بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ، قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْْہَا، قُلْتُمْ: اَنّٰی ہٰـذَا؟ قُلْ: ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْرٌ{۱۶۵} وَمَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ، فَبِاِذْنِ اللّٰہِ، وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۶۶} وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا، وَقِیْلَ لَہُمْ: تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اَوِ ادْفَعُوْا، قَالُوْا: لَوْ نَعْلَمُ قِتَالاً لاَّ تَّبَعْنٰکُمْ، ہُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْہُمْ لِلْاِیْمَانِ، یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِہِمْ مَّا لَیْْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُوْنَ{۱۶۷} اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِہِمْ، وَقَعَدُوْا، لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا، قُلْ: فَادْرَئُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ، اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۱۶۸}
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا، بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ، یُرْزَقُوْنَ{۱۶۹} فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ، وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِّنْ خَلْفِہِمْ اَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ{۱۷۰} یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ، وَّاَنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۷۱} اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَآ اَصَابَہُمُ الْقَرْحُ، لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْہُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌ{۱۷۲} اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ: اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ، فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا، وَّقَالُوْا: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ{۱۷۳} فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ، لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْٓئٌ، وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّّٰہِ، وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ{۱۷۴} اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَ ہٗ فَلاَ تَخَافُوْہُمْ، وَخَافُوْنِ، اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۱۷۵}
اور (ہاں)، جب ایک مصیبت تمھیں پہنچی جس سے دوگنی مصیبت (اِس سے پہلے بدر میں) تم نے (اُنھیں) پہنچائی تھی تو کیا یہ بات بھی تم نے کہی کہ یہ کہاں سے آگئی؟ ۲۴۷ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر) کہ یہ تمھاری اپنی ہی لائی ہوئی ہے۔ (اللہ فتح دیتا ہے تو اپنی حکمت کے مطابق شکست بھی دلواتا ہے)، اِس لیے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۲۴۸ اور (مزید یہ کہ) جب دونوں فوجیں بھڑیں تو اُس دن جو مصیبت تم پر آئی، وہ اللہ کے اذن سے آئی اور اِس لیے آئی کہ اللہ اُن کو بھی دیکھ لے جو سچے مومن ہیں اور اُن کو بھی جو (ابتدا ہی سے) منافقت اختیار کیے ہوئے تھے اور اُن سے کہاگیا کہ آؤ، اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا کم سے کم (اپنے شہر کی) مدافعت ہی کرو تو اُنھوں نے کہا تھا کہ اگر ہم جانتے کہ جنگ ہونی ہے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ اُس دن ایمان سے زیادہ یہ کفر کے قریب تھے۔ یہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہہ رہے تھے جو اِن کے دل میں نہیں تھیں اور اللہ خوب واقف تھا اُس سے جو یہ چھپائے ہوئے تھے۔ یہی جو بیٹھے رہے اور اپنے (اُن) بھائیوں کے بارے میں (جو لڑنے کے لیے نکلے) کہہ دیا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو (اِس طرح) قتل نہ ہوتے۔ ۲۴۹ اِن سے کہہ دو کہ اپنی موت کو ٹال کر دکھانا، اگر تم سچے ہو۔ ۱۶۵ــ ۱۶۸
(اِن باتوں کی پروا نہ کرو، اے پیغمبر) اور (اِس جنگ کے دوران میں) جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، اُنھیں ہرگز مردہ خیال نہ کرو۔ (وہ مردہ نہیں)، بلکہ اپنے پروردگار کے حضور میں زندہ ہیں، اُنھیں روزی مل رہی ہے۔ اللہ نے جو کچھ اپنے فضل میں سے اُنھیں عطا فرمایا ہے، اُس پر شاداں و فرحاں، اُن کے اخلاف میں سے جو لوگ ابھی اُن سے نہیں ملے، اُن کے بارے میں بشارت حاصل کرتے ہوئے کہ (خدا کی اِس ابدی بادشاہی میں) اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے، اللہ کی نعمتوں اور اُس کے فضل سے خوش وقت اور اِس بات سے کہ ایمان والوں کے اجر کو اللہ کبھی ضائع نہ کرے گا،۲۵۰ اُن لوگوں کے اجر کو جنھوں نے چوٹ کھانے کے بعد بھی اللہ اور اُس کے رسول کی آواز پر لبیک کہی ہے۔۲۵۱ اُن میں سے جنھوں نے خوبی سے کام کیے اور خدا سے ڈرتے رہے،۲۵۲ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہ وہ ہیں کہ جنھیں لوگوں نے کہا کہ تمھارے خلاف بڑی قوت جمع ہوگئی ہے، اُس سے ڈرو تو اُن کا ایمان یہ سن کر اور بڑھ گیا اور اُنھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔۲۵۳ سو وہ اللہ کی نعمت اور اُس کا فضل لے کر (اِس مہم سے) واپس آئے، اُن کو کوئی گزند نہیں پہنچا اور وہ اللہ کی خوشنودی کے طلب گار ہوئے اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ بڑی عنایت کرنے والا ہے۔ (اب یہ بات تو تم پر واضح ہوگئی کہ) یہ شیطان ہے جو اپنے ساتھیوں کے ڈراوے دے رہا تھا۔۲۵۴ سو اِن سے مت ڈرو، اگر تم سچے مومن ہو تو صرف مجھ سے ڈرو۔ ۱۶۹ــ ۱۷۵
