نے شمولیت اختیار کی تھی، اس لیے میں اپنی اپیل واپس لیتا ہوں۔‘‘
جس اپیل کا جواب مرکز جماعت سے دو ، ڈھائی ماہ تک نہیں آیا تھا، اس اپیل کو واپس لینے پر مرکز نے فوراً جواب دینا اپنا اولین فریضہ خیال کیا اور مولانا ندوی صاحب کو لکھا کہ: ’’آپ نے اپنی اپیل واپس لے لی ورنہ ہم نے تو دو آدمیوں کا ٹریبونل بنا دیا تھا۔ یہ ٹریبونل مولانا گوہر رحمان اور مولانا معین الدین خٹک پر مشتمل تھا۔‘‘اس جواب میں اپنے پرانے رکن کے ساتھ چھوڑنے پر کسی نے افسوس کا بھی اظہار نہ کیا اور یوں اپریل ۱۹۴۶ میں جماعت اسلامی میں شمولیت کا یہ سفر تقریباً تیس سال بعد ۱۹۷۶ء میں ختم ہو گیا۔مولانا صاحب اس عرصہ میں جماعت اسلامی لکھنؤ کے خازن اور مکتبۂ جماعت کے انچارج بنے۔ بیس سال مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ حیدرآباد ضلع و ڈویژن کے امیر رہے۔ صوبۂ سندھ حلقۂ زیریں سندھ کے قیم رہے۔ مولانا مودودی نے اپنی زندگی میں جو آخری مجلس عاملہ منتخب کی تھی، اس کے رکن رہے۔ دستوری مباحث کے لیے جو شوریٰ کے اجلاس ہوئے، ان میں اپنی آرا و مشورے کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔ جماعت اسلامی کے دستور کی تدوین و ترتیب کے لیے جو کمیٹی بنی تھی، اس کے رکن بھی رہے۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی کا ایک گشتی شفاخانہ او ردو سکونتی شفاخانے قائم کیے۔ عوام کے اخلاق کی اصلاح کے لیے ’’انجمن اصلاح و خدمت‘‘ نامی تنظیم قائم کی او رجماعت اسلامی کے اخراج کے بعد بھی دعوت کا کام انجام دینے کے لیے نظام اسلامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اس کے صدر رہے، پھر علامہ جاوید احمد صاحب غامدی کے ساتھ ’’انصار المسلمون‘‘ نامی تنظیم قائم کی اور اس کے بھی صدر رہے، اس طرح جو عہد جوانی میں کر چکے تھے کہ اب ساری زندگی فریضۂ اقامت دین میں کھپانی ہے، کسی نہ کسی طرح اسے نبھاتے رہے۔ دعوت کے کام کے سلسلہ میں جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ساتھ بھی برابر تعاون کرتے رہے اور جب ضیاء الحق صاحب نے اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعوے کیے تو ان کے ساتھ بھی امیدیں وابستہ کرکے وزارت مذہبی امور قبول کر لی اور اپنی بساط بھر ایک بے داغ سیاست کا نمونہ لیڈروں کو دے گئے۔
۱۹۹۶ء میں تحریک اسلامی سے متعارف ہوئے اور انھوں نے تحریک کا لٹریچر اور دستور پڑھ کر یہ اطمینان کر لیا کہ تحریک میں امیر کے اختیار لا محدود نہیں، بلکہ وہ شوریٰ کے فیصلوں کا پابند ہے تو تحریک سے خط کتابت شروع کی اور مکمل اطمینان کے بعد اکتوبر ۱۹۹۷ میں تحریک کی رکنیت کی درخواست دے دی اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود دعوت کا کام بہت جوش اور انہماک سے کرنے لگے۔ مدرسہ جامعۂ اسلامیہ میں ہفتہ وار درس قرآن کا آغاز کر دیا پھر حیدرآباد سے کینیڈا شفٹ ہونے کے بعد وہاں بھی تحریک کا کام کرتے رہے اور باقاعدگی سے اپنی رپورٹ مرکز کو بھجواتے رہے۔ کینیڈا میں ایک ریسرچ لائبریری قائم کی۔ کینیڈا میں ریڈیو پر تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا اور وہاں ایک حلقۂ احباب قائم کرکے درس قرآن کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا درس بھی دینا شروع کر دیا۔ ان دروس کا پہلا حصہ کتابی شکل میں کینیڈا سے شائع ہو گیا ہے۔حیدرآباد میں تحریک اسلامی کے پہلے امیر بنے اور تحریک اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے رکن بھی رہے، اس طرح تبلیغ و دعوت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اس جہان بے ثبات کو خیر باد کہہ گئے۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را
_______________