۲۴۷؎ یہ اعتراض جن لوگوں نے کیا، وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ خدا کے رسول تو اللہ کی حفاظت میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہر موقع پر ان کی مدد کرتے ہیں، اس لیے یہ کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کسی معرکے میں شکست ہوجائے۔ اس خیال کے لوگ احد کی شکست سے سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے متعلق بھی ان کے دل میں طرح طرح کے شبہات پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ منافقین نے ان کی اس ذہنی کیفیت سے فائدہ اٹھایا اور اس شکست کو آپ کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔ قرآن نے اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں اسی غلط فہمی کو دور کیا ہے اور اس موقع پر جو آزمایش پیش آئی، اس کی حکمت واضح فرمائی ہے۔
۲۴۸؎ یہ اس غلطی کی طرف اشارہ ہے جو احد کی جنگ میں درے کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے لوگوں سے ہوئی۔ انھوں نے حکم کی خلاف ورزی کی اور مال غنیمت کی طمع میں اپنی جگہ چھوڑ دی جس کے نتیجے میں مسلمان اس مصیبت سے دوچار ہوئے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہوا ہے۔
۲۴۹؎ یہ قرآن نے ایک گفتگو جنگ سے پہلے اور ایک اس کے بعد کی نقل کر کے گویا آئینہ فراہم کر دیا ہے، جس میں ان منافقین کے چہرے دیکھ لیے جاسکتے تھے۔
۲۵۰؎ ان آیتوں پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کے ذریعے سے قرآن نے نہایت بلاغت کے ساتھ وہ تمام اثرات مٹا دیے ہیں جو منافقین مسلمانوں، بالخصوص شہدا کے پس ماندگان کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
۲۵۱؎ یہ اس مہم کا ذکر ہے جس کی منادی اللہ ورسول کی طرف سے احد کی جنگ کے بعد دشمن کے تعاقب کے لیے کی گئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...تاریخ وسیرت کی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ احد میں مسلمانوں کی شکست کے بعد قریش کی فوج اول اول تو واپس چلی گئی، لیکن روحاء کے مقام تک پہنچنے کے بعد ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں کو احساس ہوا کہ انھوں نے اس قدر جلد واپس ہونے میں سخت غلطی کی ہے، لگے ہاتھوں انھیں مدینے کا قصہ بھی پاک کر دینا تھا۔ یہ سوچ کر انھوں نے اپنی فوج کی ازسرنو تنظیم شروع کردی اور ادھر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے منافقین کے ذریعے سے یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ قریش نئے سازوسامان سے مدینے پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ حضور کو جب اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے بھی لوگوں کو قریش کے تعاقب کے لیے تیار ہوجانے کا حکم دے دیا۔ اس فوج میں صرف انھی لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت دی گئی جو پہلے روز کی جنگ میں شریک رہے تھے۔ یہ احتیاط غالباً اس لیے کی گئی کہ منافقین کے لوث سے یہ لشکر پاک رہے۔ چنانچہ حضور جاں نثاروں کی ایک جماعت کے ساتھ ابو سفیان کے تعاقب میں نکلے اور حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے ۸میل کے فاصلے پر ہے۔ ابو سفیان نے جب دیکھا کہ ابھی مسلمانوں کے حوصلے میں کوئی فرق نہیں آیا ہے تو ارادہ بدل دیا اور مسلمان کامیاب وبامراد واپس آگئے۔ ‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۲۱۶)
۲۵۲؎ اصل میں ’للذین احسنوا منھم واتقوا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’احسان‘ سے مراد اللہ و رسول کی وفاداری کے حق کو بہتر سے بہتر صورت میں ادا کرنا ہے اور ’تقویٰ‘ کے معنی نفاق کی تمام آلایشوں سے بچنے کے ہیں۔
۲۵۳؎ یہ بات بھی، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے کہی گئی، لیکن ان کے عزم وجزم میں اس سے کوئی فرق نہیں آیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ خبر بجائے اس کے کہ ان کے اندر خوف وہراس پیدا کرتی، ان کے عزم وایمان کو بڑھانے کا سبب بن گئی۔ قاعدہ ہے کہ جس کنوئیں کے سوتے زوردار ہوں، اس کے اندر سے جتنا ہی پانی نکالا جائے، اتنا ہی اس کے سوتے اور زیادہ جوش کے ساتھ ابلتے ہیں۔ اسی طرح آگ اگر قوت ور ہوتو گیلی لکڑی بھی اس میں ڈالیے تو اس کو بھی اپنی غذا بنا کر مزید طاقت ور بن جاتی ہے۔ یہی حال اصحاب عزم وایمان کا ہے۔ ان کو بھی رکاوٹیں ضعیف کرنے کے بجائے اور زیادہ پرعزم اور پر حوصلہ بنا دیتی ہیں۔ ہر آزمایش ان کی مخفی صلاحیتوں کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے اور ہر امتحان ان کے لیے فتح مندی کا نیا میدان کھولتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۱۷)
۲۵۴؎ شیطان کے ساتھیوں سے مراد، ظاہر ہے کہ یہاں قریش اور ان کے اعوان وانصار ہیں۔
[ باقی]
ـــــــــــــــــــ